.
تصور کریں آپ ایک صبح اٹھتے ہیں اور اپنا ناشتہ بنا نے باورچی خانے کی طرف جاتے ہیں. وہاں آپ کو ڈبل روٹی کے دو سنکے ہوئے ٹکڑے آپکی من پسند چاکلیٹ لگے ہوئے ملتے ہیں . یہی نہیں بلکہ چاکلیٹ کچھ یوں لگی ہوتی ہے کہ ہر ٹکڑے پر ‘ آئی لو یو ‘ لکھا نظر آتا ہے۔ آپکو خوشگوار حیرت ہوگی، لیکن کیوں؟ کیا آپ نے یہ سوچا کہ ڈبل روٹی کے ٹکڑے خود ہی سنک گئے اور چاکلیٹ سے اتفاقیہ طور پر محبّت کے الفاظ لکھے گئے، سب کچھ خود ہی اوراتفاق سے ہوگیا ؟ یا آپ کی سوچ اپنے ہمسفر کی طرف جاتی ہے کہ وہ پہلے اٹھ کر یہ سب کر گئی.اس زمین پر رہنے والا ہر باشعور انسان اس کی نفی ہی کرے گا کہ یہ سب بغیر کسی ارادے یا سبب کے ہوسکتا ہے ، اندیکھے امکانات اس سارے واقعے کی تفصیل کے لیے کافی نہیں ہوسکتے ۔
کائنات بھی کچھ مختلف نہیں ہے ، اسکا آراستہ اور انتہائی درست موجوداتی ڈھانچہ [precise cosmic architecture] اس کی بامقصد وضع یا ڈیزائن کی نشاندہی کرتا ہے. یہ عالم زندگی کے وجود کو جلا بخشنے کے لئے نپے تلے قوانین رکھتا ہے ، اور اسے ایسے ایک مخصوص انداز میں ترتیب دیا گیا ہے جس سے انسانی زندگی پنپ سکے ۔ اگر ان قوانین میں اختلاف ہوتا یا کائنات ستاروں ، سیاروں اور دوسری چھوٹی بڑی طبیعاتی چیزوں کی ترتیب میں زندگی کی حساسیت کا خیال نا رکھا جاتا تو آپ اس وقت یہ آرٹیکل نہ پڑھ رہے ہوتے، بلکہ انسانی زندگی کا کوئی وجود ہی نا ہوتا۔
ایک اور مثال سوچیں آپ ناسا کے لئے کام کرنے والے اک خلاباز ہیں. یہ سن 2070 ہے ، اور آپ کسی اور کہکشاں میں زمین جیسے ایک سیارے پر اترنے والے پہلے انسان ہیں. آپکی مہم اس سیارے پر زندگی کی تلاش ہے. آپ آخر کار خلائی جہاز سے اس سیارے پر اپنے پہلاقدم رکھتے ہیں اور آس پاس سوائے پتھریلی زمین کے کچھ نہیں نظر آتا. تاہم آپ چلتے جاتے ہیں یہاں تک کہ آپ کو ایک گرین ہاوس نظر آتا ہے ۔اس کے اندر آپکو انسانوں کی طرح کی مخلوق چلتی پھرتی، کھاتی پیتی ، کھیلتی اور کام کرتی نظر آتی ہے ۔ آپ کو درخت، پودے اور دوسری ہریالی بھی نظر آتی ہے. آپ جیسے ہی اس مکان کے پاس پہنچتے ہیں انکا ایک نمائندہ آپ کا دوستانہ اندا ز میں ستقبال کرتا اور آپکو اندر آنے کی دعوت دیتا ہے. اپنی ابتدائی ملاقات میں ہی وہ آپکو بتاتے ہیں کہ مکان میں آکسیجن کا ضروری انتظام موجود ہے اسکے علاوہ پانی اور دوسرے کیمکلز بھی غذا اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے موجود ہیں . حیران ہو کر آپ ان سے پوچھتے ہیں کہ زندگی کو قائم رکھنے کے لیے یہ مکمّل ماحولیاتی نظام آپ نے کیسے اس سیارے پر بنا لیا،؟ ایک نمائندہ جواب دیتا ہے کہ ‘اتفاق سے بن گیا’.
آپکا ذہن فوراً اس مضحکہ خیز بیان کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگتا ہے . اس بات کی ممکن وضاحت یہی ہوسکتی تھی کہ یہ کسی صاحب عقل کا کام ہے نا کہ محض اتفاق۔ابھی آپ سوچ کے گھوڑے دوڑ ا ہی رہے ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک کہتا ہے کہ’ ہم تو مذاق کر رہے تھے’ اور سب ہنس دیتے ہیں۔
اگر ایک چھوٹا سا ماحولیاتی ڈھانچہ ایک پتھریلے سیارے پر یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور اسے کسی نے بنایا ہے تو سوچیے تمام عالم کے لئے ہمیں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہیے؟ تمام عالم اور اس میں جو کچھ بھی ہے طبیعاتی قوانین کے تابع ہے. اگر یہ قوانین ذرا بھی مختلف ہوتے تو یہاں کسی بھی باشعور زندگی کا تصّور محال ہوتا. تمام عالم میں اربوں ستارے اور کہکشائیں اور ان بے شمار کہکشاؤں میں ان گنت سیارے، ان سیاروں میں اک سیارہ ہماری زمین اور ہماری زمین میں کھربوں باشعور مخلوقات کا وجود. سوچیے ان آسمانی اجسام اور ان میں طبیعاتی قوانین کی انتہائی درست ترتیب اور باشعور مخلوق کی موجودگی کس بات کی نشاندہی کرتی ہے ؟ ناگزیر اور سادہ جواب یہی ہے کہ یہ قطعا کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے۔
٭اسلامی بنیاد [The -Islamic -basis]
یہ دلیل اسلامی بنیاد رکھتی ہے. قرآن آسمانی اجسام، دن اور رات کے پلٹنے، پودوں ، جانوروں اور دوسرے طبعی مظاہر کے بارے میں ذکر کرتا ہے. الله تعالیٰ نے یہ تمام چیزیں عظیم الہامی توازن کیساتھ تخلیق کی ہیں : ” سورج اور چاند حساب میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور بیلیں اور درخت سب اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ اور آسمان کو اسی نے بلند کیا ہے اور اسی نے ترازو قائم کی ہے۔ “۔ (218)
عربی میں لفظ ‘ میزان ‘ کے کئی مطالب ہیں، ان میں ‘توازن'[balance] اور’ الہامی درستگی ‘[Divine precision] دونوں شامل ہیں. یہ لفظ میزان نشاندہی کرتا ہے کہ کائنات انتہائی درستگی، توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ بنائی گئی ہے. قرآن میں مزید بہت سی آیات کائناتی درستگی ، ترتیب، ڈیزائن اور ہم آہنگی کو بیان کرتی ہیں:
“بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل رکھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں”۔ (219)
“سورج اور چاند حساب میں جکڑے ہوئے ہیں”۔ (220)
اور اس نے دن اور رات کو اور سورج اور چاند کو تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے، اور ستارے بھی اس کے حکم سے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ یقینا ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔ (221)
اسلامی علماء نے ‘ ایک ڈیزائنر اور خالق کی ضرورت واضح کرنے کے لیے جگہ جگہ کائناتی ڈیزائن کی طرف متوجہ کیا ہے ۔مثلاامام غزالی لکھتے ہیں،
” ایک انتہائی ادنی ذہن بھی زمین و آسمان کے عجائبات، جانوروں اور پودوں پر غور کر نے کے بعد اس حقیقت سے کیسے آنکھ چرا سکتا ہے کہ یہ حیران کردینے والی دنیا اپنے تمام عجائبات اور ترتیب کے لیے کسی خالق کی محتاج نہیں جس نے اسے ڈیزائن کیا ، ترتیب دیا اور چلایا ” (222)
امام ابو حنیفہ، اسلام کے عظیم علماء میں سے ایک، ایک دفعہ ایک ملحد کے ساتھ مباحثہ کرتے ہوئے ڈیزائن آرگومنٹ کو کامیابی سے پیش کرتے ہیں:
“اس سے پہلے کہ ہم بحث کا آغاز کریں، مجھے یہ بتائیے کہ آپ کا ایک ایسی کشتی کے بارے میں کیا خیال ہے جو خود بخود بغیر کسی کنٹرول کرنے والے، چلانے والے کے فرات (دریا) کے کنارے آتی ہے، سارا سامان خود لادتی ہے اور واپس ہوتی اور اپنی منزل پر لنگر انداز ہوکر وہاں خود سامان اتار تی ہے ؟ جواب ملا، ‘ یہ ناممکن ہے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا ‘. تو امام نے ان سے فرمایا کہ اگر ایک کشتی کے لئے خود سے یہ سب کرنا اور چلنا محال ہے تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ یہ اتنی بڑی دنیا اپنے تمام لوازمات کیساتھ خود بخود چل رہی ہو؟ “(223)
یہ قرآنی آیات اور مسلم علماء کے نکات وہی بازگشت ہیں جو پچھلی دہائی کی طبیعاتی دریافتوں میں بھی سنائی دیتی ہے، جو یہ بتاتے ہیں کہ کائنات طبیعاتی قوانین رکھتی ہے جو زندگی کا وجود برقرار رکھنے کے لیے بہت توازن کیساتھ بنائے گئے ہیں، اور یہ کہ کائنات انسانی زندگی کی سہولت کے لیے ایک مخصوص ترتیب رکھتی ہے ۔ اس نپی تلی ترتیب، توازن کو علماء، ماہرین طبیعات اور فلاسفر ‘نفیس درستگی’ [fine-tuning]کا نام بھی دیتے ہیں .
٭نفیس درستگی (Fine-tuning ) (انتہائی باریکی سے کسی شے کو اچھی شکل میں ڈھالنا اور جوڑنا):
کائنات کی نفیس ہم آہنگی کے مختلف پہلو ہیں۔ اوّل اگر کائنات کے قوانین کا وجود نہ ہوتا تو زندگی، خاص طور پر شعور رکھنے والی پیچیدہ زندگی کبھی ممکن نہ تھی۔ دوسری بات یہ کہ کائنات میں دلکش ترتیب دکھائی دیتی ہے : جس طرح سے آسمانی اور دوسرے اجسام کو ترتیب دیاگیا ہے وہ زمین پر زندگی کے معاون ہے۔ نفیس ہم آہنگی کے اِن مختلف پہلوؤں سے وابستہ تمام معلومات اس بات کی مضبوط دلیل ہیں کہ کائنات کو پیچیدہ اور حساس زندگی کی پناہ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
1۔طبیعیاتی قوانین (Physical -laws ):
زندگی کے وجود کے لیے قوانین کا درست ترتیب دیا جانا بے حد ضروری ہے۔ اگر ان قوانین میں معمولی سے ردّوبدل کی جائے تو اس کا نتیجہ کائنات میں زندگی کا اختتام ہوگا:
1. کشش ثقل کا قانون (Law -of -Gravity):گریویٹی دو اجسام کے درمیان قوتِ کشش کا نام ہے۔ کششِ ثقل (gravity) کے علاوہ ایسی کوئی قوت نہ نہیں ہوگی جو اشیاء/اجزاء کو اکھٹا کرسکے۔ چنانچہ یہاں نہ سیارے ہونگے نہ ستارے ۔ ستاروں کے بغیر زندگی کے قیام کے لیے توانائی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ ہوتا۔(224) کائنات محض تاریک خلاء ہوتی۔
2.برقی مقناطیسی قوت (Electromagnetic -Forces)::یہ منفرد قوت کائنات کی ہر شے پر اثرانداز ہوتی ہے۔ برقی مقناطیس،ی قوت اشیاء کو طاقت مضبوطی، شکل اور سختی مہیا کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ اس کے بغیر ایٹم (ذرّے) کا وجود نہ ہوگا کیونکہ کوئی ایسی قوت نہ ہوگی جو الیکٹران (برقیہ) کو جوہر کے گرد دائرے میں رکھ سکے ۔ اگر ایٹم نہ ہوتے تو زندگی بھی نہ ہوتی۔ کیمیائی جوڑ(chemical -bonding) بھی برقی مقناطیسی قوت کی وجہ سے ہی ہے اور کیمیا ئی جوڑ کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہ تھا۔ (225)
برقی مقناطیسیت کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ ایک قوت ہے اور بہت سی مختلف قسم کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ پروفیسر جان لیسلی (John -Leslie) اپنی کتاب ’’لامحدود ذہن، ایک فلسفیانہ علمِ کائنات‘‘”Infinite- Minds, A -Philosophical -Cosmology” میں لکھتے ہیں:
“برقی مقناطیسیت ایک قوت ہے جو بہت اہم عوامل کے رونما ہونے میں معاون ہے:اسی کی وجہ سے ستارے اربوں سالوں سے جل رہے ہیں، یہ ستاروں میں کاربن بننے کا بھی باعث ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کوآرک (Quark) کی جگہ لپٹن (lepton) نہ لے، وگرنہ ایٹم کا وجود ممکن نہ ہوتا۔ اس قوت کی وجہ سے پروٹون (Proton) زیادہ جلد ذائل نہیں ہوتا اور پروٹون دوسرے پروٹون کو زیادہ قوت سے نہیں دھکیلتا وگرنہ کیمیا (Chemistry) ممکن نہ ہوتی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی قسم کی قوت ان مختلف قسم کی ضروریات کے لیے کافی ہے، جبکہ ایسا لگتا ہے کہ ان عوامل کے لیے مختلف قوتیں درکار ہوں گی۔‘‘ (226)
پروفیسر کے سوال کا تسلی بخش جواب یہی ہوسکتا ہے کہ یہ قوت بہت باریکی اور مہارت سے متعیّن کی گئی ہے کہ یہ بیک وقت ان تمام ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔
3۔قوی جوہری قوت :[The- strong -nuclear -force] چونکہ ایٹم کا مرکز (nucleus) مثبت بار کے حامل پروٹون (Proton) سے مل کر بنتا ہے، اس کو بکھر جانا چاہیے کیونکہ ایک جیسے بار رکھنے والے ذرّے ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں لیکن ایٹم کا مرکز قوی جوہری قوت کیوجہ سے ثابت رہتا ہے ۔ اگر یہ بدل دیا جائے تو ’’کائنات محض ایک بڑے بلیک ہول کی طرح ہوجائے گی” ۔(227)
4۔کمزور جوہری قوت[The -weak -nuclear -force]:کمزور جوہری قوت کشش ثقل سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ مگر یہ بہت ہی تھوڑے فاصلے تک اثرانداز ہوسکتی ہے۔ یہ ستاروں کے ایندھن اور عناصر کی تشکیل کا باعث ہے۔ یہ تابکاری کے تنزل کا بھی باعث ہے۔ سورج اس قوت کے بغیر جلنے کے قابل نہیں ہوگا کیونکہ یہ جوہری انشقاق (Nuclear Fusion)میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر یہ قوت معمولی سی زیادہ طاقتور یا کمزور ہوتی تو ستارے تخلیق نہ ہوسکتے۔
طبعی قوانین کی فائن ٹیونگ کی درجِ بالا مثالوں کی روشنی میں کوئی بھی صاحبِ عقل کچھ سنجیدہ سوال پوچھ سکتا ہے:
فزکس کے یہ قوانین کہاں سے آئے؟
ہم بے ترتیبی کے بجائے یہ قوانین کیوں دیکھتے ہیں ؟
کیسے یہ قوانین بے شعور ، عقل نہ رکھنے والے ،اندھے اوربے ترتیب پراسیس اس طرح چلاتے ہیں کہ وہ انسانی زندگی کے لیے معاون ثابت ہوں؟
یہ ایک منطقی ذہن کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کرے کہ کسی قانون ساز، عظیم ریاضی دان، یا کائناتی ذہن نے ایسےقوانین تخلیق کیے ہیں جو کہ ایک باشعور زندگی کے وجود کے لیے معاون ہیں۔
2۔کائناتی ترتیب (Cosmic- order ):
کائنات میں جو ہم نظم و ضبط کا اظہار کا اظہار دیکھتے ہیں اور فلکی معاملات میں ہم آہنگی ، یہ نہ صرف متوسط ذہن رکھنے والوں کے لیے حیرت کا باعث ہے بلکہ اس نے اعلیٰ ذہن رکھنے والوں کو بھی مسحور کیا ۔ البرٹ آئن سٹائن نے ایک دفعہ کہا:
’’میں ایک منکرِ خدا نہیں ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ میں خود کو وجودی کہہ سکتا ہوں ۔ ہماری حالت ایک ایسے چھوٹے بچے کی سی ہے جو ایک بہت بڑی لائبریری میں داخل ہوگیا ہے جو مختلف زبانوں میں لکھی گئی کتابوں سے بھری پڑی ہے۔ بچہ جانتا ہے کہ یہ کتابیں ضرور کسی نے لکھی ہوں گی۔ مگر اسے یہ معلوم نہیں کہ کیسے؟ وہ ان زبانوں کو نہیں سمجھ سکتا جس میں وہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بچے کے ذہن میں ایک مدھم سا خیال ہے کہ ان کتابوں کے انتظام میں کوئی راز کوئی ترتیب پوشیدہ ہے مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ ترتیب کیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ خدا کی ذات کے حوالے سے بہت ذہین انسان کا رویہ بھی اسی قسم کا ہے۔ ہم اس کائنات کو ایک شاندار ترتیب میں دیکھتے ہیں یہ مختلف قوانین کی پابند نظر آتی ہے مگر ہم ان قوانین کو بے حد مدھم سا جانتے ہیں۔ ہمارے محدود ذہن اس پراسرار قوت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں چلایا ہے۔‘‘ (228)
حتیٰ کہ مشہور بدلحاظ ملحد رچرڈ ڈاکنز نے بھی کائنات کے نظم و ضبط پر اظہارِ خیال کیا۔ البتہ وہ نظریہ ڈیزائن کا قائل نہیں اور اپنی ایک طبعی وضاحت پیش کرتا ہے لیکن پھر بھی اس نے وہی کچھ بیان کیا جس نے آئن سٹائن کو مسحور کیا تھا۔
’’مگر جب میں دیکھتا ہوں تو میں یہ لکھتا ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں کہ میں زندہ ہوں اور آپ بھی۔ ہم ایسے سیارے پر رہتے ہیں جو ہماری طرح کی زندگی کے لیے بالکل موزوں اور کامل ہے۔ نہ زیادہ گرم، نہ زیادہ سرد، ایک مہربان سی دھوپ کی حرارت ، بہت نرم پانی سے سیراب کیا گیا ہے، بہت دھیمے سے گھوم رہا ہے۔ سبز اور سنہری فصل اس سیارے کی گرمائش جذب کرلیتی ہے۔ ۔کیسا اتفاق ہے کہ ایک سیارے نے بے ترتیبی سے ایسے خواص جمع کیے ہیں جو اس قدر مہربان خصوصیات کے حامل ہیں۔‘‘ (229)
حقیقتاً یہ کائنات بہت شاندار طریقے سے ترتیب دی گئی ہے اور یہ ترتیب بہت پیچیدہ ہے۔ اگر یہ ترتیب مختلف ہوتی تو یہ تقریباً ناممکن تھا کہ انسانی زندگی یہاں پھل پھول سکتی ۔ درجِ ذیل مثالیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں۔
a۔ہمارے سیارے کا محلِ وقوع:
زندگی کے لیے معاون ہمارے سیارے کی ایک اہم خصوصیت اس کا سورج سے فاصلہ ہے۔ زمین اس حصے میں واقع ہے جسے قابلِ رہائش حلقہ [habitable- zone]کہا جاتا ہے۔ اس حلقے کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے ’’ایسا علاقہ جہاں مرکزی سیارے کی تپش ہمارے سیارے کو ایسا سطحی درجہٴ حرارت مہیا کرتی ہے جس پر ہمارے سمندروں کا پانی نہ تو منجمد ہوتا ہے اور نہ ابلتا ہے۔‘‘ (230)اگر ہمارا سیارہ سورج سے ذرا سا بھی مزید قریب ہوتا تو یہ اتنا گرم ہوتا کہ اس پر زندگی ممکن نہ ہوتی اور اگر یہ دور ہوتا تو بھی اس قدر ٹھنڈا ہوتا کہ زندگی ممکن نہ ہوتی۔
b۔جوپیٹر کی کششِ ثقل (Jupiter’s- Gravitational -Pull)::
ہمارے شمسی نظام میں جوپیٹر (Jupiter) سیارے کی غیر موجودگی، زندگی کے وجود کے لیے سنجیدہ مسائل کا باعث ہوتی۔ جیالوجیکل سائنس (Geological -Sciences) کے پروفیسر پیٹر وارڈ (Peter Ward) کہتے ہیں:
’’جوپیٹر (Jupiter) کے بغیر قوی امکانات تھے کہ آج ہماری زمین پر حیواناتی زندگی کا وجود نہ ہوتا۔‘‘(231)جوپیٹر ہمارے لیے خلائی حفاظتی ڈھال (cosmic -shield) کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ستاروں اور چھوٹے سیاروں کو ہمارے سیارے سے ٹکرانے سے بچاتا ہے کیونکہ اس کی کششِ ثقل ان سیاروں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ہمارے اس دوست سیارے کے بغیر اس اعلیٰ زندگی کی نشوونما ممکن نہ تھی۔
ناسا (NASA) کی تحقیقاتی فیلو ربیکا مارٹن (Rebecca -Martin) جنھوں نے جوپیٹر کے اثر کا مطالعہ کیا، لکھتے ہیں: ’’ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آج تک سیاروی نظام کے بہت معمولی سے حصے کا مشاہدہ کیا جاسکا ہے اور اس سے پتہ چلا ہے کہ بہت بڑے سیارے بالکل درست جگہ پر موجود ہیں جو مناسب حجم رکھنے والے سیاروں کی قطار [an- asteroid- belt]بناتے ہیں تاکہ قریبی سیارے پر زندگی کے وجود کو ممکن بنایا جاسکے۔ ہماری تحقیق یہ اشارہ دیتی ہے کہ شاید ہمارا شمسی نظام بہت خاص ہے۔‘‘ (232)
جوپیٹر (Jupiter) کے بغیر، دوسرے سیاروں اور ستاروں کے ٹکراؤ کی وجہ سے ہمارے سیارے پر زندگی کی بقا بے حد مشکل تھی۔( 234-233)
c۔قمری لہریں / مدّ و جزر[Lunar -Tides]:
چاند کا زمین سے نسبتاً بڑا حجم، اپنی ثقلی پل[gravitational -pull] کی وجہ سے زمین پر لہروں کا باعث ہے۔چاند اپنی تخلیق کے بعد اب کی نسبت زمین سے زیادہ قریب تھا مگر یہ قربت زیادہ دیر نہ رہی۔ اگر چاند پیچھے نہ ہٹتا(اینگولر مومینٹم کیوجہ سے) تو ہمارے سیارے پر شدید اثرات ہوتے۔ ان اثرات میں زمین کی سطح کا زیادہ گرم ہونا بھی شامل ہے جو زمین پر زندگی پنپنے میں رکاوٹ کا باعث ہوتی ۔ پروفیسر وارڈ (Ward)بیان کرتے ہیں کہ قریبی چاند زمین کے اوپر کے حصوں کو موڑ دیتا اور درجہٴ حرارت بڑھا دیتا اور عین ممکن تھا کہ زمین کی سطح پگھل جاتی: ’’ قریبی چاند کی وجہ سے سمندری لہریں (اور زمینی لہریں) کی کثرت ، زمین کی اوپر کی پرت کا مڑنا اور رگڑ کی وجہ سے درجہٴ حرارت بڑھنا زمین کی پتھریلی سطح کو پگھلا دیتا۔‘‘ (235)
d۔زمین کے گھومنے کے خطوط کو متوازن رکھنا:
چاند اس چیز کا بھی ذمہ دار ہے کہ زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کے دوران اس خطِ مستقیم یا محور کے جھکاؤ کو متوازن بھی رکھے۔ پروفیسر وارڈ بیان کرتے ہیں “جھکاؤ کی سمت دس ہزارسالوں میں سیارے کے لڑکھڑانے/ڈگمگانے پر بدلتی ہےکسی گھومتی ہوئی شے کے محور کی طرح ، مدار اور جھکاؤ کے مابین زاویے میں تقریباً کوئی ردّوبدل نہیں ہوتا۔‘‘ (236)
یہ زاویہ اربوں کھربوں سالوں سے چاند کی کششِ ثقل کی وجہ سے ایک ہی ہے ۔ اگر چاند چھوٹا ہوتا یا سورج اور جوپیٹر (Jupiter) کے لحاظ سے اس کی جگہ مختلف ہوتی تو یہ زمین کے درجہٴ حرارت کو طویل عرصے تک متوازن رکھنے سے قاصر ہوتا۔‘‘ (237) اسی لیے اگرچاند زمین کے پاس ہوتا تو ہمارے سیارے کا موسم متحرک اور شدید ہوتا، ہمیشہ بدلتا رہتا۔ محض چھوٹے جاندار/حشرات جنم لے سکتے اور پیچیدہ زندگی ممکن نہ ہوتی۔
یہ سب کیسے بنا اور کس نے بنایا؟
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں طبعیات کے قوانین اور نظامِ شمسی کے نظم کی بہترین وضاحت کیا ہو سکتی ہے ؟ اس کی چند ہی آپشن ہیں: اتفاق، طبعی ضرورت[physical -necessity]، کثیرکائناتی مفروضہ[Multiverse] یاڈیزائن ۔
1۔اتفاق (Chance):
اس نظم (fine-tuning) کا اتفاقی قرار دیا جانا اس نتیجہ کا غماز ہے کہ قوانینِ طبعیات اور نظام شمسی کا نظم بغیر کسی ارادہ یا مقصد کے وقوع پذیر ہوئے۔ ان کا ظہور میں آنا حادثاتی اور غیر مربوط امور کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک غیر عقلی دعویٰ ہے۔ بروس لی کی اس ایک پینٹنگ کو لیجیے۔
اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اتفاق سے سیاہی صفحہ پرگری اور یہ تصویر بن گئ، تو آپ فوراٗ اس امکان کا انکار کردیں گے۔ یہ اس لیے کہ آپ کا تجربہ اور معلومات یہ بتاتی ہیں کہ یہ ممکن نہیں۔ اسی طرح اگر میں کہوں کہ امریکا کا مشہور آزادی کا مجسمہ اتفاقی طور پر بن گیا تھا، تو آپ یقیناً میری دماغی حالت پر شک کریں گے۔
اتفاق کا یہ مفروضہ نہ صرف غیرعقلی ہے بلکہ ایک مخالف بیانیہ (counter-discourse) بھی ہے۔ اس سے میری مراد یہ ہے کہ اگر بات اتفاق پر ہی آ ٹھہرے تو پھر کوئی بھی بے عقلی کی بات دعویٰ کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک ملحد کو یہ کہ سکتا ہوں کہ میرا یقین ہے کہ میری اصل ماں وہ عورت نہیں ہے جس کو میں ماں کہتا ہوں بلکہ وہ ایک دراصل گلابی ہاتھنی تھی جو مریخ پر پیدا ہوئی تھی اور ایک ”بڑے پَر“ (giant- feather) پر سوار ہو کر زمین پر آئی تھی۔ میرا ملحد دوست شائد مجھے پاگل کہے مگر میں جواب دے سکتا ہوں کہ ”اس کا امکان تو ہے“۔ امکان/اتفاق کا مفروضہ یا بیانیہ ہر دعویٰ کو ممکن بنا دیتا ہے اور اس طرح ”دلیل“ کی ضرورت کو ہماری روزمرہ اور اکیڈیمک گفتگو سے نکال دیتا ہے۔ اس طرح میں دعویٰ کرسکتا ہوں کہ اسلام سچا مذہب ہے اگرچہ اس کا ثبوت موجود ہے کہ یہ ہے لیکن یہ دعوی کرتے ہوئے میں اس ”علمی تصور“ کا استعمال کررہا ہوں گا جو کہ ”امکان“ کو گفتگو کی بنیاد بنا کر رائج کر دیا گیا ہوگا۔ چنانچہ یہ طریقہ کار کسی کو کوئی بھی دعویٰ کرنے کا اختیار دے دیتا ہے۔
ایک ملحد جو قوانینِ فطرت میں نظم کے سوال کے جواب میں اتفاق/امکان کے مفروضہ کو ایک قابلِ قبول جواب کے طور پر قبول کرتا ہے، وہ یقیناً دوہرے علمی معیارات اپنانے کا مجرم ٹھہرے گا ۔ انکی اپنی روزمرہ زندگی میں اتفاق یا امکان کبھی انتہائی ناممکن چیزوں کی قابل قبول وضاحت کے لیے پیش نہیں کیا جاتا ۔ مثال کے طور پر ایک ملحد اپنے بچے کو منع کرے کہ سونے سے پہلے بسکٹ نہیں کھانے اور پھر اگر وہ اپنے سوتے ہوئے بچے کے آس پاس اور اس کے چہرے پر بسکٹ کے ٹکڑے (ریزے) پائے اور بسکٹ کا ڈبہ بھی اس کے پاس ہی پڑا ہو، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس کے ذہن میں فوری خیال کیا آئے گا؟ کیا اس سب کے خودبخود وقوع پذیر ہونے کا خیال بھی اس کے ذہن میں آئے گا ؟ یقیناً نہیں۔ آپ مزید تصور کریں کہ اگر یہی توجیہہ ہمارے کاروباری امور، عدالتی کاروائی ، منصوبہ سازی ، روزمرہ زندگی میں پیش کی جائے تو ہماری روز مرہ زندگی، معیشت اور عالمی معاملات کس قدر ابتری کا شکار ہو جائیں گے۔
بہت سارے ملحدین، خدا کے معاملے میں بات کرتے ہوئے ایک منفرد علمی اصول بناتے ہیں جبکہ وہ روزمرہ زندگی میں اس سے مختلف اصول پر چل رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا بدیہات کو ماننے سے انکار پر اصرار ہے، جس کی وجہ جذباتی یا کچھ کی رائے میں روحانی ہیں۔ کچھ ملحدین کے لیے، منطقی دلائل ایک پردہ ہوتے ہیں ایک بڑے مسئلے پر پردہ ڈالنے کے لیے : ان کی اس ضد کیلئے کہ وہ خدا کی عبادت نہیں کرنا چاہتے۔(دیکھئے تحریر ہم خدا کی عبادت کیوں کریں؟)
لیکن پھر بھی اس بات کا چانس تو ہے!
کچھ ملحد پھر بھی اس بات پر اصرار کرتے ہیں’ چاہے یہ بات کتنی ہی غیرعقلی یا ناممکن کیوں نا ہو ‘ کہ نظمِ کائنات کسی ارادے یا مقصد کا نتیجہ نہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہماری یہ کائنات جو زندگی کو ممکن بناتی ہے ایک شاندار حادثے کا نتیجہ ہے۔
اس اعتراض کے جواب کے لیے، امکان کے اصول کو ذہن میں لائیے۔ ایک عقلی ذہن اس بات کو مانتا ہے کہ جب کوئی معلومات ایک مفروضہ کے ثبوت کے لیے ممکن نہ ہو، تو وہ دوسرے کسی مفروضہ کو قائم کرنے میں دلیل بن سکتی ہے جس کے تحت وہ ممکن ہو۔ اس بات کو میں ایک مثال کے ذریعے واضح کرتا ہوں۔(239) فرض کریں کہ ایک بچہ جارج کی ولدیت کی تصدیق کا ٹیسٹ دو افراد پال (y) اور جان (x) پر کیا جائے ۔ ماں کا خیال ہے کہ پال (y) کے حقیقی والد ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ البتہ جان (x) کا خیال البتہ یہ ہے کہ وہ باپ ہے اور وہ اس کو ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ، ماں اس بات کی تصدیق کے لیے تینوں کا ٹیسٹ کروانا چاہتی ہے۔ ٹیسٹ کا رزلٹ یہ آتا ہے کہ پال (y) کا ڈی این اے بچے کے ڈی این اے سے میچ ہورہا ہے جان (x) سے نہیں ۔ اس رزلٹ اور حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں ماں کا مفروضہ سہی ثابت ہوتا ہے اور جان (x) کا مفروضہ ثابت نہیں ہوتا۔ اس اصول کے تحت دونوں کے ٹیسٹوں کا نتیجہ ماں کے مفروضہ کو تقویت دیتا ہے کیونکہ اس کے مفروضے کے صحیح ہونے کے لیے جہاں پال (y) کا DNA بچہ سے ملنا ضروری ہے وہاں جان (x) کے DNA کا نہ ملنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ٹیسٹ سے حاصل شدہ معلومات جان (x) کے مفروضے کے بجائے ماں کے مفروضے کی تائید کرتی ہیں۔
کائنات کی فائن ٹیونگ / نظم کی بہترین توجیہ ڈیزائن آرگومنٹ سے ہوتی ہے نہ کہ اتفاق کے مفروضہ سے کیونکہ کائنات کا نظم اس بات کو ذیادہ سپورٹ کرتا ہے کہ یہاں ذہانت اور منصوبہ بندی شامل ہے نہ کہ حادثاتی اور اتفاقی وجہ سے یہ سب ہوگیا ۔ مندرجہ بالا مثال کے اصول کو میری گفتگو پر منطبق کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کائنات کے بارے میں معلومات اتفاق کے بجائے ڈیزائن/منصوبہ بندی کے مفروضے کو سپورٹ کرتی ہے۔
2۔ضرورتِ طبعی(Physical -necessity )
اس تصور کے مطابق نظمِ کائنات کو ایسا ہی ہونا چاہیے تھاجیسا وہ ہے۔ یہ بات دو وجوہ سے غلط ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ ایک ایسی کائنات جو ہمارے وجود کو ممکن نہ بنائے اس کا ہونا ناممکن ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کوئی اور کائنات جس میں قوانین کی ترتیب مختلف ہوتی، اس کا تخلیق ہونا ممکن ہے۔ (239)ماہر طبعیات پال ڈیوس وضاحت کرتے ہیں کہ ” کائنات کا موجودہ حالت میں ہونا کوئی لازمی امر نہیں، یہ اس سے مختلف حالت میں بھی بن سکتی تھی“۔ (241)
دوسری وجہ یہ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں یہ کائنات ایسی اس لیے ہونی ضروری تھی تاکہ زندگی قائم ہوسکے، ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پہلے والی مثال جو ڈبل روٹی کے توس، یہاں بھی وہی سامنے آتی ہے کہ مکھن توس پر لگا دیکھ کر یہ رائے قائم کرنا کہ اس کو ایسا ہی ہونا چاہے تھا۔ یقیناً یہ بات غلط ہے۔ توس کچا بھی ہو سکتا تھا اور اس پر مکھن کی بجائے چاکلیٹ بھی ہو سکتی تھی۔
3۔کثیرکائناتی مفروضہ (Multiverse):
کچھ کی رائے یہ ہے کہ اس فائن ٹیونگ کی وضاحت کثیرکائناتی مفروضہ سے کی جاسکتی ہے۔ یعنی کائناتوں کی ایک کثیر تعداد میں سے ایک ہماری ہے۔ اگر کائناتیں ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ زندگی کو ممکن بنانے والی کائنات بھی موجود ہو۔ اگر ہم اوپر پیش کی گئی بروس لی کی تصویر کی مثال پر غور کریں تو یہ کثیر کائناتی مفروضہ ایسا ہی ہے کہ یہ مان لیا جائے کہ کاغذ پر متعدد بار سیاہی گرانے سے یہ ممکن ہے کہ ایک باقاعدہ تصویر بن جائے۔ کثیرکائناتی مفروضہ کی مختلف صورتیں بیان کی گئ ہیں، ان سب کا جواب تو یہاں ممکن نہیں، مگر ہم ان سب کے بنیادی نکات پر بات کرکے اس مفروضہ کا رد کریں گے۔
دوسری بات یہ کثیرکائناتی مفروضہ فضول [superfluous] ہے۔ یہ بلاضرورت کثیر کائناتوں کے امکان کو ضروری قرار دیتا ہے[It -unnecessarily- multiplies- entities -beyond -necessity]۔ پروفیسر Richard- Swinburne کہتے ہیں، ” یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک کائنات کی خصوصیات کو بیان کرنے کے لیے اربوں کھربوں کائناتوں کے وجود کا مفروضہ پیش کیا جائے، جبکہ ایک ذات (خدا) کا ماننا یہی کام کرسکتا ہے۔“(242)
مزید کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پروفیسر Anthony -Flew لکھتے ہیں ”۔۔۔ اس بات کا امکان کہ اپنے طبعی قوانین کے ساتھ کائناتوں کا کثیر تعداد میں ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ ایسی کائناتیں موجود بھی ہیں۔ اس وقت کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ ابھی تک محض ایک افواہ ہے۔“ (243)نہ صرف یہ کہ کثیرکائناتی مفروضہ کا کوئی ثبوت نہیں، یہ غیر سائنسی بھی ہے۔ Luke- A. Barnes، سڈنی کے فلکیاتی ادارے میں ایک محقق ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ کثیرکائناتی مفروضہ مشاہدہ کی حد سے باہر ہے”۔
”سائنس کی تاریخ نے ہمیں بار بار سمجھایا ہے کہ تجرباتی ٹیسٹ کوئی اضافی فضول شے نہیں۔ کائناتوں کا کثیر تعداد میں ہونے کا مفروضہ ہمیشہ تجربے سے باہر ہی رہے گا۔ اس کا سب سے آسان مثبت ثبوت کسی ایسی طبعی تھیوری کا ہونا ہوگا، جس کا اچھی طرح تجربہ ہماری کائنات میں ہو چکا ہو، اور وہ کائنات کی تشکیل کا کوئی کلیہ ہمیں بتائے۔ پھر بھی ایسے سوال رہیں گے جو مشاہدے کی حد سے باہر ہیں، جیسا کہ آیا ایسی تشکیل کے لیے ضروری ابتدائی شرائط اس کائنات سے باہر خلا میں موجود ہیں ؟۔۔۔۔ اور کائنات کی تشکیل جس عمل کے ذریعہ ہوسکتی ہے اس کا مشاہدہ کیا ہی نہیں جاسکتا“۔ (244)
کثیرکائناتی مفروضہ کا سب سے مشہور بیانیہ جو کہ اکثر ماہرینِ فلکیات و طبعیات کی جانب سے سامنے آتا ہے، یہ ہے کہ کائناتیں طبعی قوانین کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ یعنی اس طرح یہ سب لوگ یہ مانتے ہیں کہ طبعی قوانین کا موجود ہونا ضروری ہے جو کہ اس کائنات اور دیگر کائناتوں کے وجود میں آنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس بیانیہ کا مسئلہ یہ کہ ان قوانین کے موجود ہونے پر یقین لانا خدا پر ایمان لانے سے زیادہ مشکل امر ہے، کیونکہ اس طرح ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ قوانینِ فطرت جادوئی طور پر خود ہی ظاہر ہوگئے ۔ مزید یہ کہ ہمارا علمی حق ہوگا کہ ہم یہ سوال کریں کہ یہ قوانینِ فطرت کہاں سے نمودار ہوئے ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ان قوانین کا اپنے آپ سے ایسے ڈیزائن میں وجود میں آنا لازمی ہے جس سے ایسی ایک کائنات بنے جو ہمارے وجود کو ممکن بنائے۔(234) چنانچہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اس مفروضے کے ماننے والے صرف نظمِ کائنات اور فائن ٹیونگ تک ہی محدود ہیں اس سے ذیادہ بات نہیں کرنا چاہتے ۔ مزید برآں، اگر کثیرکائناتی مفروضہ صحیح بھی ہو تو اس سے خدا کے وجود پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ (دیکھئے تحریر آرگومنٹ فرام ڈیپین ڈینسی )
4۔ اسے لازمی طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
کائنات میں موجود فزیکل قوانین اور انتھا درجے کا ربط اس بات ثبوت ھیں کہ یہ کائنات کسی عظیم منصوبہ بندی کا نتیجہ ھے اور باقی سب نظریات جیسا کہ کائنات کا اتفاق سے وجود میں آنا،نظریہ ضرورت یا ملٹی ورس کائنات میں اس ربط کی وجوھات بیان کرنے سے قاصر ھیں۔ یہ کائنات کسی زھین اور عقل مند ہستی کی پیشگی منصوبہ بندی اور ذہانت کا نتیجہ ھے اور یہ نظریہ باقی سب نظریات سے زیادہ مربوط اور منطقی ھے۔ اس نظریہ کے عام فہم اور منطقی اعتبار سے مضبوطی کا اندازہ اس مثال سے لگایا جا سکتا ھے کہ اگر ایک بندہ کسی باغیچہ سے گزرے اور پھولوں سے لکھے ھوئے’ مجھے آپ سےمحبت ہے ‘ کے الفاظ دیکھے اسکے ذہن میں یہی خیال آئے گا یہ کام مالی نے کیا ہے۔
نظریہ ڈیزائن پر کچھ اعتراضات اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں جن کی وضاحت پیش ھے۔(246)
1۔ڈیزائنر کو کس نے بنایا؟ [Who- designed -the -designer?]
یہ اعتراض رچرڈ ڈاکنز کی کتاب ‘دی گاڈ ڈیلوین’ میں بھی دیکھا جاسکتاہے کہ ‘کیونکہ یہ نظریہ(ڈیزائن) فوری طور پر سوال اٹھاتا ھے کہ بنانے والے کو کس نے بنایا؟ (247)’ اگر ایک ڈیزائنر موجود ہے تو ضرور با لضرور اس ڈیزائنر کا بھی کوئی ڈیزائنر ھونا چاھیے.
پہلی بات فلاسفی آف سائنس کا بنیادی اصول یہ بیان کرتا ہے کہ جب ایک وضاحت کو کسی خاص مسئلہ کے لئے بہترین ممکنہ توجیہہ کے طور پر مان لیا جاتا ہے تو اس توجیہہ کی اپنی وضاحت کے لیے کسی وضاحت ضروری نہیں ہوتی ۔ یہ مثال اسکی وضاحت کرے گی آپ تصور کریں 5000 سال بعد آثار قدیمہ کا ایک ماہر گروپ لندن کے ہائیڈ پارک میں کھدائی شروع کرتا ہے اور کھدائی کے دوران انھیں ایک گاڑی اور ایک بس کے حصے ملتے ہیں. وہ یہ نتیجہ اخذکرنے میں حق بجانب ھیں کہ یہ گاڑی اور بس کسی حیاتیاتی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک نامعلوم تہذیب کی مصنوعات ہیں. تاہم اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ ہم یہ نتیجہ نہیں نکال کیونکہ ہم اس تہذیب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، وہ کس طرح رہتے تھے یا انھیں کس نے پیدا کیا۔ کیا اس دلیل سے آثار قدیمہ کے ماہرین کے دعوی پر کوئی اثر پڑے گا ؟ یقینا نھیں۔؟
دوسری بات اگر ہم اس بچگانہ اعتراض کو سنجیدگی سے لے لیں تو یہ خود سائنس اور فلسفہ کی بنیادوں کو کمزور کر تا ہے. اگر ہم سائنس کے بنیادی مفروضوں کے بارے میں ہی منطقی سوالات کی تفصیل ڈھونڈنے لگ جاتے مثلا اس تھیوری کے کہ ‘بیرونی دنیا موجود ہے’تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارے سائنسی ترقی اب تک کہاں پہنچی ھوتی؟ اگر ہم اس قسم کے سوالات کو ہر مفروضے کی موجود سائنسی وضاحت کے ساتھ جوڑ دیں، تو ہم وضاحتو ں کے لامتناہی سلسلے میں پھنس جائیں گے اور اس میں پڑنے سے سائنس کا بنیادی مقصد ہی فوت ھو جائے گا۔(248)
2۔بنانے والا ذیادہ پیچیدہ ھونا چاھیے۔
ایک اور اعتراض یہ ہے کہ ایک وضاحت کو ھر ممکن حد تک آسان اور عام فہم ہونا چاہئے اور اس سے مزید سوالات پیدا نھیں ھونے چاھیے بلکہ جوابات ملنے چاھیے۔
کائنات خود اتنی پیچیدہ ھے تو ضروری ھے کہ اس کا بنانے والا اس سے بھی ذیادہ پیچیدہ ھو اسی لیے یہ نظریہ کہ خدا نے کائنات بنائی مزید سوالوں کو جنم دیتا ھے یہ فیل ہے۔
یہ اعتراض کے اسلامی تصور خدا کی غلط تشریح کرتا ہے. اسلام الہیات میں خدا صرف ایک اور منفرد ہے۔قرآن میں خدا کی ایک جامع سمری کو دیکھیے: ‘ کہہ دو : بات یہ ہے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اللہ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔اور اس کے جوڑ کا کوئی نہیں۔ (249)
پروفیسر انتھونی (Anthony -Flew)نے خدا کے اس تصور کی سادگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا تصور اتنا آسان ہے کہ تین عظیم الھامی مذاہب کے تمام پیروکار وں کو سمجھ آگیا ہے.”(250)
کیا خدا واقعی پچیدہ ہے؟ [Is -God -physically- complex?]
اس اعتراض کیساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ یہ فرض کرتا ہے کہ خدا بہت سے فزیکل پارٹس کا مجموعہ ھے. چونکہ عام طور پر پیچیدہ صلاحیتوں والی چیزیں جسمانی طور پر پیچیدہ ہوتی ہیں. اگر خدا اربوں دعاؤں کا جواب دے سکتا ہے، وسیع کائنات کو برقرار رکھتا ھے اور اس کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اسے معلوم ہے، اسی لیے اسےایک پیچیدہ جسمانی ساخت کا ہونا بھی ضروری ہے. تاہم یہ ایک غلط تصور ہے. پیچیدہ صلاحیت کا ھونا پیچیدہ جسمانی ساخت کو ثابت نہیں کرتا. مثال کے طور پر عام استرےاور الیکٹرک شیور پر غور کریں. ایک بجلی والا شیور بالوں کو شیو کر سکتا ہے اور ایک عام استرا بھی بال اتار سکتا ہے. ان دونوں کی ایک ہی صلاحیت ہے، لیکن بجلی کا شیور عام استرا سے زیادہ پیچیدہ ہے. اس کے باوجود عام استرا جسمانی طور پر پیچیدہ برقی شیور کے مقابلے میں زیادہ صلاحیتوں کا مالک ہے. یہ پھل اور گتے جیسے مواد کو کاٹ سکتے ھے. یہ سوراخ بھی کر سکتا ہے۔اس اعتراض کا سادہ سا جواب اس مثال میں بھی موجود ھے۔ انسان ایک کار سے زیادہ پیچیدہ ھے لیکن اس مطلب یہ نہیں نکالا جاسکتا کہ کار کو انسان نے نہیں بنایا۔ یہ سادہ سی مثال اس اعتراض کو غلط ثابت کرنے کیلئے کافی ھے۔
3۔جہالت کا خدا (‘God -of- the- gaps’):
یہ اعتراض ملحدین کی طرف سے سب سے ذیادہ کیا جاتا ھے اور ‘ملحدین کے دانشوروں’ میں بے نظیر اور نا قابل شکست ہتھیار کے طور پر جانا جاتا ہے اس اعتراض کی رو سے ایک دن سائنس اتنی ترقی کر لے گی کہ وہ ان تمام لا جواب سوالوں کا جواب دے سکے گی جن کے جواب کے لیے خدا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ “کائنات کے وجود کیلئے خدا کا ھونا ضروری ھے” کا نظریہ دم توڑ جائے گا۔ ڈیزائن آرگومنٹ کے سیاق میں یہ حیلہ خاص وزن نہیں رکھتا وہ کس طرح؟ اس کی تین وجوہات ہیں:
1۔ جب کوئی ملحد اس اعتراض کو آگے بڑھا دیتا ہے تووہ لازمی طور پر یہ دعوی کرتا ہے کہ ہم نے کائناتی ڈیزائن کی توجیہہ کے لیے اسے سارے سائنسی ڈیٹا کے بعد بھی جو ابھی تک ہم نے جمع کیا ہے، خدا کائنات کے ڈیزائن کی سب سے بہتر وضاحت ہے، لیکن پھر بھی اسے امید ہے کہ کسی آنے والے وقت میں اتنی سائنسی ترقی ہو جائے گی کہ وہ خدا کے وجود کی دلیل کو مسترد کر دے گی۔ یہ سائنس پر اندھے یقین سے ذیادہ نہیں کیونکہ یہ ایسے کہنے کے مترادف ہے کہ”سائنس اس مسئلے کو ابھی حل نہیں کرسکتی، لیکن ہمیں امید ہے”۔!
2۔ملحدین کے اس اعتراض کی کوئی وقعت باقی نہیں رھتی جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس اعتراض کی بنیاد ہی خلاف حقیقت ہے۔ ملحدین کہتے ھیں کہ سائنس آخر کار تمام سوالوں کا جواب دے کر ھمارے علم میں موجود گیپ کو ختم کر دے گی۔ جبکہ سائنس نے ہمیشہ خلا کو ختم نہیں کیا بلکہ اکثر وہ اس گیپ کو مزید بڑھا دیتی ھے اور بجائے جواب کے سوالات کا انبار لگا دیتی ھے۔ مثال کے طور پر کچھ صدیاں پہلے ھم خلیے کو محض پروٹوپلازم کا مجموعہ سمجھتے تھے۔ 1950 میں ھمیں پتا چلا کہ خلیہ تو درحقیقت اپنے اندر معلومات (کوڈ نگ سسٹم) کا خزانہ چھپائے ھوئے ھے۔ اس دریافت نے بجائے ایک سادہ سے سوال کا جواب دینے کے ہماری سمجھ میں موجود خلا کو مزید بڑھا دیا ۔
3۔ آخری بات یہ حیلہ بنیادی طور پر سائنس کی منہاج کو ناسمجھنے کا نتیجہ ہے۔ میں ملحدین سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ سائنس نے آخرآج تک کس قسم کے سوالات کا جواب دیا ہے. سائنس صرف “کیسے” کا جواب دیتی ھے جبکہ “کیوں” کا جواب دینے سے قاصر ھے۔ اس نے اس بات کی وضاحت کی ھے، کائنات میں کس طرح ہر چیز کام کرتی ھے اور فزیکل قوانین کا اس میں کیا رول ھے۔ جبکہ سائنس ان سوالات کا جواب دینے سے قاصر ھے جن کی بہت گہری اھمیت ھے اور وہی اس مسئلے میں اہم ہیں جیسا کہ یہ قوانین کس نے بنائے، کائنات کی فائن ٹیوننگ، کائنات کی شروعات، زندگی کی ابتداء، فطرت کا وجود، سوچنے کی صلاحیت وغیرہ کے متعلق کیوں کا سوال۔ سائنس کا ایسے سوالات کے جواب دینے کا ایک اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ یہ میٹا فزکس سے تعلق رکھتے ہیں سائنس کے دائرہ کار میں ہی نہیں آتے۔ (تفصیل کے لیے تحریر، کائنات کا عدم سے وجود؟، کیا سائنس نے خدا کو غلط ثابت کردیا ہے؟)
4۔اس کا کوئی امکان نہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس باب میں جو دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں کیونکہ اصطلاحات جیسا کہ ”امکان“، ‘احتمال’ وغیرہ کو فائن ٹیونگ اور نظمِ کائنات کے ضمن میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس مطالبہ کی اساس یہ ہے کہ ریاضیاتی امکان [mathematical -probability] کو فرض نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ہمارے پاس مشاہدے کے لیے صرف ایک کائنات ہے۔ ریاضیاتی امکان کے لیے ہمیں امکانات کی کثرت درکار ہے۔ کیونکہ ریاضیاتی امکان اس بات کو معلوم کرتا ہے کہ ایک امر کسی مخصوص نتیجے پر کتنی کوششوں میں پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس مشاہدے کے لیے کوئی اور کائنات نہیں اس لیے ہم نہیں جانتے کہ کسی اور ترکیب کا کیا نتیجہ نکلتا۔ چنانچہ ریاضیاتی امکان کو استعمال نہیں کیا جاسکتا اور چنانچہ کائناتی منصوبہ کا مفروضہ [design- hypothesis] قائم نہیں کیا جاسکتا۔
یہ اعتراض غلط ہے۔ اس میں اول غلطی یہ ہے کہ اس میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ہماری ”امکان“ سے مراد ریاضیاتی امکان ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے ہم جس امکان کی بات کررہے ہیں وہ علمی (epistemic) ہے۔(251) اس طرح کا امکان کسی شماریاتی تخمین کی بجائے عقلی تخمین پر قائم ہوتا ہے ان معلومات کی روشنی میں جو ہمارے پاس ہوتی ہے۔ عمومی انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے تخمین کا تعلق مفروضے اور ثبوت پر ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ ثبوت ہوں گے مفروضہ اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ اس کی مثال کسی جرم کا منظر ہوسکتاہے: تصور کریں کہ ایک مردہ آدمی زمین پر پڑا ہو، اس کے پاس ایک چھری رکھی ہو اور اس کے جسم اور فرش پر خون پھیلا ہو۔ تفتیشی افسر کا یقین ہو کہ اس کی بیوی اس قتل کی مجرم ہے۔ وہ درج ذیل معلومات رکھتا ہے: اس بیوی کے پاس کوئی متبادل بیان نہیں، اس کے انگلیوں کے نشانات اور DNA چھری پر موجود ہے۔ تفتیشی افسر نتیجہ نکالتا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس شخص کو اس کی بیوی نے قتل کیا ہے۔ میسرثبوت سے تفتیشی افسر کے مفروضے کو تقوتیت ملتی ہے۔ یہ صورتحال علمی امکان کی ایک واضح مثال ہے۔
مندرجہ بالا کوئی مثال جو طبعیاتی قوانین یا کائنات کے نظم سے متعلق پیش کی گئی ہیں، وہ ریاضیاتی امکان سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ ساری بحث کا مقصود یہ ہی تھا کہ اگر قوانین مختلف ہوتے، تو زندگی کو ممکن بنانے والی کائنات کا وجود خارج ازامکان ہوتا، اور جو ہمیں معلومات حاصل ہیں اشیاء کے حوالے سے (جو کہ منصوبے کے تحت تخلیق ہوتی ہیں)، کائنات کا نظم اس مفروضہ کی تائید کرتا ہے کہ یہ کائنات انسانی وجود کو ممکن بنانے کے لیے منصونے کے تحت بنائی گئی ہے۔
5۔کائنات کا زیادہ تر حصہ کسی جاندار کی رہائش کے قابل نہیں، تو پھر وہ منہ بولی خاص ترتیب /ڈیزائن کہاں ہے ؟
اس سوال میں معترض کا مدعا یہ ہے کہ اگر اس کائنات کا کوئی عظیم آفاقی خالق ہے تو پھر اس کائنات میں جانداروں کے لیے قابل رہائش جگہ اتنی قلیل کیوں ہے ؟ اس اعتراض کی بنیاد ایک عیب دار مفروضہ ہے کہ کائنات کی تخلیق انسانوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے یہ مفروضہ غلط ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سےیہ بات بالکل واضح ہے کہ ہمارے زندگی کے لیے موزوں کرہ ارض کے سائز کا بقیہ کائنات کے ساتھ موازنہ غیر اہم ہے۔( اسلام اپنے پیروکاروں کو ایمانی لحاظ سے کسی ایسے مغالطہ میں نہیں رکھتا کہ یہ کائنات محض جانداروں کے رہنے کے لیے بنائی گئ ہے۔)
6۔خدا نے ناقص کائنات کیوں تخلیق کی ہے؟
یہ اعتراض سابقہ اعتراض کا ہی تسلسل ہے۔ اس قسم کے معترض یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر خدا نے کائنات تخلیق کی ہے تو پھر اس میں نقص کیوں ہے ؟ بہ الفاظ دیگر کائنات کو ایسا تخلیق کیو ں کیا گیا ہے کہ اسکاصرف ایک مختصر حصہ ہی زندگی کے لیے موزوں ہے؟
اس اعتراض میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ اس کائنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ البتہ اس میں خالق کی صلاحیت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اس اعتراض کے پیچھے ایک بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ اگر اس کائنات کا خالق خدا ہے، جو کامل و یکتا ہے، تو اسے انسانی زندگی کے لیے موزوں اور ایک بہتر تخلیق کرنی چاہیے تھی۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے کیونکہ ساری کائناتِ ارض و سماں کی تخلیق کا مقصد یہ ہے نہیں، بلکہ یہ اس مقصد کا ایک حصہ ہے کہ انسان کو اس کے ایک چھوٹے سے حصہ میں رکھا جائے۔ یہ کائنات میں انسانی زندگی کے متعلق اسلامی موقف ہے۔ اس میں یہ بات شامل ہے کہ اس کائنات کے ہر کونے کا زندگی کے لیے بہتر ہونا ضروری نہیں اور نہ اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ (البتہ اس بات سے یہ نظریہ قائم کرنا ضروری نہیں کہ زندگی دوسرے سیاروں پر قائم نہیں ہو سکتی۔ اس بات کا مطلب یہ کہ کائنات کے ہر گوشے میں زندگی کاموجود ہونا ضروری نہیں ہے) اس لحاظ سے کائنات کا ڈیزائن اپنے مقاصد پورے کررہا ہے اور اس پر کیا گیا اعتراض درست نہیں۔
7 ۔ بشری اصول کا کمزور اعتراض(The Weak Anthropic Principle):
اس اعتراض (یعنی Weak Anthropic Principle یا”کمزور بشری اصول/قانون“ ) کا کہنا یہ ہے، ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ کائناتی قوانین میں ایک لطیف توازن ہے، کیونکہ اگر زندگی کے بقا کے حق میں یہ لطیف توازن نہ ہوتا، تو ہمارا وجود ہی نہ ہوتا۔اب چونکہ ہمارا وجود ہے تو ہمیں اس بات پر حیران ہونے کی ضرور ت نہیں کہ کائنات انسانی زندگی کے لیے موزوں ہے۔ لہٰذا اس اعتراض کی رو سے، کائناتی قوانین کے لطیف توازن کے موجود ہونے پر مزید دلائل بے فائدہ ہوں گے۔ (یعنی ہمارا وجود ہی ایک دلیل ہے، کائناتی توازن کی)۔
اس دلیل کو مختصراً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
1. اگر ہم موجود ہیں، تو کائنات میں ہماری بقا کے اصول موجود ہونے چاہیں۔
2. ہم موجود ہیں۔
3. لہٰذاکائناتی قوانین ہماری بقا کو یقینی بنانے کےاصولوں کے عین مطابق ہیں۔
اس نتیجہ سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لیکن ایک بار پھر ہمارا سامنا ایک خلط ملط آرگومنٹ سے ہے۔ زندگی کی بقا کے لیے کائناتی قوانین میں موزوں توازن (Fine Tuning) کی موجودگی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہمیں اس بات کو واضح کرنے کی ضرور ت ہے کہ ہمارا وجود کائناتی خدوخال کے عین مطابق ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت چاہتی ہے کہ ہمارا وجود کیسے کائناتی خدوخال کے مطابق نظر آتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کائناتی قوانین مختلف بھی ہو سکتے تھے۔مندرجہ ذیل کہانی سے Anthropic Principle پر اس اعتراض کے بے محل ہونے کی وضاحت ہو سکتی ہے۔(252)
آپ فرض کریں کہ ایک دن گھر جاتے ہوئے آپ ایک غلط موڑ کاٹیں اور ایک ویران صنعتی علاقے میں جا پہنچیں۔ آپ کی گاڑی کام کرنا چھوڑ دے اور آپ مدد تلاش کرنے کے لیے پیدل چلنے کا فیصلہ کریں۔ اچانک ایک مسلح افراد کا گروہ جس نے ایٹمی پلانٹ پر کام کرنے والوں کی طرح کا لباس پہنا ہو وہ نمودار ہو، آپ کو ہتھکڑی لگا کر سر ڈھانپ دیں اور آپ کو کسی گاڑی میں دھکیل دیں۔ چند گھنٹے بعد آپ کو جبراً گاڑی سے نکالا جائے اور آپ کو ایک عمارت میں لاجایا جائے۔ پھر وہ آپ کے سر سے کپڑا اتار کرآپ کو ایک کرسی پر بٹھا دیں۔ آپ کمرے میں نظر دوڑائیں اور آپ کو صرف سفید دیواریں اور بلب نظر آئیں۔البتہ آپ کو سامنے ایک بڑی سے ایک ایسی مشین نظر آئے جو کسی مستقبل کے دور کی بہت بڑی واشنگ مشین کی مانند ہو۔ ہر چیز ساکت ہو جائے اور ایک آواز آپ کو حکم دے کہ سیڑھیاں چڑھ کر اس مشین میں داخل ہو جائے۔ آپ کو بتایا جائے کہ آپ ایک نئی ایجاد کردہ ٹائم مشین (وقت میں سفر کرنے والی مشین)کو استعمال کرنے والے پہلے انسان ہیں۔آپ کو اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔آپ مشین میں داخل ہوتے ہیں اور چند ہی لمحوں میں آپ کو بہت حرار ت اور شور محسوس ہوتا ہے اور آپ کے اردگرد ہرچیز دھندلا جاتی ہے۔آپ بے ہوش ہو جاتے ہیں۔جب کچھ دیر بعد آپ کو ہوش آتا ہے تو آپ خود کو 1625ء کےدور میں پاتے ہیں۔ آپ ایک درخت سے بندھے ہیں اورآپ کو 100 قبائلی امریکی نظر آتے ہیں، چند گز کے فاصلے پر، جنہوں نےاپنے تیر آپ کی طرف کیے ہوتے ہیں۔ ان قبائلیوں نے کبھی تیر چلانے میں غلطی نہیں کی اور یہ گھوڑے پر بیٹھ کر ، دیکھے بغیر،مکھی کا نشانہ لے سکتے ہیں۔آپ کسی کو دس تک گنتی گنتا سنتے ہیں اور ساتھ ہی ”فائر“ (نشانہ لگاؤ) کی آواز آتی ہے۔ان سب نے آپ کے دل کا نشانہ لیا ہوتا ہے۔مگر جیسے ہی آپ کے حواس واپس آتے ہیں آپ دیکھتے ہیں کہ ان سب کا نشانہ چوک گیاہےاور آپ صحیح سلامت زندہ ہیں۔اب دو نکات پر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ، آپ کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہئے کہ آپ زندہ ہیں کیونکہ وہ چوک گئے ہیں، کیونکہ اگر آپ زندہ نہ ہوتے تو آپکو یہ بات پتہ نہ چلتی۔ دوسرا یہ کہ آپ کو اس پر بہت حیران ہونا چاہیے کہ آپ کے زندہ رہنے کی وجہ ایک بعید از قیاس بات ہےکہ قبائلیوں کا نشانہ چوک گیا۔
Anthropic Principle کا تعلق پہلے نکتہ سے ہے جبکہ اس مضون میں بیان کردہ اعتراض کا تعلق دوسرے نکتے سے ہے۔ہمیں اس بات پر نہیں حیران ہونا چاہیے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں زندہ ہیں جس میں ہمیں زندہ رہنے دینے کی صلاحیت ممکن ہے۔ بلکہ ہمیں اس بات پر حیران ہونا چاہیے کہ کائنات کی خدوخال کا خود سے زندگی کے لیے موزوں ہونا ناممکنات میں سے ہیں ۔چنانچہ Anthropic Principleاصل موضوع سے ہٹ کر ہے۔
8۔آپ زندگی کو خاص فرض کر رہے ہیں
کائناتی قوانین کے اندر موجود ترتیب و ترکیب پر ایک دلچسپ اعتراض یہ اٹھایا جاتا ہے کہ ایسا سوچنا انسان کو مرکزِ کائنات سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ دیگر الفاظ میں اعتراض یہ ہے کہ اس نظریہ (فائن ٹیونگ آرگومنٹ)میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ یہ انسانی زندگی کے بہت اہم ہےاور اس کی بقا کے لیے توازن کی ضرور ت ہے۔۔لیکن اگر یہ زندگی نہ بھی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ کائناتی قوانین ستاروں اور سیاروں کی بقا کے لیے موزوں ہیں۔ اگر یہ اجرامِ فلکی بھی نہ ہوتے تو ہم یہ بات ایٹمی ذرات کے بارے میں کہہ سکتے تھے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کائناتی توازن کی دلیل کسی بھی وجود کے بارے میں بیان کی جاسکتی ہے، لہٰذا یہ اتنا مؤثر اعتراض نہیں۔اس اعتراض کا جواب دو طرح دیا جاسکتا ہے:
1. اگر یہ کائناتی توازن انسانی حیات کے لیے نہیں بھی رکھا گیا تو بھی کائناتی توازن کی دلیل خود کائنات کی اپنی بقا کے لیے بھی دی جاسکتی ہے۔یہ کائنات نہ صرف پیچیدہ کائناتی عناصر پر مشتمل ہے، بلکہ پیچیدہ ترین کیمیائی سرگرمیوں سےبھی معمور ہے جو ان کائناتی عناصر کی تشکیل و ترکیب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پچید گی وضاحت مانگتی ہے ۔ اگر ایسی کائنات نہ ہوتی اور چند عناصر کے ساتھ محض ایک خالی کائنات ہوتی تو پھر کسی قانون کا بھی وجود نہ ہوتا۔ چنانچہ کائنات کی وجودی پیچیدگی ہی اس کی قانونی ترکیب و توازن کا تقاضا کرتی ہے اور وضاحت کی متقاضی ہے۔
2. زندگی، خصوصاً انسانی زندگی انتہائی پیچیدہ ہے۔ اس حقیقت کی بنیاد پر کہ اس کائناتی نظام میں اس” پیچیدہ وجود“ کو ممکن بنانے کے اصول موجود ہیں اور اسکی فائن ٹیونگ کی گئی ہے’ ایک منطقی ذہن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اس پچیدگی کے وجود کی وضاحت اور توجیہہ تلاش کرے۔
9۔دیگر حیاتی موجودات پر مبنی اعتراض
ایک اور عام اعتراض جو اس کائناتی قوانین میں مابین زندگی کی سپورٹ میں توازن ( Fine-Tuning Argument) کے نظریہ پر کیا جاتا ہے وہ اس مفروضہ پر مبنی ہے زندگی صرف کاربن کی بنیا پر ممکن ہے، یعنی اگر طبعیاتی قوانین مختلف ہوتے توکاربن کی بناء پر قائم زندگی ناممکن ہوتی ۔۔ اگر طبعیاتی قوانین مختلف ہوتے تو زندگی غیر کاربن عناصر پر ممکن ہوجاتی۔ چنانچہ زندگی کسی دوسری کیمیائی ترکیب کے ساتھ کسی اورکائناتی توازن کے تحت وجود میں آسکتی تھی ۔
یہ اعتراض بھی غیر متعلقہ ہے کیونکہ ہمارا یہ آرگومنٹ اس مفروضہ پر قائم ہی نہیں ہے۔یہ دو منطقی مفروضوں پر قائم ہے۔پہلا یہ کہ باشعور زندگی کوتوانائی کے سورس کی ضرورت ہے، چاہے وہ زندگی کسی کاربن بیس ہو یا نہیں ۔ مثال کے طور پر کشش ثقل کے بغیر یہاں ستاروں کو وجود نا ہوتا اور ستارے نا ہوتے تو توانائی بھی نا ہوتی ۔دوسرا یہ کہ باشعور زندگی پیچیدگی سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر اگر قوی جوہری قوت (Strong Nuclear Forces) کو رتی برابر بدل جائے تو ہائیڈروجن کے علاوہ کسی ایٹم کا وجود نا ہوگا ۔ یہ ناقابل تصور ہے کہ پیچیدہ شعوری زندگی صرف ہائیڈروجن سے ممکن ہوسکتی ہے ۔ اگر طبعیاتی قوانین مختلف ہوتے تو کسی بھی مستحکم اورپیچیدہ زندگی کا امکان نہیں ہوتا۔ یہ بالکل عقلی اور ہم آہنگ مقدمات ہیں۔(253)
خلاصہ یہ کہ فائن ٹیونگ آرگومنٹ ایک وجدانی حیثیت رکھتا ہے۔اس کی سادگی اور طاقت کا مقابلہ بہ مشکل ہی کیا جا سکتا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کہ آپ کا ڈبل روٹی کا توس خود بخود پک گیا اور اس پر اتفاق سے آپ کی پسند کی چاکلیٹ سے”مجھے آپ سے محبت ہے“ لکھا گیا ۔اس عمل کے ہونے سے ظاہر ہے کہ یہ سب کرنے کے لیے ایک شعوری کوشش درکار ہےتو کائنات جو اس عمل سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور اس میں ایک ٹوسٹ کے پیس پر لکھے چند الفاظ سے ذیادہ سلیقہ نظر آتا ہے ، عقل کو یہ سب یہ یقین کرنے کی بنیاد مہیاء کرتا ہے کہ ضرور کوئی ڈیزائنر موجود ہے جس نے کائنات میں پیچیدگی، توازن اور سلیقہ رکھا۔
حوالہ جات
217 Analogy adapted from Collins, R (2002) God, Design and Fine-Tuning. Adapted version. Available at: http://home.messiah.edu/ ~rcollins/Fine-tuning/Revised%20Version%200fbA>20Fine-tuning%20for%20anthology.doc [Accessed 24th October 2016)
218 The Qur’an, Chapter 55, Verses 5 to 7.
219 The Qur’an, Chapter 3, Verse 190.
220 The Qur’an, Chapter 55, Verse 5.
221 The Qur’an, Chapter 16, Verse 12.
222 Tibawi, A.L. (ed. and tr.). (1965) Al-Risala al-Qudsiyya (The Jerusalem Epistle) «Al-Ghazali’s Tract on Dogmatic Theology”. In: The Islamic Quarterly, 9:3-4 (1965), 3-4.
223 Ibn Abi AI-‘Izz. (2000) Commentary on the Creed of At-Tahawi. Translated by Muhammad ‘Abdul-Haqq Ansari. Riyadh: Institute ofIslamic and Arabic Sciences in America, p. 9
224 Collins, R. (2009) The Teleological Argument. In: Craig, W. L. and Moreland,]. P. The Blackwell Companion to Natural Theology. West Sussex: Wiley-Blackwell, p. 212.
22S Ibid.
226 John Leslie. (2001) Infinite Minds: A Philosophical Cosmology. Oxford: Clarendon Press. p. 205.
227 Collins. R. The Teleological Argument. p. 212.
228 Cited in Jammer. M. (1999) Einstein and Religion. Princeton. NJ: Princeton University Press. p. 1 SO.
229 Dawkins. R. (1999) Unweaving the Rainbow. London: Penguin. p. 4.
230 Ward. P. D. and Brownlee. D. (2004) Rare Earth: Why Complex Life Is Uncommon in the Universe. New York. NY: Copernicus Books. p. 16.
231 Ibid. pp. 221-222.
232 ‘No Jupiter. no advanced life? • – evolution may be impossible in Star Systems without a giant planet (2012). Available at:
http://www.dailygalaxy.com/my _ weblogl20 12111/would-advanced-life-be-impossible-in-star-systems-without-a-jupiter-.html [Accessed 2nd October 2016].
233 Rasio. F.A. and E.B. Ford. (1996) Dynamical instabilities and the formation of extrasolar planetary systems. Science 274: 954-956.
234 Ward. P. D. and Brownlee. D. (2004) Rare Earth: Why Complex Life Is Uncommon in the Universe. New York. NY: Copernicus Books. pp. 238 – 239.
235 Ibid. p. 227.
236 Ibid. p. 223.
237 Ibid.
238 Inspired by and adapted from Collins. R. The Fine-Tuning Design Argument. PowerPoint Presentation. Available at: http://home.messiah.edu/-rcollins/Fine-tuning/Fine-tuning>Al20powerpoint%20final%20version %2010-3-08. ppt [Accessed 24th October 2016].
239 Ibid.
240 Craig. W. L. (2008) Reasonable Faith: Christian Truth and Apologetics. p. 161.
241 Davies. P. (1993) The Mind of God: Science and the Search for Ultimate Meaning. London: Penguin. p. 169.
242 Cited in Flew. A. (2007) There is a God. p.119.
243 Ibid.
244 Barnes. L. A. (2011) The Fine-Tuning of the Universe for Intelligent Life. Sydney Institute for Astronomy. Available at: http://arxiv.org/PS_cache/arxiv/pdf/1112/l112.4647v1.pdf[Accessed 5th October 2016].
245 Adapted from Collins. R. (2009) The Teleological Argument. pp. 262-265.
246 I am grateful to Abu Hurayra for his contribution in responding to these objections. 247 Dawkins, R. (2006) The God Delusion, p. 158.
248 Both points have been adapted from Professor William Lane Craig’s treatment on the issue. Craig, W. L. (2009) Dawkins’s Delusion. In: Copan, P. and Craig, W. L. (ed.). Contending with Christianity’s Critics: Answering New Atheists & Other Objectors. Nashville, Tennessee: B & H Publishing Group, p. 4.
249 The Qur’ an, Chapter 112, Verses 1 to 4.
250 Flew, A. (2007) There is a God, p. Ill.
251 Collins, R. (2002) God, Design and Fine-Tuning. Adapted version. Available at: http://home.messiah.edu/ -rcollins/Fine-tuningiRevised%20Version%200fb1620Fine-tuning%20for%20anthology.doc [Accessed 24th October 2016].
252 Adapted from Collins, R. (2009) The Teleological Argument, p. 276.
253 Ibid.
الحادكوكس طرح ایك خاص قسم کااستثناء دركارہے۔! | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
October 11, 2018 at 12:35 pm[…] مطابقت ركھتا ہے (جیسا كہ ان تحاریر میں تفصیل پیش کی گئی :زمین كے كسی اتفاق كے طور پر پیدا ہوجانے كے كیا امكانات ہ…؟ اور’’ جدید طبیعیات الحاد كو كیوں مسترد کرتی […]
آگہی کا خلا اور خدا | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 2, 2019 at 12:10 pm[…] آف گیپ آرگومنٹ کا تفصیلی محاکمہ ہماری اس تحریر سے […]