سیکولر لوگوں کا مذہب پر اعتراض ھے کہ مذہب کے نتیجے میں نزاع و افتراق پیدا ھوتا ھے،لہذا اسے ترک
خورشید ندیم صاحب نے ”سیکولرازم کیا ہے؟“ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا ہے جس میں یہ تاثر دینے
عزیزم کاشف نصیر کے اس ٹویٹ (ایک دوست نے پوسٹ کی کہ انھیں صرف ”کریکٹر لیس لڑکیاں“ پسند ہیں۔ میں
لبرل ازم بنیادی طور پر سیاسی فکر یا نظریہ ہے، جبکہ سیکولرازم دراصل سیاسی بندوست یا سیاسی نظام کا نام
اسلامی ریاست کیا ہے؟ ریاست دو اعمال کا نام ہے: ایک احکامات کا صدور (یعنی اعمال کے حکم اخذ کرنے
جدیدیت کے مذھبی شعور پر چار سطح پر اثرات رونما ہوئے:1) ریاست کی سطح پر 2) سماج کی سطح پر
سیکولرائزیشن، افعالِ انسانی اور اعمال صالحہسیکولرائزیشن” سے مراد ’سیکولر ہو جانے‘ کا پراسث (process) ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
الوہی ہدایت نظری علوم یا فکری مواقف کا ارتقاء پذیر مجموعہ نہیں ہے، بلکہ یہ حقائق، اقدار اور احکام کا
ہندو مت کے متعلق عام طور پر مشہور کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی متعین تعریف نہیں ہے، بس
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں مذھب پر عمل کرنے کی جیسی آزادی ہے ویسی تو خود مذھبی
مذہبی معاملات میں جدیدیت پسندی کا اظہار تین قسم کے رویوں میں ہوتا ہے؛(الف) مغرب سے مرعوبیت کی بناء پر
ہمارے جدیدیت پسندوں کا ایک مسئلہ ہر مغربی تصور کو بغیر سمجھے ہی اسے اسلامی تاریخ میں تلاش کرنے اور
ہمارے یہاں ایک ٹویٹ ہوا تھا:”مغربی ممالک واقعتاً کسی مذہب کے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے سوائے اسلام کے۔
مشرقی اور خاص کر مسلم دنیا کے تناظر میں لبرلزم کی دو اقسام ہیں:ایک، ‘باہر کا بنا ہوا، اصلی’۔دوسرا، ‘یہاں
دینِ“ لبرل ازم (1) کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ ایک انسان کا زندگی، آزادی اور جائیداد پر فطری
جب ہمارا لبرل طبقہ انگریزی اخبارات سے ٹی وی چینلز تک جہاں جہاں انہیں قوت حاصل ہے رائٹ ونگ کا
آج کل جدت پسندی کی ایک نئی رو چلی ہے… کہ مولویوں پر الزام لگایا جائے کہ وہ خواہ مخواہ