الحاد کیسے غیر فطری ہے؟ [Self-Evident: Why Atheism is Unnatural]

۔

.

تصوّر کریں کہ ایک رات آپ کو داؤد کی کال آتی ہے۔ داؤد سکول کے وقت سے آپ کا ساتھی ہے جس کے ساتھ آپ سائنس کے دروس کے دوران بیٹھا کرتے تھے۔ آپ نے کئی سالوں سے اس سے بات نہیں کی، لیکن آپ کو اس کے عجیب و غریب سوالات یاد ہیں جو وہ کیا کرتا تھا۔ اگرچہ آپ اس کو ایک اچھا انسان سمجھتے تھے لیکن اس کے خیالات کے معترف نہیں تھے۔ ہچکچاتے ہوئے آپ نے اس کی کال ریسیو کرلی۔ سلام دعا کے تبادلے کے بعد وہ آپ کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ آپ آدھے دل سے اس کی دعوت قبول کرلیتے ہیں۔ کھانے کے دوران وہ پوچھتا ہے ’’کیا میں آپ کو کچھ بتا سکتا ہوں۔‘‘ آپ ہاں میں جواب دیتے ہیں اور وہ آپ سے کسی ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا شروع کردیتا ہے جس کے بارے میں آپ نے پہلے کبھی نہیں سنا: ’’کیا تم جانتے ہو، ماضی یعنی جو تم نے کل (یعنی گزرے ہوئے دن)، گزرے ہوئے سال اور اسی طرح تمہاری پیدائش سے لے کر اب تک جو کچھ تم نے کیا، وہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ صرف تمہارے دماغ کا فتور تھا۔ تو میرا سوال تم سے یہ ہے، کیا تم اس بات پر یقین کرتے ہو کہ ماضی کی کوئی حقیقت ہوتی ہے؟‘‘ ایک عقلمند آدمی کے طور پر آپ اس کے موٴقف/رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ماضی حقیقت میں موجود نہیں ہوتا، اس بات کو ثابت کرنے کے لیے تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟‘‘
اب اس جگہ پہ آ جائیں جہاں سے اس گفتگو کا آغاز ہوا تھا اور تصوّر کریں کہ یہ سوال پوچھنے کے بجائے آپ کھانے کا تمام وقت یہ ثابت کرنے میں لگا دیتے ہیں کہ ماضی ایک واقعی حقیقت ہے۔آپ کس صورتِ حال کو ترجیح دیں گے؟ یقیناآپ پہلی صورتِ حال کو ترجیح دیں گے کیونکہ آپ ان معقول لوگوں میں سے ہیں جو ماضی کو ایک اظہر مِن الّشمس حقیقت سمجھتے ہیںجیسا کہ دوسری واضح سچائیاں ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کی حقیقت کو للکارے یا ان کی حقیقت کے بارے میں سوالات اٹھائے، تو بارِ ثبوت اُسی پر ہے جس نے ان کی حقیقت پر سوال اٹھایا ہے۔
اب اسی دلیل کو ایک دیندار اور ملحد شخص کے مکالمے پر لاگو کرتے ہیں۔ایک دیندار شخص اپنے ایک ملحد دوست کو شام کے کھانے کی دعوت دیتا ہے اور کھانے کے دوران اس کا ملحد دوست دعویٰ کرتا ہے ’’تم جانتے ہو، خدا موجود ہی نہیں۔ اُس کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں۔‘‘ دیندار شخص ملحد دوست کے سوال کا جواب دینے کے لیے خدا کی موجودگی کے دلائل کی بھرمار کردیتا ہے۔ تاہم کیا دیندار شخص نے درست طریقہ اختیار کیا؟
اس سے پہلے کہ ہم خدا کی موجودگی کے ثبوت دیں، ہمیں اس بات کا کھوج نہیں لگانا چاہیے کہ خدا کی موجودگی کے بارے میں سوال کرنا ہمیشہ سے طے شدہ فرضی سوال کیوں رہا ہے؟ یہ سوال ایسے نہیں ہونا چاہیے ’’کیا خدا موجود ہے؟‘‘ بلکہ اس سوال کو ایسے ہونا چاہیے: ’’خدا کے وجود کا انکار کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا دلائل موجود ہیں۔‘‘؟؟؟اب مجھے غلط مت سمجھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس خدا کا وجود ثابت کرنے کے لیے بڑے ٹھوس دلائل موجود ہیں اور اس تحریری سلسلے میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں میں جس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کے وجود کا انکار کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں تو پھر ایک سمجھدار آدمی کا رب پر ایمان رکھنا لازمی بات ہے۔ نہیں تو یہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ماضی کی حقیقت پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ اس نقطہٴ نظر سے الحاد غیرفطری ہے۔
بدیہی/عیاں بالذات سچائیاں [Self-evident -truths]:
ہم بہت سارے عقائد کو واضح اور فطری طور پر سچّا سمجھتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
▬ فطرت کی یکسانیت / ہمہ گیریت
▬ قانونِ سبب و علل
▬ ماضی کا ایک حقیقت ہونا
▬ ہمارے استدلال کا درست ہونا
▬ دوسرے ذہنوں / آرا کا موجود ہونا
▬ ایک بیرونی دنیا کا موجود ہونا
جب کوئی ان حقائق کے مبنی بر حقیقت ہونے پر اعتراضات کرے تو ہم اندھادھند اس بات کا یقین نہیں کرلیں گے بلکہ عام طور پر سوال کریں گے کہ ’’آپ کے پاس ان حقائق کو رد کرنے کے لیے کیا دلائل ہیں؟‘‘یہ حقائق بالکل واضح ہیں کیونکہ یہ ان خصوصیات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
1۔ آفاقی[Universal] : یہ کسی خاص تہذیب کا خاصہ نہیں ہیں بلکہ بین الثقافتی ہیں۔
2۔جبلی[Untaught]: ان کی بنیاد معلومات کی منتقلی پر نہیں۔ یہ آپ کے تجزیے اور حواس کے علاوہ حاصل کیے جانے والے علم کی طرح حاصل نہیں کیے گئے۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ اُس طرح حاصل نہیں کیے گئے جس طرح علم حاصل کیا جاتا ہے۔
3۔فطری [Natural]: یہ انسانی نفسیات کی فطری کارگزاری کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔
4۔وجدانی/بدیہی[Intuitive] : دنیا کی سادہ اور آسان ترجمانی ۔
ہم مندرجہ بالا خصوصیات کو ماضی کے حقیقت ہونے کے یقین پر لاگو کرکے دیکھتے ہیں۔ماضی کا مبنی بر حقیقت ہونا ایک واضح سچائی ہے کیونکہ یہ یونیورسل ہے۔یہ جبلی ، قطعی فطری اور بدیہی ہے۔ یہ ایک ہمہ گیر سچائی ہے کیونکہ تقریبا سب ہی کلچر ماضی پر یقین رکھتے ہیں اس طرح کہ جو آج ماضی ہے وہ کبھی حال تھا۔ ماضی پر یقین کی کوئی تعلیم نہیں دی جاتی کیونکہ جب کوئی پہلے اس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے کہ ماضی وہی کچھ ہے جو حقیقی زندگی میں پیش آ چکا ہے، یہ کسی نے ان کو پڑھایا یا سکھایا نہیں۔ کسی کو بھی پرورش کے دوران والدین کی طرف سے یہ نہیں سکھایا جاتا کہ ماضی ایک حقیقت تھا۔ یہ یقین وہ ذاتی تجربہ سے حاصل کرتے ہیں۔ ماضی کا حقیقت ہونا فطری بھی ہے۔ وہ تمام لوگ جن کے ہوش و حواس قائم ہیں، اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ماضی ان چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے جو حقیقی زندگی میں پیش آچکی ہوتی ہیں۔ آخر میں یہ یقین کہ ماضی وہی کچھ ہے جو کبھی نہ کبھی ہمیں پیش آ چکا ہے تو یہ ہمارے ذاتی تجربات کی آسان ترین ترجمانی ہے اور زمین کی فطری سمجھ بوجھ پر مبنی ہے۔ ماضی کو فریبِ نظر گرداننے سے جتنے مسائل حل ہوتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
خدا:ایک بدیہی سچائی[God: a self-evident truth]
جس طرح ماضی ایک نہ جھٹلانے والی حقیقت ہے اسی طرح خدا کی ذات بھی اظہر من الشمس ہے۔اس تحریر میں خدا سے مراد اس کائنات کے بنانے والے یا تخلیق کاراور ایسی ذات کے ہیں جو انسانی اور کسی اور چیز سے ماورا ہے. کسی خاص مذہب کا نہیں بلکہ خدا کا وہ تصورجو کم و بیش ہر مذہب،ثقافت اور قوم میں مشترک و موجودرہا ہے ، اس بحث سے یہ واضح ہوگا کہ خدا کا تصور کیسے آفاقی،وجدانی اور فطری ہےنہ کہ ایک سوچا سمجھا عملی تصور یا نظریہ ۔
1۔ آفاقی[Universal] :
یہ تصور کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے بنیادی طور پر ہر تہذیب اورثقافت میں موجود رہا ہے.جس طرح قانونِ علت اور یہ تصور کہ باقی لوگ بھی عقل رکھتے ہیں تقریباََ ہر تہذیب میں موجود رہا ہےاسی طرح تصورِ خدا تہذیب،قوم،رنگ نسل سے ماورا ہے اور ہمہ گیر ہے.خدا کا تصور یا کسی مافوق الفطرت کا تصور آفاقی ہے نہ کہ کسی ایک تہذیب میں پروان چڑھنے والی اختراع۔قطع نظر اس کے کہ دنیا میں دہریوں اور ملحدوں بھی موجود رہے ہے مگر اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہر دور میں تصورِ خدا کسی نہ کسی ہیئت میں موجود رہا ہے ۔خدا کے وجود پر ایک بین ثقافتی اجماع یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک عالمگیر سچائی ہے۔.یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تصورِ خدا کے حامل لوگوں کی تعداد ملحدوں سے ہر دور میں زیادہ رہی ہے۔
2۔جبلی[Untaught]:
آقاقی حقائق کو کسی سے سمجھنے یا سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔مثلاََ سپیگھٹی(ایک جدید مذہب کا منفرد خدا ) کے بارے میں جاننے کےلئے مغربی اور خصوصاََ اطالوی ہونا ضروری ہے.میں صرف سپیگھٹی پر غور وفکر کرکے اس کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں کرسکتا.جبکہ دوسری طرف یہ جاننے کے لیے کہ کسی بھی چیز کا خالق ہونا ضروری ہے، آپ کو کسی کلچر یا ادارے کی ضرورت نہیں ہے.اسی لئے ماہرِ عمرانیات کا مانناہے کہ اگر دہریت پسند لوگوں کے بچوں کو کسی ویران جزیرے پر چھوڑ دیا جائے تو وہ کچھ عرصے بعد یہ تصور رکھنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ اس ویران جزیرے کا بھی کوئی خالق ہے.(1)مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں خدا کے تصور میں فرق ضرور ہوسکتا ہے لیکن خالق کا تصور ضرور ملتا ہے کہ یہ غوروفکر کا قدرتی نتیجہ ہے.
کچھ ملحدین کہتے ہیں کہ خدا کو ماننے اور سپیگھٹی عفریت کے ماننے میں کوئی فرق نہیں، یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے.کیونکہ آفاقی حقائق کسی خارجی علم کے محتاج نہیں ہوتے.سپیگھٹی اورعفریت کا تصور خارجی علم کا محتاج ہیں اور ان کو محض غوروفکر یا فطری طور پر نہیں سمجھا جاسکتا.لہٰذا سپیگھٹی عفریت کوئی آفاقی حقیقت نہیں ہے.علاوہ ازیں اگر ہم موجودہ بحث سے ہٹ کر بھی دیکھیں تو ہم کوخدا کے ہونے کے بےشمار دلائل ملیں گے جبکہ سپیگھٹی عفریت کے بارے میں نہ ہونے کے برابر.
3۔فطری [Natural]:
یہ انسانی سوچ کاایک فطری پہلو ہے کہ وہ ایک ماورالفطرت خالق کا تصور رکھتی ہے. یہ نظریہ کہ خدا ایک روشن حقیقت ہے ہمیشہ سے اسلامی تاریخ میں علمی مباحث کامرکزرہا ہے.مشہور عالم امام ابن، تیمیہ ؒ کہتے ہیں کہ” خالق کا تصور تمام لوگون کے دلوں میں مضبوطی سے گڑھا ہوا ہےاور یہ انسان کے وجودیت کےلئے ایک لازم وملزوم امر ہے”(2).بارھویں صدی کے مشہور عالم الراغب الصفہانیؒ ؒفرماتے ہیں کہ روح میں خالق کاعلم قدرتی طور پر رکھ دیا گیا ہے.نہ صرف اسلامی روایا ت میں بلکہ مختلف شعبوں میں کی جانے والی بےشمار تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم فطری طور پر اس کائنات کوایک سوچی سمجھی اور مربوط ومنظم تخلیق سمجھتے ہیں نہ کہ کسی حادثاتی اتفاق کانتیجہ! (3)
نفسیاتی ثبوت[Psychological evidence]:
مشہور ماہرِ تعلیم اولیویز پیٹروچ (Olivera Petrovich)نے حیوانات اور نباتات پر تحقیق کے دوران اس بات کابخوبی مشاہدہ کیا ہے کہ اس بات کا کہیں 7 گنا زیادہ امکان ہے کہ وہ بچے جنہون نے اسکول کی شکل نہ دیکھی ہو ں یہ بات کہیں کہ یہ دنیا خدا نے بنائی ہےبجز ان بچوں کے جو اسکول گئے ہوں .(4)پیٹروچ کے مشہور انٹرویوز اور میرےاپنے خط و خطابت میں بار بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ عقیدہ کہ ایک مافوق الفطرت خدا ہے جس نے یہ ساری دنیا تخلیق کی ہے ‘فطرت سے کہیں زیادہ قریب تر ہے اور دہریت انسان کا ایک اپنا بیان کردہ نظریہ ہے جو فطرت سے بالکل میل نہیں کھاتا.(5)پیٹروچ 2017ء میں ایک کتاب شائع کرنے جارہی ہے جو اس موضوع پر مزید روشنی ڈالے گی ۔اس کا عنوان ہے: “Natural Theological understanding from childhood to adulthood”.
مشہور ماہرَنفسیات پال بلوم (Paul Bloom) ادراکی نفسیات (cognitive psychology ) پر کی گئی جدید تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں کہ مذہبی عقائدکے دو پہلو ایک یہ عقیدہ کہ کوئی خالق یا تخلیق کار ہے اور دوسرا یہ تصور کہ روح اور جسم انسان کے دو جدامگر لازم وملزوم چیز ہیں ‘ بچوں میں فطری طور پر عود کرتےہیں.(6)
ڈیبورا کیلمین (Deborah Kelemen) نے اپنے ایک مضمون “کیا بچے وجدانی طور پر خداپرست ہوتےہیں؟” میں تحقیق پیش کی کہ بچے فطری طور پر قدرتی اشیاء کو مقصدیت کے تناظر سے دیکھتے ہیں. یہ صرف وجدانی خدا پرستی کے ثبوت کی طرف اشارہ ہے، اس ضمن میں مزید تحقیق کی گنجائش ہے ۔ مقالے میں مختصرا””خدا کے تصور کے بارے میں ڈیبورا یوں رقم طرا زہے :
” ادراکی ترقی کی جدید ریسرچ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بچے پانچ سال کی عمر میں قدرتی اشیاء یا چیزوں کی تخلیق کو کسی مافوق الفطرت قوت سے منسوب کرتے ہیں اور ان مظا ہرِ قوت کو تخلیق شدہ سمجھنے اور سمجھانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں .علاوہ ازیں چھ سے دس سال کے بچوں کی اسائنمنٹس یہ ثابت کرتی ہےکہ بچوں کا فطرت کو کسی مقصد یا ارادے سے جوڑنا اور منسوب کرناان کے ماور ا لفطرت اور غیر انسانی علتوں یا قوتوں کے تصور سے منسلک ہے لہٰذا ان تمام تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں بچوں کے مندرجہ بالا رویوں کو “وجدانی خدا پرستی کہا جاسکتا ہے۔”(7)
ایک تحقیق جو حال ہی میں Elisa Jarnefelt, Caitlin F. Canfield and Deborah Keleme نے “ملحد کا منتشر ذہن: مختلف گروہ کے ملحد نوجوانوں میں فطرت کو تخلیق شدہ سمجھنے کے وجدانی خیالات اور عقائد” کے عنوان سے پیش کی ۔ اس میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ فطرت کو تخلیق شدہ سمجھنا اور دیکھنا ایک فطری رویہ ہے.(8)
یہ نتائج تین تحقیقی مطالوں اخذ کئے گئے ہیں جن میں سے پہلی تحقیق شمالی امریکہ سے تعلق رکھنے والے 352 افراد شامل تھے ان میں مذہب کے نہ ماننے والے اور ماننے والے دونوں طرح کےلوگ شامل تھے.اس مطالعے کے دوران مختلف کام انجام دیئے گئے جن سے زیرِ مطالعہ لوگوں کا فطری میلان جانچنا مقصود تھا جس میں ایک سرعتی تخلیقی کام تھا جس میں ان افراد کو120 تصویریں دکھائی گئیں اور انھوں نے تیزی سے کی بورڈ سے “یس یا نو” دبا کر یہ بتانا تھا کہ آیا تصویر میں موجود چیزوں کو کسی فرد یا ذات نےکسی مقصد کے تحت بنایا یا تخلیق کیا یا نہیں ۔(9)دوسرے مطالعے میں 148 لوگ ایسے شامل تھے جن کو ملحد ین اور انکی تنطیم یا سوسائٹی کی ای میل لسٹ سے چنا گیا تھا ان کا تعلق بھی شمالی امریکہ سے تھا. انہیں بھی اسی طرح کا تیزٹاسک دیا گیا ۔(10) اسی طرح تیسرے مطالعے کے لئے فن لینڈ سے 151 افراد چنے گئے جوکہ ملحد تھے اورطلبہ تنظیموں سے وابستہ تھے. انکو بھی اسی طرح کا تخلیقی ٹاسک دیا گیا ۔ ان تحقیقی مطالعوں سےنہایت حیران کن نتائج سامنےآئے.(11)ماہرین نے ان نتائج پربحث کرتے ہوئے کہا کہ ملحد بھی چیزوں کو کسی مقصد کے تحت تخلیق کیا ہوایا بنا ہوا سمجھتے ہیں:
“پہلے دو کئے گئے مطالعوں کی طرح تیسرے تحقیقی مطالعے سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب فن لینڈ کے ملحدوں کومجبورکیا جائے کہ وہ فطری طور پر تیزی سے جانداریا غیر جاندار اشیاء یا مظاہرِ قدرت کو دیکھیں تو وہ ا ن کو ماورالفطرت ذات کی مقصدیت سے بھر پور تخلیق کا ثمرسمجھتے ہیں.اس ضمن میں اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ فن لینڈ میں ملحدانہ افکار کو قابلِ اعتراض نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی وہاں پر خدا پرستی ان کی ثقافت کا حصہ ہے،جیساکہ امریکہ میں.
دلچسپ بات یہ ہے کہ فن لینڈ کے ملحدین، شمالی امریکہ کے ملحدین کی نسبت اپنے مندرجہ بالافطری داعیے کو جبراََ دبانے میں زیادہ ناکام ثابت ہوئے ہیں.جس سےیہ ثابت ہوا ہے کہ صرف معاشرتی یا ثقافتی طور پرموجودخدا پرستی کا نظریہ ہی لوگوں کو مظاہرِ فطرت کو کسی مقصدیت کے لیے ہونے والی تخلیق سمجھنے پر مائل یا مجبور نہیں کرتا،بلکہ یہ ایک فطری طور پر انسان کے شعور میں پیداہونے والا نظریہ یا جذبہ ہے. (12)
عمومی طور پر اس تحقیق سے ہمیں شواہدملتے ہیں کہ الحاد ذہنی طور مشقت طلب ہے(13) اور عام انسان فطری طور پر فطرت اور اسکے اندر موجود اشیاء اور مظاہر کو ایک تخلیق شدہ حقیقت کے طور دیکھتا ہے.(14)دوسرے لفظوں میں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ الحاد ایک غیر فطری رویہ اور فطرت کو تخلیق شدہ سمجھنا ہی ہمیں انسان بناتاہے ، خدا پرستی انسان کےاندر پیدا ہونے والا فطری رویہ ہے. بہرحال جیسا کہ ہر تحقیق میں کچھ سوالوں کے جواب نہیں ملتے اسی طرح یہ سوال کہ انسان کے اندر اوائل عمر میں یہ وجدانی خیالات کیوں پیدا ہوتے ہیں، اور ان کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کا جواب ابھی باقی ہے۔(15)ابھی ذہنی،ادراکی اور تشکیلی نفسیات میں تحقیق کی بہت ضرورت ہے جس سے حتمی نتائج اخذ کئے جاسکیں مگر مندرجہ بالا تحقیقات خدا پرستی کو فطری سمجھنے کے نظریئے کو بھرپور تقویت دیتی ہے.
کچھ نقاد ایسی تحقیق کا حوالہ دے سکتےہیں جس کے مطابق مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والےبچوں کا حقیقت اور فسانے میں فرق کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن یہ تحقیق اوپر پیش کردہ تحقیق کو رد نہیں کرسکتی کیونکہ یہ صرف مذہبی بیانیوں پر کی گئی ہے نہ کہ چیزوں کے لیے کسی خالق یا تخلیق کار کے ضروری ہونے پر ۔(16)اس ضمن میں یہ ذکر کرنا ضروری ہوگاکہ جن تحقیقات کا میں نے اوپر حوالہ دیا ہے اس کےتنائج کسی ایک ثقافت یا نظریئے کے حامل لوگوں کے بارے میں نہیں ہیں ۔ اس سے قطع نظر کہ تحقیق میں حصہ لینے والوں میں مذہبی تھے یا غیر مذہبی ‘ وہ مذہبی رویے کی طرف ہی مائل نظر آئے ۔.
ایک اور اعتراض کے مطابق جیسا کی یہ تحقیق بتاتی ہے کہ الحاد نفسیاتی طور پر مشقت طلب ہے تو اس سے یہ کہا جاسکتاہےچونکہ اس کے لئے عقل اور سوچ کی قوت زیادہ درکارہوتی ہے لہٰذا یہ عقلی طور پر زیادہ مضبوط حیثیت رکھتا ہے.یہ دلیل نہادت بودی ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ الحاد اس کائنات کے بارے میں غلط مفروضوں پر مبنی ہے.”(تفصیل اگلی تحاریر میں آئے گی) اوران غلط مفروضوں کی بناء پر الحاد انسانوں کی فطری اور ذہنی صلاحیتوں پر ایک بوجھ لاد دیتاہے۔
میں نے یہاں تمام ریسرچ کا ذکر نہیں کیا کہ اس سے بحث بہت پیچیدہ ہوجاتی .بہت سی متضاد تحقیقات اور بھی موجود ہیں لیکن وہ کہیں کم اورکمزور دلائل رکھتی ہیں۔مندرجہ بالا بحث کا بنیادی مقصد جدید تحقیقات سے سامنے والے اس ٹرینڈ کی نشاندہی کرنا ہے جو یہ واضح کرتا ہے کہ “خدا پرستی کا عقیدہ ایک فطری رویہ ہے”۔
علم عمرانیات اور بشریات پر مبنی دلائل(Sociological -and -anthropological- evidence):
پروفیسر جسٹن بیریٹ(Justin- Barrett) نے اپنی کتاب”پیدائشی خدا پرست:بچوں کے مذہبی عقیدوں کی سائنس” میں بچوں کے رویوں اور دعوؤں پر تحقیق پیش کی ہے.انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بچےایک “فطری مذہب” پر یقین کرتے ہیں ان کے اندر قدرتی طور پر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ماورالفطرت خالق ہے اور وہ انسان نہیں ہوسکتا۔اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
“بچوں کی بڑھتی ہوئی ذہنی وادراکی صلاحیتوں اور ماورالفطرت ذات پر عقائد پرسائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ بچے فطری طور پر وہ ذہن بنتا جتا ہے جو ماورالفطرت ذات یا خدا کے وجود پر ایمان رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، پیدائش کے ایک سال بعد ہی بچے عوامل اور غیر عوامل میں فرق کر نا شروع کردیتے ہیں وہ ہر چیز کے پیچھے کارفرما عوامل کو قدرتی طور پر ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں.چاہےاس کے بارے میں موہوم سی دلیل ہی موجود کیوں نہ ہو،پہلے سال کے ختم ہونے سے قبل ہی وہ یہ سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ کوئی شخصیت نا کہ قدرتی طاقتیں انتشارسےکسی منظم حالت کو ترتیب دینے کا باعث بنتی ہے ۔۔ فنکشن اور مقصد کو دیکھنے کا یہ رجحان اور یہ سمجھ بوجھ کہ مقصد اور ترتیب ایک شعور سے ہی تشکیل پاتی ہے بچوں کو ابتداء ہی سے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اس قطرتی فنامنا کو مقصد کے تحت تخلیق شدہ سمجھیں؛یہ سوال کہ خالق کون ہے؟،بچے سمجھتےہیں کہ انسان کم از کم اچھے امیدوار نہیں ہیں .یہ خدا ہی ہوسکتا ہے جو اس اہلیت پر پورا اترتا ہے.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ بچے خدا پرست پیدا ہوتے ہیں جسے میں نے “فطری مذہب” کہا ہے۔(17)
4۔وجدانی/بدیہی[Intuitive] :
خدا کا وجود اس کائنات کی وجدانیت سے بھرپور تشریح ہے،اسکے لئے زائد ذہنی قلابازیوں اور موشگافیوں کی چنداں ضرورت نہیں ۔ انسان فطری طور پر چیزوں کو ان کے علل سے منسلک کرتا ہے اور پوری کائنات ی بھی ان میں سے ایک ہیں.تمام وجدانی خیالات ضروری نہیں کہ صحیح ہو مگر پہلے سے موجود وجدانی خیالات کے رد کےلئے ٹھوس شواہدہونا بھی ضروری ہیں ۔ جیسے اگر کوئی شخص اس کائنات میں نظمِ ہم آہنگی اور ربط دیکھتا ہے تواس کا وجدانی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی تخلیق کار ہےجس نےاس نظم وضبط کو تشکیل دیا۔ اس شخص کے اس تصور کے رد کے لئے ٹھوس شواہد پیش کرنے ہونگے جو اس الگ وجدانی تصور کو ثابت کرسکیں ۔
خلاصہ یہ کہ خدا، خالق ،تخلیق کار ،ماورالفطرت و قدرت ذات پرقدرتی طور پر عقیدہ رکھنا ایک ناقابلِ تردید اور بدیہی حقیقت ہے. یہ آفاقی،وجدانی اور قدرتی تصورہے جو کسی فلسفیانہ سوچ کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ کسی درسگاہ کا مرہونِ منت ہے.اس حقیقت کی روشنی میں صحیح سوال یہ نہیں کہ کیا خدا ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ”کیا خدا کا انکار کیا جا سکتا ہے؟”یہ وہ سوال ہےکہ جو الحاد کی بنیادیں دیتا اور یہ ثابت کرتا ہے کہ الحاد غیر فطری رویہ ہے۔ جوایک ایسی ناقابلِ تردید حقیقت کو جھٹلاتا ہے جو سورج کی طرح روشن ہے ثبوت اسی کے ذمے ہیں۔جیسےکوئی شخص کہے کہ ماضی کی کوئی حقیقت نہیں اورباقی لوگ دماغ اورسوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو معاشرہ اس سے اس تصور کا ثبوت مانگےگا اس طرح ملاحدہ کوبھی کائنات کے لیے خالق کی موجودگی کے تصور کو جھٹلانے کے لیے ثبوت پیش کرنا ہونگے ۔
انسانی جبلت -فطرہ[The- innate- disposition:fitrah]:
اسلامی الہیات میں ‘ عیاں بذات حقیقت’ کا تعلق فطرت سے ہے . فطرت کے لفظ کی عربی جڑ ف ط ر ہے جو کہ فطرن ، فطره جیسے الفاظ کا ماخذ ہے. جن کا مطلب کسی پیدا کی گئی چیز کے ہیں. عربی لفظ فطرة کے لفظی معنی الله تعالیٰ کی طرف سے ہمارے اندر کوئی پیدا کی گئی چیز کے ہیں.دینی طور پر فطرت اس علم کو کہا جاتا ہے جو الله تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدائشی طور پر عطا فرمایا ہے، جو ہمیں الله تعالیٰ کو تلاش کرنے اور اسکی عبادت پر اکساتا ہے(18) اس بات کی بنیاد رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے۔” ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ “(19)
یہ نبوی روایت بتاتی ہے کہ ہر انسان اس قدرتی علم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے لیکن اسکی صحبت جیسے کے والدین/ معاشرہ اسے بدلتا ہے. یہاں تک کے وہ فطرت چھوڑ کر دیگر اعمال اور یقین اپنا لیتا ہے. بیشمار علماء فطرت کے تصور کو زیر بحث لاتے رہے ہیں، جیسے کہ امام غزالی فطرت کو خدا کی موجودگی اور اسکے معبود ہونے کے سچ تک پہنچنے کا ذریعہ بتاتے ہیں. وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ “الله تعالیٰ کا خدا ہونا ہر انسان شعور کی گہرایوں میں موجود ہوتا ہے”.(19) امام ابن تیمیہ فطرت کودائمی یادداشت بتاتے ہیں جو اللہ نے اپنی مخلوق میں پیدا فرمائی ہے ، ” فطرت ایک کامل خدا کی موجودگی کا پتہ دیتی ہے، اور یہ علم دائمی، ضروری اور ظاہر ہے “(20)
صحبت اور ماحول کے اثرات فطرت کو میلا یا تباہ کرسکتے ہیں. یہ اثرات ، جیسا کہ انبیا اشارہ کرتے ہیں، والدین، معاشرے یا تعلقاتی دباؤ سے تعلق رکھتے ہیں . یہ اثرات فطرت کو میلا کردیتے ہیں اور انسان کو حق جاننے سے روکتے ہیں . امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کی فطرت میلی ہوجاے تو پھر خدا کو پہچاننے کے لئے اسے دوسری نشانیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے.”خدا کی موجودگی اور اسکا کمال ایک قدرتی امر ہےاس کے لئے جسکی فطرت بگڑی نہ ہو۔فطری ادراک کے علاوہ اس کے سامنے دوسری نشانیاں بھی ہوتی ہیں اور اکثر جب فطرت میں بگاڑ آجاے تو اکثر لوگوں کو ان دوسری نشانیوں کی ضرورت پڑتی ہے”(21)
ان دوسری نشانیوں میں عقلی دلائل بھی ہوسکتے ہیں. امام ابن تیمیہ خدا کی موجودگی کے ثبوت میں عقلی دلائل کے حق میں نہیں تھے. وہ فطرت کو ہی خدا کی پہچان کا ذریعہ گردانتے تھے. لیکن انہوں نے عقلی دلائل کو بالکل چھوڑا نہیں بلکہ صرف انہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق نا ہوں .(2223,)
اسلامی علم معرفت کی نظر سے یہ جاننا ضروری ہے کہ الله کے ہونے کا یقین صرف نشانیوں کے ہونے یا خیالی تصور یا پھر سائنسی نشانیوں سے نہیں ہوسکتا. بلکہ یہ نشانیاں صرف اس کی فطرت کو صاف کرتی ہیں تاکہ انسان الله تعالیٰ کو پہچان لے۔ الله کی موجودگی اور اسی کا معبود ہونا فطرت کو معلوم ہوتا ہے، بیرونی اثرات اسکو آلودہ کردیتے ہیں . عقلی دلائل اسی بات کی یاددہانی کے لیے ہوتے ہیں جو ہم پہلے سے جانتے ہیں ۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش ہے۔ فرض کریں میں اپنی والدہ کے پرانے سامان کی صفائی کررہا ہوں . صفائی کے دوران پرانے بیگ ہٹاتے اور فضول چیزیں سمیٹتے مجھے اپنا پسندیدہ کھلونا مل جاتا ہے. وہ چیز دوبارہ میرے ذہن میں آجاتی ہے جسے میں پہلے سے جانتا تھا ۔! میں کہتا ہوں ” او شکر ہے ، مجھے میرا کھلونا مل گیا ، یہ میرا پسندیدہ تھا “. الله تعالیٰ کی پہچان اور معرفت بھی کچھ اسی طرح ہے. عقلی دلائل روحانی و ذہنی بیداری کے لیے کام کرتے ہیں اس علم کو جاننے کے لئے جو کہ ہماری فطرت میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔
فطرت کا مشاہدہ باطنی غور و فکر سے بھی ہو سکتا ہے۔ قرآنِ پاک گہرے غور و فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔”ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں۔(7:32)یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں (13:3)کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں۔(52:35,36)
اسلامی تصورِتعلیم عقلی دلائل کو ذریعہ سمجھتا ہے نہ کہ مقصود بالذات۔ یہ فطرت کے رموز تک رسائی کا ذریعہ ہیں۔ اس لیے یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ راہنمائی خدا کی طرف سے آتی ہے، اور عقلی دلائل کی کوئی مقدار کسی کے دل کو اسلام کی حقانیت پر مطمئن نہیں کرسکتی۔ خدا تعالی نے اس بات کو بالکل واضح کردیا ہے۔ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے“(28:56)۔راہنمائی ایک روحانی معاملہ ہے اور یہ خدا کے علم وفضل پر مبنی ہے۔ اگر خدا کی رضا ہو کہ کسی کو عقلی دلائل کے ذریعے ہدایت عطا ہونی ہے تو کوئی اس شخص کے لیے اس امر کو روک نہیں سکتا۔ البتہ اگر خدا کے ہاں کسی کے متعلق یہ فیصلہ ہوجائے کہ وہ ہدایت کے قابل ہی نہیں تو جتنے بھی مدلل دلائل لائے جائے، وہ شخص حق کو قبول نہیں کرے گا۔
حاصل یہ کہ خدا پر ایمان ایک عیاں بذات حقیقت ہے۔ جیسا کہ اس جیسی تمام حقیقتوں کے ساتھ ہوتا ہے، جب کوئی انکا انکار کرتا ہے، دلیل اس کے ذمے ہوتی ہے۔ خدا پر ایمان اسی وقت قابلِ اعتراض ہو سکتا ہے جب کہ اس کے نہ ہونے کا کوئی ثبوت ہو۔ یہ کتاب(دی ڈیوائن ریلیٹی ) دکھائے گی، ملحدین کے پاس جو چند اعتراضات ہیں وہ کتنے کمزور اور فلسفیانہ طور پر بودے ہیں۔ (ابواب ۱۱ اور ۱۲ ملاحظہ فرمائیں)۔ خدا پر ایمان کا عیاں بذات حقیقت ہونا خود قرآن میں ۱۴۰۰ پہلے سے مذکور ہے:
” کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والاہے۔“(14:10)
اس باب کو ختم کرتے ہوئے اسلامی اسکالر محمد صالح فرفر بیان کرتے ہیں کہ خدا پر ایمان عین فطری عمل ہے:
” بے شک اگر کوئی شخص اپنی ذات میں اور اپنے اردگرد دنیا میں تفکر کرے تو پہلا احساس کسی عظیم ہستی کے موجود ہونے کا ہوتا ہے جو اس دنیا پر حاکم ہے، جس کے قبضہ قدرت میں زندگی اور موت، تخلیق و نیست، حرکت و سکوت اور ہر طرح کی لطیف تبدیلیاں ہیں جو یہاں رونما ہو رہی ہیں۔ چنانچہ، انسانیت اس حقیقت کو محصوص کرتی ہے اور اس پر ایمان رکھتی ہے، چاہے وہ اس احساس کا کوئی ثبوت دے سکے یا نہ دے سکے۔ یہ انسانیت کا عمومی بدیہی رویہ ہے، اور یہی ایک بہت ہی مضبوط اور ٹھوس دلیل ہے۔ مزید برآں، ہم اپنے اندر محبت، رحم، نفرت،شوق اور ناپسندیدگی جسے جذبات محسوس کرتے ہیں، کیا ثبوت ہے کہ یہ جذبات موجود ہیں ؟حالانکہ یہ ہمارے اندر موجزن ہیں۔ کیا کوئی شخص اپنے احساسات سے بڑھ کر کوئی ثبوت پیش کرسکتا ہے، ان جذبات کے ہونے کا، حالانکہ یہ کسی شبہ کے بغیر موجود ہیں۔ ایک تیزی اور تکلیف محسوس کرتا ہے، لیکن وہ کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہے سوائے اس کے کہ وہ بیان کرسکے کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔ کسی شک کے بغیر اس کا یہ عمل ایک فطری طریقہ ہے، جس پر انسانیت کی تخلیق ہوئی ہے، یہ وہ گہرے احساسات ہیں جو اس کے اندر گھر کیے ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے اندر یقیناً بے مقصد یا بے کار نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک فطری سچ ہیں جو دنیا سے متعلق ہیں۔“(24)
حوالہ جات:
1. BBC Today. (2008). Available at: http://news.bbc.co.uk/today/hi/today/newsid_77 45000/77 455 14.stm [Accessed 1″ October 2016].
2. Ibn Taymiyyah, A. (1991) Dar’ Ta’arud al-‘Aql wan-Naql. 2nd Edition. Edited by Muhammad Rashad Salim. Riyadh, Jami’ah al-Imam Muhammad bin Saud al-Islamiyah. Vol 8, p. 482.
3. Al-Isfahani, Al-Raghib. (2009) Mufradat al-Qur’ an al-Karim. 4th Edition. Edited by Safwan Dawudi. Beirut: al-Dar al-Shamiyya, p. 640.
4. Petrovich, O. (1997). Understanding the Non-Natural Causality in Children and Adults: A Case Against Artificialism. Psyche en Geloof, 8,151-165.
5. Zwartz, B. (2008). Infants ‘Have Natural BeliefIn God’. Available at: http://www.theage.com.au/national/infants-have-natural-belief-in-god-20080725-3l3b.html [Accessed 4th October 2016].
6. Bloom, P. (2007). Religion is Natural. Developmental Science, 10, 147-151.
7. Kelemen, D. (2004) Are Children “Intuitive Theists”? Reasoning About Purpose and Design in Nature. Psychological Science, 15(5),295-301.
8. Jarnefelt, E., Canfield, C. F. & Kelemen, D. (2015). The Divided Mind of a Disbeliever: Intuitive Beliefs About Nature as Purposefully Created Among Different Groups of Non-Religious Adults. Cognition 140:72-9.
10. Ibid. 74.
11. Ibid.
12. Ibid. 79.
13. Ibid. 81.
14. Ibid. 82.
15.Ibid. 83..Ibid. 84.
16. Corriveau. K. H .• Chen. E. E. and Harris. P. L. (20 15).]udgments About Fact and Fiction by Children From Religious and Nonreligious Backgrounds. Cogn Sci. 39: 353-382. doi: 10.1 11 1/cogs.12138.
17. Barrett.]. L. (2012) Born Believers: The Science ofChildren’s Religious Belief New York: Free Press. pp. 35-36.
18. AI-‘Asqalani. A. (2000) Fath al-Bari Sharh Sahih al-Bukhari. 3rd Edition. Riyadh: Dar al-Salam. p. 316.
19. Narrated by Muslim.
20. AI-Ghazali. (2007) Kimiya-e Saadat: The Alchemy of Happiness. Translated by Claude Field. Kuala Lumpur: Islamic Book Trust. p. 10.
21. Ibn Taymiyyah. A. (2004) Majmu’ al-Fatawa Shaykhul Islam Ahmad bin Taymiyyah. Madina: Mujama’ Malik Fahad. Vol 16. p. 324.
22.Ibid. Vol 6. p. 73.
23.Ibn Taymiyyah. A. (1991) Dar’ Ta’arud al-‘Aql wan-Naql. Vol 7. p. 219.
24. Farfur. M. S. (2010) The Beneficial Message and The Definitive Proofin The Study of Theology. Translation and notes by Wesam Charkawi. Auburn: Wesam Charkawi. pp. 85-86. .

  • Muneer Ahmad Kasri
    October 26, 2020 at 9:41 am

    behtreen tehreer, ilhaad ek fitna hy jo din badin hamari parhi likhi nojawan nasal ko apni lapait mn le rha hy

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password