خدا کے بغیر زندگی – الحاد کے اثرات [Life -without- God- The implication- of -atheism]

۔

۔

زندگی محض کھیل ہے – ایک مایوس کن اورغیراطمینان بخش تصوردنیا
الحاد محض ایک عقلی نقطہ نظر کا نام ہی نہیں ، اگر اس کے دعوے کو سچ مان لیا جائے تو ہمیں چند بہت ہی ناگزیر لیکن مایوس کن وجودی نظریات کو ماننا پڑے گا۔ زندگی کے متعلق الحادی نظریہ یہ کہتا ہے کہ یہ صرف کھیل ہے۔ ہماری ایک ہی زندگی ہے اور ہمیں اس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیئے۔ جب آپ ایک کھیل کھیلتے ہیں تو آپ یا جیتتے ہیں یا ہار جاتے ہیں، اور اس کے بعد آپ کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور پھر کھیل ختم!! لیکن کیا واقعی زندگی محض ایک کھیل ہے؟ ہماری یہ تحریر اس بات کو فوکس کرے گی کہ زندگی کو محض ایک کھیل قرار دینے کے نظریے کے وجودی مضمرات کیا ہیں، خدا کو اور خدا کے بنائے کسی احتسابی نظام کو نظر انداز کرنا یا اس کا یکسر انکار کر دینا کس طرح وجودی بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ خدائی مقصد اور نظامِ احتساب کو انکار کرنا کیسے ایک آخری اور قطعی امید اور سچی طمانیت کی ضِد ہے ۔[i]۔ یہ نتیجہ کوئی مذہبی دقیانوسی فرسودہ فقرہ نہیں ہے؛ یہ الحاد کے منطقی اور وجودی مسائل کے متعلق عقلی تفکر کا نتیجہ ہے۔

کوئی امید نہیں:[No Hope]

کسی واقعے کے واقع ہونے کی خواہش یا احساس اور توقع کو امید کہا جاتا ہے۔ ہم سب اچھی زندگی، اچھی صحت اور اچھی ملازمت کی امید رکھتے ہیں۔ سب کچھ پا کر بھی ہم سب لافانی اور مسرت زدہ وجود چاہتے ہیں۔ زندگی ایک ایسا خوبصورت تحفہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اس شعوری وجود کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ اسی طرح ہر کوئی چاہتا ہے کہ ایک حتمی انصاف ہو جس سے سب بُرائیوں کو ٹھیک کیا جا ئے اور ایسے افراد کا احتساب کیا جا سکے۔ یہ بات نمایاں طور پر قابل ذکر ہے کہ اگر ہماری زندگیاں خستہ حال رہیں اور ہم دکھ اور تکالیفُ سہتے رہیں تو ہم امن، مسرت اور آسانی کی امید لگا لیتے ہیں۔ یہ انسانی جذبے کا اظہار ہے؛ ہم ایک اندھیری سرنگ کے دوسری جانب روشنی کی امید کرتے ہیں، اور اگر ہم پُرسکون اور خوش جی رہے ہوں تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ زندگی اسی طرز پر چلتی رہے۔
یہ نظریہ کہ زندگی محض ایک کھیل ہے، خُدائی احتسابی عمل کا انکار کرتا ہے، یہ نظریہ حیات بعد از موت یا موت کے بعد کی زندگی کا بھی منکر ہے۔اب جبکہ اس خدائی احتساب کے یقین کے بغیر زندگی میں سکھ اور مصیبت کاٹنے کے بعد مسرت کی بھی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی اس لیئے اس زندگی کے خاتمہ کے بعد کسی مثبت واقعے کی توقع بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس نظریے کے ساتھ ہم اپنے وجود کی اندھیری سرنگ کے دوسری طرف روشنی کی امید بھی نہیں رکھ سکتے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ ایک غریب ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور ساری زندگی غربت اور بھوک افلاس میں گذار دیں۔ اس نظریے کے مطابق آپ کی قسمت میں صرف اسی کسمپرسی کی حالت میں ختم ہو جانا لکھا ہے۔۔! اب اس کا اسلامی تصور سے موازنہ کریں۔ ہماری زندگیوں میں جو بھی اچھے برے حالات آتے ہیں ا ن میں ہمارا امتحان ہوتا ہے، وہ ایک بڑے فائدے کے لیئے آتے ہیں۔ اس طرح وسیع النظری میں کوئی بھی دکھ یا تکلیف بلا وجہ پیش نہیں آتی۔ خُدا ہمارے نامساعد حالات سے باخبر ہے ، اور وہ ان کا اجر اور ہمارے غم سے نجات ضرور دے گا(دیکھیے باب نمبر 11)۔
تاہم زندگی کو کھیل سمجھنے والے نظریے کے مطابق ہماری خوشیاں بھی بے معنی ہیں اور ہمارے دکھ درد بھی۔ نیکو کار لوگوں کی عظیم قربانیاں اور پریشانیوں کے شکار لوگ بس گرتے مجسمے ہیں جن کی دنیا کو کوئی پرواہ نہیں۔ انکا نا کوئی عظیم مقصد ہے اور نا کوئی فائدہ ۔ موت کے بعد کسی زندگی کی حتمی امید ہے اور نہ کسی خوشی کا تصور۔ حتی کہ اگر ہم خوش باش اور لگژری سے بھری زندگی گزاریں تو ہم میں سے زیادہ تر لوگ ناگزیر طور پر کسی نہ کسی بُرائی یا لامتناہی خواہشوں کے حصول کی دوڑ کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ مایوسیت کے پرچارک فلسفی آرتھر شوپن ہاور[1] نے مایوسی اور بد قسمتی کی خوب تصویر کشی کی ہے:

“ہم چراگاہ میں پھرتی ان بھیڑوں کی طرح ہیں جو بڑے مزے سے اپنے آپ میں مگن تو ہوتی ہیں لیکن قصائی کی نظروں کے عین سامنے رہتی ہیں۔ قصائی ان کو یکے بعد دیگرے اپنے شکار کے طور پر چُنتا رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہم بھی اچھے وقتوں میں اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ قسمت ہمارے لیئے کیا کیا مصیبتیں لیئے تاک میں بیٹھی ہے۔ بیماری، غربت، چیر پھاڑ، نظر یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کا کھو جانا۔ ہستی کی اذّیت کا بڑا حصہ اسی میں موجود ہے، جو وقت مسلسل ہمارے اوپر مسلط کر رہا ہے، اور ہمیں سانس لینے کا بھی موقع نہیں دیتا، بلکہ ہمیشہ ایک سرکوب کی طرح ایک کوڑا لیئے ہمارے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اگر کبھی وقت اپنا ہاتھ روکتا ہے تو وہ صرف اس وقت جب ہمیں بوریت کے کرب کے حوالے کیا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ رائے کہ اس دنیا اور انسان کو موجود ہی نہیں ہونا چاہیئے، ہمارے اندر ایک دوسرے کے لیئے برداشت پیدا کرتی ہے۔ بلکہ نہیں، اس نظریے کے تحت ہمیں ایک دوسرے کو جناب، سَر یا جنابِ عالی کے بجائے مظلوم ساتھی کہہ کر مخاطب کرنا چاہیئے۔!”[ii]

قرآن اس ناامیدی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوسکتا، امید ہمیشہ قائم رہتی ہے جو کہ خُدا کی رحمت سے پیوستہ ہے۔ اور خُدا کی رحمت اس دنیا اور اگلے جہان دونوں میں لازماً ظہور پذیر ہوگی۔: “[iii]

الحاد کے نقطہ نظر سے عدلِ کُل ایک نہ حاصل ہونے والی شے ہے – صحرائے زیست کا ایک سراب۔ چونکہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں، لہذا لوگوں سے حساب لیے جانے کی تمام توقعات عبث ہیں۔ 1940 کی دہائی کے جرمنی کا تصور کیجئے۔ ایک معصوم یہودی عورت نے ابھی ابھی اپنے خاوند اور بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا، اس کو انصاف کی کوئی امید نہ ہو گی جبکہ وہ خود گیس چیمبر میں ڈالے جانے کے لئے اپنی باری کی منتظر تھی۔  اگرچہ آخر کار نازی شکست کھا گئے، اس کو یہ انصاف مرنے کے بعد حاصل ہوا۔ الحاد کے مطابق وہ اب کچھ بھی نہیں ہے، صرف مادے کی ایک دوسری ترکیب ہے اور آپ کسی ایسی چیز کو جو زندگی سے محروم ہو، اس کو کوئی اچھا بدلہ نہیں دے سکتے۔ البتہ اسلام ہر کسی کو اللہ کی طرف سے حتمی عدل و انصاف کی امید دلاتا ہے۔ کسی کے ساتھ  رائی کے برابر بھی زیادتی نہ کی جائے گی اور ہر کسی کا حساب چکایا جائے گا:

“اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔”[iv]

“اور خدا نے آسمانوں اور زمین کو حکمت سے پیدا کیا ہے  تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کا بدلہ پائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔”[v]

فطرت پرستی کے فلسفہ کے مطابق زندگی ایک کھلونے کی مانند ہے جو ایک ماں اپنے بچے کو بغیر کسی مقصد کے دیتی ہے اور بغیر مقصد کے واپس لے لیتی ہے۔ زندگی بلا شبہ ایک خوب صورت تحفہ ہےتاہم تمام تر خوشیاں، راحتیں اور محبتیں جو ہمیں حاصل ہیں، وہ ہم سے واپس لے لی جائیں گی اور ہمیشہ کے لئے فنا ہو جائیں گی۔ چونکہ ملحد اللہ اور روز آخرت کا انکار کرتا ہے،اس کا مطلب ہے کوئی بھی خوشی جو ہمیں ملی ہمیشہ کے لیئے ختم ہو جائے گی۔ ایسی کوئی امید نہیں کہ اس زندگی میں ملنے والی خوشیاں، مسرتیں، یا محبت مرنے کے بعد بھی جاری و ساری رہ سکتی ہیں۔ اسلام کے نظریے کے تحت ایسے تمام مثبت مشاہدات کا دنیاوی زندگی سے بڑھ کر تسلسل نظر آتا ہے:

ان کےلیئے وہاں وہ سب ہو گا جس کی وہ آرزو کرتے ہیں، اور ہمارے پاس ان کے لیئے اس سے بھی زیادہ (نعمتیں) ہیں۔””[vi]

” وہ لوگ جنہوں نے پرہیز گاری کی زندگی گزاری ان کے لیئے اچھا بدلہ ہے اور اس سے بڑھ  کر ہے۔”[vii]

“بیشک جنتی اس دن عیش میں ہوں گے ؛ (ان سے کہا جائے گا) سلامتی ہو، اللہ کی طرف سے، جو نہایت شفقت کرنے والا ہے “[viii]

کوئی قدروقیمت نہیں [No Value]:

ایک انسان اور چاکلیٹ  کے بنے پتلے میں کیا فرق ہے؟ یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے۔ بہت سے ملحد عقائد والوں کے مطابق جو نیچری نظریہ پر یقین رکھتے ہیں، ہر چیز جو وجود رکھتی ہے وہ بنیادی طور پر مادے کی محض ایک ترتیب ہے ، یا کم از کم ایک اندھے اور بے شعور فزیکل پراسیس اور حادثے کا نتیجہ ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
اگر میں ایک ہتھوڑے سے برف کے بنے آدمی کے ٹکڑے کر دوں اور پھر یہی کچھ اپنے جسم کے ساتھ بھی کروں توان مادہ پرستوں کے مطابق دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ برف کا چورہ اور میرے ٹوٹی ہڈیوں والا جسم بنیادی طور پر اسی مادی مواد کی ایک نئی ترتیب ہوگی ۔!
اس سوال کا عام جواب یہ ہوسکتا ہے کہ: ” ہم احساسات رکھتے ہیں”، “ہم زندہ ہیں”، “ہم درد محسوس کرتے ہیں”، “ہم شناخت رکھتے ہیں”، اور “ہم انسان ہیں!”۔مادہ پرستوں کے مطابق یہ سب جوابات بھی دراصل مادے کی ایک نئی ترتیب ہیں ، ذیادہ ٹودی پوائنٹ ہوں تو ‘ دماغ میں ہونے والے کیمیائی عمل کا اثر ہیں “۔ حقیقی طور پر ہم جو بھی محسوس کرتے، کہتے اور کرتے ہیں’ کو مادی لحاظ سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔ لہذاایک ملحد کے نزدیک، یہ سب جذبات بلاجواز ہیں، کیونکہ ہر چیز، بشمول احساسات، جذبات، یہاں تک کہ موجودگی کا احساس تک، سب کچھ صرف مادی ہے اور بے شعور کیمیائی تعاملات کا نتیجہ ہے۔
دوبارہ اصل سوال کی طرف آتے ہیں۔ ایک انسان اور برف کے بنے مجسمے میں کیا فرق ہے؟ الحادی نقطہ نظر کے مطابق ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف فریب نظر ہے، کوئی آفاقی قدر نہیں ہے ۔ اگر ہر چیز محض مادہ اور کیمیائی ملاپ ہی ہے تو کسی بھی چیز کا کوئی مقصد نہیں۔ ہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اصل اہمیت مادے کی ہے۔ لیکن اگر یہ بھی درست مان لیا جائے تو کیسے ہم ایک طرح کے مادے کے آپس میں ملاپ کو دوسری طرح کے ملاپ سے افضل مان سکتے ہیں؟ کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مادے کا ملاپ جتنا پیچیدہ ہوگا اس کی اتنی ہی زیادہ اہمیت ہوگی؟ لیکن اس کی اہمیت آخر ہو ہی کیوں؟ یاد رکھیں، ملحد عقائد کے مطابق، کچھ بھی کسی مقصد کے لئے نہیں بنا۔ سب کچھ بےترتیب اور بے شعور مادی عمل اور وجوہات کا نیتجہ ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ملحد جو اس نقطہ نظر کو مانتے ہیں وہ اپنے اس عقیدے کے عقلی اثرات کی پیروی نہیں کرتے ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ پریشان کن ہوتا۔ اپنے وجود اور اسکی اہمیت کو ماننے کی وجہ ان کی اپنی پیدائشی فطرت میں پوشیدہ ہے جو کہ خدا کی تخلیق کردہ ہے ‘ یہ فطرت مجبور کرتی ہے کہ وہ خدا اور اپنے مقصد وجود کی حقیقت کو جانے (دیکھئے باب نمبر 4)۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر بنیادی اخلاقی حقیقتوں کو سمجھنے اور ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے کا ایک جبلی میلان رکھا ہے (دیکھئے باب نمبر 9)۔ اس جبلی میلان طبع کو اسلامی فکر میں فطرۃ کہا جاتا ہے (دیکھئے باب نمبر 4)۔ حقیقی قدر و منزلت کے بارے میں ہمارا دعویٰ اس لیے معقول ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی ٹھوس مقصد کے لئے پیدا فرمایا اور اسی نے ہم کو اپنی بیشتر مخلوقات پر فوقیت بخشی۔ ہم بحیثیت انسان، مخلوقات میں اس لئے شرف و امتیاز رکھتے ہیں کیونکہ جس ذات نے ہمیں تخلیق فرمایا، اسی نے ہمیں شرف بخشی۔

” اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔”[ix]

” (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔”[x]

اسلام ان کو قدر دیتا ہے جو سچائی کو تسلیم کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور اس طرح خیر کے کام کرنے والوں میں اور ان میں جو سرکشی میں اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرتے اور یوں شر کے کام کرنے والوں میں فرق کرتا ہے:

” بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔” [xi]

چونکہ مادہ پرست قیامت اور خدائی انصاف کا انکار کرتے ہیں، اسطرح قاتلوں اور پرامن لوگوں کو ایک ہی صلہ دیتے ہیں یعنی موت۔آخر میں ہم سب کی ایک ہی قسمت ہے تو پھر ہٹلر(ایک قاتل) اور مارتھر لوتھر کنگ(ایک مصلح) کی زندگی کی کیا حیثیت ہے؟ اگر انکا انجام ایک جیسا ہی ہے، تو پھر ملحد عقیدہ ہمیں کیا حیثیت دیتا ہے؟ آسان جواب، کچھ بھی نہیں ۔
جبکہ اسلام میں وہ لوگ جو خدا پر ایمان لائے، دوسروں پر رحم کرنے والے اور ایماندار رہے ان کا آخرت میں اچھا صلہ ہے برعکس ان لوگوں کے جو برائی سے جڑے رہے۔ اچھائی کا صلہ ہمیشہ کی رحمت ہے اور برائی کا صلہ ہمیشہ کے لئے خدا کا عتاب۔ یہ عتاب جانتے بوجھتے خدا کی رحمت اور رہنمائی سے انکار کی وجہ سے ہوگا ۔ واضح طور پر اسلام نے ہمیں برتر مقصد عطاء کیا ہے۔ جبکہ الحاد ی نظریہ کے تحت مقصد یا اقدار کو عقلی طور پر جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا ہے، اسکے نزدیک یہ صرف ہماری دماغی اختراع ہے۔
اس وزنی دلیل کے باوجود کچھ ملحدین پھر بھی اعتراض کرتے ہیں۔ انکا ایک اعتراض اس سوال پر مشتمل ہوتا ہے، “آخر خدا نے ہمیں برتر مقصد عطاء ہی کیوں کیا؟” اس کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ خدا خود ہر لحاظ سے مکمل اور کامل علم کا مالک ہے اس کا مطلب ہے وہ ہر طرح کی غلطیوں اور لایعنی کاموں سے مبراہ ہے۔ اسی لیے جسے اس نے پیدا کیا وہ بھی بیکار نہیں ہوگی ۔ ۔

ایک دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہےکہ ہم اگر یہ تسلیم کر بھی لیں کہ خدا ہمیں حقیقی قدر و منزلت سے نوازتا ہے، تو پھر یہ بھی نفسی(Subjective) بات ہو گی کیونکہ یہ اس (خدا) کا نقطہ نظر ہو گا۔ یہ تنازعہ نفسیت(Subjectivity)اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی ناقص تفہیم کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ نفسیت کا اطلاق کسی فرد کی محدود ذہنی اور/یا حسی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا نقطہ نظر علم و حکمت کی لا محدود صلاحیتوں کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے؛ ہم نہیں جانتے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ کے پاس حکمت اور علم کی کاملیت ہے؛ ہم صرف اس کے اجزا تک رسائی رکھتے ہیں۔ بالفاظ دیگر: اللہ کے پاس پوری تصویر ہے، ہمارے پاس محض نقطے ہیں۔

سید حسین نصر، جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں اسلامی تعلیمات کے پروفیسر نے انسانی حقوق اور عظمت کے تصور کا بہت جامع خلاصہ پیش کیا ہے جو کہ  ہماری برتر اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے:
“اس سے پہلے کہ ہم انسانی حقوق اور فرائض کی بات کریں، اس بنیادی دینی اور فلسفیانہ سوال کا جواب دینا ہر کسی پر لازمی ہے کہ ‘ انسان ہونے کا مطلب کیا ہے؟’ آج کل کی دنیا میں ہر کوئی انسانی حقوق اور اس سے جڑے انسانی زندگی کے مقدس کردار کی بات کرتا ہے’ اور بہت سے سیکولر لوگ خود کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں انسانی حقوق کا زیادہ بڑا علمبردار کہتے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر، اکثر یہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چمپینزی/بندر کی ارتقاء شدہ شکل سے ذیادہ کچھ نہیں ہے ، جس کا اُس سے پہلے اُس سے بھی کمتر چیز سے ارتقاء ہوا تھا ،بنیادی طور پر مختلف مرکبات اور مالیکیولز کے آپس میں باہمی ملاپ سے۔ اگر انسان کچھ اندھی طاقتوں کے باہمی عمل کے نتیجے کے سواکچھ نہیں جو کہ مالیکولز کے گاڑھے مرکبات پر اثر انداز ہوتی رہیں، پھر تو یہ سب ٰ انسانی عظمت کے دعوی کے منافی اور عقلی لحاظ سے بے معنی اور کھوکھلے جذبات کے علاوہ کچھ نہیں۔ کیا انسانی عظمت بناوٹی نظریہ نہیں بغیر کسی حقیقی بنیاد کے؟ اور اگر ہم بے جان ذرات کے آپس میں بہترین انضمام کے علاوہ کچھ نہیں تو پھراس ‘انسانی حقوق’ کے دعویٰ کی کیا حیثیت ہے؟ ان بنیادی سوالات کی کوئی جغرافیائی سرحد نہیں اور ہر کوئی سوجھ بوچھ رکھنے والا ان کے جواب چاہتا ہے۔۔ “[xii]

ہماری وقعت ہے، لیکن دنیا کی کیا وقعت ہے؟

اگر میں آپ کو ایک کمرے میں آپ کے تمام پسندیدہ کھیلوں، سامانوں، دوستوں، عزیزوں، خوراک اور پانی کے ساتھ بند کر دوں اور آپ کو بتا دوں کہ پانچ منٹ بعد آپ اور اس کمرے میں موجود تمام چیزیں فنا کر دی جائیں گی، تو ان چیزوں کی، آپ کی نظر میں کیا قدر رہ جائے گی؟ ظاہر ہے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ تاہم، 5 منٹ اور 657000 گھنٹوں (75 سالوں) میں کیا فرق ہے؟ محض کچھ وقت ہے۔ محض اس لیے کہ ہم ممکنہ طور پر 75 سال زندہ رہ سکتے ہیں، حقیقت تو نہیں بدل جاتی۔ عقیدہ الحاد کے مطابق یہ سب تباہ کر دی جائے گی اور بھلا دی جائے گی۔ اسلام اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔ ہر چیز فنا کر دی جائے گی۔ چنانچہ اس دنیا کی اپنی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے؛ یہ عارضی، بے ثبات اور مختصر ہے۔ تاہم، اسلامی تعلیمات کے مطابق اس دنیا کی حیثیت اس لیے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے، اچھے اعمال اور عبادت کرنے کی جگہ ہے، جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت / جنت سے نوازے گا۔ چنانچہ یہ سب تاریکی اور تباہی کے لئے ہی نہیں ہے۔ ہم ڈوبتی کشتی کے مسافر نہیں ہیں۔ اگر ہم اخلاص نیت اور سنت نبویﷺ کے مطابق اچھے کام کریں، تو ہم اللہ تعالیٰ کی مغفرت اوررضامندی حاصل کر سکتے ہیں۔

“جان رکھو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا اور زینت (وآرائش) اور تمہارے آپس میں فخر (وستائش) اور مال واولاد کی ایک دوسرے سے زیادہ طلب (وخواہش) ہے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے بارش کہ (اس سے کھیتی اُگتی اور) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے پھر وہ خوب زور پر آتی ہے پھر (اے دیکھنے والے) تو اس کو دیکھتا ہے کہ (پک کر) زرد پڑ جاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں (کافروں کے لئے) عذاب شدید اور (مومنوں کے لئے) خدا کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے۔ اور دنیا کی زندگی تو متاع فریب ہے۔  (بندو) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت کی( طرف) جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کا سا ہے۔ اور جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو خدا پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ہیں لپکو۔ یہ خدا کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔ اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔”[xiii]

کوئی مقصد نہیں [No purpose]

“مجھے  نہیں معلوم  کہ ہم یہاں کیوں ہیں، لیکن مجھے کامل یقین ہے کہ یہ زندگی یہاں مزے لینے کے لئے نہیں  ہیں ۔ “[xiv]

یہ الفاظ مشہور فلسفی لوڈوِگ وِٹگن سٹائن[2] کے ہیں ۔ بہت سے دیگر فلسفیوں کی طرح اس کے پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ: ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ لیکن اس نے یہ ضرور کہا  کہ زندگی محض کھیل تماشا نہیں ہے۔ تاہم دیگر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سوال ہی غلط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہ ہو جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہیئے۔ ہمیں اپنی زندگی جاری رکھنی چاہیئے بغیر یہ سوچے ہوئے کہ ہم یہاں کیوں ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ البیغ کَمو[3] اس رویے کو یوں بیان کرتا ہے: “اگر آپ زندگی کے معانی ڈھونڈتے رہیں گے تو آپ کبھی جی نہیں سکتے”[xv]۔  کَمو در اصل یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کے لئے اہم یہ ہے کہ ایک ایسی زندگی گزاریں جو آپ کے لئے مفید ہو، اس بات سے بے غرض ہو کر کہ آپ کے وجود کے پس پردہ حقیقت کیا ہے۔

ان مختلف اور متضاد خیالات کے تناظر میں، ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیئے: کیا یہ سمجھنا معقول ہےکہ ہماری وجود کے پیچھے کوئی مقصد ہے؟ اس سوال کے جواب میں مدد کے لئے، مندرجہ ذیل تصویر پر غور کیئے:

اس وقت آپ اس کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں؛ آپ غالباً کسی کرسی پر بیٹھے ہیں اور آپ نے کچھ کپڑے بھی زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ تو میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں: کیا مقصد ہے؟ آپ کپڑے کیوں پہنے ہوئے ہیں اور کرسی کا کیا مقصد ہے؟ ان سوالوں کے جواب واضح ہیں۔ کرسی کا مقصد آپ کے وزن کو سہارا دیتے ہوئے آپ کو آرام سے کسی ایسی کیفیت میں رکھنا ہے جس میں آپ بہتر کام کر سکیں۔ لباس آپ کو گرم رکھتا، آپ کی عریانی کو چھپاتا اور آپ کو زینت بخشتا ہے۔ ہمارے کپڑے اور کرسی بے روح چیزیں ہیں جن کی کوئی جذباتی یا ذہنی صلاحیت نہیں ہے، اور ہم ان اشیاء کو مقاصد سے متصف سمجھتے ہیں۔ تاہم ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمارا اپنا ہی کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ فطری طور پر بے ربط اور خلاف وجدان بات ہے۔

ہماری زندگی کے پیچھے کسی مقصد کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے وجود کی کوئی توجیہ ہے – بالفاظ دیگر، کوئی خاص ارادہ اور غرض۔ کسی حقیقی مقصد کے بغیر ہمارے وجود کا کوئی جواز نہیں ہے، اور نا  ہماری زندگی کا کوئی معنی   ہے۔ فطرت پرستی کے فلسفہ کے مطابق ہم محض کسی اندھے، الل ٹپ اور غیر معقول طبیعیاتی سلسلہ عمل کے نتیجے میں ابھر کر آ گئے ہیں ۔ اس نقطہ نظر کو اپنانے کا منطقی مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ڈوبتی کشتی پر سوار ہیں۔ یہ ڈوبتی کشتی ہماری کائنات ہے، کیونکہ، سائنسدانوں کے بقول، یہ اپنی لازمی تباہی کی طرف گامزن ہے اور  ناگزیر طور پر اس صورت حال سے دوچار ہو گی، جسے وہ ‘مرگ تپش’ [4]کہتے ہیں۔ انسانی زندگی اس مرگ تپش سے پہلے ہی نیست و نابود ہو جائے گی[xvi]۔ چنانچہ اگر اس کشتی کو ڈوب ہی جانا ہے تو میرا آپ سے سوال ہے کہ کشتی کے ٹاپے پر موجود کرسیوں کی نئی سے نئی ترتیب لگانے یا کسی بُڑھیا کو دودھ کا گلاس پیش کرنے کا کیا مقصد ہے؟ قرآن حکیم اس مسئلے پر انسانیت کی وجدانی موقف کی یوں تصویر کشی کرتا ہے: ” (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا۔”[xvii]

تاہم اس بحث سے مختلف تنازعے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اولاً، ایک ملحد یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری وجود کے پیچھے کسی مقصد کے نہ ہونے سے ہمیں آزادی حاصل ہوتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد خود تخلیق کریں۔ جیسے کچھ وجودی کہتے ہیں کہ ہماری زندگی بے مقصدیت پر مبنی ہے، اور اس بے مقصدیت سے ہم اپنے لئے امکانات کی ایک نئی دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔ یہ اس تصور کی پیداوار ہے کہ ہر چیز فی نفسہ بے معنی اور بے کار ہے، چنانچہ بامقصد زندگی گزارنے کے لئے ہمارے پاس یہ آزادی ہے کہ ہم معنی اور مقصد کی تخلیق کریں۔ اس نقطہ نظر کا نقص یہ ہے کہ ہم معنویت سے حقیقی معنوں میں جان نہیں چھڑا سکتے۔ ہمارے اپنے وجود کے لئے معانی کا انکار کرنا اور چیزوں کو من گھڑت معنی دینا اپنے آپ ہی کو دھوکا دینا ہے۔ یہ ایسا کہنا ہے کہ، “چلیں فرض کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد ہے۔ ” یہ بچوں کی طرح ہے جو ڈاکٹر، نرس، گوالا اور تاجر بن جاتے ہیں یا ماں اور باپ بن جاتے ہیں۔ لیکن ہم سب یقیناً بڑے ہو جاتے ہیں اور اس حقیقت کا سامنا کرتے ہیں کہ زندگی محض کھیل تماشا نہیں ہے۔

ایک دوسرا اختلاف یہ ڈارونی دعویٰ ہے کہ ہمارا مقصد ہمارے DNA کو فروغ دینا ہے؛ جیسا کہ مشہور ملحد رچرڈ ڈاکنز اپنی کتاب[5] میں کہتا ہے کہ ہمارے جسم صرف اسی مقصد کے لئے بنے ہیں[xviii]۔ اس نقطہ نظر کےساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمارے وجود کو محض ایک اتفاقی حادثے اور ایک طویل حیاتیاتی عمل کے درجے پر گھٹا دیتا ہے۔ یہ انسان کو ایک فالتو  اور اضافی پیداوار سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں بخشتا. ایک ایسا اتفاقی وجود جو محض ذرات کے الل ٹپ تصادموں اور مالیکیولز کی الل ٹپ ترتیب ہائے نو کی پیداوار ہے۔

ہماری وجود سے متعلق اسلام کی تعلیمات وجدانی طور پر مستحکم اور قوت بخش ہیں۔ یہ ہماری وجود کو مادے اور وقت کی پیداوار سے اٹھا کر ایسی بلندی پر لے جاتا ہے، جہاں با شعور انسان اس اللہ واحد کے ساتھ ایک خوش گوار تعلق استوار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جس نے ہمیں پیدا کیا (دیکھئے باب نمبر 15)۔ الحاد اور فطرت پرستی ہماری وجود کو کوئی حقیقی معنویت نہیں دیتے۔

کوئی خوشی نہیں [No Hapiness]

” اور آخر ت  تو متقیوں  کی  ہے.”[xix]

خوشی کی تلاش ہماری انسانی فطرت کا ایک لازمی جزو ہے۔ ہم سب خوش ہونا اور رہنا چاہتے ہیں – یہ الگ بات ہے کہ   ہم واضح طور پر  یہ نہیں بتا سکتے کہ “خوشی” ہے کیا۔ چنانچہ اگر ہم کسی عام آدمی سے پوچھیں کہ وہ اچھا روزگار کیوں چاہتے ہیں، تو وہ جواب دیں گے، “با سہولت زندگی کی خاطر ایک معقول رقم کمانے کے لئے”۔ تاہم اگر آپ مزید سوال کریں اور پوچھیں کہ وہ با سہولت زندگی کیوں بسر کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہی کہیں گے، “کیونکہ میں خوش رہنا چاہتا ہوں”۔ اگر آپ ان سےمزید سوال کریں، “آپ خوش رہنا کیوں چاہتے ہیں؟”تو بہت ممکن ہے کہ وہ جواب نہ دے پائیں، کیونکہ آخر کار خوشی ہی مقصود و مطلوب ہے نہ کہ مزید کسی اچھائی کا ذریعہ۔ یہ منزل مقصود ہے نہ کہ کسی سفر کا حصہ۔ ہم سب خوش ہونا اور رہنا پسند کرتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم خوشی کیوں چاہتے ہیں، سوائے خود خوشی ہی کے لئے۔ اسی باعث ہم بے پایاں طور پر ایسے طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن سے ہم خوشی حاصل کر سکیں۔

لوگ جو راستہ اختیار کرتے ہیں وہ ہر کسی کا دوسرے سے الگ ہے۔ کچھ لوگ سالوں سال اپنے نام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قابلیتوں اور مہارتی علامات کی فہرست لگانے میں صرف کرتے ہیں۔ کچھ دیگر لوگ ورزش گاہوں میں ایک خوب صورت جسم کی خاطر ان تھک محنت میں لگے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو گھر والوں کی محبت چاہتے ہیں، وہ اپنی شریک حیات اور بچوں کی دیکھ بھال میں ساری ساری زندگی لٹا دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ فراغت کے ایام میں اپنے گھروں سے دور، دوستوں کے ساتھ شغل میلے میں اپنے آپ کو مصروف کرتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کی مقررہ پابندیوں سے کچھ آزادی لے لیتے ہیں۔ یہ فہرست ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے: حقیقی اور بامعنی خوشی کیا ہے؟

اس سوال کا جواب دینے میں آسانی کے لئے، ذیل کے منظر نامے کا تصور کیجئے: جبکہ آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں، آپ کو اچانک بے ہوش کیا گیا۔ جب آپ جاگ اٹھتے ہیں تو اپنے   آپ کو ایک ہوائی جہاز میں پاتے ہیں۔ آپ درجہ اول میں ہیں۔ آپ کی نشست ایسی آرام دہ ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ تفریح کا ایسا اہتمام ہے کہ آپ ہکا بکا رہ جاتے ہیں۔ کھانا ایسا ہے کہ گویا جنت سے آیا ہو۔ جیسے جیسے آپ کے حواس بحال ہوتے ہیں، آپ اپنی موجودہ اور گزشتہ کیفیت میں ربط تلاش کرتے ہیں، لیکن آپ کو کوئی جواب نہیں ملتا اور وقت گزرتا جاتا ہے۔ اب ایک لمحے کے لئے سوچئے: کیا میں خوش ہوں گا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ خوش ہوں۔ آپ کو پہلے کچھ سوالوں کے جواب درکار ہیں۔ آپ جہاز میں کیسے پہنچ گئے؟ یہاں آپ کو کس نے لا بٹھایا؟ اس سفر کا مقصد اور منزل کیا ہے؟ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اگر ان سوالوں کے جواب نہ ملیں تو آپ کیسے خوش ہو سکتے ہیں؟ یہاں تک کہ اگر آپ ان تعیشات کا استعمال بھی کرنے لگ جائیں تو آپ مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ سکتے۔ کیا بریانی کی لذیذ پلیٹ جو آپ کے سامنے دھری ہے، ان بنیادی سوالوں کی چبھن کو کم کر سکتی ہے؟ یہ صرف ایک وہم، ایک عارضی، جھوٹی قسم کی خوشی ہو گی ،جو جان بوجھ کر ان اہم ترین سوالوں سے منہ پھیرنے سے حاصل  ہو گی۔

اب اس کیفیت اور ان سوالوں کواپنی زندگی پر منطبق کیجئے اور اپنے آپ سےپوچھئے، کیا میں خوش ہوں؟ ہمارا وجود میں آنا،  نیند کی حالت میں کسی جہاز میں بٹھائے جانے سے کیسے مختلف ہے؟ ہم نے کبھی خود اپنی پیدائش، اپنے والدین اور جہاں سے ہم آئے ہیں، اس کا انتخاب نہیں کیا۔ پر ہم میں سے کچھ یہ سوال نہیں اٹھاتے یا ان کے جواب نہیں ڈھونڈتے، جو ہمیں خوشی کی انتہائی منزل تک پہنچا دیتے۔

حقیقی اور بامعنی خوشی کہاں پائی جاتی ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ، اگر ہم پچھلے مثال پر غور کریں تو، پائیدار خوشی اپنے وجود کے بارے میں اہم سوالات کے جواب دینے میں ہے۔ ان میں شامل ہے: زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں اپنی موت کے بعد کہاں جاؤں گا؟اس روشنی میں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری خوشی ہمارے اندر کی طرف ہے،  یہ جاننے میں ہے کہ ہم کون ہیں اور ان اہم نوعیت کے سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں ہے۔ اگر ہم خوش ہونے کا دعویٰ کریں، لیکن یہ سوال نہیں پوچھے یا کوئی جواب نہیں ملے، پھر خوشی کا ہمارا دعویٰ کوئی خاص معنیٰ نہیں رکھتا۔ یہ ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی نشئی شخص خوش دکھائی دیتا ہے، جب وہ عارضی طور پر زندگی کی پریشانیوں کو بھلا ڈالتا ہے۔

جانوروں کے بر عکس، ہم اپنی جبلت کی تسکین سے خوش نہیں رہ سکتے۔ محض اپنے جسم کے غدودوں کی تابعداری اور جسمانی ضروریات کی تسکین سے ان سوالوں کے جواب نہیں ملیں گے نہ ہی ہمیں پائیدار خوشی  حاصل ہو گی۔ اس کا سبب سمجھنے کے لئے ایک اور مثال پر غور کیجئے: تصور کریں کہ آپ ایسے 50 لوگوں میں سے ایک ہیں جو ایک چھوٹے کمرے میں بند ہیں اور صرف 10 روٹیاں ہیں۔ آپ سب کیا کریں گے؟ اگر آپ جانوروں کی طرح اپنی جبلت کی پیروی کریں گے تو خون خرابہ ہو گا۔  لیکن اگر آپ اس سوال کا جواب پانے کی کوشش کریں کہ ہم سب کیسے بچ سکیں گے، تو ممکن ہے کہ آپ سارے زندہ بچ جائیں۔

اس مثال کو اپنی زندگی پر منطبق کیجئے۔ آپ کی زندگی میں اور بہت سی چیزیں ہیں۔ ، جو تقریباً لامحدود تعداد میں مختلف نتائج دے سکتی ہیں۔ لیکن ہم میں سے کچھ اپنی حیوانی ضروریات کی پیروی کرتے ہیں۔ ہماری ملازمت کے لئے Ph.D یادیگر قابلیتوں کی ضرورت ہو گی اور ہم اپنے شریک حیات کے ساتھ اعلی جگہوں پر کھانے کھا  سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ سب محض زندہ رہنے کی تحریک اور نسل بڑھانے کی جبلت پر ختم ہو جاتا ہے۔ بامعنی خوشی حاصل نہیں کی جا سکتی، یہاں تک کہ ہم یہ معلوم کر لیں کہ ہم در اصل کون ہیں اور زندگی کے اہم ترین سوالوں کے جواب نہ ڈھونڈ لیں۔

فطرت پرستی میں ان سوالوں کے کوئی جواب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت پرستی کبھی بامعنی خوشی نہیں دے سکتی۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ کوئی سبب نہیں ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟کہیں بھی نہیں۔ ہم سب صرف مر جاتے ہیں۔ ہم سب اس بنیادی سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ ہم یہاں کیوں ہیں۔ اسلام میں اس کا سادہ اور مضبوط جواب ہے۔ ہم یہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہیں (دیکھئے باب نمبر 15)۔

پھر اسلام میں عبادت کا تصور اس لفظ کی عمومی تفہیم سے بہت مختلف ہے۔ عبادت ہم اپنے ہر عمل میں بجا لا سکتے ہیں۔ ہم جس طرح آپس میں گفتگو کرتے ہیں اور جو چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہم روزانہ کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ان اعمال میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہیں تو ہمارا ہر عمل عبادت بن جائے۔

عبادت صرف ان اعمال تک محدود نہیں ہے جو صرف اللہ ہی کی رضا کے لئے کیے جاتے ہیں، جیسے نماز اور روزہ جیسے روحانی اعمال۔ اللہ کی عبادت کرنے میں سب سے زیادہ اس سے محبت، اس کی اطاعت اور اس کی معرفت بھی شامل ہے۔ اللہ کی عبادت ہمارے وجود کی منتہائے غایت ہے؛ یہ ہمیں دوسری چیزوں اور دوسرے لوگوں کی غلامی سے آزاد کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ایک مؤثر مثال کے ذریعے ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے:

“الله نے ایک مثال بیان کی ہے، ایک غلام ہے جس میں کئی بدخو آقا شریک ہیں اور ایک غلام سالم ایک ہی شخص کا ہے، کیا دونوں کی حالت برابر ہے، سب تعریف الله ہی کے لیے ہے مگر ان میں سے اکثر نہیں سمجھتے۔”[xx]

ناگزیر ہے کہ اگر ہم اللہ کی عبادت نہ کریں تو ہم دوسرے “خداؤں” کی پوجا کرنے لگ جائیں۔ غور کیجئے۔ ہمارے شریک حیات، ہمارے افسران، ہمارے اساتذہ، ہمارے دوست، وہ معاشرہ جس میں ہم رہتے ہیں، اور یہاں تک کہ ہماری “خواہشات” ہمیں اپنا غلام بنانے پر تلی ہیں۔ مثال کے طور پر معاشرتی رسوم کو لیجئے۔ ہم میں سے اکثر لوگ حسن کی تعریف وہ کریں گے جو معاشرہ ہمیں سکھاتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہماری پسند و ناپسند کی ایک پوری فہرست ہو، لیکن یہ دوسروں کی وجہ سے بنتے بگڑتے ہیں۔ اپنے آپ سے پوچھئے۔ آپ کیوں یہ ٹراؤزر اور شرٹ پہنے ہوئے ہیں؟ یہ کہنا کہ یہ آپ کو پسند ہیں، ایک سطحی جواب ہے؛ بات یہ ہے کہ آپ ان کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ اگر ہم اس طرح کھرچتے جائیں، ہم میں سے بہت سے اس حقیقت کا اعتراف کر لیں گے کہ “کیونکہ دوسرے سمجھتے ہیں کہ یہ اچھے لگتے ہیں”۔ بدقسمتی سے، ہم سب لامحدود اشتہارات اور ساتھیوں کی پسند و ناپسند سے متاثر ہوتے ہیں۔

اس اعتبار سے ہمارے بہت سے آقا ہیں اور وہ سب ہم سے کچھ چاہتے ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے سے مختلف توقعات رکھتے ہیں اور ہم ایک متذبذب اور نا آسودہ زندگیاں گزار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خود ہم سے بہت بہتر جانتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے، جتناہماری ماں ہم سے کرتی ہے۔ وہ اللہ ہم سے فرما رہا ہے کہ وہ ہمارا حقیقی آقا ہے، اور صرف اس اکیلے کی عبادت کرتے ہوئے ہی ہم اپنے آپ کو آزاد کر سکتے ہیں۔

مسلم لکھاری یاسمین مجاہد اپنی کتاب[6] میں کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز نحیف و نزار ہے اور یہ کہ ہماری آزادی اسی کی عبادت کرنے میں پوشیدہ ہے:

“جب بھی آپ کسی کمزور و ناتواں چیز کے پیچھے بھاگیں، اس سے مانگیں یا اس کے آگے دست سوال دراز کریں۔ ۔ ۔ تو آپ خود کمزور ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ آپ اس کو پا لیں جو آپ تلاش کر رہے ہیں، یہ کبھی بھی پورا نہیں ہو گا۔ آپ کو جلد ہی کسی اور چیز کے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ آپ کبھی اصلی قناعت یا اطمینان تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ یہی باعث ہے کہ ہم تجارت کرتی اور ترقی کی دوڑ میں لگی دنیا میں جی رہے ہیں۔ آپ کا فون، آپ کی کار، آپ کی بیوی، آپ کا شوہر، ساری چیزیں ہمیشہ اس سے کسی بہتر ماڈل سے تبدیل کی جا سکتی ہیں۔  تاہم اس اسیری سے رہائی کا بھی ایک راستہ ہے۔ جب وہ چیز جس پر آپ اپنا تمام تر وزن لادتے ہیں، وہ مستحکم، ناقابل تسخیر اور لامحدود ہو، تو آپ گر نہیں سکتے۔ “[xxi]

سوال یہ ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہم ایک دوراہے پر ہیں؛ اللہ تعالیٰ کی ابدی، لامحدود الفت و رحمت کو گلے لگا لیں، یا اس سے دور بھاگیں۔ اس کے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے اور اس کی اطاعت میں عبادت کرتے ہوئے، اس کے رحم و کرم کو تسلیم کرنے سے جنت میں ہمیں ابدی خوشی حاصل ہو گی۔ اس کی رحمت سے دور بھاگنے سے لازم آئے گا کہ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ جائیں، جہاں اس کی رحمت نہ ہو، تکلیف کی جگہ – دوزخ۔ پس ہمارے پاس یہ اختیار ہے۔ یا تو ہم اس کی رحمت کو گلے لگانے کا فیصلہ کریں یا اس سے دور بھاگنے کی کوشش کریں۔ اس انتخاب میں ہم آزاد اور با اختیار ہیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے خیر چاہتا ہے، وہ ہمیں صحیح انتخاب پر مجبور نہیں کرتا۔ اس دنیا میں ہم جو انتخاب کرتے ہیں، اگلی دنیا کی زندگی اس کی بنیاد پر بنے گی۔

” جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس خدا کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت۔”[xxii]

” ان (صفات کے) لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے۔ اور وہاں فرشتے ان سے دعا وسلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔”[xxiii]

چونکہ ہماری منتہائے غایت اللہ کی عبادت ہے، ہمیں لازماً اپنا فطری توازن قائم کرنا ہو گا، یہ جاننے کے لئے کہ ہم درحقیقت کون ہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تو ہم اپنے آپ کو آزاد کرتے ہیں اور اپنے آپ کو پا لیتے ہیں[7]۔ اگر ہم ایسا نہ کریں،تو  ہم بھول جاتے ہیں کہ کیا چیز ہے جو ہمیں انسان بناتی ہے (دیکھئے باب نمبر 15):

” ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئےتو اللہ نے انہیں خود اپنا نفس بھلا دیا۔”[xxiv]

خلاصہ یہ کہ  الحاد ہمارے وجود کے متعلق ٹھوس سوالوں کے جواب نہیں دے پاتا،   اسی  لئے حقیقی اور بامعنی خوشی اس طرح کبھی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ الحاد میں خوش ہے، تو میں کہوں گا کہ یہ نشے کی حالت والی خوشی ہے۔ ان کو صرف اس وقت ہوش آتا ہے جب وہ خود اپنے وجود کے بارے میں گہرے غور و فکر میں اتر جاتے ہیں۔ اگر انھوں نے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کر لی ہے اور بغیر علم کے معاملات طے کر لیے ہیں – یا دستیاب مواد کے متعلق تشکیک میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں – تو پھر بھی وہ پوری خوشی نہیں پائیں گے۔ جو شخص جانتا ہے کہ وہ کیوں موجود ہے اور کہاں جا رہا ہے، اس کا موازنہ اس شخص سے کیجئے جو نہیں جانتا۔ ان کی حالتیں یکساں نہیں ہیں، اگرچہ وہ دونوں خوش ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں۔

اس باب میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنے کے منطقی نتائج دکھائے گئے ہیں۔ اگرچہ ملحدین اپنی زندگی میں کوئی حقیقی معنی، قدر، امید اور خوشی ہونے میں جذباتی طور پر بھلے مطمئن ہوں، بات یہ ہے کہ علمی طور پر ان کے قدم لرز رہے ہیں۔ یہاں تک کہ رچرڈ ڈاکنز خود بھی فطرت پرستی کے منطقی مسائل کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فطرت پرستی میں ہر چیز بالکل بے معنی اور بے رحم بے قدری پر مبنی ہے:

“اس کے برعکس، اگر کائنات صرف الیکٹرانز اور خود غرض جینز ہیں، تو پھر بے معنی قسم کے حادثات جیسے اس بس کا الٹ جانا بھی بالکل ایسی چیز ہے جس کی ہمیں توقع کرنی چاہیئے، جیسے ہم اتنے ہی بے معنی قسم کی اچھی قسمت کی توقع کرتے ہیں۔ ایک ایسی کائنات اپنی نیت کے اعتبار سے نہ تو اچھی ہو گی اور نہ بری۔ اس کی کسی قسم کی کوئی نیت ہی نہیں ہو گی۔ اندھی طبیعیاتی قوتوں اور جینیاتی نقل کاری والی کائنات میں، کچھ لوگ نقصان میں ہوں گے، دیگر لوگ خوش قسمت ہوں گے، اور آپ کو ان میں کوئی تواتر یا توجیہ نہیں ملے گی نہ کسی قسم کا عدل و انصاف۔ اس کائنات میں جسے ہم دیکھتے ہیں، عین وہی خصوصیات ہیں، جن کی ہمیں توقع کرنی چاہیئے؛ یعنی آخرِ کار، بے ترتیب، بے مقصد، بے شر اور بے خیر، سوائے اندھی بے رحم یکسانیت کے کچھ بھی نہیں۔ “[xxv]

ایک ایسی کائنات جو غیر معقول، اندھی، سرد طبیعیاتی اجزا سے بنی ہو، وہ ہمارے جذبات سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ صرف اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی   توجیہ عطا کر سکتا ہے جو ہماری انسانیت کی وضاحت کرتی    ہیں۔

[1] Arthur Shopenhauer

[2] Ludwig Wittgenstein

[3] Albert Camus

[4] Heat death

[5] The Selfish Gene by Richard Dawkins

[6] Reclaim Your Heart

[7] علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں؎

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

   [i] Some of ideas in this chapter have been inspired by and adapted from Craig, W.L. The absurdity of life without god. Available at: http://www.reasonablefaith.org/the-absurdity-of-life-without-god [Accessed 23rd November 2016]

             [ii] Schopenhauer, A. (2014). Studies in Pessimism: On the Sufferings of the World. [ebook] The University of Adelaide Library. Chapter 1. Available at:

https://ebooks.adelaide.edu.au/s/schopenhauer/arthur/pessimism/chapter1.html. [Accessed 2nd October 2016]

[iii] سورۃ نمبر 12، آیت 87

[iv] سورہ زلزلہ، آیت 8-6

[v] سورہ جاثیہ، آیت 22

[vi] سورہ ق، آیت 35

[vii] سورہ یونس، آیت 26

[viii] سورہ یاسین، 58-56

[ix] سورة الإسراء، آیت 70

[x] سورہ آل عمران، آیت 191

[xi] سورہ سجدہ، آیت 18

[xii] Nasr, S. H. (2004). The Heart of Islam: Enduring Values for Humanity.  New York: HarperSanFrancisco, p. 275

[xiii] سورہ حدید، آیت 22-21

 [xiv] Cited in BBC (no date) Radio 4 – in our time – greatest philosopher –

Ludwig Wittgenstein. Available at:

http://www.bbc.co.uk/radio4/history/inourtime/greatest_philosopher_ludwig_wittgenstein.shtml [Accessed 1stOctober 2016].

        [xv] Cited in Pollan, S. M. and Levine, M. (2006). It’s All in Your Head: Thinking Your Way to Happiness. New York: HarperCollins, p. 4

                    [xvi] Williams, M. (2015). The Life Cycle of the Sun. Available at:

http://www.universetoday.com/18847/life-of-the-sun/

[Accessed 2nd October 2016]

[xvii] سورہ آل عمران، آیت 191

[xviii] Dawkins, R. (2006). The Selfish Gene. 30Th Anniversary edition.            Oxford: Oxford University Press

[xix] سورة الأعراف، آیت 128

[xx] سورة الزمر، آیت 29

                  [xxi] Mogahed, Y. (2015). Reclaim Your Heart. 2nd Edition. San Clemente, CA: FB Publishing, p. 55

[xxii] سورة هود، آیت 105

[xxiii] سورة الفرقان، آیت 75

[xxiv] سورة الحشر، آیت 19

    [xxv] Dawkins, R. (2001). River Out of Eden: A Darwinian View of Life. London: Phoenix, p. 155.

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password