سرمایہ داری کا تاریخی پس منظر

عیسائیت اور جدید یورپ کی ابتداء
سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح سے پہلے پوپ کی مرکزی حیثیت تھی جو عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا تھا اور پوری رومن امپائر اس کے ماتحت تھی بائبل کی تشریح کا حق بھی صرف چرچ کو حاصل تھا اور آخرت سنوارنے کا اگر کوئی سامان کرسکتا تھا تو وہ بھی چرچ ہی تھا۔دوسرے نمبر پر رومن فرمانروا تھا جو حکومتی معاملات کی دیکھ بھال کرتا تھا اور تیسرے نمبر پر وہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے نواب تھے جو پوری رومن سلطنت میں پھیلے ہوئے تھے ۔یہ وہ پس منظر تھا جس میں لوتھر نے تحریک اصلاح شروع کی۔ یہ تحریک مکمل طور پر مذہبی جذبے سے سرشار ہوکر شروع کی گئی تھی اور اس وقت کسی کے خواب وخیال میں بھی نہ ہوگا کہ یہ تحریک آگے چل کر لبرل ازم کے ارتقاء کا سب سے بڑا سہارا ثابت ہوگی۔ ابتداء میں یہ تحریک ایک سیاسی جدوجہد تھی لیکن اس کے نتیجے میں صدیوں کے تعمیر شدہ سیاسی معاشی اور معاشرتی افکار وخیالات تبدیل ہوکر رہ گئے۔

نیشنلزم؛
چونکہ یہ تحریک بنیادی طور پر پوپ اور چرچ کے ادارے کے خلاف برپا کی گئی تھی چنانچہ اس کے نتیجے میں ہر فرد کو بائبل کی تشریح کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ اس کے علاوہ حکومت کے تیسرے ستون یعنی نواب اتنے طاقتور ہوگئے کہ رومن ریاست اور چرچ دونوں کے لیے خطرہ بن گئے لہٰذا ان دونوں کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی اور مذہب قوموں کے لحاظ سے تقسیم ہوگیا۔ نتیجتاً قومی روایات کو تقدس فراہم ہوا اور مذہبی رسوم اور رواج پامال ہوئے اور پورے یورپ میں آزادی اور مساوات کی لہر دوڑ گئی اور مختلف ریاستوں نے جنم لیا۔

سیکولر ازم:
تحریک اصلاح کے نتیجے میں آزادی اور مساوات کے جذبے کو عام لوگوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ آگے چل کر اسی جذبے نے پورے عیسائی معاشرے پر ضرب لگائی، ہر چیز کو عقل کے پیمانے پر رکھ کر ناپا اور سمجھا جانے لگا۔ اگر ہر شخص اور گروہ کا یہ حق تسلیم کرلیا جائے کہ وہ خدائی احکامات بائبل کی جو چاہے تشریح کرسکتا ہے تو یہ دراصل اس بات کا اقرار ہے کہ وہ تمام معیارات اور پیمانے جن کی بنیاد پر یہ تشریح کی جارہی ہے یکساں ہیں اور مساوی قدر (Equal Value) رکھتے ہیں۔ آزادی اور مساوات کی بالادستی دراصل تمام خواہشات کی یکساں اہمیت کا اقرار ہیں۔ جب کوئی معاشرتی آزادی اور مساوات کو اپنے اخلاق کی بنیاد قرار دیتا ہے تو وہ دراصل معاشرتی عمل کا مقصد زیادہ سے زیادہ ایسی خواہشات کا حصول قرار دیتا ہے جو یکساں قدر کی گردانی جاتی ہیں۔ اس معاشرہ پر ایسی عقلیت غالب ہوتی ہے کہ خواہشات کے حصول کو مقدم رکھتی ہے اور خواہشات کی اصل قدر کا تعین کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی کو Rationality bounded by desire کہتے ہیں۔ عیسائیت نے اسی قسم کی عقلیت کے یورپ میں غلبہ کی راہ ہموار کی۔ ۔ اس دور میں عیسائیت نے اس کا علاج سیکولر ازم کو قائم رکھ کر کیا۔
سیکیولرازم نے مجموعی طور پر انسانی زندگی کو دو خانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ایک سماجی زندگی اور دوسری ذاتی زندگی۔ سماجی زندگی سے اس نے مذہب کو بالکل علیحدہ کردیاتھا اور اس کی جگہ عقلیت کی بالادستی تسلیم کرلی تھی۔دوسرا حصہ جو انہوں نے ذاتی زندگی کے نام سے رکھا تھا اس میں عقلیت اور ریاستی نظام کو بے دخل کر دیا تھا اور اس کی جگہ مذہب کو دے رکھی تھی۔ اس پورے نظام کے تحت مطلق العنان بادشاہت دو ڈھائی صدیوں تک قائم رہی۔

لبرل ازم:
سیکیولر ازم کتنا ہی مذہب بیزار نظام سہی پھر بھی اس نے زندگی کے ایک حصے میں مذہب کی گنجائش رکھی تھی۔ لبرل ازم درحقیقت اس سیکیولر تقسیم کار کے خلاف بغاوت بن کر ابھری۔ لبرل ازم نے بھی اپنی بنیاد عیسائیت سے لی۔ چونکہ عیسائی مسیح کی الوہیت کے قائل تھے اسی عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام بیک وقت خالق ومخلوق، بندہ وخدا، محدود ولامحدود تھے۔ آگے چل کر اسی عقیدے کی بنیاد پر لبرل ازم نے ایک تہذیب کا روپ دھارا جس میں فرد بحیثیت فرد اپنا نظام زندگی خود طے کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔ نیکی اور بدی کے معیارات خود متعین کرسکتا ہے کسی اور کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی فرد کو کوئی خاص طرززندگی اختیار کرنے پر مجبور کرے یعنی وہ خود خدا بن سکتا ہے دوسرا نجات کا جو تصور عیسائیت میں پایا جاتا ہے اس کے تحت تو عیسیٰ علیہ السلام نے مصلوب ہوکر تمام انسانوں کے گناہ کا کفارہ ادا کردیا۔چنانچہ ہر فرد کی اخلاقی حیثیت برابر ہوگئی۔
اس پورے عقیدے کو بنیاد بنا کر Kant نے انسانیت کا ایک تصور پیش کیا جو لبرل ازم کے بنیادی تصورات میں نہایت اہم ثابت ہوا۔ Kant فرد کو بحیثیت فرد اس بات کا مجاز سمجھتا ہے کہ وہ اپنے لیے خود نظام زندگی تجویز کرے اور ہر فرد جو نظام زندگی اپنے لیے منتخب کرتا ہے وہ اتنا ہی قابل قدر ہے جتنا وہ نظام زندگی جو دوسرا کوئی فرد اپنے لیے منتخب کرے مثلاً ایک شخص جو اپنا مقصد یہ ٹھہراتا ہے کہ وہ ایک مربع میل کے علاقے میں موجود گھاس کے پتوں کو گنے گا اور دوسرا شخص اپنا مقصد یہ ٹھہراتا ہے کہ اتنے علاقے میں وہ کوئی منشیات کا کاروبار نہیں ہونے دے گا ۔سوسائٹی کے لیے دونوں کے مقاصد یکساں طو رپر قابل احترام ہیں۔غرض عیسائیت نے موجودہ لبرل تہذیب کی تعمیر اور ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا۔

از منہ وسطی کے مذہبی معاشروں کا قیام کے دو اصول:
قرون وسطیٰ کے مذہبی معاشرے جن اصولوں پر قائم تھے وہ بنیادی طورپر دو تھے۔
١۔ حاکمیت کی سند اور جواز مذہبی تھا۔ اس جواز کا ابتدائی خاکہ سینٹ آگسٹائن Saint Augustine نے پیش کیا۔ اس نے اپنی کتاب City of God میں خدا کے شہر اور آدمی کے شہر کی ہم موجودیت کی دلیل پیش کی ۔ خدا کے شہر پر پوپ اور چرچ کی حکمرانی ہوگی جب کہ آدمی کے شہر پر بادشاہ کی حکمرانی ہوگی۔ دنیاوی اور دینی قیادت کی یہ تفریق اس لحاظ سے مذہبی تھی کہ اس تقسیم کا جواز مذہبی تھا اور ایک مذہبی سند نے تجویز کیا تھا۔ اس کا مماثل نظام ہمارے زمانے میں سلطنت سعودیہ کے قیام کے وقت آل شیخ اور آل سعود کے درمیان مذہبی اور دنیوی اقتدار کے درمیان تقسیم کے سلسلہ میں ہوا تھا۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ موخرالذ کر ایک سیاسی معاہدہ ہے جس کا مذہبی جواز کبھی بیان نہیں کیا گیا جب کہ اول الذکر کا مذہبی جواز تفصیلاً فراہم کیا گیا تھا۔ اس نظام کو عموماً سیکولر ازم کی ایک شکل سمجھا گیا ہے لیکن یہ نظام ان معنوں میں سیکولرازم نہیں تھا کہ اس میں زندگی کے کسی شعبہ کو مذہب کی دسترس سے باہر نہیں رکھا گیا تھا۔ مذہبی اور دنیاوی امور کی نظری تفریق اور بعد میں بڑھتی ہوئی عملی تفریق کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کے پاس اپنا قانون یعنی فقہ نہیں تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کورد کرکے دوسری صدی کی عیسائیت نے اپنی موت کا پروانہ اپنے آغاز میں ہی لکھ دیا تھا۔[

عیسائیت کی تباہی کا سبب: علم فقہ سے محرومی:
عیسائیت کی تباہی اور گمراہی کی بنیادی وجہ شریعت موسوی کا انکار تھا۔ شروع میں کچھ عرصہ تک عیسائیت کے ایک فرقہ جسے ”ناصریہ” کہا گیا ہے ]قرآن مجید میں انہیں کو نصاریٰ کہا گیا ہے[ شریعت موسوی کو ترک کرنے سے انکار کیے رکھا اور ایک عرصہ تک تعذیب و تضحیک کا شکار رہے۔ لیکن بالآخر اس گروہ کے زیادہ تر افراد کو عیسائی اکثریت نے اپنے اندر جذب کرلیا۔ اس ناصریہ [Nazarenes] فرقہ کی وہ با قیات جنہوں نے عیسائی اکثریت کے اندر ضم ہونے اور شریعت موسوی کو ترک کرنے سے انکار کیا۔ یہ فرقہ عیسائی تاریخ میں [Ebionitrs] کے نام سے یاد کیا جاتا ہے’ اس چھوٹے سے گروہ نے تقریباً تین سو سال تک استقامت کے جادہ پر اپنے آپ کو گامزن رکھا اور اس دوران عیسائی اکثریت اور یہودیوں کے ظلم و ستم کا یکساں شکار رہے۔ ]دوسروں کے علاوہ ایڈور ڈگبن نے اپنی کتاب The Dicline and Fall of the Roman Empir میں ان دونوں فرقوں کا مختصراً ذکر کیا ہے[۔ بادشاہ جو کچھ بھی کرتے تھے اس کا جواز مذہب میں ہی تلاش کرتے تھے۔ قرون وسطیٰ کے بادشاہ عمومی طورپر یورپ کے مذہبی قائد ”پوپ” کی حکومت کو تسلیم کرتے تھے۔ بادشاہوں کے الو ہی اختیارات کے عقیدے کا تصور عام خیال کے برعکس قرون وسطیٰ کی تہذہب میں موجود نہیں تھا۔ یہ خیال سب سے پہلے تحریک اصلاح نے پیش کیا تھا اور یہ خیال بھی بعد میں موجودہ قوم پرستانہ ریاستوں کی بنیاد بنا۔

چرچ کے مقابلے میں انسان کی خود مختاری : لوتھر کا دعویّٰ:
لوتھر اور پروٹیسٹنٹ تحریک نے ایک طرف تو چرچ کے مقابلہ میں انسان کی خود مختاری کا پر چار کیا لیکن دوسری طرف اس نے دنیاوی حکومتوں اور حکمرانوں کی مکمل تابعداری کے عقیدہ کو فروغ دیا۔ لوتھرکے خیال میں دنیاوی حکومتوں اور قوانین کی پیروی اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر نظام دنیوی کا قیام اور تسلسل ناممکن ہوجائے گا۔ کیوں کہ بصورت دیگر:
“every one would become a judge against the other, no power no authority, no law or order would remain in the world; there would be nothing but murder and bloodshed” [Admonition to peace]
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس دلیل کی بنیاد پر دنیاوی سند کو قبول کرنا لازمی ٹھہرتا ہے اسی سند کی بنیاد پر دینی سند کو قبول کرنا کیوں لازمی نہیں ٹھہرتا؟ ظاہر ہے کہ لوتھرکے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

لوتھر نے دنیا کو دین کی میزان سے خارج کردیا:
کیتھولک چرچ نظری طورپر بھی عملاً بھی دنیاوی سند کا محاسبہ کرنا اپنا فرض منصبی خیال کرتا تھا لیکن لوتھر اس کورد کرتا تھا۔ لوتھرکے خیال میں اس کا فیصلہ کرنا کہ دنیاوی نظام، نظام عدل ہے یا غیر عدل ہے خدا کا کام ہے اور ظاہر ہے کہ خدا زمین پراتر کر اس کا فیصلہ نہیں کیا کرتا اس لیے دنیاوی نظام کو جانچنے کا کوئی پیمانہ اس نظام کے اپنے پیمانوں کے سوا نہیں ہوسکتا ہے۔ لوتھر لکھتا ہے۔
“What is the justice of the world other than every one does what he owes in his estate, which is the law of his own estate; the law of man or woman, child, servant or maid in the house, the law of the citizen or of the city in the land” [Werke]
پوچھنے والا لوتھر سے یہ پوچھنے کی تمنا کرسکتا ہے کہ اس کی اپنی دلیل ہی کی بنیاد پر کیتھولک چرچ کے نظام کو جانچنے کا پیمانہ پروٹیسٹنٹ تعلیمات نہیں ہوسکتیں سو وہ کس بنیاد پر کیتھولک چرچ کے خلاف اپنی تیشہ زنیوں کو جائز قرار دیتا ہے؟

بادشاہ اس زمین پر خدا ہے اس کی اطاعت فرض ہے: لوتھر
اسی دلیل کی بنیاد پر لوتھر دنیاوی سند کے خلاف بغاوت کو ناجائز قرار دیتا ہے۔
“the fact that the authority is wicked and unjust does not excuse tumult and rebellion. For it is everyone who is competent to punish wickedness, but only the wordly authority which wields the authourity” [Admonition to peace]
لیکن خود اس سند کو پر کھنے اور جانچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کیوں کہ سند کو جانچنے کا پیمانہ خود سند کے اندر ہی مضمر ہے اس کے باہر نہیں ہے۔ سند خود اپنے آپ کو کیوں کر مورد الزام ٹھہرائے گی؟ پھر لو تھر اس دلیل کو صرف دنیاوی سند کے حوالے سے ہی برتتا ہے دینی سند کے لیے اس کی اپنی سند موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوتھر کے خیال میں خدا کی مرضی یہی ہے کہ دنیاوی سند کی ہر حال میں مکمل تابعداری کی جائے۔ بادشاہ کے باغیوں کے لیے نہ اس دنیا میں کوئی رحم ہے نہ آخرت میں ان پر کوئی رحم کیا جائے گا۔ [An open letter on the harsh book against the Peasent]

پروٹسٹنٹ ازم یوروپ میں قوم پرستی کی بنیاد ٹھہرا:
لوتھرنے اس طرح بادشاہوں کے الوہی اختیارات کا تصور پیش کیا اور یہی یورپ میں قوم پرستی کی بنیاد بنا۔ یہ نظریہ جدیدیت کی بنیاد ہے اس کا تعلق نہ تو عیسائیت سے ہے نہ اسلام سے اور نہ ہی مشرق ومغرب کی پرانی تہذیبوں سے ہے۔ یہ صرف لوتھرکا کا رنامہ ہے اور اس پر مارکس سے بہتر تبصرہ کسی نے نہیں کیا ہے۔
لوتھر کی دین دشمنی پر مارکس کا تبصرہ :
“Luther, without question, defeated servitude through devotion, but only by substituting servitude through conviction. He shattered the faith in autourity, by restoring the authourity of faith… He freed man from external religousity by making religousity the innermost essence of the man” [Introduction to the critique of hegel’s Philosophy of Right].
قرون وسطیٰ میں عیسائیت نے معاشرے میں زہد وقناعت اور فقر کو فروغ دینے اور حرص و حسد کو روکنے کے لیے جو نظام تشکیل دیا تھا اس کے تین اہم ستون تھے۔ ]اس مضمون میں ہم انگلستان کو بطور حوالہ لیں گے۔[

ا۔ حرص و حسد کو روکنے کے لئے شہروں اور قصبوں میں گلڈز کا نظام :
یہ گلڈز پیشہ ور انجمنوں کے طرز پر بنائی گئی تھیں اور ان کا بنیادی مقصد قیمتوں پر قابو رکھنا تھا۔ یہ گلڈز پیشہ ور لوگوں اور کاروباری حضرات کے درمیان عیسائی معاشی تعلیمات اور کلیسا کے کاروباری قوانین کے عمل کو یقینی بناتی تھیں۔ ان گلڈز کا سربراہ عمومی طورپر کوئی عیسائی بزرگ [Saint] ہوتا تھا۔
ب۔ دیہی سطح پر قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام تھا۔ عام خیال کے برعکس مجموعی طورپر یہ نظام، نظام عدل تھا اور عیسائی اخلاقی تعلیمات اور کلیسا کے قوانین کا پابند تھا۔ ہمارے ہاں جس جاگیر دارانہ نظام سے لوگ واقف ہیں وہ قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام نہیں ہے بلکہ وہ اس جاگیردانہ نظام سے واقف ہیں جو اس عیسائی نظام کے کھنڈرات پر تعمیر ہوا تھا۔ ہمارے ہاں جاگیردارانہ نظام کے بارے میں لوگ علمی حقائق کا بہت کم ادراک رکھتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کے بارے میں ہمارے ہاں تحریریں عموماً Polemical اور حقائق سے دور ہیں۔ مثلاً عمومی طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغل دور کا نظام جاگیردانہ نظام تھا حالانکہ اس کا دعویٰ وہی شخص کرسکتا ہے جو جاگیردارانہ نظام کے تاریخی تصور سے بالکل نابلد ہو۔ برصغیر پاک وہند میں جاگیردانہ نظام انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مسلط کیا تھا اور اسے لبرل اور جدیدی انقلاب سے ماقبل کے عیسائی جاگیرداری نظام سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ ]جاگیرداری نظام کی بدلتی ہوئی تاریخی شکلوں کے بارے میں دیکھیں؛ (Helen M.Cam, The Decline and Fall of English Feudalism)
قرون وسطیٰ کے عیسائی جاگیردانہ نظام کی دو اہم خصوصیات تھیں:
١۔ جاگیردار کے لیے زمین بنیادی طورپر منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی۔ زمین بنیادی طورپر سیاسی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی علامت تھی۔ اور یہ صرف انگلستان تک محدود نہیں تھا بلکہ جہاں جہاں جاگیردانہ نظام موجود رہا ہے وہاں وہاں زمین کو بنیادی طورپر معاشرتی، سیاسی ذمہ داری کی علامت سمجھا گیا ہے۔ زمین کو بنیادی طورپر منافع کا ذریعہ قرار دینا جاگیردانہ نظام کے لیے ایک اجنبی چیز تھی۔ ”بیرانگٹن مور” کے الفاظ میں دنیا کے ہر حصے میں جہاں جاگیرداری نے فروغ پایا ملکیت زمین و جاگیر مجرد ملکیت نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ بے شمار ذمہ داریوں کا بوجھ تھا جس کا شمار ممکن نہیں:
“In all parts of the world where feudelism grew up, the ownership of land was always burdened with a great variety of obligation to other persons.”
٢۔ معاشرتی قدر اور عزت کا معیار پیسہ اور دولت نہیں تھی۔ عزت کا معیار عدل کا نفاذ، سخاوت، ماتحت افراد سے بہتر سلوک کرنا وغیرہ سمجھے جاتے تھے۔ معاشرتی اقدار اور ان کے درمیان ترجیحات کا تعین عیسائی تعلیمات کرتی تھیں۔ پیسہ دولت یا دھن اقدار کی ترجیحات کا پیمانہ نہیں تھے۔
کسان جاگیردار کی زمین پر کام کرتا تھا لیکن اس کے علاوہ اسے زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعے میسر ہوتے تھے جہاں نہ صرف وہ کاشت کرتا تھا بلکہ اس کاشت کا تنہاوارث بھی ہوتا تھا۔ ان چھوٹے چھوٹے قطعات پر مشتمل زمین کو مشترک زمین کہا جاتا تھا۔ کسان اس زمین کے قانونی مالک نہیں تھے لیکن وہ اس بات کے حقدار تھے کہ اس پر فصل کاشت کریں، فصل کاشت کرنے کے بعد وہاں اپنے مویشیوں کو چرائیں، اور جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹ سکیں وغیرہ۔ تمام بڑے بڑے مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ قرون وسطیٰ کا جاگیردانہ نظام، نظام عدل تھا۔ کسانوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر تھیں اور وہ معاشی طور پر خوشحال تھے۔
ج۔ قرون وسطیٰ کے عیسائی نظام کا تیسرا ستون خانقا ہوں اور چرچوں کا نظام تھا۔ چرچ عیسائیت کی علمیاتی برتری کا محافظ اور فروغ دہندہ تھا۔ وہ اس سارے نظام کانگراں بھی تھا۔ خانقاہی نظام وہ روحانی ماحول قائم رکھنے اور قائم کرنے کا ذمہ دار تھا جس میں زہد و’قناعت پرورش پاتے تھے جب کہ حرص وحسد کا قلع قمع ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے معاشروں میں عمومی طورپر آخرت کودنیا پر ترجیح دی جاتی تھی۔ خانقاہوں نے غریبوں کی امداد کے لیے پورا نظام قائم کیا ہوا تھا جس کے نتیجہ میں بے سہارا اور بے آسرا لوگوں کو مدد فراہم کی جاتی تھی۔ عیسائی بادشاہوں نے اس نظام امداد کو جاری وساری رکھنے کے لیے خانقاہوں کے نام بڑی بڑی جاگیریں وقف کی ہوئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے جاگیرداری نظام کو ختم کرنے کے لیے عیسائیت اور چرچ کوشکست دینا انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم تھا۔ سرمایہ دارانہ علمیت اور سرمایہ دارانہ اقدار کی فتح عیسائی، علمیت اور عیسائی اقدار کی شکست کے بغیر ناممکن تھی۔

یہ تھا قرون وسطیٰ کا مذہبی معاشرہ جس کو تباہ کرکے یورپ میں سول معاشرہ (Civil Society)کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے پہلے کہ بالترتیب ہم یہ دیکھیں کہ کس طرح اس مذہبی معاشرے کو بے دین )سول( قوتوں نے شکست دی، یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ عیسائیت کو یورپ میں اس تمام نظام عدل کے باوجود کیوں شکست ہوئی؟ اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔
١۔ اوّل خود عیسائیت اس کی ذمہ دار تھی۔ اس نے یورپ میں اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے عقائد کے میدان میں بت پرستی اور یورپی فکر سے بنیادی مفاہمت اور سمجھوتا کرلیا۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر مذہب کی بنیادوں کو کفر وشرک سے آلودہ کردیا۔ ظاہر ہے کہ عیسائیت کے تمام اچھے کاموں کے باوجود اس کا شرک اس کے زوال کا سبب بنا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ صرف اسلام ہی مغرب کی بت پرستانہ تہذیب کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس لیے مغرب کے مادہ پرستی سے بیزار تمام غیر مسلموں)بشمول عیسائیوں کے(کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
ب۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عیسائیت کے غلبہ کے باوجود یورپ میں ایسے لوگ ہمیشہ اچھی خاصی تعداد میں موجود رہے جو عیسائیت کے مقابلے میں یورپ کی پرانی بت پرستانہ تہذیب اور روم ویونان کے عظمت کے دور کی بازیابی کے لیے کوشاں رہے۔ یہ لوگ عیسائیت کو مشرق کا مذہب اور دین کا غاصب سمجھتے تھے۔ یہ لوگ عیسائیت کو روم کی عظیم بت پرست سلطنت کے زوال کا باعث سمجھتے تھے۔ یہ ہمیشہ عیسائیت کو تباہ کرنے کے لیے کوشاں رہے اور بالآخر اس میں کامیاب ہوگئے۔ عیسائیت کے خلاف اس نفرت کا اظہار موجودہ زمانے میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ مشہور جرمن مفکر ”ہائیڈیگر” کے تصورات میں ہوتا ہے جس کی فکر معاصر جدیدی فکر کا اہم ترین سرچشمہ ہے۔ ”ہائیڈ یگر” کی لاطینیت کی ہرشکل سے نفرت اور اصلی یونانیت کی طرف رجوع کی دعوت اس کی عیسائیت کے خلاف نفرت کے اظہار کی شکل ہے۔ لوتھری تحریک اصلاح کو وہ یونانی عیسائیت کہتا ہے اور اس کا وہ مداح ہے حالانکہ ”ہائیڈ یگر” ایک کیتھولک گھرانے کا چشم وچراغ تھا لیکن وہ کیتھولک عیسائیت سے شدید نفرت کرتا ہے۔ وہ کیتھولک اور لاطینی عیسائیت کو یورپی فکر کی کجی کا ذمہ دار گردانتا ہے۔

مذہبی معاشرت کا خاتمہ سرمایہ دارانہ معاشرت کی ابتداء؛
ہم اس سلسلہ میں انگلستان کی مثال کولیں کیونکہ انگلستان میں ہی سب سے پہلے مذہب کو انقلاب عظیم [Glorious revolution] کی شکل میں 1689 ء کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور سب سے پہلے یہیں سول سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔

عیسائیت کی پہلی شکست علمیاتی میدان میں:
١۔ سب سے پہلے جس میدان میں عیسائیت کوشکست ہوئی وہ علمیاتی میدان تھا۔ عیسائیت کی علمی برتری ختم ہوگئی۔ اس کا فیصلہ کن اظہار ”تحریک اصلاح” کی صورت میں ہوا جس کے ذریعہ ہر فرد اور ہرقوم کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ کلیسا کی ہر تعبیر، تشریح اور تفسیر کو رد کرسکے۔ اس کے نتیجہ میں بادشاہوں نے آہستہ آہستہ پاپائے روم کی سلطنت سے نکلنا شروع کردیا جس کے نتیجہ میں عالمگیر عیسائی ریاست تباہ ہونے لگی اور اس کے نتیجہ میں قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ انگلستان نے ہنری ہشتم کی بادشاہت کے دوران روم سے علیحدگی اختیار کی ]گوکہ اس میں ہنری ہشتم کی ذاتی اغراض کا دخل کسی علمیاتی دلیل کے مقابلے میں زیادہ تھا[۔ ہنری ہشتم کے دور میں ہی میں 1536ء سے لے کر 1539ء کے درمیان بڑی بڑی عیسائی خانقا ہیں ختم کردی گئیں اور ان کی جاگیریں بادشاہ نواز جاگیرداروں میں تقسیم کردی گئیں۔ ہنری ہشتم کے جانشینوں نے انگلستان میں تحریک اصلاح کی اس یلغار کو روکنے کی کوشش کی لیکن نا کام رہے۔ عیسائیت کی علمی شکست کا یہ حال تھا کہ جامعہ کیمبرج جو عیسائیت کا گڑھ تھی، تحریک اصلاح کا گڑھ بن چکی اور صرف تین صدیوں کے عرصے میں یہ ممکن ہوسکا کہ اس جامعہ میں رسل اور وٹگنسٹائن نے درس دیئے۔ چودہویں اور پندرہویں صدی میں یہ سوچنا بھی شاید محال تھا۔
مذہبی زندگی کو انسان کی ذاتی زندگی تک محدود کرکے لوتھر نے اسے تاملات اور تفکرات کا بے ضررکھیل بنادیا۔ مذہب کے خارجی مظاہر، اس کے نظام کو منہدم کرنے کے بعد دنیاوی سند کی مطلق العنانیت کا نظریہ ایک منطقی اور واحد موجود حل کے طورپر باقی بچ رہا تھا۔
٢۔ اس علمیاتی تبدیلی (خدا ئی تعلیمات کی بے دخلی )کے نتیجہ میں زہد، قناعت اور فقر کی معاشرتی برتری ختم ہونے لگی اور لوگوں میں حرص و حسد عام ہونا شروع ہوا۔ حرص وحسد کے جواز کے لیے مذہبی جواز اور دلیلیں فراہم کی جانے لگیں۔ جس طبقے میں انگلستان میں سب سے پہلے حرص وحسد عام ہونا شروع ہوا وہ بڑے زمینداروں کا طبقہ تھا جس میں مختصر تعداد میں کچھ چھوٹے زمیندار اور بہت ہی قلیل مقدار میں کچھ کسان بھی شامل تھے۔ زمینداروں میں حرص وحسد عام ہونے کے نتیجہ میں دو تبدیلیاں آئیں:

زیادہ سے زیادہ نفع کمانا مقصد زندگی بن گیا:
١۔ عیسائی معاشرہ میں زمین منافع کے حصول کا ذریعہ نہیں تھی لیکن اس تبدیلی کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ان کا مقصد زندگی بن گیا تھا۔ پرانے نظام میں لوگوں کا بنیادی زرعی مسئلہ یہ تھا کہ وہ کون سے طریقے اپنائے جائیں جس کے نتیجہ میں زمین پر آباد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد بہم پہنچائی جاسکے جب کہ نئے نظام میں بنیادی مسئلہ یہ ہوگیا کہ زمین میں سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ کیا ہوگا۔ زمین سیاسی وسماجی ذمہ داری کی علامت کے بجائے موجودہ سرمایہ دارانہ انداز میں نجی ملکیت بن گئی جس کو بیچا، خریدا جاسکتا تھا اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ TOWNEYلکھتا ہے۔
“In the turbulent days of the fifteenth century land had still a military and social significance apart from its economic value; lords had ridden out at the head of their retainers to convince a bad neighbours with bows and bills and a numerous tenantry had been important than a high pecunniary retrun from the soil”.
لیکن حرص وحسد کے عمومی فروغ کے نتیجے میں دو صدیوں کے اندر یہ تمام تصورات یکسر طورپر تبدیل ہوگئے۔ تبدیلی کے نتائج بھی ”ٹونی” کی زبانی سنئے:
“[This change] marks the transition from the mediavel conception of land as the basis of political functions and obligations to the modern view of it as an income yielding investment. Landholding tend, in short, to become commercialised:.

ب۔ عزت اور معاشرتی قدر کا معیار عدل نہیں رہا بلکہ دولت اور پیسہ بن گئے۔ ”زاگورن” کے الفاظ میں:
“The aristocratic order survived but in a new shape, for money more than birth was now its basis. And parliment itself became the instrument of landed capitalists, whig and Tory both, and their connections and allies…” [English revolution.]
صحیح معنوں میں جاگیردار سرمایہ دار بن گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ جب جاگیردار سرمایہ دار ہوگئے تو عدل کے بجائے ظلم کرنے لگے۔ اور اس ظلم کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ قرون وسطیٰ میں جو کھلی زمینیں کاشتکاروں کو کاشت کے لیے اور مویشی چرانے کے لیے اور لکڑیاں اور دوسرا سامان زیست حاصل کرنے کے لیے دے رکھی تھیں وہ ان سرمایہ دار جاگیرداروں نے واپس لینا شروع کردیں جس کے نتیجہ میں لاکھوں کسان بے روزگار ہوگئے اور ان میں سے کچھ تو شہروں کا رخ کرگئے، کچھ ان ہی سرمایہ دار جاگیرداروں کے ہاں مزدورلگ گئے جب کہ بیشتر فقر وفاقہ پر مجبور ہوئے۔ ہزاروں عورتیں عصمت فروشی پر مجبور ہوئیں۔ ایک سو سال کے اندر خود کفیل اور نظام عدل کا بہترین نمونہ انگلستان کے گائوں اور کھاتے پیتے کسان تباہ برباد ہوگئے اب حرص وحسد اور ظلم وستم کا یہ سارا کھیل قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کھیلا گیا تھا۔ سارے عمل کا جواز پارلیمنٹ سے حاصل کیا گیا۔
پارلیمنٹ نے ان سرمایہ دار جاگیرداروں کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے ان غریب کسانوں کو ان کے رزق سے محروم کرنے کے لیے نجی ملکیت کے تحفظ کے نام پر قوانین بنائے اس کی وجہ یہ تھی کہ پارلیمنٹ پر سرمایہ دار جاگیرداروں کا قبضہ تھا۔ پارلیمنٹ اور سرمایہ داری، جمہوریت اور سرمایہ داری کے درمیان گٹھ جوڑ آج تک جاری ہے۔ جو عمل دیہی علاقوں میں ہوا وہی عمل چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی دہرایا گیا۔ جاگیردار جواب سرمایہ دار بن چکے تھے شہروں میں صنعتیں لگانے لگے۔ انہوں نے شہر کے چھوٹے سرمایہ داروں کو اس سارے عمل میں اپنا شریک بنالیا۔ جاگیردار، سرمایہ داروں اور شہر کے بورژ واطبقے کے گٹھ جوڑ اور اس کے نتیجہ میں کسانوں کی تباہی کے کھنڈرات پر موجودہ جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی۔ آہستہ آہستہ دوسرے طبقوں کو بھی اس عمل میں شریک کیا جاتا رہا لیکن اس کا واحد معیار یہی تھا کہ وہ اس نئے نظا م کو قبول کرلیں ۔
کسانوں سے زمین چھیننے کی تحریک: انکلوژر موومنٹ:
ج۔ کسانوں سے زمینیں چھیننے کی اس تحریک کا نام ”انکلوژر موومنٹ” ہے۔ اس تحریک کی جس واحد ادارے نے مخالفت کی وہ عیسائی بادشاہ تھا۔ وہ عیسائی بادشاہ ان معنوں میں تھا کہ اس کی بادشاہت کا جواز مذہب تھا۔ پارلیمانی قوتوں نے کرامویل کی قیادت میں سرمایہ داری کی راہ میں حائل اس آخری ادارے کو بھی ختم کردیا۔ چارلس اول کو پھانسی دے دی گئی اور عیسائی بادشاہت کو ختم کرکے اس کی جگہ دستوری بادشاہت قائم کردی گئی۔ دستوری بادشاہت میں اصل حکومت پارلیمنٹ کی ہے۔ اور پارلیمنٹ میں حکومت کا جواز عوام ہوتے ہیں مذہب یا خدا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات کہ ”عوام” کی تعریف وقت گزرنے کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ پہلے صرف سرمایہ دار جاگیردار اور ان کے حلیف ”عوام” تھے۔ بعد میں دوسرے طبقے بھی شامل ہوتے گئے۔ ”عوام” میں شامل ہونے کے لیے بس ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ آپ سرمایہ داری کے رنگ میں رنگ جائیں۔ آپ حرص و حسد کو اپنا خدامان لیں۔
اس مختصر سے تاریخی جائزے سے سول معاشرے کے قیام کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پتہ چلتا ہے:
]١[ مذہبی علمیات اور مذہبی اجماع کی شکست وریخت اور اس کے نتیجہ میں غیر مذہبی علمیات اور اجماع کا فروغ۔
]٢[ حرص وحسد کو معاشی جدوجہد اور نظام کی بنیاد بنا کر ان کا معاشرے میں عام فروغ۔
]٣[ ایسے اداروں کی تباہی وبربادی ]مثلاً خانقاہ مدرسہ[ جو حرص وحسد اور ان کی علمی برتری کی راہ میں حائل ہیں۔
]٤[ ایک ایسے نظام حاکمیت کا قیام جس کا جواز مذہب فراہم نہ کرتا ہو بلکہ اس کا جواز ”عوام” فراہم کرتے ہوں۔ دوسرے معنوں میں خدا کی حاکمیت کی جگہ انسان کی حاکمیت کا قیام۔
ان شرائط کے پورا ہونے کے نتیجے میں کسی بھی جگہ مذہبی معاشرہ تباہ ہوتا ہے اور اس کی جگہ سول معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
تحریر محمد کاشف شیخ

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password