آزاد ہوئے غلام -خداہماری عبادت کاحقدارکیوں ہے؟ [The- Free -Slave: Why -God- is- Worthy -of-Our- Worship]

۔

۔

“قید  میں  در اصل وہ ہے جس کا دل اللہ کے علاوہ کسی اور کی قید میں ہے، غلام دراصل وہ ہے جو اپنی خواہشات کا پیروکار ہے۔”[i]

فرض کیجیے آپ کا ایک دوست ہر روز آپ کو 1000 روپے دیتا ہے کیوں کہ آپ کی نوکری آپ کی غلطی کے بغیر آپ سے چھن چکی ہے اور آپ کو معاشی امداد کی ضرورت ہے۔ یہ امداد دنوں پر نہیں بلکہ کئی سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ یہ مال آپ کے بینک کے اکاؤنٹ میں آتے رہتے ہیں۔ آپ آہستہ آہستہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ پر یہ مہربانی کون کر رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اس مال کے دینے والے کے بجائے اس مال کے ممنون ہونے لگتے ہیں۔ یہ الحاد و شرک کی سادہ ترین توجیہ ہے۔ روحانی پہلو سے یہ غیر معقولیت اور ناشکری کی سب سے بڑی صورت ہے۔  ایک ذہین اور معقول شخص ہمیشہ اس کا شکر گزار ہو گا جس نے اس کو یہ امداد دی۔ یہ ایک طے شدہ اخلاقی اصول ہے۔

لیکن یہ مثال الحاد و شرک پر پوری کیوں اترتی ہے؟

زندگی میں بہت سے ایسی چیزیں ہیں جو آپ نےنہ تو کمائی ہیں اور نہ ہی آپ ان کے مالک ہیں، لیکن وہ آپ کو بلا تردد آسانی سے مل رہی ہیں۔ آپ کے پاس اس کی کوئی  دلیل بھی نہیں ہے کہ آپ اس کے کیوں مستحق ہیں۔ وہ چیز یہ لمحہ ہے جو آپ گزار رہے ہیں اور اس طرح کے لا تعداد لمحات جو آپ کی زندگی میں گزر رہے ہیں۔  آپ نے یہ لمحات کمائے نہیں ہیں، آپ اگلا لمحہ کمانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ اسی لئے عام طور پر ہم اسے تحفہ کہہ دیتے ہیں: زندگی کا تحفہ۔ اسی وجہ سے ہم اس کو قیمتی جانتے ہیں، آپ اس کے مالک نہیں ہیں کیوں کہ آپ کسی بھی شہ کو وجود میں نہیں لا سکتے: آپ ایک مکھی جیسی ناچیز تک کو نہیں بنا سکتے۔ آپ ان لمحات کے مستحق نہیں ہیں کیوں آپ اپنے وجود کے مالک نہیں ہیں، آپ کسی شہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی وجود نہیں بخش سکتے۔ اس سب کی روشنی میں، حقیقت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت حالت شکر گزاری میں ہونا چاہیئے کیوں کہ آپ کے پاس وہ سب کچھ ہے جو آپ نے نہ کمایا ہے نہ آپ اس کے مالک ہیں اور نہ آپ اس کے اہل ہیں۔

مشرکین و ملحدین کسی کا شکر ادا کر نہیں سکتے یا وہ کسی اور ہستی کا شکر ادا کرتے ہیں (عام طور پر خود بنایا ہوا، محدود ہستی)، اس سے لازم آتا ہے کہ ان کی بنائی ہوئی دنیا نہ صرف غیر معقول بلکہ وہ ناشکری کی بلندیوں پر ہیں۔ جیسا کہ باب6 میں گفتگو ہو چکی، اللہ غیر منحصر ہے اور ہر شہ کا انحصار اسی پر ہے۔ اسی لئے ہر وہ شہ جو ہم استعمال کر رہے ہیں دراصل خدا پر ہی اس کا انحصار ہے۔ اس سب کا ایک ہی نا گزیر نتیجہ نکلتا ہے – ہم اللہ کے ہی شکر گزار رہیں۔ شکرگزاری عبادت کا بنیادی پہلو ہے۔ عبادت میں اللہ کی اتباع اور تمام عبادت کی قسمیں اللہ کے لئے ہی مخصوص کرنا شامل ہے۔ تاہم، اسلامی الہیات میں عبادت کا پہلو صرف اس کی شکرگزاری تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام میں عبادت کا پہلو بہت وسیع ہے۔ عبادت میں دعائیں، نماز، اللہ کی تعریف، اس سے مدد مانگنا، اپنے دل کی بیماریوں کا علاج کرنا اور اس سے بخشش طلب کرنا بھی شامل ہے۔ عبادت کی یہ قسمیں نہ صرف معقول ہیں بلکہ ان کا تذکرہ قرآن میں بھی ہوا ہے۔

میں نے یہ باب شکر گزاری کے ضمن میں شروع کیا تھا کیوں کہ عبادت کا اہم پہلو شکر گزاری اور ممنونیت ہے۔ اگر آپ ممنون نہیں تو یہ اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کرنے کے مترادف ہے کہ آپ اللہ پر منحصر ہیں اور آپ اس کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ ہی نے آپ کو یہ سب مہیا کیا ہے۔ اس سب کے علاوہ کہ اللہ کا ہی ہمیں شکر گزار رہنا چاہیئے  جس نے ہمیں یہ زندگی دی، اللہ کیوں عبادت کے لائق ہے؟

اللہ کو جاننا

اس سے پہلے کے میں اس کی وضاحت کروں ،بہتر یہ ہے کہ ہم جان لیں کہ اللہ کو جاننے سے کیا مراد ہے۔ اللہ کے بارے میں علم اس لئے اہم ہے کہ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ اللہ عبادت کے لائق کیوں  ہے؟ ہم اس کی عبادت کیسے کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں ہم جانتے ہی نہ ہوں۔ اسی لئے اسلامی الہیات میں اللہ کے بارے میں علم اس کی عبادت کی ایک صورت ہے”

“جان لو! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں”[ii]

اللہ کو جان لینے سے مراد یہ ہے کہ ہم اس کا اقرار کر لیں کہ  اللہ واحد ہی ہر اس چیز  کا پیدا اور قائم کرنے والا ہے جو کچھ وجود رکھتا ہے (اسے توحید ربوبیت کہتے ہیں)۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اس کی صفات اور اس کے ناموں کا اقرار کریں کہ وہ بہترین ہیں۔ اس کی صفات ، مخلوق کی صفات سے مماثلت نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان میں کوئی نقص ہے (اسے توحید فی اسماء و الصفات کہتے ہیں)۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ اقرار کیا جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور عبادت کی ہر صورت کا مستحق  صرف وہی ہے (اسے توحید الوہیت کہتے ہیں)۔ یہ قابل غور ہے  کہ اسلامی الہیات میں یہ چیز اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا اقرار کیا جائے کہ اللہ کی طاقت اور اس کی صفات اور اس کے نام کا حامل کوئی اور نہیں ہو سکتا اور  نہ ہی ان میں شریک ہو سکتا ہے۔ ہر قسم کی تشبیہ سے اللہ پاک ہے۔ اللہ اس طرح کی ہر چیز سے پاک ہے اور اس کی ہر صفت درجہ کمال میں اکمل ہے۔ اس میں کوئی نقص نہیں۔ اسلامی الہیات میں اس عقیدہ کو توحید کہا جاتا ہے جس کا معنی اللہ کی وحدانیت کی شہادت اور ان کا اقرار کرنا ہے۔

توحید ربوبیت:

توحید ربوبیت سے مراد اس بات کو جاننا اور اس کی شہادت دینا ہے کہ اللہ اکیلا ہی خالق حقیقی ہے اور ہر شہ کا مالک ہے، اللہ ہی ہر شے کا قائم رکھنے والا ہے اور تربیت کرنے والا ہے۔ اسلام میں توحید کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اان باتوں کا منکر ہو تو گویا اس نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ۔مطلب یہ کہ اس نے شرک کیا اور  اگر کوئی اس کا اقرار کرے کہ اللہ کے معاملات کسی اور  کے ساتھ متصف کیے جا سکتے ہیں تو گویا  اس نےاللہ کی صفات کا انکار کیا اور  اللہ کے ساتھ کسی کو  شریک ٹھہرایا۔

توحید فی اسماء و الصفات:

توحید فی اسماء و الصفات سے مراد ہے کہ اللہ کو انھی ناموں کے ساتھ جاننا، جن کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو متصف کیا اور ان کا منبہ قرآن و سنت ہیں( کچھ نام ، جیسے   “الخالق”، یعنی پیدا کرنے اور”القدیر”، یعنی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا، کی تائید ایک منطقی ذہن سے ہوتی ہے)۔ کچھ نام، جیسے :”اللطیف” یعنی لطف و کرم کرنے والا اور “الودود” یعنی بڑی محبت کرنے والا، عقیدہ میں موجود ہیں،    لیکن یہ کسی بھی طرح سے مخلوق سے موازنہ نہیں کئے جا سکتے۔ اللہ کے نام اور صفات میں کوئی نقص نہیں اور وہ بہترین ہیں۔ اللہ نے خود اپنے ناموں کو خوبصورت کہا ہے۔

“اللہ کے بہت خوبصورت نام ہیں، پس اس کو انھی ناموں سے پکارو۔” [iii]

جیسے کہ اس کتاب میں بیشتر مقامات پر بیان ہو چکا کہ اللہ سب سے زیادہ بہترین ہے۔ اگر کوئی ان صفات کو مخلوق سے تشبیہ سے گا تو وہ اللہ کی تجسیم کرے گا اور یہ گویا ایسا ہی ہےکہ  جیسا اس کے ساتھ شرک کرنا۔

توحید الوہیت:

اللہ کی توحید سے مراد یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ تمام تر عبادات صرف اللہ کے لئے ہی خالص ہوں۔ اگر کسی کی عبادات اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ہوں، اور وہ اپنی عبادات کی جزا کی امید اللہ کے سوا کسی اور سے رکھتا ہو، تو ایسے شخص نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا۔

سب سے بڑا گناہ:

اللہ کے ساتھ شرک کرنا اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر کوئی شخص شرک کی حالت میں موت کی گھاٹی میں اترے گا اور اس پر تائب نہ ہوا تو اسے اللہ کی طرف سے بھی معاف نہ کیا جائے گا (یہ صرف شرک کی بد ترین شکل کے نتیجہ میں ہو گا۔ شرک کے کچھ کم درجات بھی ہیں۔ جیسے غیر اللہ کے نام  صدقات کرنا، اللہ کے سوا کسی اور کے تابع ہونا، اللہ کے سوا کسی اور کے لئے اچھے اعمال کرنا۔ لیکن، شرک کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ اللہ کےعلاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق ٹھہرانا اور اس کے سوا کسی اور سے مانگنا ہیں۔ یہ ایک بہت دقیق بحث ہے جس میں اور بہت سی پیچیدگیاں ہیں، سو میں یہ کہوں گا کہ یہاں ان کا ذکر کرنا محض طوالت کا باعث ہو گا):

“یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا۔”[iv]

تاہم، اگر کوئی شرک کرے اور پھر اپنی خطا پر پچھتائے اور پھر سیدھے راستے پر آ جائے تو اللہ اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دے گا۔

“اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہو وه بجز حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وه زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وه اپنے اوپر سخت وبال ﻻئے گااسے قیامت کے دن دوہرا عذاب کیا جائے گا اور وه ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گاسوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہےاور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے۔”[v]

وہ لوگ جو شرک کریں اور توبہ کئے بغیر ہی مر گئے  تو دراصل انھوں نے اللہ کی رحمت کا دروازہ اپنے لئے بند کر کے اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا۔ ان کے دلوں نے اللہ کی ہدایت اور نور کو ہمیشہ کے لیے ابدی طور پر مسترد کر دیا اور انھوں نے اپنے آپ کو اللہ سے دور کر لیا۔ یہی لوگ روزِ قیامت اللہ سے واپسی کی درخواست کریں گے تاکہ وہ نیک اعمال کر سکیں، لیکن ان کے دلوں کو ابدی طور پر مسترد کیا جا چکا ہو گا۔

” یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک۔”[vi]

اپنے اوپر خود سے روحانیت طاری کر لینا یعنی اپنے بنائے ہوئے طریقوں سے روحانیت حاصل کرنا انکار کی صورت ہے۔ یہ شخص اللہ کی تمام رحمتوں کو اور اس کے انصاف کو جھٹلا دیتا ہے اور اس کی محبت سے دور ہو جاتا ہے۔

“اور خدا نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔”[vii]

“یہ صلہ ہے اس کا جو تم نے اپنے ہاتھوں سے کمایا، اور اللہ اپنے بندوں پر ظالم نہیں۔”[viii]

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلامی الہیات میں اگر کسی شخص تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا ،تو اسے قیامت کے روز امتحان میں مبتلا کر کے اس کو جانچا جائے گا۔ اللہ انصاف کرنے والا ہے اور ظلم کو ناپسند کرتاہے۔ اسی لئے اگر کوئی غیر مسلم مر جاتا ہے، تو یہ غیراسلامی طرز ہے اس کے بارے میں جنتی یا جہنمی ہونے کا فتوی صادر کر دیا جائے(تاہم، کچھ علما کا کہنا ہے کہ یہ بات ان پر لاگو نہیں ہوتی جن تک دیں حق کا پیغام پہنچ چکا ہو)۔ کوئی نہیں جانتا کہ دوسرے کے دل میں کیا تھا اور یہ کہ اس کو دین کا پیغام درست طریقے سے پہنچایا گیا تھا یا نہیں۔ لیکں عقیدہ اور معاشرے کی نگاہ سے اسے غیر مسلم کے طرز پر ہی دفن کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ ان کا آخری مقام ہے۔ درحقیقت خدا بہترین منصف اور سب سے زیادہ رحیم ہے سو کسی کو بھی غیر منصفانہ طریقے سے اس کا فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔

وہ لوگ جنھوں نے اسلام کا پیغام احسن اور درست انداز سے سن لیا تو ان کو ان کے انکار کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔ لیکن اگر کسی شخص کو یہ پیغام نہیں پہنچا ہو گا یا مبہم طریقے سے پہنچا ہو گا تو قیامت کے روز اس کو ایک موقع اور دیا جائے گا۔[ix] اللہ اور نبی ﷺ کی سنت اور اقوال کے زریعے غزالی نے اس معاملے میں ایک متوازن رائے پیش کی۔ وہ اس بارے میں دلیل پیش کرتے ہیں کہ جس کو اللہ کا پیغام صحیح معنوں میں نہ پہنچا ہو گا تو اسے ایک موقع دیا جائے گا: “بلکہ میں یہ کہوں گا کہ انشاءاللہ آگ کے دور کے بہت سے بازنطینی عیسائی اور ترک اللہ کی رحمت میں داخل ہوں گے۔ یہاں میرا مراد وہ لوگ ہیں جو بازنطین اور اناطولیہ کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے افراد ہیں، جن تک پیغام نہیں پہنچا۔ان کے پاس عذر ہے۔ ” [x]

غزالی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس نے اللہ کی نبی ﷺ کے بارے میں منفی باتیں سنی ہوں گی، انھیں بھی موقع دیا جائے گا۔ “ان لوگوں نے اللہ کے نبی ﷺ کا نام سنا ہو مگر ان کی خصوصیات سے نا واقف ہوں اس کے برعکس انھوں نے بچپن سے ہی یہ سنا ہو کہ محمد ﷺ جھوٹے ہیں جنھوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے۔ ۔ ۔ یہ گروہ میرے نزدیک پہلے گروہ کے ہی مانند ہے۔ اگرچہ انھوں نے ان کا نام سنا ہے مگر وہ سب اس کے برعکس ہے جو سچ ہے۔ اسی وجہ سے ان کے اصل معاملے کے بارے میں جاننا ممکن نہیں۔ “[xi]

اسلام کی تعلیمات شدت پسندی کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔ میری نظر میں، تمام قسم کی شدت پسندی “نظریات میں تلخی” کی وجہ سے جنم لیتی ہے، جو بالآخر لوگوں کے دلوں کو سخت کر دیتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دنیا کے بارے میں حتمی، وسط سے دور اور منفی مفروضوں پر مبنی عقائد بنا لیتے ہیں۔ یہ ایک گروہ ہے جو باقی افراد کو “فریق مخالف” بنا دیتا ہے۔ ” فریق مخالف ” کہہ دینا فقط لیبل نہیں ہے کہ فلاں شخص فلاں گروہ سے تعلق رکھتا ہے، یہ انسانی فطرت اور اس جدید معاشرے کا حصہ ہے۔ ” فریق مخالف” کا  لیبل عام طور پر اس وقت لگایا جاتا ہے، جب کسی کے بارے میں منفی خیالات کو دل میں پنپنے دیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ اس گروہ سے متعلقہ ہر شخص ایسا ہی ہے۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں سختی آ جاتی ہے اور کسی بھی مثبت خیال کی جگہ نہیں رہتی اور نہ ہی مثبت طریقے سے لوگ ایک دوسرے سے میل جول  رکھتے ہیں۔ اسلام افراد کو گروہوں میں نہیں بانٹتا۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ مسلمانوں کے علاوہ تمام لوگ برے اور ملعون ہیں۔ اسلام اس کو وضاحت سے بیان کرتا ہے کہ تمام فریق مخالف کے لوگ  “ایک سے نہیں ہوتے” [xii]اور ان میں سے کچھ “خیر”[xiii] والے بھی ہوتے ہیں۔ اسلام اس کی تطبیق مسلمانوں پر بھی کرتا ہے۔ مومنوں میں سے کچھ کو نیکوکار کہتا ہے اور کچھ کو نہیں۔ بہرحال، اسلام یہ سکھاتا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ رحمدلی سے پیش آنا چاہیئے(دیکھیے باب نمبر 14)۔

عبادت کا مغز:

اسلامی الہیات میں عبادت کی روح دعا ہے۔ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ ” دعا عبادت کامغز (حاصل ونچوڑ) ہے “[xiv]۔ دعا صرف اللہ سے ہی کی جانی چاہیئے کیونکہ مشکل کشا صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور سے مانگنا شرک کی ایک قسم ہے۔ کیونکہ جس سے اللہ کے سوا مانگا جا رہا ہے، وہ اس پر قادر نہیں کہ التجاء کا جواب دے سکے اور مشکل کشائی کر سکے۔ مثال کے طور پر، اکر کوئی پتھر کے بت سے یہ دعا مانگے کہ اسے جڑواں لڑکیاں عطاء کرے، تو وہ دراصل شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔ کیونکہ وہ ایسی چیز سے دعا مانگ رہا ہے ، جو اس قابل نہیں کہ کچھ عطا کر سکے۔ لیکن کسی ایسے سے، جو مدد کر سکتا ہو، اس سے مدد کے لئے مانگنا بہرحال شرک نہیں۔ یہ شرک اس صورت میں کہلائے گا، جب مانگنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ رازق مطلق اور قادر مطلق نہیں ہے۔ اللہ سے دعا کرنا دراصل اپنی عبادت کو خالص کرنا ہےاور اللہ سے عاجزانہ طریقے سے ہی دعا مانگنی چاہیئے۔ اللہ فرماتا ہے: “اپنے رب کو عاجزی سے پکارو”[xv] اور “اپنے رب کے لئے ہی خالص عبادت کرو”۔  [xvi]

اسلامی روحانی تعلیم کے مطابق، عبادات اس وقت قابل قبول ہوتیں ہیں، اگر وہ دو شرائط کو پورا کریں۔ اول یہ کہ عبادت خالص طور پر اللہ کے لیے ہی کی جانی چاہیئے۔ دوم یہ کہ جو عمل کیا جا رہا ہے، اس کی بنیاد قرآن و سنہ پر ہی مبنی ہونی چاہیئے۔  ایک فطری سوال یہ ابھرتا ہے کہ :یہ عبادت کے طریقے دراصل کیا ہیں؟ عبادت کے بہت سے طریقے ہیں۔ جیسے کہ پہلے تذکرہ کیا گیا کہ ہر اچھا عمل جو اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جائے، عبادت ہے۔ تاہم کچھ ایسے اعمال ہیں  جو اسلامی روحانی روایات کے ساتھ خاص ہیں۔ ان کا خلاصہ اللہ کے نبی محمد ﷺ نے پانچ بنیادی ارکان کے طور پر بیان کیئے۔ ان میں اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے کی گواہی، پنجگانہ نماز، رمضان(اسلامی جنتری میں 9 واں مہینہ) کے روزہ، زکوٰۃ، صاحب استطاعت پر حج شامل ہیں۔ ان عبادات کے کچھ خاص فوائد ہیں۔ یہ اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ تاہم، اگر کوئی چاہے تو وہ اپنی روحانیت مزید عبادات کے ذریعے بڑھا سکتا ہے۔ جن میں قرآن کی تلاوت، اذکار، دل کی بیماریوں کا علاج، نفلی زکوۃ، اسلام کی تبلیغ، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اللہ کے نبی ﷺ کی سیرت پڑھنا، تہجد، جانوروں کی دیکھ بھال کرنا اور قدرت کے مظاہر پر غور کرنا جیسی عبادات شامل ہیں۔   

 ہماری تمام تر عبادات صرف اللہ کے لئے ہی کیوں کر خاص ہیں؟

میں مندرجہ ذیل نکات کے ذریعے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا:

  • اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی عظمت شان کا بنیادی حق ہے۔
  • اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا اور قائم کرنے والا ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کی ہم پر بےشمار عنایات ہیں۔
  • اگر ہم اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں تو اپنے رب سے محبت بھی لازم آتی ہے۔
  • اللہ تعالیٰ الودود ہے اور اس کی محبت اپنے خلوص میں کمال ہے۔
  • عبادت ہماری اخلاقیات کا تعین کرتی ہے۔
  • اللہ تعالیٰ کی اطاعت اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت اس کی عظمت شان کا بنیادی حق ہے:

اس کو بیان کرنے سے پہلے یہ بہتر ہو گا کے ہم خدا کی ذات کو عبادت کے تناظر میں سمجھیں۔ خدا کا مطلب ایک ایسی ذات، جو عبادت اور پرستش کے لائق ہو ۔اور یہ خدا کے ہونے کے لیے ضروری امر بھی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ قرآن بار بار ہماری توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرواتا ہے ۔

“میں الله ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں تم میری ہی عبادت کرو اور میری ہی یاد کی نماز پڑھا کرو۔”[xvii]

چونکہ خدا کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ذات جو ہماری عبادت کے لائق ہے۔ لہذا مخلوق کی تمام تر عبادتوں کا محور اسی ذات کو ہونا چاہیئے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے۔ اسکی ذات اقدس بہترین ناموں اور صفات کی حامل ہے اور ہر ہر صفت کا ملیت کی انتہا تک پہنچی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اسلامی الہیات میں اللہ کی ایک صفت “الودود” ہے،جس سے مراد نہایت محبت کرنے والے کے ہیں اور اس سے بڑھ کر کوئی محبت نہیں کر سکتا۔ انہی صفات کی وجہ سے یہ اللہ کی ذات کا حق ہے کہ اسکی عبادت کی جائے۔ ہم ہمیشہ اچھے اخلاق، علم اور وجدان کے حامل لوگوں کی تعریف کرتے ہیں، تو خدا تعالی کی ذات جو کہ الرحمٰن، الرحیم ہے، العلیم ہے اور الحکیم ہے، ہر نقص سے پاک ہے، وہ کیوں کر مخلوق کی ہمہ وقت حمد و ثنا کی حقدار نہ ہو گی۔ یہی حمدوثنا/تعریف عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ وہ علیم و خبیر ذات ہے جس کو اپنی قدرت سے یہ معلوم ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کس امر میں بھلائی ہے اور وہ اپنے بندوں کے بارے میں خیر چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ صرف ایسی ذات کا ہی حق ہے کہ اس سے مناجات کی جائیں ا ور اس کو حاجت روا مانا جائے۔ خدا ہماری عبادات کا حقدار ہے کیوں کہ خدا میں ایسا کچھ ہے، جو کہ اسے اس کا حقدار بناتا ہے۔ اس کے نام اور صفات ہر لحاظ سے کامل ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ ملحوظ رہے کہ وہ ہماری عبادت کا حقدار ہے، اگر ہمیں اس کی طرف سے کوئی راحت نہ بھی ملے۔ خدا کا معبود ہونا، اس کا رحم کرنے والی صفت سے مشروط نہیں ہے۔ خدا کی عبادت کو دوطرفہ تعلقات کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا، کہ اس نے ہمیں اچھی زندگی عطاء کی اور ہم بدلے میں اس کی عبادت کرتے ہیں۔ خدا کی عبادت کسی لین دین والے تعلق کی بنیاد پر نہیں ہے کہ اگر سب کچھ “اچھا” ہے، تب ہی عبادت کی جائے گی۔ اگر ہماری ساری زندگی مصیبتوں میں بھی گزرے، پھر بھی اسکی عبادت ضروری ہے۔ خدا کی ذات کی پرستش صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے، بلکہ یہ اس کی ذات کی عظمت ہے، جو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ اس کی عبادت اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ فقط وہی اس کا حقدار ہےاور اس لیے نہیں کہ وہ کس طرح لوگوں کے حق میں فیصلے کرتا ہے اور اس کی حکمت کیسے ظاہر ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا اور قائم کرنے والا ہے

خدا نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ اسی نے کائنات کو قائم رکھا ہے اور ہمیں اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ قرآن نے کئی مقامات پر اس حقیقت کو بیان کیا ہے، جو پڑھنے اور سننے والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو بیدار کرتا ہے۔

“وہی تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں تمہارے لیے پیدا کیں”۔ [xviii]

“کیا وہ ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے  اور خود پیدا کیے جاتے ہیں۔”[xix]

“لوگو اللہ تعالیٰ کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق ہے) جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟”[xx]

لہذا، ہر وہ چیز جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، تمام لوازمات جو کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے درکار ہیں، سب اللہ تعالیٰ کے مرہون منت  ہیں۔ اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں۔ جیسا کہ ہم سمیت ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہے، وہی ہر چیز کا مالک ہے۔ لہذا ہمیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو ماننا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا مالک ہے، ہمیں اس ہی کی تابعداری کرنی چاہیئے۔ ان سب سے انکار نہ صرف حقیقت سے انکار ہو گا بلکہ یہ انتہا درجے کی ناسمجھی، غرور اور ناشکری کا عمل ہو گا جیسا کہ یہ پہلے اس باب میں بیان ہو چکا۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اور ہماری ذات کی موجودگی اس کی مرہونِ منت ہے۔ ہم خودمختار یا اپنے لیے کافی نہیں ہیں۔ ہم اپنی بقا کو قائم نہیں رکھ سکتے، اگرچہ ہم سے کچھ اس دھوکے میں ہیں کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ہم آرام دہ اور شاہانہ زندگی گزار رہے ہوں یا غربت اور افلاس بھری، ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہی کے بھروسے پر ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بنا کچھ بھی ممکن نہیں اور جو کچھ بھی ہو رہا وہ اس کی اجازت سے ہے ۔ ہماری زندگی میں کامیابیاں اور جو بڑی چیزیں ہم نے حاصل کیں، وہ بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی مرہونِ منت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں وہ عوامل پیدا کیے، جن کی بنیاد پر ہم کامیابی حاصل کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل نہ ہو تو ہم کبھی بھی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے احسان مندی اور انکساری کو ابھارنے کے لئے یہ سمجھ ہی کافی ہے کہ ہم ہر چیز کے لئے اس کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اختیار کرنا اور اس کی عنایات کا احسان مند ہونا بھی عبادت کی ہی شکل ہے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکات سے انکار کی ایک بڑی وجہ خود انحصاری کا فریب بھی ہے جو کہ صرف غرور اور تکبر کا نتیجہ ہے۔ قرآن میں اس بات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

” مگر انسان سرکش ہو جاتا ہے۔ جب کہ اپنے تیئں غنی دیکھتا ہے۔”[xxi]

” اور جس نے بخل کیا اور بےپروا بنا رہا۔ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔ اسے سختی میں پہنچائیں گے۔ اور جب وہ (دوزخ کے گڑھے میں) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ ہمیں تو راہ دکھا دینا ہے۔”[xxii]

اللہ تعالیٰ کی ہم پر بےشمار عنایات ہیں

” اور اگر اللہ تعالیٰ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو۔ کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا بےانصاف اور ناشکرا ہے۔”[xxiii]

ہمیں ساری زندگی اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیئے کیوں کہ ہم اس کی رحمت کا کبھی بھی بدلہ نہیں چکا سکتے۔ دل کی ہی مثال لیجئے۔ انسانی دل ایک دن میں100,000 بار دھڑکتا ہے جو کہ ایک سال میں تقریباً 35,000,000 بار بنتا ہے۔ اگر ہم 75 سال تک زندہ رہیں تو دل کی دھڑکن 2,625,000,000 بار ہوگی۔ ہم میں سے کتنوں نے کبھی اس دھڑکن کو گننے کی کوشش کی ہوگی؟ کسی نے بھی نہیں۔ اس سب کو گننے کے لئے آپ کو اپنی پیدائش کے دن سے گنتی شروع کرنا ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک عام زندگی نہیں گزار سکیں گے کیوں کہ آپ کو دل کی ہر دھڑکن کو اسی وقت گننا ہوگا۔ تاہم دل کی ہر دھڑکن ہمارے لئے قیمتی ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ہمارا دل ٹھیک طرح سے کام کرتا رہے، ہم میں سے ہر  کوئی  سونے کا پہاڑ تک خرچ کرنے کو تیار ہوگا  ۔ لیکن پھر بھی ہم اس ذات کو بھول جاتے ہیں اور اس کی نفی کرتے ہیں، جس نے دل پیدا کیا اور اس کے ٹھیک طرح کام کرنے کو یقینی بنایا۔ یہ مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا احسان مند ہونا چائے اور شکر گزاری کا یہ احساس عبادت ہی کا ایک حصہ ہے۔ اوپر کی مثال صرف ایک دھڑکن کے متعلق ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جو دوسری عنایات فرمائی ہیں، ان کے لئے ہمیں اس کا کتنا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ اس تناظر میں دھڑکن کے علاوہ ہر چیز اضافی نفع ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات کو ہم شمار نہیں کر سکتے، اور اگر ہم ان کو گن بھی سکیں، تب بھی ہمیں اس صلاحیت کے لئے بھی اس کا شکر ادا کرنا چایئے۔

اگر ہم اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں تو اپنے رب سے بھی محبت کریں گے۔

اللہ سے محبت اللہ کی عبادت کا بنیادی پہلو ہے۔ محبت کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے ایک خود سے محبت ہے۔ یہ محبت اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب دل میں لمبی عمر، خوشی کا احساس، غم سے اجتناب اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی خواہش پیدا ہو۔  یہ ہم سب میں پائی جاتی ہے کیونکہ ہم سب ہی اچھی اور خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات ایرک فرام[1] کہتا ہے کہ اپنے آپ سے محبت انا اور تکبر کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ دراصل احساس ذمہ داری ہے کہ ہمیں خود اپنا خیال رکھنا ہے اور اپنی عزت کرنی ہے۔ محبت کی یہ قسم دوسروں کا خیال رکھنے کے لئے لازم ہے۔ اگر ہم اپنا خیال نہیں رکھ سکتے تو ہم دوسروں کا خیال کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اپنے آپ سے محبت کرنا دراصل اپنے آپ سے ہمدردی کا جذبہ ہے۔ اس طرح ہمارے جذبات و خیالات ہماری ذات سے مربوط ہوتے ہیں۔ اگر ہم خود اپنے آپ سے مربوط نہیں ہوں گے تو ہم دوسروں سے کیسے رابطہ رکھ سکتے ہیں؟ ایرک فرام اس بات کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ محبت” خود اپنے وجود،  انفرادیت اور خود اپنے آپ سے محبت کی سمجھ کے پہلو کو اجاگر کرتا ہے جو کسی دوسرے سے محبت اور اس کے احساسات اور جذبات کی قدر کو سمجھنے میں اہم ہے۔ “[xxiv]

اگر کسی شخص کے لئے اپنے آپ سے محبت لازم ہے، تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ اپنے خالق سے بھی محبت کرے۔ کیوں؟ کیونکہ اللہ نے اس کے جسم کو پیدا کیا اور اسی بنا پر وہ اطمینان و خوشی اور درد سے اجتناب کے جذبہ سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمیں ہمارے زندگی کا ہر قیمتی لمحہ بخشا، اس کے باوجود کہ ہم اس کے اہل و مالک نہ تھے۔ الہیات کے عظیم عالم غزالی نے اس پہلو کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا:

“اگر انسان کا اپنے آپ سے محبت کرنا لازم آتا ہے تو اس ذات سے محبت بالاولی لازم آتی ہے، جس نے اس کا وجود بنایا اور اس کی ذات کے تسلسل کو، اس کے کردار کو، اس کے خارجی و داخلی خصوصیات کے ساتھ نوازا جو دراصل اس کے جوہر اور اس کا مسبب ہے۔ جو بھی اس گوشت کے جسم کا معترف و محب ہے اور اللہ سے محبت کا جذبہ اس کے دل میں ناپید ہے، تو گویا وہ اپنے خالق و رب کا انکار کرتا ہے۔ وہ اس کا مستند علم نہیں رکھتا: اس کی بصیرت محدود ہے”[xxv]

اللہ بہت محبت کرنے والا ہے اور اس کی محبت سب سے زیادہ خالص ہے۔

اللہ الودود ہے۔ اس کی محبت خالص ترین ہے۔ یہی کافی ہے کہ اللہ سے ہر کوئی محبت کرے اور اس سے محبت کرنا اس کی عبادت کا بنیادی جزو ہے۔ تصور کیجیئے کہ  میں آپ کو بتاؤں کہ فلاں جگہ پر ایک بہت محبت کرنے والا شخص ہے اور اس کی محبت کا کوئی مقابلہ نہیں  کر سکتا۔کیا آپ کے دل میں بھی اس سے روبرو ملنے کی خواہش اور آخر کار اس سے محبت نہیں ہو جائے گی۔

 اردو زبان میں محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ لیکن بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کا اسلامی بنیادوں پر اور ان بنیادوں پر جن کا قرآن نے تذکرہ کیا ،محاکمہ کریں ،جن میں اس کی رحمت (رحمۃ)، اس کا خصوصی رحم (رحیم)، اور اس کی خصوصی محبت(مؤدت) شامل ہیں۔ ان اصطلاحات کو جاننے کے بعد ہم بھی اللہ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔

رحم

یہ کہا جاتا ہے کہ رحم کا دوسرا معنی محبت ہے۔ اللہ کا ایک نام الرحیم ہے۔ اردو ترجمہ اس اصطلاح کی گہرائی اور شدت کا محاکمہ نہیں کر سکتا۔ لفظ الرحیم کے تین حصے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کی رحمت کی شدت بہت زیادہ ہے، دوسرا یہ کہ اس کی رحمت درمیانے درجے کی ہے۔ تیسرا یہ کہ اس کی محبت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اللہ کی رحمت ہر شے پر غالب ہے اور وہ ہدایت کو لوگوں کے لئے پسند کرتا ہے۔ اللہ اپنی کتاب قرآن میں فرماتا ہے:

“۔ ۔ ۔ لیکن میرے رحمت ہر شہ پر غالب ہے۔ ۔ ۔ “[xxvi]

“اس رحیم رب نے قرآن سکھایا۔”[xxvii]

مندرجہ بالا آیات میں اللہ فرماتا ہے اللہ رحیم ہے، جس کا معنی یہ بھی نکلتا ہے کہ اللہ” ربِ رحمت” ہے کہ جس نے یہ قرآن سکھایا۔ یہ ہے عربی کلام کی خوبصورتی ، کہ جس سے یہ معنی نکل رہا ہے کہ قرآن اللہ کی رحمت کا اظہار ہے۔ دوسرے الفاظ میں قرآن اللہ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لئے ایک محبت بھرا خط ہے۔ جہاں تک سچی محبت کا تعلق ہے، تو جو محب ہوتا ہے وہ اپنے محبت کرنے والوں کا بھلا چاہتا ہے، ان کو مصیبتوں سے بچانے کی تدبیر کرتا ہے اور ان کو اطمینان کی راہ دکھاتا ہے۔ قرآن اس سے ذرا بھی مختلف نہیں، یہ انسانیت کو پکارتا ہے۔ انھیں کھرے اور کھوٹے کی تمیز دکھلاتا ہے اور خوش خبریاں دیتا ہے۔  

خصوصی رحمت

الرحیم سے الرحمن مربوط ہے۔ ان دونوں الفاظ کا ماخذ ایک ہی ہے، یعنی یہ لفظ رحم سے نکلے ہیں، یعنی ماں کا پیٹ۔ لیکن ان میں فرق بہت واضح ہے۔ الرحیم سے مراد خاص طرح کا رحم ہے، جس کو جو چاہے حاصل کر لے۔ جو اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر لے، وہ  در اصل  اللہ کے اس خصوصی رحم کا مستحق بن گیا۔ یہ خصوصی رحمت مومنوں کے لئے ہے، جو ان پر جنت کی صورت میں نچھاور ہو گی۔ جو ابدی ہو گی۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پرفرحت و شادمانی اور  امن کی صورت میں ہو گی۔

خصوصی محبت

قرآن کے مطابق اللہ الودود ہے یعنی بے پناہ محبت کرنے والا۔ یہ اس محبت کی طرف اشارہ ہے جو روز روشن کی طرح واضح ہے۔ یہ لفظ” وُد” سے ماخذ ہے، جس کا معنی ہے کسی کو کچھ عطا کر کے اپنی محبت کا اظہار کرنا: “اور وہ بخشنے والا، اور بے پناہ محبت کرنے والا ہے۔ “[xxviii]

اللہ تعالیٰ کی محبت ہر محبت سے بالا ہے۔ اس کی محبت دنیا کی تمام محبتوں سے عظیم ہے۔ مثال کے طور پر ماں کی محبت بلاشبہ اپنی اولاد کے لئے بلا کسی مقصد کے ہوتی ہے لیکن وہ پھر اپنی اولاد کے لئے فطری محبت ہوتی ہے۔ یہ محبت اس کی ممتا کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے اور اس کا یہ جذبہ ِقربانی اس کو مکمل کرتی ہے۔  اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ وہ بے نیاز ہے اور وہ قیوم ہے، وہ بہترین ہے جس میں کوئی نقص نہیں، وہ کسی بھی شہ کا محتاج نہیں۔ اللہ کی محبت کسی شے کی تمنا کی وجہ سے نہیں، یہ اس لئے کہ اس کی محبت خالص ترین ہےاور اس کو مخلوق سے محبت کر کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

اس سب کی روشنی میں ہم اس سے محبت کیوں کر نہ کریں، جب کہ اس کی محبت ہمارے تصور سے بھی زیادہ وسیع اور پر خلوص ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ ان بچوں کی ماں سے بڑھ کر رحیم اور شفیق ہے “۔ [xxix]

اگر اللہ الودود ہے اور اس کی محبت دنیا کی ہر شے سے زیادہ عظیم تر ہے، تو  ہمیں  اپنے آپ کو اللہ کے لئے محبت کی گہرائیوں میں ڈبو دینا چاہیئے۔ ہمیں اللہ سے محبت اس لئے بھی ہونی چاہیئے کیونکہ ہم اس کے بندے ہیں۔ غزالی نے انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا: “وہ جو بصیرت رکھنے والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کوئی محبت اصل نہیں مگر حب الہی، کوئی محبت کا مستحق نہیں مگر اللہ کی ذات۔ “[xxx]

روحانی نقطہ نظر سے، اللہ کی محبت وہ کامیابی ہے، جو کسی کے لئے اس کی زندگی کا سب سے مفید حاصل ہو سکتا ہے، کیوں کہ حب ِالہی روح کے سکون، نرمی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کا باعث ہوتا ہے۔ اللہ سے محبت نہ ہونا، نہ صرف ناشکری کی صورت ہے بلکہ محض نفرت کے حصول کا ہی منبع ہے۔ اس سے محبت نہ کرنا، جو سب سے عظیم محبت کرنے والا ہے اور ہمارے لئے احساس محبت کا سبب ہے، دراصل اس محبت کے جذبہ کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔

اللہ اپنی اس خصوصی محبت کو ہم پر ٹھونستا نہیں ہے۔ تاہم، اپنی رحمت کے ذریعے، اپنی محبت کو قبول کرنے اور اس کا مستحق بننے کے لئے مخلوق کو اس کی  زندگی کا ہر ہر قیمتی لمحہ فراہم کرتا ہے۔ اور جو اس کا مستحق بننا چاہتا ہے، اسے اس کے ساتھ اس تعلق میں لازماً داخل ہونا پڑتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے  جیسے اللہ تعالیٰ ہمارا انتظار کر رہا ہے کہ ہم اس کی محبت کو قبول کریں۔ تاہم، ہم نے اس کی محبت کے تمام دروازے اپنے اوپر بند کر لئے ہیں۔ ہم نے یہ دروازے اس کا انکار کر کے، اس کو نظر انداز کر کے اور اس کو مسترد کر کے اپنے اوپر بند کیے ہیں۔ اگر اللہ اپنی اس محبت کو ہم پر ٹھونس دیتا تو محبت اپنے معنی کھو دیتی۔ ہمارے پاس یہ اختیار ہے، آیا کہ اس کی محبت قبول کر کے اس کی ابدی رحمتوں کے مستحق ہو جائیں یا اس محبت اور اس ہدایت کا انکار کر کے منفی روحانی نتائج پائیں۔

وہ الودود ہم سے محبت کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کی محبت کو قبول اور اس کے با معنی ہونے کے لئیے یہ ضروری ہے کہ ہم اللہ سے محبت کریں اور اس راہ کو اختیار کریں جو ہمیں بلآخر اس کی محبت کا مستحق بنا دے۔ وہ راستہ اللہ  کے نبی ﷺ کا راستہ ہے (دیکھئے باب 14):

“کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ “[xxxi]

عبادت ہمارے وجود انسانی کی دلیل ہے

اللہ ہماری عبادت کا اس لئے مستحق ہے کیونکہ عبادت ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کون ہیں۔ جیسے ہمارے لئے کھانا، پینا، سانس لینا فطری ضرورت ہے، عبادت بھی ہماری فطری ضرورت ہے (دیکھئے باب 4)۔ اس نقطہ نگاہ سے ہم پیدا ہی عابد کے طور پر ہوئے ہیں کیونکہ یہی ہماری اصل ہے اوریہی ہمارا  الہی مقصد ہے ۔ اللہ کی عبادت ہماری منطقی ضرورت ہے، یہ ایسا ہے جیسے کہا جائے کہ گاڑی کا رنگ سرخ ہے۔ وہ سرخ اس لئے ہے کیونکہ ہم نے اس کا رنگ سرخ طے کیا ہے،یعنی  یہ تعریف کے اعتبار سے ہی سرخ ہے۔ اسی طرح، ہم تعریف کے اعتبار سے عابد ہیں۔ اللہ نے ہماری تعریف اور ہمیں بنایا ہی اسی مقصد کے لئے ہے: “میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اپنی عبادت کے لئے۔ ”  [xxxii]

حتی کے وہ لوگ جو اللہ پر یقین نہیں رکھتے اور وہ  اس کا بندگی کا حق  مسترد کر دیتے ہیں، وہ بھی دراصل اس کی طرف عبادت و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر آپ اللہ کی عبادت نہیں کرتے ،تب بھی آپ کسی اور شے کی عبادت میں مصروف ہوں گے۔ اسلامی نقطہ نظر سے، وہ چیز جس سے  آپ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، وہ آپ کا معبود ہو گا۔اس میں کوئی بھی چیز ،جس کو آپ سب سے زیادہ طاقت کے ساتھ متصف کرتے ہیں، شامل ہے۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ کوئی نظریہ، کوئی لیڈر، کوئی خاندان کا فرد یا خود ان کا نفس ہو سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں لوگ مندرجہ بالا چیزوں کو بت بنا لیتے ہیں۔ شرک یا بت پرستی فقط یہ نہیں ہے کہ آپ کسی اور کہ آگے سجدہ ریز ہوں۔

اللہ تعالیٰ کی پہچان ہماری فطرت میں موجود ہے۔ جب اللہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ اس ہی کی عبادت کی جائے تو یہ دراصل رحمت اور محبت کا اظہار ہے۔ یہ ایسا ہی ہے  کہ جیسے ہر انسان کے دل میں سوراخ ہو۔ یہ سوراخ مادی نہیں بلکہ روحانی ہو اور روحانی سکون کی مدد سے بند کیا جائے۔ ہم یہ سکون نئی ملازمت سے، نئی گاڑی سے، نئے گھر سے، چھٹی کے دن سے، سفر کر کے یا کوئی مشہور کورس، جو اپنے آپ کو پر سکون کرنے میں مدد دے، لے کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب بھی ہم  ان مادی  اشیاء سے اپنا یہ سوراخ پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ایک نیا سوراخ ابھر آتا ہے۔ ہم کبھی بھی پوری طرح سے پر سکون نہیں ہو پاتے اور کچھ دیر بعد ہم پھر  اس روحانی سوراخ کو بھرنے کے لئے کوئی اور مشغلہ اختیار کرتے ہیں۔ جب ایک بار ہم اپنے اس سوراخ کو اللہ کی محبت سے بھر لیتے ہیں تو یہ سوراخ مستقل بند ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم سکون اور امن حاصل کر لیتے ہیں ،جو اس مادی دنیا میں نہیں مل سکتا اور ایک ایسا اطمینان، جو کسی بھی طوفان سے تہ و بالا نہیں ہو سکتا۔

اللہ کی اطاعت اس کی عبادت کرنے کے مترادف ہے ۔

“اور اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ [xxxiii]کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے”[xxxiv]

جب بھی میں جہاز میں سفر کرتا ہوں اور جب بھی جہاز کسی بھی خرابی کا شکار ہوتا ہے، عام طور پر جہاز کے سپیکرز سے یہ آواز سنتا ہوں جس میں سیٹ بیلٹ باندھنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔ میرا عام طور پر یہ رد عمل ہوتا ہے کہ میں  بیٹھ جاتا ہوں اور ہدایات کے مطابق سیٹ بیلٹ باندھ لیتا ہوں اور دعائیں کرتا ہوا بہتری کی امید کرتا ہوں۔ میں ہدایات پر اس لئے عمل کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس جہاز کے حکام اس بارے میں بہتر جانتے ہیں کہ جہاز کو اس پریشانی کے معاملات میں کیسے سنبھالنا ہے۔ میرا یوں احکام کی ہدایات کی اتباع کرنا منطقی طور پر درست عمل ہے۔ ایک متکبر شخص ہی ان ہدایات کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ کیا آپ سات سال کے ایسے بچے کو سنجیدہ لیں گے جو کہتا ہو کہ ہمارا استاد ریاضیات اچھے طریقے سے نہیں پڑھاتا؟

اسی روشنی میں، اللہ کے احکام کی معصیت محض احمقانہ عمل ہے۔ اللہ کی اتباع کرنی چاہئے، چاہے  ہم اس کے تمام امور کے پیچھے اس کی حکمت ایذدی سے نا واقف ہوں، ہی منطقی طور پر درست عمل ہے۔ اللہ کی حکمت اس کے لا محدود علم پر مبنی ہے۔ وہ اصل حاکم ہے۔ اللہ کی معصیت کرنا ایسا ہی ہے جیسے ایک دو سال کا بچہ صفحے پر لکیریں لگا رہا ہو اور اس کو یہ گمان ہو کہ وہ شیکسپئیر سے بھی اچھا مصنف ہے۔

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اپنی عقول کا استعمال ہی نہ کریں بلکہ ہمیں اللہ نے خود عقلوں کو استعمال کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ تاہم، اگر ہم کسی عمل کے بارے میں جان لیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو ہماری کاوش اسی کی اطاعت میں صرف ہونی چاہیئے۔

اللہ کی پیروی میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ اگر مومن کے دل میں اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت کا خیال ہو گا تو وہ لازمی طور پر اس سے ڈرے گا۔ تاہم یہ ڈر وہ نہیں ہے جو کسی اور وجود سے ہو یا کسی دشمن سے ہو، یا کسی بری/ شیطانی طاقت سے ہو، بلکہ یہ خوف سکون و اطمینان، محبت کے چھن جانے اور ایمان کے نقصان کا ہو۔[xxxv] ہم اللہ سے اس کی محبت کے چھن جانے کی وجہ سے ڈرتے ہیں۔ یہ خوف کی وہ قسم ہے جو لازمی ہونی چاہیئے۔

ہم اللہ سے منفی روحانی نتائج سے بچنے کے لئے ڈرتے ہیں۔ اس میں اللہ کی خصوصی محبت اور اللہ کے ساتھ قائم رابطہ شامل ہے، جو عبادت کے ذریعے بنا تھا۔ اللہ کی اتباع سے دوڑنا، اس کی رحمت سے دور جانے کے مترادف ہے اور اس کی رحمت سے دوری، ہمارے اپنے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ غزالی اس خوف کو ایسا خوف شمار کرتے ہیں جو بیش قیمت چیز کے چھن جانے سے لاحق ہو: “جو کسی چیز سے محبت کرتا ہے ،اس کے دل میں اس کے چھن جانے کا خوف ہوتا ہے۔ پس محبت، خوف کی غیر موجودگی میں ممکن نہیں، محبت کی جانے والی چیز گم ہو سکتی ہے۔ “[xxxvi]

قرآن اس خوفِ خدا کا تذکرہ کرتا ہے اور اس خوف کو اسی طرح سمجھنا چاہیئے، جیسے میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں۔ یہ کتابِ خداوندی اللہ کی پہچان کو ظاہر کرتی ہے، جسے اسلامی الہیات میں تقوی کہتے ہیں۔ کوئی بھی قرآن کا نسخہ، جس کا ترجمہ ہوا ہو، ان دو اصطلاحات کو خوبصورتی سے بیان کرے گا۔ ان کے معنی الگ ہیں، لیکن ان میں کچھ مماثلت بھی ہےجن کا تعلق ایسے خوف سے ہے، جس کا اثر اللہ کی معصیت کی وجہ سے انسان کی روحانیت پر ہو۔ اللہ کی پہچان سے مراد، اللہ کی ہر وقت موجودگی کا دل میں خیال ہونا ہے ۔کہ وہ جانتا ہے جو میں کرتا ہوں، اور اللہ کی محبت کی خاطر ہمیں وہی کرنا چاہیئے جس سے وہ راضی ہو۔

کیا اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی ضرورت ہے؟

عام طور پر یہ سوال اسلام کے تصور سے نا واقفیت کی بنیاد پر اٹھایا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا مرتبہ یہ وارد ہو چکا ہے کہ اللہ کی ذات ہر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔

لہذا اللہ تعالیٰ کو ہماری عبادت کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ اسے ہماری عبادت سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور ہمارے عبادت نہ کرنے سے بھی اسکی شان و عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے ہمیں تخلیق ہی اس طرح کیا ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں، اور اس عبادت کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جسمانی اور روحانی دونوں طرح سے فائدہ مند بنایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لیے کیوں پیدا کیا ؟

اس جواب سے دراصل مزید ایک سوال کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی بندگی کے واسطے کیونکر پیدا کیا؟ اللہ تعالیٰ خود چونکہ سراپا اچھائی ہیں مزید برآں، وہ خود بھی اچھائی کو پسند کرتا ہیں۔ چنانچہ ہر اچھا کام اسکی عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ دراصل ایک باشعور مخلوق کی تخلیق اس لیئے کی گئی کہ وہ اس الہ کی بندگی کا اختیار اپنی منشاء سے کریں اور اچھا کام سر انجام دیں – کچھ اس قدر عبادت کریں کہ وہ انبیاء کے مقام پر پہنچ جائیں اور پھر ان کو آخر کار اللہ تعالیٰ کی موجودگی میں ابدی زندگی گزارنے کا موقع ملے-ایک ایسی ابدی زندگی کہ جس میں رب کا وجود اور اس کی رحمت اس کا ساتھی ہو۔  اب جو اچھا کام کرے گا اسے اچھائی یعنی رب اور اسکی رحمت ملے گی۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا کیونکہ وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم اسکی رحمت یعنی جنت کے حقدار بنیں۔ اس رب نے یہ بات واضح کر دی کہ جو اس کی جنت میں داخل کیا جائے گا دراصل اس کی رحمت کا مزہ چکھے گا۔ [xxxvii]: “اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی راه پر ایک گروه کر دیتا۔ وه تو برابر اختلاف کرنے والے ہی رہیں گے بجز ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے، انھیں تو اسی لئے پیدا کیا ہے، اور آپ کے رب کی یہ بات پوری ہے کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے پر کروں گا”۔ [xxxviii]

اللہ تعالیٰ کے بہترین ناموں اور صفات کا اظہار ہونا تھا اس لیے عبادت کرنے والی مخلوق کا تخلیق ہونا ناگزیر تھا. ایک فنکار ناگزیر طور پر آرٹ تخلیق کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی فنکارانہ صفت کا اظہار ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ معبود ہے اس لیے یہ ناگزیر تھا کہ اسکا اظہار بھی ہو، اسکی ایسی مخلوق ہو جو اسکی عبادت کرتی ہو۔ یہ ناگزیریت ضرورت پر مبنی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات کا ایک لازمی اظہار اور مثال ہے۔

اس کو سمجھنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارا علم چونکہ محدود ہے اس لیے ہم کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ پہلے تذکرہ گزر چکا، اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہو گئے تو یا تو ہم خدابن جائیں گے یا خدا ہمارے جیسا ہی کوئی تصور ہو گا۔ یہ دونوں صورتیں ناممکنات میں سے ہیں۔ خدا نے اپنی دائمی حکمت کی وجہ سے ہمیں ایسا پیدا کیا کہ  ہم اس کا مکمل کھوج اپنے علم سے نہیں لگا سکتے۔  خدا کو بس اتنا ہی سمجھنا ممکن ہے، جتنا خود اس نے اپنے بارے میں بتایا۔

چنانچہ اب صورتحال کو سمجھنے کی ایک عملی توجیہ یہ ہے کہ فرض کریں کہ آپ ایک چٹان کے کنارے پر کھڑے ہیں اور کسی نے آپ کو نیچے سمندر میں دھکا دے دیا۔ سمندر کے پانی میں بہت سی خونخوار مچھلیاں موجود ہیں۔ تاہم جس نے آپ کو دھکا دیا، اسی نے آپ کو ایک نقشہ اور ایک آکسیجن ٹینک دیا ،جس سے آپ کو ایک خوبصورت جزیرہ پر پہنچنے میں مدد ملے گی، جہاں آپ ہمیشہ آرام سے رہیں گے۔ اگر آپ ذہین ہیں تو آپ نقشہ کا استعمال کریں گے اور جزیرہ تک با حفاظت پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ تاہم اگر آپ اسی سوال پر پھنس گئے، کہ” تم نے مجھے پھینکا کیوں تھا؟” تو یا تو آپ کو شارک کھا جائے گی یا آکسیجن ختم ہونے پر آپ سانس بند ہونے کی وجہ سے مر جائیں گے۔ مسلمان کے لئے قرآن اور رسول ﷺ نقشہ اور آکسیجن ٹینک ہیں۔ یہ ہمارے وسائل ہیں جو محفوظ طریقے سے زندگی گزارنے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ ہمیں خدا کو جاننا، اس سے محبت کرنا اور اس کی اطاعت کرنا ہے۔ ہمارے پاس اس پیغام کو نظر انداز کر کے خود کو نقصان پہنچانے کا اختیار ہے، یا اسے قبول کر کے خدا کی محبت اور رحمت کا حق دار ہونے کا۔ اب یہ ہماری صوابدید پر ہے کہ ہم کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

بندۂ آزاد

وجودیت کے اعتبار سے خدا کی عبادت درحقیقت آزادی ہے۔ اگر ہم ایک خدا کی عبادت کا انکار کریں تو پھر ہمیں ایک سے زیادہ خداؤں کے سامنے جھکنا ہو گا۔ ہم اپنی ہی خواہشات اور انا کے پیروکار بن جائیں گے۔ ہر ایک بندہ سوچتا ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور باقی سب غلط اور وہ اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح ہم ایک اپنے ہی غلام بن کر رہ جاتے ہیں ۔ قرآن اس نقطے کو بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنی خواہشات کو اپنا رب بنا لیا ہے : ” بھلا بتاؤ جس شخص نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہو، تو (اے پیغمبر) کیا تم اس کی ذمہ داری لے سکتے ہو ؟ یا تمہارا خیال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں ؟ نہیں ! ان کی مثال تو بس چار پاؤں کے جانوروں کی سی ہے، بلکہ یہ ان سے زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ “[xxxix]

اپنی عبادت بعض دفعہ ہمیں مختلف قسم کے دباؤ، نظریات، معیاروں اور ثقافتوں کی عبادت تک لے جاتی ہیں۔ وہ ہمارا مقصود بن جاتے ہیں، ہم ان سے محبت کرنے لگتے ہیں، ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں اور ہم ہر اس شخص کی اطاعت کرنے لگتے ہیں، جو ہمیں یہ مہیا کردے ۔ مثال کے طور پر مادیت پرستی۔ ہم پیسے اور مادی چیزوں سے مغلوب ہوچکے ہیں۔ ہمارے سارا وقت اور کوششیں مال جمع کرنے کے لئے وقف ہیں۔ دنیا کی کامیابی اور آسائش کا حصول ہماری زندگیوں میں بنیادی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس طرح سے دنیاوی چیزیں ہم پر غالب آ جاتی ہیں اور خدا کی عبادت کے بجائے ہمیں مادہ پرستی کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ بات ہر شخص پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن مادیت پرستی کی یہ صورت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔

جین ایم ٹونگ اور ٹیم کیسر [2] کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ نوجوانوں کے درمیان نسل در نسل مادیت پرستی میں اضافہ ہوا ہے – یہ مطالعہ 1976 سے 2007 تک اعداد و شمار پر مبنی تھا اور یہ تعداد بہت زیادہ ہے۔ سماجی عدم استحکام جیسے طلاق، بے روزگاری، نسل پرستی، انتشار کا رویہ، زندگی میں عدم اطمینان اور دیگر سماجی مسائل میں اور مادیت پرستی میں کچھ نہ کچھ تعلق ضرور موجود ہے۔ [xl]

اس کی تائید ایس۔ جے۔ اوپری[3] کی تحقیق سے ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اگر بچپن مادیت پرستی میں گزرے تو جوانی میں زندگی میں عدم اطمینان میں اضافہ ہوتا ہے۔ [xli]

بے شک ایسی تحقیقات سو فیصد درست نھیں ہوتیں اور ان پر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس سے مجموعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسی ترجیحات درست نہیں۔ آج کل  ہماری پہچان ہماری ملازمت، آمدنی، دولت اور مال  سے ہے. ہماری پہچان آہستہ آہستہ مادی چیزیں بنتی جا رہی ہیں بجائے اس کے کہ  ہمارے اخلاقی معیارات، بشمول خدا اور دیگر انسانوں سے منسلک اعلی اقدار  ہماری پہچان  ہوں۔

لازمی طور پراگر ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کر رہے ہیں توہم کسی اور کی پرستش میں مبتلا ہیں۔ یہ ہماری خواہشات، انا، یا مادی چیزیں ہو سکتی ہیں۔ اسلامی تہذیب میں اللہ تعالیٰ کی عبادت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم کون ہیں کیونکہ یہ ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کو بھول کر کسی اور چیز کی عبادت شروع کر دیں تو ایک دن ہم اپنی  شناخت بھی بھول جائیں گے:

” اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔” [xlii]

ہماری اپنی سمجھ بوجھ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے تعلقات پر منحصر ہے، جو ہماری عبادت اور بندگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اس معنی میں، جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں تو ہم دوسرے “معبودوں” سے آزاد ہو جاتے ہیں، چاہے وہ ہم خود ہوں یا چیزیں، جن کے ہم مالک ہیں یا چیزیں، جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔

” خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو اور ایک آدمی خاص ایک شخص کا (غلام) ہے۔ بھلا دونوں کی حالت برابر ہے۔ (نہیں) الحمدلله بلکہ یہ اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ [xliii]

اللہ تعالیٰ لازمی طور پر ہم سے کہہ رہا ہے کہ اگر ہم اسکی عبادت نہیں کریں گے تو ہم آخرکار کسی اور کی عبادت کرنے لگ جائیں گے۔ یہ مادی چیزیں پہلے ہمیں اپنا غلام بنائیں گی، پھر ہماری آقا بن جائیں گی۔ قرآن کی مثال بتا رہی ہے  کہ ایک اللہ تعالیٰ کو نہ مان کر ہمیں بہت سے خداؤں کو ماننا پڑتا ہے اور ہر خداہم سے کچھ نہ کچھ مانگتا ہی ہے۔ اور انکے آپس میں بھی اختلاف ہوتے ہیں، جس سے پریشانیوں، الجھنوں اور غمو ں کی حالت ہمارا مقدر بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ، جس کے پاس ہر چیز کا علم ہے، جو ہمارے بارے میں سب جانتا ہے، اوررحیم و کریم بھی ہے۔  وہ ہمیں بتا رہا ہے کہ صرف اس کی بندگی ہی ہمیں دوسرے تمام جھوٹے خداؤں سے نجات دلا سکتی ہے، جنھوں نے اس سچے خدا کی جگہ لے رکھی ہے۔

بر عظیم پاک و ہند کے عظیم شاعرعلامہ محمد اقبالؒ نے یہ نقطہ اس طرح بیان کیا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات[xliv]


[1] Eric Fromm

[2] Jean M. Twenge and Tim Kasser

[3] S.J. Opree


   [i] Ibn Qayyim, S. (2005). Al-Wabil al-Sayib. Edited by Abdullah Qaa’ir and Bakr Abu Zayd. Makkah: Dar Alim al-Fawa’id, p. 109. You can download an online copy at: http://www.ajurry.com/vb/attachment.php?attachmentid=26489&d=1363130186 [Accessed 1st October 2016].

[ii] سورة محمد، آیت 19۔

[iii] سورة الأعراف، آیت 180۔

[iv] سورة النساء، آیت 48۔

[v] سورة الفرقان، آیت 70-68۔

[vi] سورة المؤمنون، آیت 100-99۔

[vii] سورة آل عمران، آیت 117۔

[viii] سورة آل عمران، آیت 182۔

[ix] مسند احمد، ابن حبان۔

[x] Al-Ghazali, M. A. (1993). Fayasl al-Tafriqa Bayn al-Islam wa-l-Zandaqa. Edited by  M. Bejou. Damascus, p. 84. An online copy is available at: http://ghazali.org/books/fiysal-bejou.pdf [Accessed 21st November 2016].

[xi] Ibid.                                                                                                                                                                 

[xii] سورة آل عمران، آیت 113۔ یہ آیت “اہل کتاب” کے بارے میں ہے مگراس کی تطبیق ہر قسم کے گروہوں پر ہوتی ہے۔

[xiii] ایضاً۔

[xiv] جامع ترمذی: كتاب: مسنون ادعیہ واذکار کے بیان میں (باب: دعاکی فضیلت کابیان​)، حدیث 3371۔

[xv] سورة الأعراف، آیت 55۔

[xvi] سورة غافر، آیت 65۔

[xvii] سوره طہٰ، آیت 14۔

[xviii] سورة البَقَرَة، آیت 29۔

[xix] سورة الاٴعرَاف، آیت 191۔

[xx] سورة فَاطِر، آیت3۔

[xxi] سورة العلق، آیت 7-6۔

[xxii] سورة الليل، آیت 12-8۔

[xxiii] سورة إبراهیم، آیت 34۔

[xxiv] Fromm, E. (1956). The Art of Loving. New York: Harper & Row, pp. 58-59.                     

                 [xxv] Al-Ghazali. (2011). Al-Ghazali on Love, Longing, Intimacy & Contentment. Translated with an introduction and notes by Eric Ormsby. Cambridge: The Islamic Texts Society, p. 25.

[xxvi] سورة الأعراف ، آیت 156۔

[xxvii] سورة الرحمن، آیت 2-1۔

[xxviii] سورة البروج، آیت 14۔

[xxix] سنن ابو داؤد: کتاب: جنازے کے احکام و مسائل (باب: بیماریوں کے گناہوں کا کفارہ بننے کا بیان)، حدیث 3089۔

[xxx] Al-Ghazali. (2011). Al-Ghazali on Love, Longing, Intimacy & Contentment, p. 23.       

[xxxi] سورة آل عمران، آیت 31۔

[xxxii] سورة الذاريات، آیت 56۔

[xxxiii] جیسا کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ حضرت محمدﷺ کی اطاعت ہی اس کی اطاعت ہے۔

[xxxiv] سورة آل عمران، آیت 132۔

[xxxv] Al-Ghazali. (2011). Al-Ghazali on Love, Longing, Intimacy & Contentment, pp. 120-121.

[xxxvi] Ibid, p. 123.                                                                                                                                                 

[xxxvii] Mahali, J and Al-Suyuti J. (2001). Tafsir Al-Jalalayn, p. 302.                                                   

[xxxviii] سورة هود، آیت 119-118۔

[xxxix] سورۃ الفرقان، آیت 43-44۔

         [xl] Twenge JM & Kasser T. Generational changes in materialism and work centrality, 1976-2007: Associations with temporal changes in societal insecurity and materialistic role modeling. Personality and Social Psychology Bulletin. 2013, 39 (7) pp. 883-897.

[xli] Opree SJ, Buijzen M, & Valkenburg PM. Lower life satisfaction related to materialism in children frequently exposed to advertising. Pediatrics. 2012, 130 (3) pp. 486-e491.

[xlii] سورۃ الحشر، آیت 19۔

[xliii] سورۃ الزمر، آیت 29۔

[xliv] Cited in Riffat, H. (1968). The Main Philosophical Idea in the Writings of Muhammad Iqbal (1877 – 1938). Durham theses, Durham University. Available at: http://etheses.dur.ac.uk/7986/2/7986_4984-vol2.PDF?UkUDh:CyT [Accessed 6th October 2016].

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password