کیاسائنس نےخداکومستردکردیاہے؟ جھوٹےالحادی مفروضوں کاتنقیدی جائزہ

.

.

تصور کیجئے کہ آپ ایک حیران کن محل میں داخل ہوتے ہیں۔ جیسے ہی آپ داخلی راستے پر چلتے ہیں اتنی بڑی عمارت دیکھ کر آپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ قریبی دروازہ کھول کراسے دیکھا جائے، آپ جب کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں کرسیاں اور میزیں ترتیب میں رکھی ہوئی ہیں، جیسے کوئی کمرہء جماعت ہو۔ آپ کا باقی کمروں کو دیکھنے کا شوق یک دم ختم ہوجاتا ہے، آپ محل سے نکلنے کا ارادہ کرتے ہیں اور اپنے دوست سے ملاقات کے لئے مقامی کافی شاپ کا رخ کرتے ہیں۔ چائے پیتے ہوئے آپ کا دوست آپ سے پوچھتا ہے “پھر کیا دیکھا تم نے محل میں؟” آپ جواب دیتے ہیں “صرف ایک کمرہ جو کسی کمرہء جماعت کی ترتیب میں میزوں اور کرسیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ” آپ کا دوست پوچھتا ہے: “تم نے دوسرے کمرے کیوں نہیں دیکھے؟” آپ جواب دیتے ہیں “اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہاں دیکھنے کو کچھ تھا ہی نہیں، اگر یہ کمرہ میزوں اور کرسیوں سے بھرا ہوا تھا پھر باقی کمروں میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔ “

کیا آپ کا جواب معقول ہے؟ کیا آپ کا جواب منطقی ہے کہ اگر کسی ایک کمرے میں کچھ نہیں تھا تو دوسرے کمروں میں بھی کچھ نہیں ہو گا۔ یقیناً یہ معقول جواب نہیں ہے۔ ملحد جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ‘سائنس نے خدا کو غلط ثابت قرار دے دیا ہے’ یہ دعویٰ اسی قسم کی منطق کی پیروی کرتا ہے۔

سائنس صرف ان چیزوں پر اپنی توجہ مذکور کرتی ہے، جنھیں مشاہدات سے حل کیا جاتا ہے۔ جبکہ خدا ایسی ہستی ہے جو اس مادی کائنات سے ماورا ہے۔ اسی لیے خدا کا براہِ راست مشاہدہ کرنا ناممکن ہے۔ کوئی ملحد شاید یہ کہے کہ بلاواسطہ مشاہدہ تو خدا کے وجود کی تردید یا تصدیق کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے، بلاواسطہ مشاہدے کی بھی کوئی صورت خدا کے وجود کی نفی نہیں کر سکتی ۔کیونکہ یہ بالکل ایسے ہے، جیسے کہا جائے کہ کوئی ایسا عمل جس کا مشاہدہ کیا گیا ہو،وہ اس عمل کی نفی کرتا ہے جسے دیکھا ہی نہ گیا ہو۔ یہ دلیل اوپر بیان کردہ محل کے جائزہ کی مثال کی طرح ہی ہے۔

سائنس کے فلسفیوں کی اکثریت اس حقیقت کی وضاحت کر چکی ہے کہ “سائنس انکار خدا کی طرف نہیں لے جاتی”۔ مثال کے طور پر ہگ گوچ[1] درست طور پر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ “یہ اصرار کرنا کہ ‘سائنس الحاد پرستی کی حمایت کرتی ہے’ ایک جذباتی دعویٰ تو ہو سکتا ہے مگر دلیل، منطق یا اصول پر مبنی نہیں۔ “[i]

یہ بات بالکل قابلِ فہم ہے کہ سوچ کا وہ طریقہء کار، جو مکمل طور پر مشاہدات پر منحصر ہو، اس چیز کا انکار نہیں کر سکتا، جس کا مشاہدہ ہی نہ کیا گیا ہو۔ سائنس کیا کر سکتی ہے؟ یا اس معاملے پر خاموش رہتی ہے یا پھر ایسے طریقہ کار وضع کر سکتی ہے جن کو استعمال میں لاتے ہوئے کوئی یہ نتیجہ نکال سکتا کہ خدا کا وجود ہے۔ اس کے باوجود ، ایسے دلائل موجود ہیں، جو سائنسی ثبوتوں کا استعمال کرکے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خدا کے وجود کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہیں مشہودی دلائل کہتے ہیں۔ یہ فلسفیانہ مباحث ہیں نہ کہ سائنسی نتائج۔

کچھ ملحد یہ کیوں سوچتے ہیں کہ سائنس خدا کا انکار کر سکتی ہے؟

سائنس نے انسانوں کی د نیا بدل کر رکھ دی ہے۔ علمِ طب سے لیکر برقی پیغام رسانی تک، ہماری زندگیوں کو جس طرح سائنس نے تبدیل کیا ہے، اتنا علم کے کسی اور شعبے نے نہیں کیا۔ سائنس مسلسل ہماری زندگی کو سنوار رہی ہے اور دنیا اور کائنات کے متعلق ہماری فہم میں اضافہ کر رہی ہے۔ سائنس کی انہی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ ملحدین نے بے جوڑ اور غلط مفروضے قائم کر لئے ہیں۔ ذیل میں ان مفروضوں کا ایک خلاصہ بیان کیا جار ہا ہے۔

  • پہلا یہ کہ بعض ملحدین یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس، سچ کو جانچنے کا واحد پیمانہ ہے اور یہ بھی کہ سائنس کے پاس ہمارے تمام سوالوں کے جوابات ہیں۔ اس سے الحاد پرست یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں  کہ “خدا نہیں ہے” کیونکہ سائنس صرف اس کا جواب دے سکتی ہے جو مشاہدہ میں آ سکے۔چونکہ خدا مشاہدہ میں نہیں آ سکتا اور سچ کو پانے کے لئے سائنس ہی واحد کسوٹی ہے، لہذا خدا کی موجودگی کا دعوی غلط ہے۔اسی مفروضے کی بنا پر دہریوں(atheist) کا یقین ہے کہ اب ہمیں ان چیزوں کے لئے خدا کی ضرورت نہیں رہی، جن کی ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے کیونکہ سائنس کی حدود ہیں اور ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں سائنس جواب نہیں دے سکتی۔ مزید یہ کہ علم وآگاہی کے دیگر ذرائع بھی ہیں ،جنھیں سائنس ثابت کرنے سےقاصر ہے، جبکہ وہ علم کے اہم اور بنیادی ذرائع ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنس حقیقت اور دنیا کے بارے میں سچ ثابت کرنے کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔
  • دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ چونکہ سائنس بہت کامیاب ہے لہٰذا سائنسی نتائج لازماً درست ہونگے۔ یہ بات سائنس کے فلسفے کے متعلق عمومی جہالت کا پول کھولتی ہے۔ محض اس لئے کہ کوئی چیز کام کرتی ہے، اس سے یہ ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو۔ یہ سائنس کے فلسفے کا بہت بنیادی تصور ہے۔ بدقسمتی سے بعض جانے مانے ملحد بھی یہ بے میل اور بے جوڑ قسم کی رائے رکھتے ہیں، کہ سائنسی نظریات کا کامیاب عملی استعمال یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ نظریات قطعی طور پر درست ہیں۔ 2010ء میں ڈبلن آئرلینڈ میں منعقدہ ملحدین کے عالمی اجتماع[2] میں رچرڈ ڈاکنز سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ میری ان سے مختصر سی گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایک سوال کرنے والے سے یہ کیوں کہا کہ سائنس کے فلسفے کو نہ پڑھو بلکہ سائنس کو عملی طور پر اختیار کرو “just do the science”۔ انھوں نے مجھے کوئی اطمینان بخش جواب نہ دیا۔ ان کے زیادہ تر کاموں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ “سائنس کامیاب ہے یا اس سے کام نکلتا ہے”[ii]۔ اگرچہ یہ بات وجدان کو بھلی معلوم ہو سکتی ہے لیکن حقیقت میں یہ غلط ہے۔ یہ لازمی نہیں کہ کسی چیز سے کام نکلتا ہے تو وہ درست بھی ہو۔
  • تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ سائنس یقینی علم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اگر سائنس، یقینی علم کے حصول کا واحد کامیاب راستہ ہے اور سائنس خدا کا وجود ثابت نہیں کرتا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ اس سے ملحد اس بات پر بھی پر اعتماد ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی چیز سائنسی طور پر ثابت ہو جاتی ہے تو پھر الہامی علوم کو بھی اس معیار پر پرکھنا چاہیئے۔ اور اگر الہامی علم سائنسی معلومات کی مخالفت کرتی ہوں، تو الہامی علم کو یکسر مسترد کیا جانا ضروری ہے۔ ایسا کہنا سائنسی فلسفے کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسی نظریات کی حیثیت ہی ایسی ہے کہ اس پر کلی طور پر تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ سائنس میں ایک نظریہ سالہا سال تک ٹھیک سمجھا جاتا رہتا ہے، سائنس دان اسے پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں، لیکن پھر سائنس کی دنیا میں وہ نظریہ چنداں متروک ہوجاتا ہے۔ لیکن ماضی کے ان تمام غلط ترین حسابات و تجربات کے باوجود اسی غلط نظرئیے کے تحت بے شمار ایجادات بھی ہوتی رہتی ہیں جن سے لوگوں کے’کام چلتے رہتے ہیں’۔ تمام سائنسی علوم اس قسم کی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ معلوم ہوا کہ سائنس کے کام چلانے کیلئے اس کا ٹھیک ہونا نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کافی۔ یہ بس کام چلانے کا ایک طریقہ ہے،۔چونکہ کام چل رہا ہے، لہذا لوگوں کو یہ بھلی معلوم ہورہی ہے۔ لیکن نادان لوگ اس کے ‘اس کام چلانے کی صلاحیت’ کو اس کے ‘ٹھیک ہونے کا پیمانہ’ سمجھے بیٹھے ہیں۔ سائنس میں سچائ اور حقیقت کا کتنا عنصر ، یہ خود سائنسدانوں کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔ سائنس کا اصل میدان ‘تلاش حقیقت’ اور ‘تفہیم کائنات’ نہیں، بلکہ نفس انسانی کی تسکین کیلئے ‘تخلیق حقیقت’ ہے۔

جب سائنسدان کسی چیز کو حقیقت کا نام دے رہے ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ یہ بالکل حتمی یا قطعی بات ہے اور اس میں کبھی ردوبدل نہیں ہو گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص عمل یا مظہر کی ہمارے محدود مشاہدات پر مبنی اب تک دستیاب بہترین وضاحت ہے۔ تاہم نئے مشاہدات یا چیزوں کو پرکھنے کے نئے طریقے بھی سامنے آسکتے ہیں، جو گذشتہ مشاہدات سے نرالے ہوں۔ یہی سائنس کی خوبصورتی ہے کہ یہ کوئی پتھر پر لکیر نہیں ہے۔ اس لئے سائنس اگر مقدس مذہبی کتاب سے ٹکر جائے تو یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ سائنسی تفہیم بدل سکتی ہے۔ جو کچھ ہم کہہ سکتے ہیں وہ قابل مشاہدہ مظہر کی موجودہ سمجھ بوجھ ہی ہے جو ہمارے محدود مشاہدات پر مبنی ہے اور کسی خاص مقدس کتاب سے انوکھی ہے، مگر یہ بدل سکتی ہے۔ یہ اس سے بہت بعید ہے کہ اسے مذہبی کتابوں کے دعووں کو توڑنے کے لیے کلہاڑے کی طرح استعمال کیا جائے۔ اگرچہ آج بعض بہت واضح قسم کے سائنسی حقائق تو بدلتے نہیں دکھائی دے رہے، مگر بہت سے وہ دلائل جو مذہبی کتابوں کی مخالفت میں پیش کئے جاتے ہیں اور بہت پیچیدہ نظریا ت پر مشتمل ہوتے ہیں، جیسا کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا؛ اگر خدا کی طرف سے وحی کی گئی کتاب کا متن سائنسی حقائق سے مختلف ہو تو سائنس کی بات تسلیم کرنے کے لئے مقدس کتاب کا انکار کرنا ضروری نہیں ہے، مزید یہ بھی کہ خدا کی کتاب کو ماننے کے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ سائنس کا انکار کریں۔ بلکہ یہ آپ کاعلمی حق ہے کہ آپ بیک وقت دونوں کو تسلیم کریں۔ تاہم درست طریقہ کار یہ ہے کہ آپ سائنس کو بطور بہترین وضاحت ضرور تسلیم کریں مگر ایمان کی حد تک تجاوز نہ کریں اور یہ اخذ نہ کریں کہ یہ بالکل حتمی اور قطعی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ خدا کی کتاب کو تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ اس کوتسلیم کرنے کے لیے آپ کے پاس معقول وجوہات ہیں۔ (دیکھئے باب نمبر 13)

  • آخری مفروضہ: یہ ایسا چشمہ فراہم کرتا ہے جس سے بہت سے ملحدین دنیا کودیکھتے ہیں۔ یہ عینک جیسا کہ اس کتاب کی دیگر ابواب میں ذکر کیا گیا ہے، فطرت پرستی ہے۔ فطرت پرستی کی دواقسام ہیں: فلسفیانہ فطرت پرستی(philosophical naturalism)، اصولی فطرت پرستی(Methodological  naturalism)۔ فلسفیانہ فطرت پرستی یہ ہےکہ کائنات کے تمام مظاہر کی مادی عوامل سے وضاحت کی جا سکتی ہے اور کوئی بھی چیز مافوق الفطرت نہیں ہے۔ اسلوبی فطرت پرستی یہ ہےکہ اگر کوئی بھی چیز سائنسی معلوم ہوتی ہے تو اس کا خدائی قوت یا حکمت سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔  ملحدین ان دونوں نظریات کو ملا دیتے ہیں۔ ملحد نادانستہ طور پر سائنسی نتائج کو سمجھنے کے لئے فلسفیانہ فطرت پسندی کے غیر سائنسی مفروضے کو اپناتا ہے۔ ملحدین نے اس خیال کو گڈمڈ کر دیا کہ، سائنسی نتیجوں کو، سائنسی اصولوں کے مطابق ہونے کے لئے ، خدا کی تخلیقی طاقت یا حکمت (اصولی فطری پرستی) کا حوالہ نہیں دینا چاہئے ، اس حقیقت کے ساتھ کہ اس کی تخلیقی قوت اور حکمت موجود نہیں ہے (فلسفیانہ فطرت پسندی)۔

اس باب کے بقیہ حصے میں ہم ان مفروضوں پر بات کریں گے اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم سائنس کی بنیاد کی طرف جائیں کہ سائنس کیا چیز ہے۔ سائنس کی حدود کو سمجھیں اور سائنس کے فلسفے میں موجود چند بحثوں کی گرہیں کھولیں۔

سائنس کیا ہے؟

لفط سائنس لاطینی زبان کے لفظ سائنٹیا[3] سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنیٰ ہیں علم۔ سائنس یہ جاننے کی انسانی کوشش ہے کہ مادی دنیا کیسے کام کرتی ہے۔ علمِ ریاضی اور سائنس کے فلسفی برٹرینڈ رسل[4] نے بہترین الفاظ میں سائنس کی وضاحت کی ہے کہ “سائنس کسی چیز کودریافت کرنے کی کوشش ہے، جس کی بنیاد مشاہدات اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج پرہے…خصوصی طور پر دنیا سے متعلق حقائق اور وہ قوانین جو ان حقائق کو منسلک کرتے ہیں۔ “[iii]

رسل کی تعریف کی روشنی میں ہم سائنسی طریقہ کار کو مزید حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

سائنس کاایک خاص دائرہء کار ہے۔ یہ مادی دنیا پر توجہ مذکور کرتی ہے اور صرف فطرت کے عوامل اور مظاہر پر گفتگو کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سوالات جیسا کہ “روح کیا ہے؟” اور”معنویت کیا ہے؟” یہ سائنسی دائرہ کار سے باہر کے سوالات ہیں۔

سائنس کا مقصد مادی دنیا کی وضاحت کرنا ہے۔ بطورِ مجموعی اس کا مقصد یہی ہے کہ یہ اس بات کی درست وضاحت کرے کہ فطرت کیسے کام کرتی ہے؟ اس مقصد کی تکمیل کے لیے سائنس قابلِ آزمائش مفروضو ں پر کام کرتی ہے۔ کسی مفروضے کےقابلِ آزمائش ہونےکیلئے ضروری ہے وہ عقلی طور پر کچھ توقعات کو جنم دے۔ اس مفروضے کو دیکھئے: “چائے پہلوانوں کی کارکردگی کو بہتر کرتی ہے” یہ مفروضہ آزمائش اور امتحان سے گزارے جانے کے قابل ہے، کیونکہ یہ درج ذیل ممکنہ توقعات کو جنم دیتاہے: چائے کارکردگی کو بہتر کرتی ہے۔ چائے کارکردگی پر برا اثر ڈالتی ہے۔ چائے کا کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں۔

سائنس کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ نہ صرف یہ درست مفروضے کی جانچ پڑتال کرتی ہے بلکہ یہ تجربات اور آزمائش کو بھی ضروری قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی رائے محض قابلِ آزمائش نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت اسے آزمایا بھی گیا ہوتا ہے۔ نتائج کا واحد مجموعہ زیادہ پسندیدہ انتخاب نہیں ہے، بلکہ اصل سائنس یہ پسند کرتی ہے کہ مختلف سائنس دان جتنی زیادہ مرتبہ ہو سکے، اپنے تجربوں کو دہرائیں۔

جن باتوں کا اب تک تذکرہ کیا جا چکا ہے، یقیناً سائنس اس سے کہیں زیادہ ہے، مگر یہ باتیں سائنسی طریقہ کار کے بنیادی عناصر کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سائنس سے متعلق ان غلط مفروضوں کا جواب دینے میں مدد گار ثابت ہوں گی جو بعض الحاد پرستوں نے قائم کئے ہوئے ہیں کہ سائنس الحاد پرستی کی طرف لے جاتی ہے۔

مفروضہ #1: سائنس حقیقت کو جاننے کا واحد راستہ ہے اور یہ تمام سوالوں کے جواب دے سکتی ہے۔

اس دعویٰ کو سائنس پرستی[5] کہا جاتا ہے۔ اس کےمطابق اگر کسی بیان کو سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا تو وہ سچ نہیں ہے۔ الحاد پرستوں اور انسان پرستوں سے مختلف مواقع پر گفتگو سے یہ پتا چلا کہ وہ مستقل یہ دعوی کرتے ہیں۔ جبکہ سائنس دنیا کے بارے میں سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ نہیں ہے۔ سائنسی طریقہ کار کا محدود دائرہ یہ واضح کرتا ہےکہ سائنس تمام سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہے۔ اس کی چند حدود درج ذیل ہیں:

  • یہ مشاہدے تک محدود ہے۔
  • اخلاقی طور پر غیر جانبدار ہے۔
  • یہ ذاتی تحقیق نہیں کر سکتی۔
  • یہ (اس بات کا) جواب نہیں دے سکتی کہ چیزیں کیوں ہو رہی ہیں۔
  • بعض مابعد الطبیعاتی سوالوں کے جوابات نہیں دے سکتی۔
  • قطعی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتی۔

تاہم اس سے پہلے کہ ہم سائنس کے محدود ہونے کی بحث کریں، یہ بات قابلِ غور ہے کہ سائنس پرستی کا نظریہ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارتا ہے۔ سائنس پرستی یہ دعویٰ کرتی ہےکہ کوئی بھی بیان درست نہیں ہے اگر اسے سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ تو اوپر لکھا گیا یہ جملہ خود سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ “اردو زبان میں کوئی جملہ تین الفاظ سے زیادہ کا نہیں ہو سکتا ” یہ دعوی خود اپنے آپ کو غلط ثابت کر رہا ہے کیونکہ یہ جملہ خود تین الفاظ سے زیادہ کا ہے۔ [iv]

مشاہدے تک محدود:

یہ واضح حد بندی محسوس ہوتی ہے مگر اسے عموما مکمل طور پر سمجھا نہیں جاتا۔ سائنس دان ہمیشہ اپنے مشاہدے تک محدود ہوتے ہیں، مثال کے طور پر اگر کوئی سائنس دان چوہوں پر کیفین کے اثرات کو جانچنا چاہتاہے تو وہ ان چوہوں کی تعداد اور اقسام تک محدود ہے, جو اس کے پاس تجربے کےوقت موجود ہوں۔ سائنسی فلسفی ایلیٹ سوبر[6] اپنے مضمون ‘تجربیت’ میں اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہیں: “کسی بھی موقع پر سائنس دان ان مشاہدات تک محدود ہوتے ہیں جو اس کے پاس موجود ہوں…اور خامی یہ ہےکہ سائنس ان مسائل پر توجہ مذکور کرنے پر مجبور ہوتی ہے,جن کو مشاہدات حل کر سکتے ہوں۔ “[v]

نہ صرف یہ کہ سائنس دان مشاہدے کے محتاج ہیں بلکہ یہ بھی کہ مستقبل کے مشاہدے سے نئے نتائج اخذ کر سکیں جو گذشتہ مشاہدے کے مخالف جاسکیں (The Problem of Induction)۔ ایک اور حد یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں ترقی یا بارہا تحقیق کرنے کی وجہ سے عین ممکن ہےکہ جن چیزون کا ہم آج مشاہدہ نہین کرپارہے مستقبل میں ہم ان کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ خرد بین کی ایجاد اور استعمال سائنسی ترقی کی بہترین مثال ہے۔ اسی لیے مادی دنیا کے بارے میں اپنی موجودہ سمجھ بوجھ کے متعلق کوئی یقینی مؤقف قائم نہیں کر سکتے کیونکہ مشاہدات میں بہتری کے ساتھ یہ بدل سکتاہے۔

اخلاقی طور پر غیر جانبدار:

سائنس اخلاقی طور پر غیر جانبدار ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ سائنس دانوں میں اخلاقیات نہیں ہوتی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس اخلاقیات کی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر سائنس اخلاقیات کا مطلب یا اس کے مقاصد نہیں بیان کر سکتی اور یہ نہیں بتا سکتی ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح؟

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سائنس ان مختلف شعبوں کے ا متزاج کا حصہ نہیں بن سکتی جو اخلاقیات کا درس دیتے ہوں۔ تاہم سائنس بذات خود ایسی بنیاد فراہم کرنے میں نا کام ہے جو یہ بتا سکے کہ ہم کس چیز کو اچھا تصور کریں اور کس کو برا۔

سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ ‘کیا ہے’ مگر یہ نہیں بتاتی کہ ‘کیا ہونا چاہیئے’۔ یہ جملہ ‘کیا ہے’ سے ہم یہ اخذ نہیں کر سکتے کہ ‘کیا ہونا چاہیئے’۔ یہ ایک فلسفیانہ جملہ ہے مگر کسی حد تک سچ ہے۔ سائنس یہ بتا سکتی ہے کہ کسی کو چھری یا چاقو لگے تو کیا ہوتا ہے، تمام متاثرہ عوامل بتا سکتی ہے، مگر یہ نہیں بتا سکتی ہے کہ کیا یہ غیر اخلاقی ہے۔ خون، درد اور جسمانی نقصان کسی زندگی بچانے والی اہم سرجری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے یا کوئی قاتلانہ حملہ کا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کسی انسان کے گوشت میں میں کٹ لگنے اور چھری کے جسم میں داخل ہونے کے عمل کو سمجھنا کسی اخلاقی نتیجے تک نہیں پہنچا سکتا۔

چارلس ڈارون نے اخلاقیات اور سائنس(بالخصوص بائیو لوجی) کا مطالعہ کیا، اور بائیولوجیکل عوامل سے  اخذ شدہ اخلاقیات کی ایک انتہائی  ممکنہ صورت کی مثال پیش کی۔ اس کاکہنا یہ تھا کہ اگر ہماری مختلف بائیو لوجی کی شرائط کے مطابق پرورش پاتے تو ہمارا اخلاقی تصور موجودہ نظریات سے مختلف ہو سکتا تھا۔[vi] ڈارون یہ کہنا چاہ رہا ہےکہ انسانی اخلاقی تصور دراصل پہلے سے طے شدہ حیاتیاتی شرائط کا نتیجہ ہے۔ اگر مستقبل میں یہ شرائط کا مجموعہ بدل جاتاہے تو نتیجتاً اخلاقیات کا معیار بھی بدل جائےگا۔ یہ بات اخلاقیات کے مطلب کےتعین اور اس کی بنیاد پر بڑا اثر رکھتی ہے۔ اول تویہ کہ حیاتیاتی یا طبیعی شرائط کا اخلاقیات کی بنیاد کےطورپر قیام، اخلاقیات کے موضوع کو خراب کرتا ہے۔کیونکہ اخلاقیات کا تعلق ہماری طبیعی حالت میں متوقع تبدیلیو ں کیساتھ ہوتا ہے۔ اخلاق، مادی دنیا میں تیزی کے ساتھ بدلتے تھے اور بدلتے ہیں۔ جبکہ یہ بات اس فطری اور ناقابلِ تردید حقیقت کی مخالفت کرتی ہے کہ اخلاق کا تعلق ذات یا حالات سے نہیں ہوتا بلکہ حیاتیات سے ہوتا ہے اور یہ پہلے سے متعین ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر ہماری اخلاقی حس کی بنیاد بائیولوجیکل حالات پر ہوئی، تو ہمارے اخلاق کا کیا مطلب ہوا؟ اگر ہمارے لئے اخلاقیات کا معیار ہی کچھ اور ہو گا اور اگر ہماری پرورش مختلف حالات میں ہوتی تو پھر ہمارے اخلاق کی کوئی حیثیت ہی نہ رہی۔ کیونکہ اس طرح یہ محض اتفاق اور جسمانی عوامل کا نتیجہ ٹھہریں گے۔

بےباک ملحد اور نیورو سائنٹسٹ سیم حارث[7] اپنی کتاب “The Moral Landscape” میں وضاحت کرتے ہوئے کہ کس طرح سائنس ہماری اخلاقی اقدار معلوم کر سکتی ہے، معروضی اخلاقیات کی حس کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کی پیروی کرنے والے ملحد ساتھیوں نے اس کی کوششوں کو سراہا، مگر اسے اپنے ہی ہم خیال ساتھیوں اور خدا کی ذات پر یقین رکھنے والے لوگوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ حارث نےاخلاقیات سے متعلق اپنا نقطہ نظر ہمارے سامنے اس طرح پیش کیا کہ اس نے اخلاقی اچھائی کو بلندی پر رکھا اور اخلاقی برائی کو گہری پستی میں۔ حارث نے برائی کو نقصان اور اچھائی کو فلاح قرار دیا ، لیکن یہ معقول نہیں۔ اگر یہ ثابت کر دیا جائے کہ لوگ دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنی بھلائی کر سکتے ہیں تو اس کی اخلاقیات کا خاکہ تباہ ہو جائے گا۔ فرض کریں اس رشتہ دار سے جس سے نکاح حرام ہو، مانعِ حمل تدابیر اختیار کرتے ہوئے باہمی رضا مندی سے جنسی تعلقات قائم کیے جائیں، جس سے دونوں فریقین کو فرحت ملے اور کسی قسم کے نقصان یا مصیبت کا بھی خطرہ نہ ہو۔ اپنی بحث کے دوران میں نے یہ معاملہ پروفیسر کراوس کے سامنے بھی اٹھایا، مگر وہ اپنے مؤقف کو پورے یقین کے ساتھ واضح نہیں کر سکے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ غلط ہے اور وہ اخلاقی طور پر اس کی مذمت بھی نہیں کر سکے۔ [vii]یہ لازمی نہیں ہوتا کہ جو اشیاء ہمیں نفع پہنچائیں وہ اخلاقی طور پر بھی ٹھیک ہوں۔ اگر کوئی اس مثال سے اتفاق نہ کرے، ایسی دیگر بہت سی مثالیں ہیں جو اس نقطہ نظر کو واضح کر سکتی ہیں۔

سائنس کے ملحد فلسفی رابرٹ جانسن[8] نے اپنی کتاب ‘عقلی اخلاقیات’[9] میں حارث کی دلیل پر اسی قسم کی تنقید کی ہے۔ جانسن نے لکھا: “ایسا لگتا ہےکہ حارث ابھی بھی اس مسئلے کا شکار ہے اور وہ یہ فرض کر رہا ہے کہ ‘بھلائی’ نامی چیز کا حقیقت میں وجود ہے۔ کیا ہم اس حقیقت کو چٹانون تلے پتھروں پر تلاش کر سکتے ہیں؟کیا ہم اس کو الکمومی حرکیات(Quantum Mechnics) کے قوانین کے تناظر میں اسے ثابت کر سکتے ہیں؟ نہیں۔ دراصل وہ واحد شے جو ہمارے ان خیالات کے پیچھے ہیں کہ اخلاقی حقائق وجود رکھتے ہیں، وہ محض ہمارے فطری تصورات ہیں ۔یہ مسئلہ بڑےآسان الفاط میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ حارث نے یہ درست تشخیص کی ہے کہ فی الحال اخلاقیات کی تعریف کیسے کی جاتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اخلاقیات کو حقیقت مان لینا چاہیئے۔ درحقیقت حارث خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ ہم بہت سی ایسی چیزوں کی اجازت دیتے ہیں جو غیر اخلاقی ہے۔ “[viii]

ذاتی تحقیق نہیں کر سکتی:

سائنس کو اپنے اوپر ناز ہے کہ وہ تجربات کے ذریعے اپنے نظریات کو جانچتی ہے۔ تجربات کے بغیر کوئی سائنس نہیں ہے۔ تاہم بعض اوقات آزمانے سے اعتماد ٹوٹ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ لوگ کیا خواہش رکھتے ہیں؟ یا لوگ کیا محسوس کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ سائنسدان یہ دلیل دیں کہ جھوٹ جاننے والا آلہ اور دیگر نفسیاتی اورعمرانیاتی رویوں کی نشاندہی کے ذریعے ہم احساسات کا پتہ لگاسکتے ہیں (حالانکہ یہ دعویٰ غلط ہے، اس کی وضاحت ذیل میں موجود ہے) ۔ بظاہر ان کی بات معقول لگتی ہے مگر یہ اتنی سادہ ہے نہیں۔ آپ دوستی کی مثال لیں۔ آپ کا دوست آپ سے پوچھتا ہے کہ آپ کا دن کیسا گزرا؟ آپ کے احساسات کیا ہیں؟ آپ کہتے ہیں بہت عمدہ دن تھا اور میں بہت خوش ہوں۔ تصور کیجئے اگلے دن آپ اس سے ملتے ہیں تو وہ یہی سوال دہراتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ یقین صرف اس صورت میں کرے گا کہ آپ اپنے آپ کو جھوٹ بولنے والے آلے کے ساتھ منسلک کر کے بالفعل ثبوت دیں۔ کیا اس عمل سے آپ کی دوستی کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ اگر وہ آپ کے ہر جواب پر یہ مطالبہ کرے تو کیا اس سے آپ کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے گا؟ یقیناً پڑے گا۔ دوستی کا لطف ہی تب ہے جب ہم اعتماد کریں اور ایک دوسرے کا یقین کریں۔

اسی طرح ایک اور مثال جذبات کی ہے۔ ہمیں یہ کیسے پتا چلے گا کہ کوئی مایوس ہے؟ کیا ہمارے پاس  مایوسی کو جانچنے کے لئے بھی کوئی آلہ ہے، جسے ہم استعمال کر سکیں؟ اگرچہ کچھ جسمانی معلومات اور مشاہدات مدد دیتے ہیں مگر اصل چیز ماہرِ نفسیات اور مریض کے درمیان گفتگو ہی ہوتی ہے، جو بہت سارے سوالات و جوابات پر مبنی ہوتی ہے۔ ضروری یہی ہوتا ہے کہ ہم مریض کی باتوں پر یقین کریں۔ لہٰذا مجھے یہ لگتا ہے کہ انسانی زندگی کے بعض شعبوں میں صرف مشاہدہ ہی کافی نہیں ہوتا جیسا کہ دوستی اور ذہنی معاملات میں۔ تو ثابت یہ ہوا کہ سائنس صرف تجربے پر انحصار نہیں کر سکتی اس کواعتماد اور یقین بھی کرنا پڑتا ہے۔

سائنس صرف کسی غیر متعلقہ شخص کی فراہم کردہ معلومات پر کام کرتی ہے۔ ‘انسان کی عادات، مزاج، احساسات اور تجربات کیا تھے’ کا دار و مدار محض اس بات پر ہے کہ ہم اس غیر متعلقہ شخص کی بات پر اعتماد کریں۔ جبکہ ان کا تعلق خاص” اسی متعلق بندے “سے ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ سائنس کسی شخصیت کو مکمل جان نہیں سکتی۔ کسی ذی روح کے لئے داخلی ذاتی شعوری حالت کے تجربہ کے بارے میں سائنس ہمیں کچھ نہیں بتاسکتی (باب  7 ملاحظہ کریں)۔ کسی بھی قسم کے جواب کا واحد راستہ یہ ہے کہ کسی اور کے ذاتی خیالات اور شعوری تجربوں کی وضاحت پر اعتماد کیا جائے (حالانکہ اس کے باوجود بھی آپ واقعتا یہ نہیں جان پائیں گے کہ یہ تجربہ ان کے لئے حقیقتا کیسا ہے؛ باب 7 دیکھیں)۔ نقطہ آسان ہے: سائنس “ذاتی یا نفسی” کی جانچ اور پرکھ نہیں کر سکتی۔

سائنس کے پاس ‘کیوں’ کا جواب نہیں:

فرض کریں میری چچی آپ کے دروازے پر دستک دیتی ہیں اور آپ کو گھر کا بنا خوبصورت چاکلیٹ کیک دے جاتی ہیں۔ آپ اسے قبول کر  کے اپنی میز پر رکھ دیتے ہیں۔ اس کا پہلا لقمہ لینے سے پہلے آپ کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ وہ مجھے یہ کیوں دے گئی ہیں؟ بحیثیت سائنسدان آپ اس کیک کی تحقیق کر سکتے ہیں، آپ اس کے اجزاء کا تو پتا لگا لیں گے، اس کا بھی کہ یہ کس درجہء حرارت پر پکا ہے۔ مگر یہ تمام معلومات آپ کے سوال کا جواب نہیں دے سکتیں۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آپ خاتون سے پوچھیں۔ اس مثال سے یہ واضح ہے کہ سائنس ہمیں یہ تو بتا سکتی ہے کہ ‘کیا ہے’ اور ‘کیسے ہیں’ مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ ‘کیوں ہے’۔ ‘کیوں’ سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر چیز کے پیچھے کوئی مقصد ہوتا ہے، پہاڑوں کا وجود کیوں ہے؟ سائنس اس کا جواب زمینی عوامل یا مادی اسباب کی بنیاد پر تو دے سکتی ہے۔ مگر پہاڑوں کے وجود کے پیچھے کیا اصل مقصد تھا، سائنس یہ نہیں بتا سکتی۔ بہت سے لوگ اس بات ہی کا انکار کردیں گے کہ ہر کام کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔

بہت سے ملحدین یہ خیال کرتے ہیں کہ مقصد تلاش کرنا محض مذاہب کی دقیانوسی سوچ کی وجہ سے ہے۔ اس دنیا میں اپنے وجود کو اس نظر سے دیکھنا بے فائدہ ہے۔ ہم پانسوں(Dominoes) کی اس گرتی ہوئی قطار میں سے ایک پانسا(Domino) ہیں۔ ہمیں گرنا ہے ، کیونکہ ہمارے پیچھے والا پانسا گر گیا ہے۔۔ نہ صرف یہ کہ یہ غیر معقول بات ہے بلکہ یہ ہمارے اس مزاج سے بھی متضاد ہے کہ ہم روز مرہ کی سرگرمیوں میں وجہ یا مقصد تلاش کر کے ہی کوئی چیز اپناتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ آپ یہ کتاب پڑھتے پڑھتے آخری باب تک پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو آخر میں یہ جملہ لکھا ہوا ملتاہے کہ “اس کتاب کو لکھنے کا کوئی مقصد نہیں۔ ” کیا آپ اس جملے کو سنجیدہ مان لیں گے؟

سائنس بعض ماطبیعیاتی سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی۔

بعض سوالات ایسے ہیں جنھیں تجربے سے آزما کر سائنسی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً سائنس اپنے شعبے علمِ کائنات کی بنیاد پر کائنات کی ابتداء پر بحث کرتی ہے، مگر پھر بھی چند معقول سوالوں کے جواب نہیں دے پاتی۔ جیسے:

  • استخراجی منطق سے اخذ کردہ نتائج کو پہلے سے موجود مقدمہ کی پیروی کیوں کرنی چاہیئے؟
  • کیا موت کے بعد بھی کوئی زندگی ہے؟
  • ·          کیا روح کا بھی کوئی وجود ہے؟
  • یہاں کچھ نہ ہونے کے بجائے کچھ کیوں ہے؟

سائنس ان سوالوں کے جوابات دینے سے قاصر ہے کیونکہ  ان کا تعلق مادے اور مشاہداتی دنیا سے نہیں ہے۔

ضروری سچائیاں (Necessary truths)

سائنس پرستی ،ریاضی اور منطق کی ضروری سچائی کو ثابت نہیں کر سکتی جیسا کہ درست استخراجی دلیل کے نتیجہ کو لازماً  اپنے مقدمے کی پیروی کیوں کرنی چاہیئے۔ یہ دلیل دیکھیے:

  • وہ نتائج جن کا دار و مدار محدود مشاہدات پر ہوں وہ قطعی اور حتمی نہیں ہو سکتے۔
  • سائنس کا دار و مدار محدود مشاہدات پر ہے۔
  • چنانچہ سائنسی نتائج قطعی یا حتمی نہیں ہو سکتے۔

اس دلیل کی معقولیت کی بنیاد مشاہداتی ثبوت نہیں ہیں، اس کا تعلق منطقی دلائل کے بہاؤ سے ہے اور اس کو مقدمے کی سچائی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مقدمے اور نتیجے میں ایک منطقی ربط ہے۔ اس ربط کا تعلق مشاہدے سے نہیں بلکہ ذہن سے ہے۔ کیا سائنس مقدمے اور سچائی میں منطقی ربط کا جواز پیش کر سکتی ہے؟ نہیں۔ ہمارے ذہن میں اس کا خاکہ ہوتا ہے جو ہمیں مقدمے سے نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ ہم ایسی چیز دیکھتے ہیں جو مشاہدے پر مبنی نہیں ہوتی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ذہن میں منطقیت کے اندرونی ڈھانچے یا پہلو ہیں جو اس قسم کے استدلال کو سہولت دیتے ہیں۔ مشاہدے کی کوئی شکل استخراجی دلیل کے بہاؤ کو صحیح ثابت نہیں کر سکتی۔

اسی طرح ریاضیاتی سچ “3 + 3 = 6” لازمی سچائی ہے  اور  خالص مشاہداتی قیاسی نتیجہ(empirical generalisations) نہیں ہے۔[ix] مثال کے طور پر پوچھا جائے کہ ایک فلانا جمع ایک فلاناکیا ہو گا تو لازمی جواب ہو گا “دو”۔ چاہے یہ معلوم ہی نا ہو کہ “فلا نا” ہے کیا۔ ہم یہی جانتے ہیں کہ ایک اور ایک، دو ہوتے ہیں۔

علم وحکمت کے دیگر ذرائع:

سائنس علم وآگاہی کے دوسرے ذرائع کی وضاحت نہیں کر سکتی, جیسا کہ گواہی کی بنیاد پر حاصل ہونے والا علم۔  نظریہ علم کی یہ شاخ “اس سے متعلق ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کی باتوں سے علم اور قابل قبول عقائد کو کس طرح حاصل کرتے ہیں”۔[x] لہذا ، یہ علم ان  کلیدی سوالوں میں سے ایک کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے، وہ سوال یہ ہے کہ: “ہم دوسرے لوگوں کے بتانے کی بنیاد پر علم” کیسے حاصل کریں گے؟[xi]پروفیسر بنجمن مک مائیلر[10] اس بات کا خلاصہ لکھتے ہیں کہ:

 “مجھےچند ایک باتیں معلوم ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ گریٹر ہیوسٹن ایریا میں سب سے زیادہ  تعداد میں پایا جانے والا سانپ کاپر ہیڈ  ہے۔ مجھے پتہ کہ نپولین، واٹرلو کی جنگ ہار گیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت جنکہ میں یہ لکھ رہا ہوں،  پیٹرول کی قیمت 4.10 ڈالر فی گیلن ہے۔ یہ سب وہ باتیں، جو میں جانتا ہوں،  ان کو ماہرین علمیات گواہی کہتے ہیں، جس کی بنیاد کسی ایک سے یا بہت سے لوگوں سے سنا جانا ہے۔ “[xii]

بنجمن کا خلاصہ فطری ہے اور واضح کرتا ہے کہ کیوں بہت سا علم, صرف سنی سنائی پر انحصار کرتا ہے۔ مثلاً اس بات پر یقین کہ زمین گول ہے۔ اس کا دار و مدار ہم میں سے بہت سوں کا ریاضی یا سائنس پر نہیں بلکہ گواہی سے حاصل شدہ معلومات پر ہی مبنی ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کا ردعمل اس بات پر کچھ اس قسم کا ہو: “میں نے تصاویر دیکھی ہیں۔ ” “میں نے یہ سائنس کی کتابوں میں پڑھا ہے۔ ” “میرے تمام اساتذہ نے یہی بتایاہے۔ ” “میں بلند ترین پہاڑ کی چوٹی پر جاکر زمین کی گولائی کودیکھ سکتا ہوں۔ ” اوراس قسم کی بہت ساری باتیں۔ ان تمام جوابات کی عقلی چھان بین کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان  سب کادار و مدار انہی معلومات پر ہے، جو ہمیں لوگوں سے سن کر حاصل ہوئی ہیں۔ تصاویر کا مصور، کتاب کامصنف اوراستاد،  یہ سب وہ ذرائع ہیں جن کا ہم یقین کر رہے ہیں۔ اورپہاڑ کی چوٹی پر جاکرتحقیق کرنے والی بات بھی سنی سنائی ہے کیونکہ ہم میں سے اکثریت نے یہ کبھی ایسا نہیں کیا۔ آپکا یہ مفروضہ کہ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر آپ تمام زمین کی گولائی کا پتا چلا سکتے ہیں بذات خود ایک سنی سنائی بات ہے۔ اگر آپ نے پہلے یہ کیا بھی ہوتو یہ زمین کی گولائی کو درست ثابت نہیں کر سکتا۔ چوٹی پر کھڑے ہو نا صرف یہ بتائے گا کہ زمین کہیں سیدھی ہیں اور کہیں گول۔ اس کا باقی حصہ سیدھا بھی ہو سکتا ہے، یہ آدھی گول بھی ہو سکتی ہے اور پھول کی طرح بھی ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہماری اکثریت جن حقائق کو تسلیم کرتی ہے وہ درحقیقت دوسروں سے حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہے۔

دوسروں سے حاصل شدہ معلومات پر تکیہ کیے بغیر علمی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ نظریہ علم کے پروفیسر سی اے جے کوڈی[11] اب تک پیش کیے گئے دلائل کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ایسی باتوں کی فہرست بناتے ہیں جو صرف گواہی کی بنیاد پر ہی قبول کی گئی ہیں “ہم میں سے بہت سے لوگوں نے بچہ پیدا ہوتا دیکھا ہو گا، نہ ہی خون کی گردش کا مشاہدہ کیا ہو گا، نہ زمین کے اصل جغرافیہ کو دیکھا ہو گا، نہ زمین کے کسی قانون کا مشاہدہ کیا ہو گا، نہ کبھی اس کا بات کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ آسمان میں روشنی جن اجسام کی وجہ سے ہے وہ کتنے فاصلے پر ہیں۔ ” [xiii]

گواہی کی اہمیت کے موضوع پر مزید تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ تفصیلی بحث کے لئے باب نمبر 13 دیکھیں۔

مختصر یہ کہ، یہ نظریہ کہ سائنس ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے حقائق کو جانا جا سکتا ہے، یکسر غلط ہے۔ سائنس پرستی کا نظریہ اپنا رد خود کرتا ہے: سائنس علم حاصل کرنے کا محدود ذریعہ ہے۔ اس کو اخلاقی، ریاضیاتی، منطقی سچائی جاننے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا

مفروضہ #2:چونکہ یہ کام کرتی ہے، لہذا صحیح ہے۔

یہ منطقی طورصحیح نہیں ہے صرف اسلئے کہ کوئی چیز کام کر رہی ہے ،لہذا وہ سچ ہے۔ اس کے باوجود ، سائنس کے فلسفے سے عوامی  لاعلمی کی وجہ سے، رچرڈ ڈاکنز جیسے مقبول لوگ عوامی سطح پر اس جھوٹ پر ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں کہ سائنسی نتائج سچے ہیں کیونکہ وہ کام کرتے ہیں۔ ایک عوامی لیکچر کے دوران ، ڈاکنز سے سائنس پر یقین کی سطح کے بارے میں پوچھا گیا۔ اس کا جواب، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا، بھونڈا اور غیر مہذب تھا۔ ڈاکنز واضح طور پر غلطی پر تھا۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ اگر کوئی چیز کام کر رہی ہے ، تو وہ حقیقت میں سچ ہے۔ اس نقطہ کو ثابت کرنے کے لئے فلاگسٹن تھیوری (phlogiston  theory) ایک مناسب مثال ہے۔

ابتدائی کیمیا دانوں نے ایک نظریہ شائع کیا تھا کہ تمام آتش گیر چیزوں میں ایک عنصرموجود ہے جسے فلاگسٹن کہتے ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق ، جب کوئی آتش گیر چیز جل جاتی ہے ، تو وہ فلاگسٹن کا اخراج کرتی ہے۔ مزید برآں، جو جتنا زیادہ آتش گیر ہو گا، س میں اتنا ہی زیادہ فلاگسٹن ہو گا۔ اس نظریہ کو سائنسی برادری نے حقیقت کے طور پر اپنایا تھا۔ اس نظریہ نے اتنی عمدگی سے کام کیا کہ 1772 میں ڈین ردرفورڈ نے نائٹروجن دریافت کرنے کے لئے اسکا استعمال کیا ، جسے اس وقت انہوں نے ” فلوجسٹریٹڈ ہوا ” کہا تھا۔ تاہم ، بعد میں فلاگسٹن ایک غلط نظریہ ثابت ہوا۔ فلاگسٹن کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ مثال ان بہت سی مثالوں میں سے ایک ہے، جو یہ دکھاتی ہیں کہ ایک نظریہ کام بھی کرسکتا ہے اور نئی سائنسی سچائیوں کوبھی پیش کرسکتا ہے ، اور اس کے بعد غلط بھی ثابت ہو جائے۔ سبق عیاں ہے: صرف اس لئے کہ کچھ کام کرتا ہے ، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سچ ہے۔ کچھ نا تجربہ کار معترضین کہیں گے کہ مذکورہ بالا مثال مخصوص ہے اور وہ جدید سائنس پر لاگو نہیں ہوسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فلاگسٹن کا نظریہ مکمل نظریہ نہیں تھا اور اس کے بارے میں مفروضات تھے۔ تاہم ، آج کے سائنسی نظریات ان پریشانیوں کا شکار نہیں ہیں۔ یہ سراسر غلط ہے۔ ایک تصدیق شدہ نظریہ کی مثال ڈارون کا ارتقائی نظریہ ہے۔ مشہور و معروف سیکولر محققین کے مطابق ، یہ نظریہ مفروضوں پر مبنی ہے ، نسبتا  قیاس آرائیاں ہیں ، اور اس کے بنیادی نظریات کے بارے میں تنازعات موجود ہیں۔[xiv]

سائنس اگر مخالف سمت میں اچانک مڑ جاتی ہے تو اس کو یہ پرواہ نہیں ہے کہ گاڑی کی سیٹوں پر کون بیٹھا ہے۔ یہاں تک کہ ایسی چیزیں جو ظاہر ، ناقابل تردید اور قابل مشاہدہ لگتی ہیں، ان کو بھی تہ و بالا کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک نسبتاً حالیہ مثال یورپ میں نینڈرتھل(Neanderthal) کھوپڑیوں کا مطالعہ ہے۔ ڈارونین ماہرین حیاتیات (Darwinian   biologists)نے استدلال کیا کہ نینڈرتھل ہمارے اجداد تھے۔ درسی کتب ، دستاویزی فلموں اور عجائب گھروں میں ، یہ ’سائنسی حقائق‘ پڑھائے جاتے رہے۔ 1997 میں ماہرین حیاتیات نے اعلان کیا کہ جدید ڈی این اے ٹیسٹنگ کی بنیاد پر نینڈرتھل  ہمارے اجداد نہیں ہوسکتے ہیں۔

سائنس کے تمام پہلو ، یہاں تک کہ ذیلی نظریات، جو ہر شعبے میں بڑے نظریات کا حصہ بنتے ہیں ، بالآخر اپنے نتائج پر نظر ثانی کریں گے۔ سائنس کی تاریخ اس رجحان کو ظاہر کرتی ہے ، لہذا یہ کہنا کہ ‘سائنسی حقائق’ غیر متغیر ہیں، غیر معقول بھی ہے اور ناقابل عمل بھی۔ تمام سائنسی نظریات ’’ کام جاری ہے ‘‘ اور ’’ لگ بھگ ماڈل ‘‘ ہیں۔ اگر کوئی دعوی کرتا ہے کہ سائنسی مطلق سچائیوں جیسی کوئی چیز ہے تو ، پھر وہ اس حقیقت کی وضاحت کیسے کرے گا کہ ’قدری نظریہ‘ اور ’نظریہ اضافت‘ ، دونوں ہی ماہرین طبیعیات کے مطابق سچ ہیں ، بنیادی سطح پر ایک دوسرے سے متصادم ہیں؟ یہ دونوں مطلق معنوں میں سچ نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ، طبیعیات دان دونوں کو صحیح کام کرنے والے ماڈل سمجھتے ہیں اور مزید پیشرفت کے لئے اس نقطہ نظر کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ خیال سے کہ “تصدیق شدہ سائنسی نظریات حتمی ہیں”، سائنسی پیشرفت کے لئے گمراہ کن ، ناقابل عمل اور خطرناک ہے۔ تاریخ دانوں اور سائنس کے فلاسفہ نے ایسی زبان استعمال کرنے کی سخت مخالفت کی ہے۔ سائنس کے فلسفی گیلین بارکر اور فلپ کیچر نے اس نقطہ کو انتہائی موثر طریقے سے بیان کیا کہ: “سائنس قابل تجدید ہے۔ لہذا ، سائنسی ‘ثبوت’ کی بات کرنا خطرناک ہے ، کیونکہ یہ اصطلاح ایسے نتائج کے خیال کو پروان چڑھاتی ہے جو پتھر میں تراشیدہ ہوں۔”[xv]

مفروضہ #3سائنس یقین کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔

کچھ ملحدین کی سائنس کے فلسفے کی سمجھ انتہائی غلط ہے۔ وہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایک بار جب سائنس کسی چیز کو سائنسی طور پر ثابت شدہ قرار دے دیتی ہے ، تو  وہ مطلق سچ ہو جاتا ہے اور کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ تاہم ، اس سے سائنس میں بنیادی حل طلب مسائل کے بارے میں معلومات کا فقدان بے نقاب ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ ، جو ہماری بحث سے متعلق ہے ، استنباط کاعمل ہے۔ اگرچہ سائنس دان بہت سارے طریقوں سے کسی نظریہ کی تصدیق کرتے ہیں یا مشاہداتی اعدادوشمار کےذریعے سے کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں ، مگر استنباطی دلائل ان میں سے بیشتر کی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم استنباطی دلائل کبھی بھی حتمی یقین کا باعث نہیں بن سکتے۔

استقرائی دلائل(Inductive arguments)

استقرائی دلائل کا تعلق غیر مشاہداتی علم سے ہے۔ یہ انسانی علم ، خاص طور پر سائنسی علم میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ استقرائی دلائل ہمارے  مشاہدہ میں موجود واقعات کی مدد سےان نتائج کو اخذ کرتے ہیں، جو ہمارے مشاہدہ میں نہیں ہیں۔ ان کا اطلاق حال اور ماضی کو شامل کرنے کے لئے کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر:

  • ـ مقدمہ – جن  تن سازوں سے میں ملا ہوں، ان کے جسم میں اضافہ جانوروں کا گوشت کھانے سے ہوا ہے۔  نتیجہ: ماضی کے تمام تن سازوں نے زیادہ گوشت کھا کر اپنا جسم بڑا کیا ہے۔
  • ـ مقدمہ – میرے دوست کےہر تجربے اور مشاہدے کے مطابق کتے بے ضرر ہیں۔ نتیجہ: تمام کتے بے ضرر ہیں۔
  • ـ مقدمہ – امریکہ کے تمام صدارتی انتخابات میں ایک ڈیموکریٹ امیدوار رہا ہے۔ نتیجہ: اگلے صدارتی انتخابات میں  ایک ڈیموکریٹ امیدوار ہو گا۔

مذکورہ بالا نتائج یقینی طور پر کامل یقین کی سطح تک نہیں پہنچ پاتے ہیں کیونکہ وہ استنباطی دلائل(deductive arguments) نہیں ہیں۔ مندرجہ ذیل وضاحتیں بتاتی ہیں کہ مذکورہ بالا دلائل سے حتمی نتائج کیوں نہیں ملتے:

  • ماضی میں سبزی خور  تن سازوں نے صرف سبزی سے حاصل کردہ لحمیات سے اپنا جسم بڑا کیا۔
  • یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ کتے خطرناک ہوں۔
  • مستقبل میں ممکن ہے کہ امریکی  سیاسی منظرنامہ بدل جائے، ڈیموکریٹ پارٹی ختم ہو جائے اور کوئے نئے پارٹی اس کی جگہ لےلے۔

استقرائی دلائل کی غیر یقینی فطرت کی وجہ سے بہت سارے فلسفیوں نے استقرا(induction  -تلاش کرنا یا ڈھونڈنا)کی مدد سے حصول علم پر سوالات اٹھائے ہیں: یہ فلسفہ کا وہ حصہ ہے جس کو جواز علمیت(epistemic

justification) کہتے ہیں۔ اس پوچھ گچھ کے نتیجے میں جومسئلہ سامنے آیا، اسے استقرائی مسئلہ(problem  of  induction) کہتے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ استقرائی دلائل، استقرائی استدلال(inductive reasoning) جیسا نہیں ہے ، کیونکہ استدلال کا تعلق حواس کے استعمال سے ہے نہ کہ نتیجہ اخذ کرنے کا طریقے سے۔ مثال کے طور پر ، آپ اپنے باغ میں مینڈکوں کا مشاہدہ کرتے ہیں ، اور جو آپ نے مشاہدہ کیا ہے، اس کا آپ ہو بہو اظہار کر دیتے ہیں کہ آپ کے باغ میں مینڈک ہیں۔ آپ نے نامعلوم مظاہر کے لئے کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا (اس معاملے میں تمام مینڈک ، یا اگلا کوئی مینڈک، جس کا آپ نے ابھی تک مشاہدہ نہیں کیا)۔

مسئلہِ استقرا(problem  -of – induction)

استقرا کو درپیش مسائل کی ابتدا یونان سے ہی شروع ہو گئی تھی، جسے قنوطیت(Pyrrhonism) کہتے تھے۔[xvi] یہ ایک متشکک فلسفیانہ مکتب فکر تھا۔ تاہم ، یہ ڈیوڈ ہیوم ہی تھا جس نے حقیقت کا علم فراہم کرنے کے لئے استقرائی دلائل کی ناکامی کی جامع وضاحت کی۔ ہیوم کہتا ہے کہ ہمارے استدلال کی نوعیت علت و معلول (سبب اور نتیجہ) ہے اور علت و معلول کی بنیاد تجربہ ہے۔ اس کے مطابق، چونکہ ہماری علت و معلول کی سمجھ تجربے سے ہے، لہذا یہ یقین مہیا نہیں کر سکتے۔ ہیوم بحث کرتا ہے کہ محدود مجموعہ تجربات کی مدد سے ایک ان دیکھے واقعہ کا نتیجہ نکالنا، حتمی نتیجہ نہیں ہو سکتا۔[xvii]

 پچھلی مثالوں سے ظاہر ہوتا کہ استقرائی دلائل خصوصی سے عمومی یا کلی کی طرف منتقل ہو کر ایک نتیجہ نکالتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، آپ محدود مجموعہ تجربات سے ان واقعات کا نتیجہ نکالتے ہیں، جو آپ کے مشاہدے میں نہیں آئے۔ استقرائی دلائل استنباطی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں کیونکہ ضروری نہیں کہ نتیجہ اپنے مقدمے کی تقلید کرے۔

ہیوم اپنے اعتراض کو استقرا کی غیر یقینی صورتحال تک محدود نہیں کرتا بلکہ وہ دعوی کرتا ہے کہ  یہ کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے۔ استقرائی دلائل اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ “مستقبل ماضی سے ملتا جلتا ہو گا”[xviii] ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کار خانہ قدرت یکساں ہے۔ تاہم ، اس مفروضے کو صحیح ثابت کرنے کا واحد راستہ استقرائی دلیل ہی  کا استعمال ہوگا۔ ہیوم کے مطابق یہ استدلال چکر دار بحث ہے ، کیونکہ گمان اسی چیز پر مبنی ہے، جس کو ہم قابل جواز  بنانا چاہتے ہیں۔ اس مفروضہ کی بنیا د پر استقرائی دلیل کو ثابت کرنا، اور استقرائی دلیل کو استقرائی دلیل ہی کی مدد سے ثابت کرنا، ایک ہی بات ہے۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ  عالم طبعی میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی ہو اور یہ ہر حال میں یکساں ہو۔[xix]

خلاصہ یہ کہ ہیوم کا اعتراض یہ ہے کہ ہم استقرائی دلائل کا جواز پیش نہیں کرسکتے۔ یہ مفروضہ کہ “قدرت کبھی نہ بدلنے والی ہے” استقرائی دلیل پر مبنی ہے۔ لہذا اس مفروضے کو استقرائی دلائل کے جواز کے لئے استعمال کرنا ایسے ہے جیسے “قرض واپس کرنے کے لئے یہ تحریری وعدہ کرنا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے وعدہ کا پاس رکھوں گا”۔[xx]

استقرائی دلیل  – ایک سائنسی  مسئلہ

چونکہ استقرائی دلائل یقین کو جنم نہیں دے سکتے ، لہذا سائنسی نتائج اخذ کرنے کے لئے یہ ایک  مسئلہ بن جاتا ہے۔ سائنس دان شدت سے ان اعداد و شمارسے  نتائج اخذ کرنے پر انحصار کرتے ہیں، جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ تاہم ، چونکہ تمام مشاہدات محدود ہیں یا مشاہدہ کردہ اعداد و شمار کے ایک خاص مجموعہ پر مبنی ہوتے ہیں ، لہذا محدود اعداد و شمار پر مبنی کسی نتیجے پر پہنچنا یقینی نہیں ہوگا۔

سائنس کی تاریخ بے شمار مثالیں پیش کرتی ہے جو اس کی تغیراتی فطرت کو اجاگر کرتی ہیں۔ سائنس کے ہر شعبے میں مروجہ نظریات، ماضی سے بہت مختلف ہیں۔ نیویارک یونیورسٹی کے فلسفے کے لیکچرر ، سمیر اوکاشا نے کہتے ہیں کہ اگر ہم کسی بھی سائنسی شعبے کو چنتے ہیں تو ، ہم” یقین سے کہ سکتے ہیں کہ اس شعبہ میں مروجہ نظریات 50 سال پہلے سے بہت مختلف ہوں گے ، اور 100 سال پہلے سے تو زمین آسمان کا فرق ہو گا۔”[xxi]

20 ویں صدی کے آغاز میں ، طبیعیات، نیوٹن کی وضاحت کائنات کی ہمراہی میں خالص اور منظم نظر آ رہی تھی۔ کسی نے بھی تقریبا 200 سال سے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا کیونکہ یہ  “سائنسی اعتبار سے ثابت شدہ” تھا کہ یہ ماڈل کام کرتا ہے۔ تاہم ، قدری نظریہ اور نظریہ اضافیت نے دنیا کے نیوٹن کے نظریہ کو چکنا چور کردیا۔ نیوٹن کے نظریہ کو ماننے والوں نے وقت اور مکان کو مقرر اشیاء فرض کر لیا تھا ، لیکن البرٹ آئن اسٹائن نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نسبتی اور تغیراتی ہیں۔ آخر کار ، ایک مدت کے شور و غل کے بعد ، کائنات کے ’آئن اسٹائن ماڈل‘ نے ’نیوٹن ماڈل‘ کی جگہ لی۔ سائنس کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے اتقرائی مسئلہ کی تصدیق ہوتی ہے: ایک نیا مشاہدہ ہمیشہ پچھلے نتائج سے انکار کرسکتا ہے۔

سائنس اور الہامی کتابیں

چونکہ سائنسی نتیجہ لچک دار ہوتے ہیں ، اور استقرائی دلائل قطعی یقین کا باعث نہیں ہوتے ہیں ، لہذا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جسے ہم سائنسی وضاحت کہتے ہیں اسے قطعی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ سائنس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے صحیفے کوئی نہیں ہیں۔ تاہم ، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہمیں شک نہیں ہونا چاہئے ، جیسے: زمین کی گولائی ، کشش ثقل کا وجود اور مداروں کی بیضوی نوعیت۔

بہت سے ملحد حقائق بیان کرنے میں ناکامی پر مذہبی صحیفوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سائنس اور مذہبی قدامت پسندی کے بارے میں بہت سے آن لائن اور آف لائن مباحث ہیں۔ یہاں تک کہ عام ٹیلیویژن پروگراموں میں قدرتی دنیا کے مذہبی نقطہ نظر پر بحثیں ہوتی ہیں۔ تاہم ، مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ، ہم نے سائنس اور سائنس کے مقابلہ میں دین کی ایک غلط تقسیم تشکیل دے دی ہے۔ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا اتنا آسان نہیں ہے۔

سائنس فطری دنیا کے لئے استدلال کا اطلاق ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ دنیا کیسے کام کرتی ہے۔ قرآن کریم فطری بھی مظاہر کی طرف  اشارہ کرتا ہے ، اور لامحالہ سائنسی نتائج سے براہ راست تصادم ہو چکے ہے۔ جب کوئی تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو ، گھبرانے یا  ایسی قرآنی آیت، جو سائنس کے مطابق نہ ہوں، ان سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی اس صورتحال کو یہ دعوی کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے کہ قرآن غلط ہے۔ ایسا کرنے کے لئے یہ فرض کیا جائے گا کہ سائنسی نتائج بالکل درست اور مطلقا سچ ہیں اور کبھی تبدیلی نہیں ہوں گے۔ یہ واضح طور پر غلط ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس اپنے نتائج پر نظر ثانی کرتی رہتی ہے۔ اس پر یقین کرنا سائنس کی مخالفت نہیں ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر سائنس دانوں کو ماضی کے نتائج کو چیلنج کرنے کی اجازت نہ دی گئی ہوتی تو ہم کتنی ترقی کرسکے ہوتے۔ ایسی صورتحال میں کوئی ترقی نہ ہوتی۔ سائنس مطلق حقائق کا مجموعہ نہیں ہے اور نہ ہی کبھی رہی ہے۔

چونکہ قرآن کے خدا کے کلام ہونے کے دعوے کے حق میں بہترین دلائل موجود ہیں (باب 13 دیکھیں) ، پھر اگر قرآن مجید محدود انسانی علم سے متصادم ہوتا ہے تو اس سے زیادہ الجھنیں نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ یاد رکھئے ، خدا کے پاس پوری تصویر ہے ، ہمارے پاس صرف ایک جزو ہے۔ 1950 کی دہائی تک ، آئن اسٹائن سمیت تمام طبیعیات دان یہ مانتے تھے کہ کائنات ابدی ہے۔ تمام اعداد و شمار نے اس کی تائید کی ، اور یہ عقیدہ قرآن کے ساتھ متصادم تھا۔ جبکہ قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ہوئی تھی۔ طاقتور اعلی درجے کی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے، نئے مشاہدات نے طبیعیات دانوں کو ‘مستحکم حالت’ کے نمونہ (دائمی کائنات) کو ترک کر دیا اور اس کی جگہ بگ بینگ ماڈل (ممکنہ طور پر تقریبا 13 13.7 بلین سال پہلے کائنات کا آغاز) نے لے لی۔ اور اس طرح ، سائنس قرآن سے ہم آہنگ ہو گیا۔ سورج کے بارے میں قرآنی نظریے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ قرآن بتاتا ہے کہ سورج کا ایک مدار ہے۔ ماہرین فلکیات نےیہ کہ کر اس کا انکار کر دیا کہ سورج تو غیر متحرک اور اپنی جگہ کھڑا ہوا ہے۔ سائنس دانوں کے مشاہدے اور قرآن مجید کے درمیان یہ سب سے بڑا اور براہ راست تضاد تھا۔ تاہم ، ہبل دوربین کی دریافت کے بعد ، ماہرین فلکیات نے اپنے نتائج پر نظر ثانی کی تو معلوم ہوا کہ سورج ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد چکر لگا رہا ہے۔

پھر بھی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن سائنس کی ایک کتاب ہے۔ یہ نشانیوں کی کتاب ہے۔ قرآن کریم قدرتی مظاہر سے متعلق کوئی تفصیل نہیں بتاتا۔ قرآن جن چیزوں کا حوالہ دیتا ہے، ان میں سے بیشتر کو اپنی آنکھوں سے سمجھا اور تصدیق کی جاسکتی ہے۔ قدرتی دنیا کی طرف اشارہ کرنے والی آیات کا بنیادی مقصد کسی مافوق الفطرت طاقت اور حکمت کو بے نقاب کرنا ہے۔ ان کے کردار میں واضح سائنسی تفصیلات شامل نہیں ہیں۔ یہ وقت کے ساتھ بدل سکتی ہیں۔ تاہم ، حقیقت یہ ہے کہ قدرتی مظاہر کے پیچھے ایک طاقت اور دانشمندی ہے جو کہ ایک لازوال حقیقت ہے۔ اس نقطہ نظر سے ، قرآن مجید اور سائنسی نتائج کے مابین تنازعہ غالبا جاری رہے گا ، کیوں کہ یہ علم کی دو بالکل مختلف قسمیں ہیں۔

تاہم ، اس بحث سے مسلمانوں اور مذہبی لوگوں کو سائنسی نتائج سے انکار کی ترغیب نہیں ملنی چاہئے۔ ایسا کرنا مضحکہ خیز ہوگا۔ بلکہ ، تصدیق شدہ سائنسی نظریات اور الہامی سچائیاں، دونوں کو قبول کرنا چاہئے ، چاہے وہ ایک دوسرے سے متصادم ہوں۔ سائنسی نتائج کو عملی نمونوں کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے، جو کہ بدل سکتے ہیں اور مطلق نہیں ہیں ، اور الہامی سچائیوں کو کسی کے اعتقادات کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی سائنسی نتیجہ  اور قرآن مجید کے مابین موافقت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو آپ کو وحی کو مسترد کرنے اور اس زمانے کی سائنس کو قبول کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اس کے برعکس ، سائنس کو بھی مسترد نہیں کیا جانا چاہئے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے ، سائنسی اور الہامی حقائق، دونوں کو قبول کرنا آپ کا علمی حق ہے۔ سائنس اور وحی سے متعلق متوازن اور متناسب نقطہ نظر یہ ہے کہ سائنس کو تسلیم کریں اورثبوت خود گواہی دے دیں گے۔ تاہم ، یہ یقین کی لمبی لمبی علمی چھلانگیں نہ ہوں کہ ہم نے جو ثبوت حاصل کرلیے ہیں اور جو نتیجہ ہم نے اخذ کئے، وہ الہامی سچ ہیں۔ سائنس بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ، اس نقطہ نظر میں وحی کو قبول کرنا بھی شامل ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہم سائنسی نتائج کو عملی طور پر اور کام کرنے والے نمونے کے طور پر قبول کرسکتے ہیں ، لیکن اگر کوئی چیز وحی سے متصادم ہے (دونوں کے مابین موافقت کی کوشش کے بعد) ، تو آپ کو اپنے عقائد کی روشنی میں ان  سائنسی نتائج کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو ڈارون کے نطریہ ارتقاء سے انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کو عملی طور پر موجودہ بہترین کام کرنے والے نمونہ کے طور پر قبول کرسکتے ہیں ، لیکن یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کے کچھ پہلووحی کے ساتھ میل  نہیں کھاتے۔ یاد رکھیں ، صرف اس وجہ سے کہ کوئی موجودہ  ماڈل کام کر رہا ہے ، یہ مطلقا صحیح نہیں ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سائنسی علم اور الہٰی وحی دو مختلف مصادر رکھتے ہیں۔ ایک انسانی محدود دماغ سے ہے ، دوسرا خدا کی طرف سے ہے۔ اگر کوئی سائنسی نتائج کی بنیاد پر وحی مسترد کرتا ہے تو وہ بے علمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہمارے پاس حقیقت سے متعلق بہت کم علم  ہے۔ ہمارا علم محدود ہے ، اللہ  کا  نہیں۔ لہذا ، اگر ان دونوں میں تضاد پایا جاتا ہے تو ، مذکورہ بالا حکمت عملی اپنانی چاہئے۔

اسلامی استقرائی دلائل؟

اس بحث کے تنقیدی اور عالمانہ مبصرین غور کریں گے کہ اگرچہ یہ سائنس کی عام فہم سمجھ ہے(محققین اور فلسفی) ، یہ اسلامی علم الکلام پر ممکنہ اعتراضات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ وہ یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلامی روایات میں ، قرآن اور احادیث کو محفوظ رکھنے کے لئے استقرائی دلائل استعمال کئے گئے ہیں۔ لہذا ، مسلمانان اسلام  ان اہم نصوص کے ماخذ میں یقین کا دعوی نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ایک بے جا اعتراض ہے۔”کیوں؟” کے لئے ہمیں استقرائی دلیل اور استدلال والی پچھلی بحث پر جانا پڑے گا۔ استقرائی استدلال بنیادی علوم کے لئے  یقین فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ، اگر میں Y میں X کا مشاہدہ کرتا ہوں تو ، اس کا مطلب ہے کہ X کو Y کی اجازت ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کوے اڑتے ہیں ، لہذا یہ ضروری ہے کہ کچھ کوے اڑتے ہیں۔ جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں ،کہ استقرا کی یہ شکل مشاہدے کو “من و عن” بیان کر دیتی ہے۔ اس میں کسی ایسی چیز کا نتیجہ اخذ کیے بغیر، سادہ حقائق بیان کیے گئے ہیں، جن کا مشاہدہ ابھی باقی ہے۔ اس قسم کے استقرا(Induction) کا استعمال قرآن مجید اور پیغمبرانہ روایات کے تحفظ میں استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی نے قرآن مجید سنا ، اور انہوں  نے جو سنا تھا اس کوویسے ہی دہرا دیا۔ انہوں نے کسی ایسی آیت سے کوئی نتیجہ نہیں نکالا، جو انہوں نے سنی نہ ہو۔ مثال کے طور پر ، ایک ساتھی ” اِيَّاكَ نَعبُدُ وَاِيَّاكَ نَستَعِينُ” سنتے ہیں (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) اوراخذ کرتے ہیں کہ میں نے تو ” قُلۡ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ” (کہو کہ وہ الله ایک ہے) سنا ہے۔ لہذا یہ اعتراض غلط ہے ، کیونکہ یہ قرآن اور احادیث کی حفاظت کے لئے استعمال استقرا کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

مفروضہ #فلسفیانہ فطرت پسندی سے متصادم طریقہ کار۔

” سائنس ملحدیت کی طرف لے جاتا ہے” کے دعوے کے پیچھے جو آخری مفروضہ ہے، وہ  فلسفیانہ فطرت پسندی اور اصولی فطری پسندی ہے۔ فلسفیانہ فطرت پسندی کہتی ہے کہ کائنات ایک بند نظام کی طرح ہے۔ کائنات کے باہر ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس میں دخل اندازی کرے ، اور نہ ہی کوئی خدا ہے اور نہ ہی کوئی مافوق الفطرت شے ہے۔ فلسفیانہ فطرت پسندی کا ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ مادی اعمال کے ذریعے تمام مظاہر کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ اصولی فطرت پسندی کے مطابق کوئی ایسی چیز، جو سائنسی کہلائی جا سکتی ہے، یہ اللہ کی تخلیقی قوت یا عمل کا ذکر نہیں کر سکتی۔

جوملحدین یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس الحاد کی طرف لے کر جاتا ہے ، وہ فلسفیانہ فطرت پسندی کا غیر سائنسی قیاس کرتے ہیں۔ فلسفیانہ فطرت پسندی وہ ’’ عینک ‘‘ تشکیل دیتی ہے، جسے پہن کر آپ دنیا کو سمجھتے ہیں ۔ اگر آپ کی عینک کے شیشے پیلے رنگ کے ہیں تو آپ کو کون سا رنگ نظر آئے گے؟ “پیلا”۔ اسی طرح ، اگر آپ فلسفیانہ فطرت پسندی کے عینک لگا لیتے ہیں تو ، آپ کو خدا کے بغیر ایک کائنات نظر آئے گی۔ فلسفیانہ فطرت پسندی دنیا کو دیکھنے کا انداز تشکیل دیتی ہے۔ آسان الفاظ میں، فلسفیانہ فطرت پسندی ایک عقیدہ ہے۔ ملحد پروفیسر مائیکل روس اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں: “اگر آپ اعتراف چاہئے تو ، میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ فطرت پسندی عقیدہ ہے۔”[xxii] یہ ایک عقیدہ کیوں ہے؟ فطرت پسندی متضاد اور بے ربط ہے ، کیونکہ یہ بِنا سوچے سمجھے یقین رکھتا ہے کہ  متعدد بے لگام اور بے قابو حقائق کے باوجود ، مادی اعمال کے ذریعے ہر چیز کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، حقائق جو نظریہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ [xxiii]مثال کے طور پر ، ہم دونوں آج چھ بجے ایک ریستوراں میں ملتے ہیں ، اور اگلے دن پولیس میرے گھر آکر کسی کو اسی وقت قتل کرنے کے شبہ میں گرفتار کرتی ہے، جس وقت ہم رات کے کھانے پر تھے۔ ناقابِلِ تَردید حقیقت یہ ہوگی کہ قتل کے وقت میں آپ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ میرا مقام اور وقت ثابت کرنے سے  پولیس کا مجھ پر قتل کا شک کم ہو جاتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے ، یہ کون سے بے لگام اور واضح حقائق ہیں جو فلسفیانہ فطرت پسندی کو بے ربط قرار دیتے ہیں؟ ویسے پچھلے ابواب ایک بہت اچھا نقطہ آغاز ہے۔ فلسفیانہ فطرت پسندی شعور کے سنگین مسئلے (باب 7 ملاحظہ کریں) ، کائنات کی درستگی اور محتاجی (باب 5 اور 6 دیکھیں) ، قوانین کی کمال درستگی اور کائنات میں ترتیب (باب 8 ملاحظہ کریں)، معروضی اخلاق کی موجودگی (باب 9 دیکھیں)  اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔ کی وضاحت نہیں کرسکتی ہے۔ اس کی روشنی میں ، کوئی  آنکھ بند کرکے ایسا فلسفہ کیوں اختیار کرے گا ، جو حقیقت کو اپنا ثبوت خود دینے سے روکتا ہو؟ کافی ملحدین کے پاس اس طرح کے پہلے سے فرض کئے ہوئے قیاسات پائے جاتے ہیں۔ لہذا ، یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ مذہبی دلائل کے نتائج کوکلی  مسترد کردیتے ہیں۔ عام طور پر وہ اچھے دلائل کو مسترد کرتے ہیں ، کیوں کہ ان کی آنکھوں پر یہ غلط مفروضہ پردے ڈال دیتا ہے کہ ہر چیز کو مادی و دنیاوی اعمال سے ہی سمجھنا ہے اور مافوق الفطرت تشریحات کی طرف دیکھنا بھی نہیں۔

اصولی فطرت پسندی مذاہب کے لئے مسئلہ نہیں ہے ، خاص طور پر اسلامی مذہب کے لئے۔  کیونکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ پوری کائنات بننے کے مادی اسباب ہیں اور یہ اسباب اللہ کے ارادے کا مظہر ہیں۔ کچھ ملحد پھر بھی فلسفیانہ فطرت پسندیاور اصولی فطرت پسندی کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔ صرف اسلئے کہ سائنسی نتائج اور نظریات، خدا کی طاقت اور تخلیقی صلاحیتوں تک رسائی نہیں رکھتے (اصولی فطرت پسندی) ، یہ “خدا موجود نہیں ہے” کو اختیار نہیں کرتے (فلسفیانہ فطرت پسندی)۔ جیسا کہ ارتقائی ماہر حیاتیات اسکاٹ سی ٹوڈ نے کہا ، “سائنس دان ، ایک فرد کی حیثیت سے ، ایک ایسی حقیقت کو قبول کرنے کے لئے آزاد ہے جو فطرت پسندی سے بالاتر ہو۔”[xxiv]

تو کیا سائنس نے خدا کو غلط ثابت کردیا ہے؟

اوپر بحث کی روشنی میں اس کا جواب “نہیں” ہے۔ سائنس، علم کا ایک خوبصورت طریقہ ہے، جس نے انسانیت کو بہت نفع پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے نتائج پتھر پر لکیر نہیں ہوتے۔ سائنس، تحقیق کے اپنے ایک مخصوص طریقہ کار کی حیثیت سے خدا کے وجود کا انکار نہیں کر سکتی، سارے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی اور حقیقت کو جاننے کا واحد ذریعہ نہیں۔ سائنس کے متعلق بہت سے الحادی مفروضے، ذاتی خواہشات پر مبنی، غیر منطقی اور سائنس کے فلسفے  سے ناواقفیت کی بناء پر ہیں۔


[1] Hugh Gauch

[2] World Atheist Convention

[3] scientia

[4] Bertrand Russell

[5] scientism

[6] Elliot Sober

[7] The Moral Landscape by Sam Harris

[8] Robert Jonson

[9] Rational Morality

[10] Benjamin McMyler

[11] C. A. J. Coady


                     [i] Gauch, H. G, Jr. (2012). Scientific Method in Brief. Cambridge: Cambridge University Press, p. 98.

                      [ii] Farhad, A. (2013). Richard Dawkins – science works bitches! Available at: https://youtu.be/0OtFSDKrq88?t=73 [Accessed 2nd  October 2016].

[iii] Russell, B. (1935). Religion and Science. Oxford: Oxford University Press, p. 8.            

    [iv] Adapted from DPMosteller. (2011). Has science made belief in god unreasonable, J. P. Moreland. Available at: http://www.youtube.com/watch?v=TU9iiCqHxbE [Accessed 2nd   October 2016].

                     [v] Sober, E. (2010). Empiricism. In: Psillos, S and Curd, M, ed, The Routledge Companion to Philosophy of Science, pp. 137-138.

       [vi] Darwin, C. The Descent of Man and Selection in Relation to Sex. 2nd Edition, p. 99. Available at: http://www.gutenberg.org/ebooks/2300 [Accessed 4th October 2016].

            [vii] iERA. (2013). Lawrence Krauss vs Hamza Tzortzis – Islam vs. Atheism Debate. Available at: https://youtu.be/uSwJuOPG4FI?t=4161 [Accessed 18th October 2016].

   [viii] Johnson, R. (2013). Rational Morality: A Science of Right and Wrong. Great Britain: Dangerous Little Books, pp. 19-20.

                                                      [ix] Craig, W.L. (2011). Is Scientism Self-Refuting. Available at: http://www.reasonablefaith.org/is-scientism-self-refuting [Accessed 4th October 2016].

    [x] McMyler, B. (2011). Testimony, Truth and Authority. New York: Oxford University Press, p. 3.

[xi] Lackey, J. (2006). Introduction. In: Lackey, J. and Sosa, E. (ed.). The Epistemology of Testimony. Oxford: Oxford University Press, p. 2.

[xii] McMyler, B. (2011). Testimony, Truth and Authority, p 10.                                                    

    [xiii] Coady, C. A. (1992). Testimony: A Philosophical Study. Oxford: Oxford University Press, p. 82.

       [xiv] See Shapiro, J. A. (2011). Evolution: A View from the 2st Century. New Jersey: FT Press;  Pigliucci, M. and Muller, G. B. (ed). (2010). Evolution: The Extended Synthesis. Cambridge, MA: MIT Press; and Godfrey-Smith, P. (2014). Philosophy of Biology. Princeton, NJ: Princeton University Press.

               [xv] Barker, G. and Kitcher, P. (2013). Philosophy of Science: A New Introduction. Oxford: Oxford University Press. 2014, p. 17.

[xvi] Annas, J. and Barnes, J. (1994). Sextus Empiricus: Outlines of Scepticism. New York: Cambridge University Press, p. 123.

  [xvii] Hume, D. (2002). Of scepticism with regard to reason. In: Epistemology: Huemer, M, ed, Contemporary Readings. Abingdon: Routledge, pp. 298-310. Originally published in Hume, D. (1902) Sceptical doubts concerning the operations of understanding. In: Selby-Bigge, L. A., ed, An enquiry concerning human understanding. In: Enquiries concerning human understanding and concerning the principles of morals, 2nd edition. Oxford: Clarendon Press, pp. 298-310.

[xviii] Ibid, p. 305.                                                                                                                                                 

[xix] Ibid, p. 304-5.                                                                                                                                            

        [xx] Rosenburg, A. (2012). Philosophy of Science: A Contemporary Introduction. New York: Routledge, p. 182 .

 [xxi] Okasha, S. (2002). Philosophy of Science, A Very Short Introduction. Oxford: Oxford University Press, p. 77.

        [xxii] Stewart, R. B. (2007). Intelligent Design: William A. Dembski & Michael Ruse in Dialogue. Minneapolis, MN: Fortress Press, p.37.

[xxiii] Moreland, J. P. (2009). The Recalcitrant Imago Dei. London: SCM Press, p. 4.                

[xxiv] Todd, Scott. C. (1999). A View from Kansas on that Evolution Debate.                              Correspondence to Nature. 401 (6752): 423, 30 Sept. Available at: https://www.nature.com/articles/46661 [Accessed 10th May 2018].

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password