سیکولرازم کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟

لبرل ازم بنیادی طور پر سیاسی فکر یا نظریہ ہے، جبکہ سیکولرازم دراصل سیاسی بندوست یا سیاسی نظام کا نام ہے۔ لبرل ازم کے دو بنیادی تصورات آزادی (liberty) اور مساوات یا برابری (equality) ہیں۔ لبرل فکر کے دیگر اجزا میں آزادی اظہار، آزادی رائے، کسی بھی مذہب کو رکھنے یا نہ رکھنے کی آزادی، جمہوریت، سیکولر گورنمنٹ، فری مارکیٹ اکانومی، شہری حقوق، صنفی مساوات (Gender equality)، گلوبل ازم وغیرہ شامل ہیں۔ سیکولرازم سے مراد یہ ہے کہ مذہب کسی بھی فرد کا ذاتی مسئلہ ہے، اسے اجتماعی معاملات سے الگ رکھنا چاہیے۔ کوئی فرد چاہے نماز پڑھے چاہے زندگی میں ایک بھی نہ پڑھے، سیکولرازم اس سے بےنیاز ہے۔ سیکولر گورنمنٹ یا سیکولر ریاست سے مراد بھی ایک ایسی ریاست ہے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اس کے آئین، قوانین، ڈوز، ڈونٹس میں مذہب کا عمل دخل نہ ہو۔ وہ مکمل طور پر انسانی عقل و دانش اور تجربات سے اخذ کیے گئے ہوں۔
جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ ملک کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے صرف جمہوریہ کہا جائے۔ مذہب سے پاکستانی ریاست کا کوئی تعلق نہ ہو، وہ اپنے قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں نہ بنائے، چونکہ قرارداد مقاصد کے مطابق قرآن و سنت کو سپریم اتھارٹی حاصل ہے، اور پاکستانی پارلیمنٹ کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، اسی لیے سیکولر حلقے ہمیشہ قراردادمقاصد کو ہدف بناتے ہیں۔ لبرل ازم کے دیگر اجزا کی بھی سیکولرحلقے زور شور سے وکالت کرتے پائے جائیں گے۔ سیکولرازم میں چند ایک باتیں بظاہر پرکشش نظر آتی ہیں، پڑھے لکھے ماڈرن نوجوان ذہن کو یہ اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ جیسے مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے، اپنے طور پر کوئی چاہے تو مذہبی ہوسکتا ہے، مگر ریاست کے نظام سے اس کا تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ پہلی نظر میں یہ سادہ بات لگتی ہے، کچا ذہن سوچتا ہے کہ اس میں کیا خرابی ہے؟ سیکولرز نے مذہب کی مخالفت تو نہیں کی، صرف اتنا کہا ہے کہ اسے ذاتی سطح پر رکھا جائے۔ اس میں موجود خرابی سمجھنے کے لیے مذہبی فکر کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ اسلامی فکر کے مطابق انسان دنیا میں ایک خاص مدت کے لیے آیا ہے، یہ کھیتی ہے، یہاں نیک عمل اور خیر کی فصل کاشت کرنا مقصود ہے، جس کا صلہ، ثمر روز آخرت ملے گا۔ نیک لوگوں کو جنت کا انعام جبکہ گناہ گاروں اور ظالموں کے حصے میں دوزخ جیسی بدترین جگہ آئے گی، جہاں انہیں خوفناک سزائیں ملیں گی۔ انسان کی توجہ روز آخرت پر ہونی چاہیے، اس کے لیے اعمال کرنے چاہییں اور ان تمام فواحش ومنکرات سے بچنا چاہیے جن سے رب تعالیٰ نے منع فرمایا۔ اسی اصول کے مطابق انسان کے جسمانی وجود کی طرح اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے، جس کی تربیت، تہذیب اسے کرنا ہوگی۔
اوپر والے پیرے سے بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلامی فکر کا محور مغربی تہذیب اور فکر سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ اس کا مقصود کچھ اور ہے۔ ہم اسلامی ریاست دو وجوہات کی بنا پر چاہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اسلامی ریاست اپنے مسلمان شہریوں کی فلاح و بہبودکا خیال رکھے، عدل و انصاف کرے، ماں کی طرح اپنے عوام کو ریلیف دے اور ان کے جسمانی وجود کی طرح ان کے اخلاقی وجود کا بھی خیال رکھے۔ یہ وہ کام ہے جو سیکولر ریاست نہیں کر سکتی۔ سیکولر ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کے شہری اچھے مسلمان بنتے ہیں یا نہیں، انہیں نماز پڑھنا، قرآن پڑھنا، سمجھنا آتا ہے یا نہیں، وہ گناہوں، فواحش و منکرات سے دور رہ پاتے ہیں یا اس کا شکار ہوجاتے ہیں؟ زنا بڑھتا ہے یا اس پر قابو رکھنا ہے، یہ سیکولر ریاست کا مسئلہ نہیں۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ کوئی کسی کے ساتھ زبردستی نہ کرے، رضامندی سے جو کچھ بھی ہو، وہ قابل قبول ہے۔ شراب ، جوئے جیسی ممنوعہ چیزوں سے شہریوں کو باز رکھنے کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست اٹھاتی ہے، کسی سیکولر ریاست کا یہ درد سر نہیں۔ اسلامی ریاست البتہ کئی ایسے بیرئرز یا رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے، جس سے شہریوں کی اخلاقی زندگی بہتر ہو۔ پورن سائٹس پر پابندی سے فحش یا قابل اعتراض اشتہارات کی روک تھام جیسے سوالات کسی اسلامی یا مذہبی ریاست میں اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مغربی سیکولر ریاستوں میں تو پورن فلم انڈسٹری سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہمارے سیکولر دوست ہمیشہ اعتراض کرتے ہیں کہ مغرب میں ملاوٹ زدہ اشیا خوردنی اور ادویہ وغیرہ کا کوئی وجود نہیں، اسی طرح خوردبرد، بے ایمانی، دھوکہ دہی، تاجروں کی لوٹ مار وغیرہ مغرب میں ممکن نہیں، مذہبی لوگ فحاشی کی بات کرتے ہیں، مگر ان سماجی خرابیوں کا کسی نے کبھی نام نہیں لیا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ملاوٹ، لوٹ مار کی وجہ بیڈگورننس ہے، جہاں بھی سسٹم کمزور ہے، وہاں ملاوٹ زدہ چیزیں ملیں گی۔ سعودی عرب، کویت، عرب امارات جیسے ممالک میں مذہبی ریاستیں ہونے کے باوجود ملاوٹ زدہ چیز یا دوائی نہیں مل پاتی۔ اس لیے ایسا نہیں کہ مذہبی ریاست میں یہ برائیاں پنپتی ہیں۔ اسلامی ریاست کو ہر قسم کی سماجی خرابیاں ختم کرنا ہوں گی، مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے شہریوں کی اخلاقی صحت اور انہیں خیر، نیکی کی طرف مائل کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی اٹھانا پڑے گی۔
اسلامی ریاست کا دوسرا اہم ترین مقصد اسلامی تصورات کو متشکل کرنا اور انھیں ایک باقاعدہ فریم ورک میں لانا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کا ایک تصور علم، تصور اخلاق، تصور معیشت، تصور معاشرت، تصور شہریت ہے۔ اقلیتوں سے بہترین سلوک کرنے کا پورا اسلامی ریاستی تصور موجود ہے۔ بدقسمتی سے ان میں سے کئی چیزیں آج عملی شکل میں موجود نہیں، ان سب کو وجود میں لانا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان پر یہ ذمہ داری اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ اس کی تخلیق ہی اس نعرے پر ہوئی کہ بہترین اسلامی نظام کا ماڈل پیش کرنا ہے۔ قائداعظم نے کئی بار یہ بات دہرائی کہ ہم چودہ سو سال پرانے قرآنی نظام اور تصورات کو عملی شکل دیں گے۔ اس لیے پاکستان کا سیکولر ریاست بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ ہم اپنے وعدے پورے نہیں کر پائے۔ بہت سی خرابیاں ہم نے پیدا کر لیں، مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروہ بھی انھی میں سے ایک ہیں۔ ان سب کو ہمیں ٹھیک کرنا ہوگا، نہ کہ اپنے بنیادی تصورات ہی کو اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیں۔ ہمیں پاکستان کو ایک بہترین اسلامی، فلاحی، جمہوری، ماڈرن ریاست بنانا ہوگا۔ یہ کام کوئی سیکولر ریاست نہیں بلکہ اسلامی جمہوری ریاست ہی کر پائے گی۔ یہ ایک خواب سہی، مگر آئیڈیل سیکولر ریاست بھی کہیں موجود نہیں۔ وہ بھی ایک طرح کا خواب ہی ہے۔ ایک مثالی خواب کی تکمیل کے لیے اپنی صلاحیتیں کھپا دینا زیادہ افضل ہے ، کسی ایسے موہوم تصور کے پیچھے بھاگنے کے، جس کے اختتام پر اخلاق باختہ تاریک دنیا ہماری منتظر ہو۔
عامر ہاشم خاکوانی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password