مغرب اور اسلام کا تصور خیر اور حق
ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری-
اس باب میں اختصار کے ساتھ مغربی مفکرین کے حوالے سے اس تصورِ حق (Right)اور تصورِ خیر (Good) کی وضاحت پیش کروں گا جس تصورِ حق اور تصورِ خیر پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہیں ۔
میں ان مفکرین کے اساسی تصورات اور فکر پیش کروں گا اس جائزے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلام کے تصورِ حق و خیر اور مغرب کے تصور ِحق و خیر میں کسی قسم کی کوئی مماثلت نہیں ہے اور دونوں نظام ہائے حق و خیرایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لہٰذا ان دونوں کے مابین کسی قسم کا مکالمہ ممکن نہیں ہے۔
اس وقت کرنے کا کام یہی ہے کہ ان مغربی مفکرین اور فلاسفہ کا اسلامی محاکمہ پیش کریں جن کے نظریات پر مغربی تہذیب اس کا فلسفہ اور اس کی پوری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا علماء اور طالب علموں کی توجہ کے لیے چند عمومی باتیں بڑے بڑے مغربی مفکرین اور فلاسفہ کے حوالے سے مختصراً پیش کی جا رہی ہیں۔
کسی بھی نظام فکر میں سب سے بنیادی مسئلہ تصور ذات یعنی Self کا مسئلہ ہے۔ میں مغرب کی اصطلاحات ہی استعمال کروں گا ۔ Selfکو Selfہی کہوں گا ذات نہیں کہوں گا اور دوسرے تصورات بھی انہی کی اصطلاح میں بیان کروں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اولاً مجھے ان کا ترجمہ معلوم نہیں ، دوسرے یہ کہ تصورات (Concepts)کا ترجمہ پیش کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ مثلاً حیا کا کوئی انگریزی ترجمہ نہیں کیا جا سکتا یا غیر ت کا کوئی ترجمہ انگریزی میں نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی معنوں میں سمجھتا ہوں کہ Selfکا کوئی ترجمہ ممکن نہیں ۔ جیسے Ontology۔ اس کا کوئی ترجمہ ہمارے ہاں بہت مشکل ہے ۔ یہ علمائے کرام ہی کا کام ہے کہ ان مغربی تصورات کا اسلامی محاکمہ کریں اور اسلامی علوم میں ان کی کیا حیثیت ہے، اسے واضح کریں۔
گفتگو کا محور بیسویں صدی کا فلسفہ ہے ۔ لیکن بیسویں صدی کے فلسفہ میں تصور فرد (Theory of Self)یا تصورِ ذات کو سمجھنے کے لیے چند اجمالی باتیں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے نمایاں فلسفیوں کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی صف اول کا مابعد الطبیعیات دان (Meta physician) پیدا نہیں ہوا ہے۔ یا کم ازکم میری ناقص رائے میں ایسا ہی ہے۔ مغرب فکری(Intellectually) طور پر بانجھ ہے ۔ بالخصوص الہٰیات اور مابعد الطبیعیات کے دائرے میں بیسویں صدی میں مغرب میں کوئی بنیاد ی کام نہیں ہواہے ۔ بنیادی طور پر اٹھارویں صدی اورانیسویں صدی کے مفکرین کے کام پر نئی شرحیں لکھی گئی ہیں ۔ یہ بات ما بعد الطبیعیات اور اخلاقیات دونوں شعبوں کے بارے میں بلاخوف کہی جا سکتی ہے۔
اٹھارویں صدی میں جس فکر نے عیسائیت کو شکست دی اس کی دو شاخیں تھیں۔
١۔ تحریک تنویر(Enlightenment)
٢۔ تحریک رومانویت(Romanticism)
یہ دونوں تحریکیں مغربی تہذیب کی روح رواں ہیں۔ مغربی تہذیب کے بنیادی آدرش انہی تحریکوں سے حاصل ہوتے ہیں اور مغربی تہذیب کے بنیادی تصورات، عقائد و افکار و نظریات فی الحقیقت تحریک تنویر اور تحریک رومانویت ہی سے نکلے ہیں۔
تحریک تنویر کی علمیات:
یہ دونوں تحریکیں بنیادی طور پر وحی کا انکار کرتی ہیں ۔ انہی معنوں میں یہ عیسائیت کا بھی انکار ہیں ۔ پروٹسٹنٹ(Protestanism) عیسائیت نے اس انکار کا اولین جواز فراہم کیا تھا۔ پروٹسٹنٹ ازم کا بانی لوتھر کفر کے غلبہ کے سلسلہ میں اصل مجرم ہے ۔ عقلِ انسانی کو وحی کی تعبیر اور تفسیر کا واحد ذریعہ قرار دے کر اور اجماع کی حجیت کو رد کر کے اس نے انکار وحی کی تحریکوں کے لیے زمین ہموار کی ۔ اس نے عیسائی تناظر میں وحی کے انکار کی عمومی قبولیت کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ وحی کے انکار سے مراد کیا ہے ؟ وحی کے انکار سے مراد یہ ہے کہ عقل استقرائی(Inductive Reason) اور عقل استخراجی (Deductive Reason)کو استعمال کر کے حقیقت (Ontology)تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ عقل وحی اور علم لدنی کے بغیر ان سوالات کا جواب دے سکتی ہے کہ انسان کیا ہے ؟ انسان کی کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ وغیرہ یہ Ontologicalسوالات ہیں ۔ عیسائیت یہ کہتی تھی کہ ان Ontologicalسوالات کا جواب وحی کے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام بھی یہی کہتا ہے لیکن تحریک تنویر اس بات کی داعی ہے کہ ان سوالات کا شافی و کافی جواب عقل انسانی کے ذریعہ مل سکتا ہے اس کے لیے کسی ما ورائی ذریعہ علم کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس طریقہ سے عقل کو استعمال کرتے ہوئے ریاضی اور منطق کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اسی طریقہ سے عقل کو استعمال کر کے ما بعدالطبیعاتی حقائق اور حقیقت انسان و کائنات کے بارے میں مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔
بنیادی ذریعہ علم عقل ہے:
یہ تحریک تنویر کی علمیات (Epistemology) ہے ۔ اس علمیات کے مطابق اس قسم کے سوالات کہ تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئے ہو؟ تم کہا ں جائو گے ؟ تمہیں کیا کرنا ہے ؟ کائنات کی حیثیت کیا ہے ؟ تخلیق کے عمل کی حیثیت کیا ہے وغیرہ ۔ ان سب سوالات کے جوابات عقل استقرائی اور عقل استخراجی کی مدد سے دئیے جا سکتے ہیں۔
تحریک رومانویت کی علمیات:
تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت (Romanticism)یہ قرار دیتی ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ عقل استقرائی اور عقل استخراجی نہیں ہے بلکہ وجدان (Intution)ہے ۔Intuition لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”دیکھنا” ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تحریکِ تنویر کے بر عکس تحریکِ رومانویت کے نزدیک حقیقت کو براہِ راست’ ‘دیکھا ” جا سکتا ہے اور اس براہِ راست دیکھنے کے ذرائع انسانی جبلتیں ، انسانی خواہشات اور احساسات ہیں ، یہی وجدان ہے اور کچھ نہیں ہے ۔ عقل استقرائی اور عقل استخراجی انسانی جبلتوں ، خواہشات اور احساسات کی آلہ کار(Instrument) ہیں۔ تحریکِ رومانویت نے تحریکِ تنویر کے بر عکس انسانی جبلتوں ، خواہشات و احساسات کو بنیادی ذریعہ علم تصور کیا ہے۔
بنیادی ذریعہ علم وجدان ہے:
غرض تحریک رومانویت کے مطابق بنیادی ذریعہ علم Intuitionہے اور عقل خواہشات کی نوکر ہے (Reason is the Slave of Desire)جیساکہ بینتھم(Bentham) کہتا ہے (گو کہ وہ رومانوی نہیں تھا) کہ عقل تو دراصل خواہشات کی غلام ہے ، وہ تو در اصل Intuitionکی باندی ہے اور اصل میں حقیقت تک رسائی کا ذریعہ (Intuition) ہے ۔ خود انسان کے اند ر وہ جبلتیں ہیں جن کے ذریعہ وہ Ontological Realityتک پہنچ سکتا ہے ۔
روسو کے ذریعے تحریک تنویر اور تحریک رومانویت کا ادغام:
سیاسی اور معاشرتی نقطہ نظر سے اس دوسرے فلسفہ کا سب سے زیادہ اثر ہوا ۔ جس شخص نے تحریکِ تنویر کو اور تحریکِ رومانویت کو باہم ملا دیا وہ رو سو تھا۔ روسو کے ہاں ایک بڑا بنیادی تصور ارادئہ ِ عمومی(General Will) کا ہے ۔ روسو کے خیال میں انسان بنیادی طور پر خیر ہے اور ہمیشہ خیر کا طالب ہوتا ہے ۔ انسانی خواہشات ، جبلتیں ، احساسات فطرتاً پاک ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے تحت جس چیز کو پسند کرتا ہے وہ عمومی فلاح ہے۔
انسان خود بخود ، بغیر کسی وحی کے ، بغیر کسی رہنمائی ، بغیر کسی نظام اطاعت کے ، بذات خود اس چیز کا مکلف ہے کہ وہ ارادئہ ِ عمومی کے ذریعہ خیر کا تمنائی ہو۔ ہر فرد کا ارادہ ، ارادئہ ِ عمومی کا اظہار اس لیے ہے کہ ہر فرد بنیادی طور پر خیر ہے ۔ یہی خیال ارادئہ ِ عمومی کا یہی تصور جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد فراہم کرتا ہے ۔ جمہوریت اور سرمایہ داری کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ “General Will always wills human welfare”
”ارادہ عمومی ہمیشہ انسانی فلاح کا ارادہ کرتا ہے ”
مقصد یہ ہے کہ انسان کا عمومی ارادہ خیر ہے ۔ وہ اس بات پر مجبور بھی ہے اور تمنائی بھی ہے کہ وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ایسی ہو جس سے سب لوگوں کی بھلائی اور فلاح ہو۔ ارادئہ ِ عمومی فی نفسہ خیر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فی نفسہ خیر ہے ۔
“The Self is essentially good”
”انسانی ذات فی نفسہ خیر ہے ”(ترجمہ)
انسانی Selfفی الواقع خیر کا ادراک کرتا ہے اور ارادہ بھی خیرکا کرتا ہے ۔ تحریک رومانویت کے نزدیک انسانی نفس بنیادی طور پر خیر کا منبع ہے ۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ خیر کے ادراک اور خیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے وحی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
انسان اور خدا میں کوئی فرق نہیں:
تحریک تنویر میں تو شروع ہی سے یہ تصور مو جود ہے کہ انسان اور خدا میں در اصل بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس خیال کو مختلف سطحو ں پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ سارتر کے افکار میں یہ بات واضح ہے۔ عموماً بیسویں صدی میں یہ بات نکھر کر سامنے آتی ہے لیکن شروع سے ہی یہ خیال کہ انسان علم و عمل ، معاشرت و سیاست کسی شعبہ میں بھی دوسرے کا محتاج نہیں ہے۔ آزادی (Freedom)اور خودمختاری(Autonomy)کے تصور کی یہی بنیاد ہے اور یہ دونوں تصورات تحریکِ تنویر اورتحریکِ رومانویت کی مشترکہ میراث ہیں ۔
مغربی تہذیب میں انسان کے قائم بالذات ہونے کا یہی تصور ہے جو اوپر بیان ہوا۔ اسی لیے ہم مغربی تہذیب کو ایک مکمل اور بد ترین گمراہی سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی بقائے باہمی کے قائل نہیں ہیں۔ ہم اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مغرب کے پاس ایک تصور حق و خیر ہے اور ہمارے پاس ایک دوسرا تصور حق و خیر اور اس بنیاد پر اسلام اور مغرب میں کوئی مکالمہ ہو سکتا ہے ۔ مغرب سے کسی مکالمے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا تصورِ خیر اور تصورحق و خیر صریحاً باطل ہے۔
مغرب کا بنیادی عقیدہ الوہیت انسان:
مغرب کا بنیادی عقید ہ الوہیت انسان کا عقید ہ ہے ۔ مغرب کا بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے اور اگر بنیادی کلمہ لا الہ الاالا نسان ہے تو مغرب اور ہمارے درمیان مکالمہ ممکن ہی نہیں ۔ اس بنیادی فرق کے باعث ہمارے اور مغرب کے درمیان تو بعد المشرقین ہے ۔ ہم مغرب کو خالص جہالت تصور کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے مغربی تہذیب وحی کا انکار کرتی ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقت تک وحی الہٰی کے بغیر (عقل کی بنیاد پر، جبلتوں کی بنیاد پر ) رسائی ممکن ہے۔ یہ مغرب کا بنیادی عقیدہ ہے اور اسی عقیدہ کے سبب مغرب، مغرب ہے کسی اور وجہ سے نہیں ہے ۔
اوپر جو کچھ بیان کیا گیا اس کی تفصیل چند مغربی فلاسفہ کی فکر کے حوالے سے بیان کر نے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے کانٹ کے چند اساسی نظریات کے بارے میںعرض کروں گا۔
کانٹ کا مغربی فلسفے میں مقام:
کانٹ مغربی تہذیب میں بہت ہی بنیادی فلسفی ہے ۔ کانٹ کا مغربی فلسفہ میں جو مقام ہے افلاطون کے بعد شایدہی کسی اور مفکر کا ہو۔
کانٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ Selfیا انسانی ذات کے اندر ہی ایسا نظام اور ترتیب(Order) موجود ہے جو انسانی تجربے کو ہیئت (Form)اور ساخت(Structure) فراہم کرتا ہے اور نتیجتاً انسانی تجربہ کو بحیثیت تجربہ کے ممکن بناتا ہے ۔ ذات یا Selfکے اس اندرونی نظام کے بغیر تجربہ ممکن نہیں ہوگا ۔ ہم محض مختلف قسم کے غیر مربوط احساسات کے مجموعہ کے مالک ہوں گے ۔ اسی طرح Selfکا یہ Orderکائنات کو اور اس میں مو جود مختلف اعمال و افعال ، اشیاء کو معانی فراہم کرتا ہے ۔ کائنات کے اپنے اندر کوئی معانی نہیں ہیں ، جب Selfکے Orderکو کائنات پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس کے اندر معانی بھی پیدا ہوتے ہیں اور مختلف احساسات و معطیات باہم مربوط ہو کر تجربہ (Experience) کی شکل بھی اختیار کر تے ہیں۔ الغرض کانٹ کے نزدیک Self کے نظام (Order)کو اگر کائنات پر مسلط کیا جائے توکائنات کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ اس کو سمجھنا چاہیے ۔ یعنی کائنات کو ایک معقول(Rational) کائنات کے طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو Selfکے نظام(Order)کے ذریعے سمجھا جائے ۔ تعقل ، معانی ، ربط و ضبط ، نظام، معیشت کا منبع و مصدر انسانی ذات(Self)ہے ، اس منبع نور کے باہر کائنات میں اندھیرا ہی اندھیر ا ہے ، بے ربطی ہے۔
The Self posesses an order which determines the structure of experience, gives forms & meaning to the world.
اشیاء کا مادی وجود لازمی ہے:
کانٹ کے مطابق Selfکو ایک ایسا علم حاصل ہے جو تجربہ سے ما ورا ہے۔(a prior Knowledge) ان معنوں میں ما وراء ہے کہ تجربہ کو تجربہ بننے کے لیے اس ما ورائی علم میں شرکت کرنا پڑتی ہے ورنہ تجربہ ، تجربہ نہ بن سکے گااور محض بے ربط احساسات اور معطیات کا ایک مجموعہ(Bundle) رہے گا۔ الغرض کانٹ کے مطابق Selfایک ایسا علم رکھتا ہے جس میں شے (Thing)کے تصورات (Categories)اور اشیاء کے مابین تعلق(Relative) کے متعلق تصورات پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً علت اور نتائج(Causation) کے تصورات اشیاء کے درمیان ربط و تعلق کے بارے میں وہ اطلاع دیتے ہیں (اوریہ اطلاع Selfکے پاس موجود ہے) جس کے ساتھ کائنات کی ہر چیز کو ہم آہنگ ہونا پڑے گا ورنہ وہ علم اور تجربہ نہیں بن سکتا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات میں کسی بھی دو یا اس سے زیادہ اشیاء کے درمیان تعلق متصور ہوا ور وہ ان تصورات سے ما وراء ہو جو تصور Self میں پہلے سے مو جود ہیں ۔ اسی طرح کائنات میں کوئی چیزبھی ان تصورات سے ماوراء نہیں ہو سکتی جو Self میں پہلے سے موجود ہیں ۔ مثلاً ایک ایسا تصور مکان (Space)ہے ، ایساہی ایک تصور زمان (Time)ہے ، نیز ایسا ہی ایک تصور مقدار (Quantity)ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شے ہو اور وہ زمان اور مکان میں نہ ہو، یا اس کی کوئی مقدار نہ ہو ۔ یہ قطعاً ممکن نہیں ہے ورنہ وہ شے ہمارے احاطہ علم میں ہی نہیں آئے گی اور اس کا ہونا نہ ہونا برابر قرار پائے گا۔
کانٹ اور عرفان ذات:
الغرض کانٹ نے ایک طرف تو یہ کہا کہ عقلیت کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ Self کے اندر وہ ترتیب اورنظم (Order)مو جود ہے جس کے نتیجے میں اشیاء اور اس کے باہمی ربط و تعلق کو متصور (Conceptualise)کرنے کے لیے ضروری تصورات کا Selfکو پہلے سے علم ہوتا ہے ۔ لیکن اگر یہ سوال اٹھایا جائے Selfخود کیا ہے تو اس کا جواب نہیں دیا جاسکتا۔ کانٹ کی علمیات میں عرفان ذات کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔ Self جانتا ہے اور جاننے کا ذریعہ ہے لیکن Selfخود کیا ہے یہ کوئی نہیں جان سکتا ہمیں جس چیز پر ایمان لانا چاہیے اور اعتقاد رکھنا چاہیے وہ Selfکی یہ صلاحیت کہ وہ جان سکتا ہے ، علم (Knowledge) تک رسائی حاصل کر سکتا اور اپنے اندر ان تصورات اور اس ترتیب و نظم کوسموئے ہوئے ہے جو علم کو ممکن بنانے کے لیے ضروری ہیں ، اس سب پر ایمان رکھنا ضروری ہے ۔ یہی آزادی (Freedom) پر ایمان ہے ۔ فریڈم یا آزادی کیا ہے؟۔ آزادی Selfکی اس استطاعت (Capacity)کا نام ہے کہ وہ تما م تصورات کو جان سکے جن پر تجربہ اور علم کی بنیاد ہے ۔ لیکن Selfکی اس صلاحیت کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایمان اور عقیدے کی بات ہے۔ عقل استخراجی اور عقل استقرائی کسی میں بھی یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ Selfکی اس صلاحیت کو ثابت کر سکے۔ یہ تو ایمان کی بات ہے ۔ آپ کو اس پر ایمان لانا پڑے گا کہ Selfکے اندر یہ صلاحیت ہے کہ آپ اس کی بنیاد پر دنیا اور اس کی حقیقت تک رسائی حاصل کر سکیں ۔
عقل کی بنیاد پر زباں و مکان سے ماوراء قوانین ایجاد کیے جاسکتے ہیں:
Selfکی اس صلاحیت پر ایمان لانے کے بعد ہم ایسے عمومی اصول وضع کر سکتے ہیں اور ایسے قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں ۔ ہم عقل استقرائی اور عقل استخراجی کو استعمال کر کے ایسے اصول وضع کر سکتے ہیں جو عمومی ہوں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ مثلاً کسی ایسے قانون کی ضرورت نہیں ہے جس کی دلیل کتاب اللہ سے نکلتی ہو یا انجیل سے نکلتی ہو وغیرہ۔ ہم خود اپنی اپنی عقل کی بنیاد پر ایسے قوانین ایجاد کر سکتے ہیں جو ہر معاشرہ اور ہر ریاست اور ہر نظام میں عمومی طور پر نافذ کیے جا سکتے ہوں اور جس کے نتیجہ میں ایک عادلانہ معاشرہ ، ایک عادلانہ ریاست اور ایک عادلانہ تنظیم ممکن ہو سکے چنانچہ ہمیں کسی کتاب اللہ کی ضرورت نہیں ہے ہمیں کسی شریعت کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں کسی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے، محض عقل کے استعمال کے ذریعہ ہم وہ قوانین بنا سکتے ہیں جو آفاقی ہوں۔
مثالی معاشرے کا تصور:
اگر ہم ان آفاقی اصولو ں پر عمل کریں تو ہم ایک ایسا مثالی (Ideal)معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔جیسے کانٹKingdom of Endsکہتا ہے۔ Kingdom of Endsسے مراد وہ ریاست ہے جہاں ہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کیا جائے کہ وہ خود مختار (Autonomous)اور قائم بالذات (Self determined)ہے ۔ جہاں ہر شخص اس بات کا تعین کرے کہ وہ کس قسم کی زندگی گذارے گا ۔جہاں ہر شخص کو مقصودبالذات سمجھا جائے ۔ ہر شخص کو مساوی خود مختار ، مساوی طور پرقائم بالذات ہونا ، اور مساوی طور پر مقصود بالذات ہونا تسلیم کیا جائے ۔ یہ تسلیم کیا جائے کہ ہر شخص خیر و شر کا تعین خود کر سکتا ہے ۔ یہی کانٹ کا مثالی اور عادلانہ معاشرہ ہے ۔ یہی اس کے فکر میں جنت ارضی کا تصور ہے ۔ کانٹ نے اس جنت ارضی کا تصور براہ راست عیسائی جنت سماوی (Kingdom of Heaven)کی تر دید اور متبادل کے طور پر پیش کیا تھا۔
کانٹ کے افکار کے اجمالی جائزے سے ظاہر ہے کہ اس کے افکار جن پر پوری مغربی تہذیب کھڑی ہے اور مغربی فکر و فلسفہ کا انحصار اس پر ہے لیکن یہ تمام افکار مطلقاً طاغوت ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ عیسائیت کے ساتھ کانٹ کا ایک نوعیت کا تعلق ہے ۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ترتیب اور نظم (Order) Selfکے اندر خدا نے ہی رکھا ہے وغیرہ۔ کانٹ اس کا انکار نہیں کرتا۔ اس کی کچھ تو جیہات ہیں جس کی بنیاد پر کانٹ کو خاص طور پر پروٹیسٹنٹ عیسائی بنیادوں پر جواز مل سکتا ہے ۔ لیکن عملاً جس چیز کی وہ تعلیم دیتا ہے اور جو چیز عام ہوئی ہے وہ یہی خود ارادیت کی تعلیم ہے ۔ اس چیز کی تعلیم ہے کہ قانون بھی آپ خود بناسکتے ہیں اور ماورائے کائنات حقائق کا ادراک آپ خود کر سکتے ہیں۔ و ہ خود عیسائی رہا ہوگا لیکن جس چیز کی اس نے ترویج و اشاعت کی وہ تو خالص کفر تھا اور اسی کفر کی بنیاد پر سرمایہ داری اور جمہوریت قائم ہے ۔ آزادی کا یہ تصور ہی بعد میں سرمائے کی شکل اختیار کرتا ہے اور عالمی گمراہی کے طور پر مقبول ہوتا ہے۔
ہیگل کا تصور ذات …… اجتماعی:
دوسرا مفکر جو اہم ہے وہ ہیگل ہے ۔ ھیگل اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کا فلسفی ہے ۔ ھیگل کے تصورات بھی ان معنوں میں بہت اہم ہیں کہ ان کا یورپی فکر پر بہت اثر ہوا ہے ۔ ہیگل اور کانٹ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ کانٹ کا تصورِ ذات(Self) انفرادی (Individual) ہے جبکہ ھیگل کا تصورِ ذات Self اجتماعی (Communitarian)ہے ۔ ھیگل کے نزدیک زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیت (Historical Language Community)کے تناظر اور سیاق و سباق میں انفرادی Self کی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس تناظر کے علی الرغم Selfکے کسی تصور کو متصور کرنا محض ایک خام خیالی اور abstractionہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل Selfجو قائم اور مو جود ہے وہ اجتماعیت پر مبنی Selfہے اور فرد کا کام اس Self میں شریک ہونا ہے ۔مثلاً جرمن قوم کا Selfاصل میں موجود ہے ، اور یہ Selfجرمن تاریخ، جرمن تہذیب اور جرمن تاریخی تجربہ (Historical Experience) میں اپنااظہار کرتا ہے۔
ہیگل کے یہاں Self کا تیسرا تصور: خدا تاریخ کے ذریعے تخلیق ہو رہا ہے:
لیکن ہیگل کے یہاں انفرادی اور اجتماعی Selfکے علاوہ Self کا ایک تیسرا تصور بھی ہے جسے وہ ذات مطلق (Absolute Self)کہتا ہے ۔ اسی ذات مطلق (Absolute Self)کو وہ روح کائنات (Geist)بھی کہتا ہے اور دوسرے نام بھی ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہیگل نے ذات مطلق کا تصور مذاہب خاص طور پر عیسائیت سے لیا ہے اور اسی لیے بعض لوگ اسے عیسائی مفکر بھی سمجھتے ہیں لیکن ہیگل کے ذات مطلق اور عیسائیت کے تصور خدا میں ایک بہت بنیادی فرق ہے ۔ عیسائیت اور مذاہب کے نزدیک خدا ازل سے اپنی مکمل صورت میں مو جود ہے اور اس نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا ہے۔ خدا زمان و مکان سے ان معنوں میں بالا ہے کہ اس کی ذات و صفات میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہے لیکن ھیگل یہ کہتا ہے کہ ذات مطلق کہیں بھی مکمل صورت میں مو جود نہیں ہے ۔ ذات مطلق محض ایک مجرد تصور ہے ۔ لیکن جب یہ ذات مطلق زمان و مکان میں داخل ہوتی ہے تو یہ مجر د تصور ایک عملی شکل (Actualization)حاصل کرتا ہے ۔ تاریخ اس ذات مطلق کی خود تخلیقیت(Self Creation) اور خود تشکیلیت (Self Constitution) کا سفر ہے ۔ جب خود تخلیقیت کے اس عمل کے ذریعہ ذات مطلق اپنے آپ کو مکمل کرے گی تو تاریخ ختم ہو جائے گی۔ اسی کو ھیگل اختتام تاریخ(End of History) کہتاہے ۔ اگر مذہبی زبان میں اس بات کو بیان کریں تو ھیگل کے نزدیک (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) خدا تاریخ کے ذریعے اپنے آپ کو خلق کر رہا ہے ، اپنے آپ کو مکمل کر رہا ہے ۔
ہیگل نپولین کو خدا کا اظہار سمجھتا تھا:
اب ھیگل کے نزدیک ذات مطلق خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے اس سفر کو زبان کی بنیاد پر قائم تاریخی اجتماعیتوں اور ان تاریخی اجتماعیتوں کے جلو میں ظہور پذیر ہونے والی نابغۂ روزگار شخصیات کے ذریعہ کرتی ہے۔ مثلاً جرمن قوم کی تاریخ ، تہذیب ، ادارے ذات مطلق کی تکمیل سفر کے مختلف لمحات ہیں ۔ اسی طرح مثلاً نپولین کو ھیگل فی الواقع خدا کا اظہار سمجھتا تھا۔ اور ١٨٠٦ء میں جب نپولین نے جرمنی پرحملہ کیا تو ھیگل نے با وجود اس کے کہ وہ جرمن تھا اس کا خیر مقدم کیا خدائی تعظیم کے ساتھ کیا اور اپنی کتاب Phenomenology of Self اس کے نام معنون کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ھیگل کے نزدیک نپولین ذات مطلق کا اظہار تھا۔ تو انفرادی Selfاور اجتماعی Selfدونوں ذات مطلق کی خود تخلیقیت اور خود تشکیلیت کے عملی آلہئِ کار(Vehicale) ہیں ۔ اسی کو ھیگل عقل کی مکاری[Cunning of Reason] اور تاریخ کی مکاری [Cunning of History] کہتا ہے ۔
تاریخ خیر و شرکا اصل پیمانہ ہے:
ان دونوں اعمال [Processes]یعنی[Cunning of Reason]اور [Cunning of History]کے ذریعہ تاریخی اجتماعیتیں حق کے اظہار پر مجبور ہیں۔ چنانچہ تاریخی اجتماعیتوں کی تاریخ ، طرز حیا ت ہی خیر و شر ، اخلاقیات کے واحد پیمانے ہیں۔ اخلاقیات وہ نہیں ہے جو انجیل اور قرآن میں لکھی ہے بلکہ اخلاقیات سے مراد یہ ہے کہ تاریخی اجتماعیت نے ارتقائ(Development) کے لیے جو معیارات خیر و شر مقرر کیے ہیں، انہی سے اخلاقی معیارات اور پیمانے تشکیل پاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں قرآن اور انجیل اخلاقیات کے پیمانے فراہم کرتے ہوں کیونکہ وہ اس زمانے کی تاریخی اجتماعیتوں کی اخلاقیات کے اظہارتھے لیکن اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور اجتماعیتوں نے اخلاقیات کے اظہار کے جو نئے زینے عبو ر کیے ہیں انہوں نے قرآن اور انجیل کو ازکارِ رفتہ شے بنا کر رکھ دیا ہے ۔
تاریخ میں اخلاقی پیمانے بدلتے رہتے ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں تغیرات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اخلاقی پیمانے ، خیر و شر کے معیارات بدلتے رہتے ہیں اور ہر آنے والا وقت پہلے سے بہتر ہے اور اس کے پیمانے پہلے دور کے مقابلے میں فوقیت رکھتے ہیں کیونکہ ہر آنے والے دور میں ذات مطلق اپنی تخلیق اور تکمیل کے اگلے اوربر تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہوتی ہے ۔ اسی کا نام ترقی(Progress) اور Developmentہے ۔
خیر و شر کا پیمانہ ترقی ہے:
اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ھیگل کے نزدیک خیر و شر کا جو پیمانہ ہے وہ ترقی (Development) ہی ہے اور جو تاریخی اجتماعیت جتنی زیادہ ترقی کر گئی وہ اسی قدر معیار حق و باطل اور معیار خیر و شر ہوگی اور چونکہ سب سے زیادہ ترقی جس اجتماعیت (Community)نے کی ہے ،اور سب سے زیادہ غلبہ جس نے حاصل کیا ہے وہ مغرب ہے اس لیے مغرب اور اس کی تاریخ اور تہذیب ، ادارتی صف بندی ، آدرشیں ہی حق و باطل کا معیار ہیں ۔ اور چونکہ مغرب کی ترقی کے آگے کسی ترقی کا تصور نہیں ہو سکتا اس لیے مغربی تہذیب ہی بنیاد ی طور پر ذات مطلق اور روح کائنات کا اظہار مکمل ہے۔ اسی لیے مغربی تہذیب کا غلبہ تکمیل ذات مطلق ہے اور اسی لیے اب دائمی ہے اور اس دوام کو کبھی زوال نہیں آئے گا اس لیے ہر تہذیب اور ملت کو مغرب کی تہذیب ، آدرشوں ، اداروں کوخیر مطلق کی حیثیت سے قبول کر لینا چاہیے ۔ ان معنوں میں تاریخ اب ختم ہوگئی ہے۔
ہیگل امریکا کا سب سے بڑا مداح :
اوراسی لیے سب سے زیادہ توقع اور امید اور سب سے زیادہ مدح سرائی ھیگل کے ہاں امریکہ کی ہے ۔ وہ کہتا ہے اصل میں امریکہ مغربی تہذیب کی روح کا خالص ترین اظہار ہے ۔ حالا نکہ ھیگل کے دور میں امریکہ کی کوئی خاص سیاسی حیثیت نہیں تھی جو آج ہے اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ مغربی تہذیب کے آدرشوں اور افکار کے سب سے زیادہ اظہار اور سب سے زیادہ ترقی کا امکان امریکہ میں ہے۔
تاریخ کے خاتمے کا مطلب کیا ہے؟
الغرض مغربی تہذیب کا غلبہ دائمی ہے۔ جب مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے تو وہ ان معنوں میں کہ اس کے بعد کسی بنیادی تغیر کا امکان ختم ہوگیا ہے۔ اس کے بعد حق کے مزید کسی ادراک کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ فی الواقع تحریکِ تنویر نے جو تصورات پیش کیے ہیں بالخصوص آزادی کا تصور، وہ قدر مطلق ہے اور اس قدر مطلق کو آفاقی طور پر مستحکم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ مغربی تہذیب کی عالمگیریت اور آفاقیت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم کیا جائے بلکہ اس کو ممکن بھی بنایا جائے اور اس کی راہ میں حائل ہر خطرے کو ہر قیمت پر ختم کر دیا جائے۔
مغرب ایک دنیا تعمیر کررہاہے، یہ دنیا ناقابل تغیر اور ناقابل تردید ہے۔ تاریخ کا اختتام ان معنوں میں ہوچکا ہے کہ مغربی تہذیب نے جن آدرشوں کو پیش کیا ہے انہیں نہ صرف یہ کہ آفاقی حق کے طور پر قبول کرے گی بلکہ اس کے اظہار کا موقع بھی دے گی مغربی تہذیب کا غلبہ ایک نا گزیر حقیقت ہے ۔ تحریک تنویر اورتحریک رومانویت نے جن آفاقی نظریات کو پیش کیا تھا ان کے سامنے بند باندھنا ممکن نہیں ہے ۔
جنھوں نے ھیگل کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ھیگل کی رومانوی اور تنویری تعبیریں یکساں طور پر ممکن ہیں ۔ او ر روسو کی طرح ھیگل بھی تہذیب مغرب کے ان دو دھاروں کے ملاپ کا کام کرتا ہے۔
مغرب میں ”خیر” نہیں ”ارادہ” غالب ہے:
اوپر ہم نے کانٹ اور ھیگل کا جو تصو ر پیش کیا ہے وہ یہ تصور تھا کہ مغربی تہذیب اور اقدار کا غلبہ انسانیت کی فلاح اور خیر کی چیز ہے ۔ لیکن تحریک رومانویت سے ایک اور دوسرا دھارا بھی نکلتا ہے جو مغرب تہذیب کو فلاح و خیر وغیرہ نہیں گردانتا۔ مثلاً شوپنہار کے ہاں تو بالخصوص یہ بنیاد مو جود ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے غلبہ کو فی الواقع خیر نہیں تصور کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ جو چیز غالب (Dominant) ہوئی ہے وہ ارادہ (Will)ہے ۔ جس چیز نے مغرب کے ذریعہ غلبہ حاصل کیا ہے وہ عقل نہیں ہے بلکہ Will ہے اور ارادہ ایک اندھی قوت (Blind Force)کا نام ہے ۔ اس اندھی قوت نے دنیا کو غم اور دکھ سے بھر دیا ہے ۔ اس قوت اور اس کے غلبہ کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا ہے۔ یہ قنوطیت کا غلبہ مغربی فلسفیوں میں شروع سے چلا آرہا ہے حتیٰ کہ فو کالٹ (Foucault) میں بھی جو بیسویں صدی کا مفکر ہے اور ١٩٨٤ء میں مرا ہے۔ اس کے افکار پر بھی یاسیت و قنوطیت شدت کے ساتھ غالب ہے۔
مغربی تہذیب میں یہ دونوں دھارے مو جود ہیں ۔ ایک طرف تو پر امید (Optimistic) تصور ہے کہ مغربی تہذیب کا غلبہ خیر و فلاح ہے دوسری طرف قنوطی تصور ہے جو اس کو خیر و فلاح نہیں سمجھتا ہے لیکن مغربی غلبہ کی نا گزیریت پر دونوں یک زبان ہیں۔
اسی دوسرے دھا رے کا اظہار ایک اورفلسفی کرتا ہے جس کا نام ہے کر کیگارڈ (Kierkegard) ہے۔ اس کے ہاں یہ خیال مو جود ہے کہ انسان جو کچھ پسند کرتا ہے اس کو ہم عقلی بنیادوں پر جواز(Justify) فراہم نہیں کر سکتے ۔ آپ کوئی عقیدہ اختیار کر تے ہیں ، کوئی طرز زندگی پسند کرتے ہیں ، اس کا انتخاب کو آپ نہ عقل کی بنیاد پر نہیں کرتے ہیں کسی چیز کے حق اور نا حق ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ آپ کیا چنتے ہیں بلکہ وہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے کیسے چنتے ہیں۔ کسی چیز کی اپنی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے ، جس اندازمیں آپ اس چیز کو اپناتے ہیں وہ اس میں قدر پیدا کرتی ہے یا اس کو بے قدر بناتی ہے ۔ انگریزی میں ہم اس کو یوں ادا کر سکتے ہیں کہ
It is not important what you choose, but how you chose it.
”یہ اہم نہیں ہے کہ تم کیا چنتے ہو بلکہ اہم یہ ہے کہ تم کیسے چنتے ہو ”
یہ اہم نہیں ہے کہ تم ہندو ہو یا مسلما ن ہو یا لبرل ہو ، کیونکہ یہ تمام طرز ہائے زندگی اور عقائد یکساں طور پر بے قدر (Value less)ہیں ۔ بلکہ جس شدت کے ساتھ آپ کسی طرز زندگی کے ساتھ وابستہ ہوں گے بغیر کسی دلیل کے اسی قدر اس طرز ِزندگی کی قدر ہوگی شدتِ وابستگی کسی چیز میں قدر پیدا کرتی ہے ۔ اس کو انگریزی میں کہیں گے ۔
Choosing passion determines your access to the good.
اور اس کی معراج یہ ہے کہ جو عقیدہ اور طرزِ زندگی سب سے زیادہ لا یعنی ، مہمل اورعقلی طور پر تضادات کا مجموعہ ہو گا اس کو اگر اس تمام لایعنیت ، اور تضادات عقلی کے با وجود شدت جذبات کے ساتھ یک سو کر قبول کیا جائے تو یہ ایک ایسی زندگی کا اظہار ہوگا جو کہ قدر ِاعلیٰ کی اعلیٰ ترین منزل ہے ۔ کر کیگارڈ کا یہ خیال بیسویں صدی میں نہایت اہم ہو جاتا ہے کیونکہ آج مغربی تہذیب کی لا یعینت مغربی مفکرین پر اظہرمن الشمس ہے ۔ لیکن اس لا یعنیت کو اسی شدت کے ساتھ گلے لگائے رکھنے کو Authenticityکی معراج سمجھا جا رہا ہے ۔