صحیح بخاری میں ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم پہلی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے، حتیٰ کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ (صحرائی جانور) کے بِل میں گُھسا ہے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! کیا پہلی امتوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ’تو اور کون ہے‘؟
اس حدیث مبارک کی تشریح میں محدثین کرام نے مختلف پہلو ذکر کیے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے جس طرح توراۃ، انجیل اور زبور میں تحریفات کا راستہ اختیار کیا اوراللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں معنوی تبدیلیوں اور خدائی احکام کو اپنی خواہش کے سانچے میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ تک بدل ڈالے اور آسمانی تعلیمات سے انحراف کی جو صورتیں انہوں نے اختیار کیں، مسلمانوں میں بھی ایسے گروہ ہوں گے جو اس ڈگر پر چلیں گے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اپنی خواہش یا فہم ودانش کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسی طرح کی صورتیں اختیار کریں گے۔
اس پس منظر میں ہمارے’’ تجدد پسند‘‘ دانش وروں کی فکری وعلمی کاوشوں پر نظر ڈالی جائے تو اس کا ایک اور دلچسپ پہلو سامنے آتاہے جس کا ہم مختصر تذکرہ کرنا چاہ رہے ہیں اوروہ یہ کہ پندرہویں صدی عیسوی میں مغرب میں نصاریٰ کے بعض علما نے، جن میں جرمن مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر سرفہرست ہیں، پاپائے روم کے خلاف بغاوت کی اور پاپائیت کے نظام کو چیلنج کرتے ہوئے بائبل کی تعبیرو تشریح کا ایک نیا سسٹم قائم کیا جس کی بنیاد پر پروٹسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا اور پاپائے روم کے کیتھولک فرقہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کے پروٹسٹنٹ فرقہ کی یہ کشمکش بائبل کی تعبیرو تشریح اور مسیحی تعلیمات کے سوسائٹی پر عملی اطلاق کے حوالہ سے مسلسل چلی آرہی ہے۔
ہمارے تجدد پسندوں کے دل میں بھی یہ خیال آیا کہ ہم آخر کیوں ایسا نہیں کرسکتے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے اب تک صدیوں سے چلے آنے والے فریم ورک کو چیلنج کرکے اس کی نفی کریں اورمارٹن لوتھر کی طرح قرآن وسنت کی نئی تعبیرو تشریح کی بنیاد رکھیں چنانچہ انہوں نے بھی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کے جذبہ کے ساتھ مارٹن لوتھر کی’’ قدم بہ قدم ‘‘پیروی کا راستہ اختیار کیا اور قرآن وسنت کی تعبیر نو کے کام کا آغاز کر دیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام مارٹن لوتھر کی وفات کے فوراً بعد اکبر بادشاہ کے دور میں شروع ہوگیا۔ لوتھر کی وفات ۱۵۴۶ عیسوی میں ہوئی، جبکہ اکبر بادشاہ کی ولادت کاسن ۱۵۴۲ عیسوی ہے۔ گویا عالم اسلام میں لوتھر کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جلال الدین اکبر، لوتھر کی زندگی میں ہی جنم لے چکاتھا۔
اکبر بادشاہ کی ابتدائی زندگی ٹھیٹھ مذہبی تھی، مگر درباری قسم کے علما اور دانش وروں کی مذبوحی حرکات نے اس کے دل میں یہ خیال پیداکیا کہ دین اسلام کو ایک ہزار سال ہوچکے ہیں اور اس کی تعبیرو تشریح پرانی ہوگئی ہے جس کی تجدید ضروری ہے اور اب کوئی ایسا ’’مجتہد مطلق‘‘ سامنے آنا چاہیے جو دین کی نئی تعبیرو تشریح کے لیے اتھارٹی کی حیثیت اختیار کرے اور اس کی بات کو دین کے معاملے میں فیصلہ کن تصور کیاجائے، چنانچہ اس نے اس مقصد کے لیے سب سے پہلے علما ے امت کے اس اجتہادی نظام کو چیلنج کیا جس نے دین کی تعبیرو تشریح کو ایک مربوط نظام سے وابستہ کیا ہوا تھا اور جس کی موجود گی میں دین کے کسی حکم کی کوئی ایسی تشریح ممکن نہ تھی جسے مارٹن لوتھر کی تعبیرات وتشریحات کی طرح ’’ری کنسٹرکشن‘‘ قراردیاجاسکے، چنانچہ اس نے اپنے لیے اجتہاد مطلق کا منصب ضروری خیال کیا اور خود اس کے ایک درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی نے ’’منتخب التوریخ ‘‘میں اس محضر نامے کا یہ متن نقل کیا ہے جس پر ملک بھر کے علماے کرام سے جبراً دستخط کرائے گئے، اور جنہوں نے دستخط کرنے سے گریز کیا، وہ ملا عبداللہ سلطان پوری ؒ اورملا عبد النبی گنگوہی ؒ کی طرح جلاوطنی اور شہادت کے مقام سے سرفراز ہوئے۔ اکبر بادشاہ کو ’’مجتہد مطلق ‘‘قراردینے کا محضر نامہ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول یہ ہے کہ :
’’خدا کے نزدیک سلطان عادل کا مرتبہ مجتہد کے مرتبہ سے زیادہ ہے اورحضرت سلطان کہف الانام امیر المومنین ظل اللہ علی العالمین ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بادشاہ سب سے زیادہ عدل والے، عقل والے اورعلم والے ہیں۔ اس بنیادپر ایسے دینی مسائل میں جن میں مجتہدین باہم اختلاف رکھتے ہیں، اگر وہ اپنے ثاقب ذہن اور رائے صائب کی روشنی میں بنی آدم کی آسانیوں کے پیش نظر کسی ایک پہلو کو ترجیح دے کر اس کو معین کر دیں اور اس کا فیصلہ کریں تو ایسی صورت میں بادشاہ کا فیصلہ قطعی اوراجماعی قرارپائے گا اوررعایا اور برایا کے لیے اس کی پابندی حتمی وناگزیر ہوگی۔‘‘(’’منتخب التوریخ)
اس کے بعد جلال الدین اکبر نے ملا مبارک، ابوالفضل اور فیضی جیسے ارباب علم ودانش کی معاونت ومشارکت سے اسلام کی جو ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کی، وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ اس تعبیر نو کی بنیاد اسلام کو محدود ماحول سے نکال کر مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے، مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اوراسلامی احکام وقوانین کو تقلید وجمود کے دائرے سے نکالنے کے تصور پر تھی اور خود اکبر بادشاہ کے درباری عالم ملا عبدالقادر بدایونی کی تصریحات کے مطابق اس کا عملی نقشہ کچھ یوں تھا کہ:
• سورج کی پوجا دن میں چار وقت کی جاتی تھی۔
• بادشاہ کو سجدہ کیاجاتاتھا۔
• کلمہ طیبہ میں لاالٰہ الا اللہ کے ساتھ ’’اکبر خلیفۃ اللہ‘‘ کہنا لازمی کردیاگیاتھا۔
• بادشاہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں سے درج ذیل عہد لیاجاتا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش، رغبت اوردلی شوق سے دین اسلام مجازی اور تقلیدی سے علیحدگی اورجدائی اختیار کرتاہوں اور اکبر شاہی دین الٰہی میں داخل ہوتاہوں اور اس دین کے اخلاص کے چاروں مرتبوں یعنی ترک مال، ترک جان، ترک ناموس وعزت اور ترک دین کو قبول کرتاہوں۔‘‘
• بادشاہ کے مرید آپس میں ملتے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘کہتا اور دوسرا جواب میں ’’جل جلالہ‘‘ کہتا۔ یہی ان کا سلام وجواب ہوتاتھا۔
• خط کے آغاز میں ’’اللہ اکبر‘‘ لکھنے کا رواج ڈالا گیا۔
• سود اور جوئے کو حلا ل قرار دیاگیا، شاہی دربار میں جواگھر بنایا گیا اور شاہی خزانہ سے جواریوں کو سودی قرضے دیے جاتے تھے۔
• شراب کی محفلوں میں فقہاے کرام کا مذاق اڑایاجاتا اور اکبر بادشاہ کا درباری ملا فیضی اکثر شراب پیتے وقت کہتاکہ یہ پیالہ میں فقہا کے ’’اندھے پن‘‘ کے نام پر پیتا ہوں۔
• ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیاگیا اور ڈاڑھی کا مذاق اڑانے کا رواج عام ہوا۔
• غسل جنابت کو منسوخ کردیاگیا۔
• ایک سے زیادہ شادی کو ممنوع قرار دیاگیا۔
• سولہ سال سے کم عمر لڑکے اورچودہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح ممنوع قراردیاگیا۔
• حکم صادر ہوا کہ جوان عورتیں جو کوچہ وبازار میں نکلتی ہیں، باہر نکلتے وقت چاہیے کہ چہرہ یا کھلا رکھیں یا چہرے کو اس وقت کھول دیاکریں۔
• زنا کو قانوناً جائز قراردیاگیا اور اس کے لیے باقاعدہ قحبہ خانے بنائے گئے۔
• بارہ سال کی عمر تک لڑکے کا ختنہ کرانے کو ممنوع قراردیاگیا۔
• مردہ کو دفن کرنے کے بجائے یہ حکم تھا کہ خام غلہ اور پکی اینٹیں مردہ کی گردن میں باندھ کر اس کو پانی میں ڈال دیاجائے اور جس جگہ پانی نہ ہو، جلا دیاجائے یا چینیوں کی طرح کسی درخت سے مردہ کو باندھ دیاجائے۔
• سور اور کتے کے ناپاک ہونے کا مسئلہ منسوخ قراردیاگیا۔ شاہی محل کے اندر اور باہر یہ دونوں جانور رکھے جاتے تھے اور صبح سویرے ان کے دیکھنے کو بادشاہ عبادت خیال کرتا تھا۔
• شیر اور بھیڑیے کا گوشت حلال کردیاگیا جبکہ گائے، بھینس، گھوڑے، بھیڑ اور اونٹ کا گوشت حرام قراردیاگیا۔
• حکم صادر ہوا کہ کوئی ہندو عورت اگر کسی مسلمان مرد پر فریفتہ ہوکر مسلمانوں کا مذہب اختیار کر لے تو اس عورت کو جبراً وقہراً اس کے گھر والوں کے سپرد کیاجائے۔
• یہ حکم صادر ہوا کہ علوم عربیہ کی تعلیم ختم کردی جائے اور نجوم، طب، حساب اورفلسفہ کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ عربی پڑھنا عیب سمجھا جانے لگا اور فقہ، تفسیر اورحدیث پڑھنے والے مردود ومطعون ٹھہرائے گئے۔ ملا عبدالقادر بدایونی کے بقول ان اقدامات کے نتیجے میں مدرسے اور مسجدیں سب ویران ہوئے، اکثر اہل علم جلا وطن ہوئے اور ان کی اولاد ناقابل جو اس ملک میں رہ گئی ہے، پاجی گیری میں نام پیدا کررہی ہے۔
• ایسے حروف جو عربی زبان کے ساتھ مخصوص ہیں، مثلاً ث، خ، ع، ص، ض، ط، ظ، ان کو بول چال سے بادشاہ نے خارج کردیا۔
• ملا عبد القادر بدایونی نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کے بارے میں اکبر بادشاہ کے ایک خطاب کا یہ حصہ نقل کیا ہے کہ آخر اس بات کو عقل کس طرح مان سکتی ہے کہ ایک شخص بھاری جسم رکھنے کے باوجود یکایک نیند سے آسمان پر چلا جاتاہے اور راز ونیاز کی نوے ہزار باتیں خدا سے کرتاہے، لیکن اس کا بستر اس وقت تک گرم ہی رہتاہے۔ تعجب ہے لوگ اس دعویٰ کو مان لیتے ہیں اور اسی طرح شق القمر وغیرہ جیسی باتوں کو بھی مان لیتے ہیں۔
• احمد، محمد، مصطفی وغیرہ نام بیرونی کافروں اور اندرونی خواتین کی وجہ سے بادشاہ پر گراں گزرنے لگے۔ اپنے خاص لوگوں کے نام اس نے بدل ڈالے، مثلاً یار محمد خان اور محمد خان کو وہ ’رحمت‘ ہی کے نام سے پکارتاتھا۔
• علمائے سو اپنی تصنیفات میں خطبہ سے بچنے لگے۔ صرف توحید اور بادشاہی القاب کے ذکر پر قناعت کرتے تھے۔ ان کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک زبان قلم پر لاتے۔
• نماز، روزہ اور حج ساقط ہوچکے تھے اور دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ علانیہ نماز اداکرسکے۔
• نماز، روزہ اور وہ ساری چیزیں جن کا تعلق نبوت سے ہے، ان کا نام’’تقلیدات ‘‘رکھا گیا یعنی یہ سب حماقت کی باتیں ٹھہرائی گئیں اور مذہب کی بنیاد عقل پر رکھی گئی۔
• اسلام کی ضد اور اس کے توڑ پر ہر وہ حکم جو کسی دوسرے مذہب کا ہوتا، اس کو بادشاہ نص قاطع اور دلیل قطعی خیال کرتے۔ بخلاف اسلامی ملت کے کہ اس کی ساری باتیں مہمل، نامعقول، نوپیدا اور عرب مفلسوں کی گھڑی ہوئی خیال کی جاتیں۔
• جس کسی کو اپنے اعتقاد کے موافق نہ پاتے، وہ بادشاہ کے نزدیک کشتنی، مردوداور پھٹکارا ہوا شمار ہوتا تھا اور اس کا نام ’’فقیہ ‘‘رکھ دیا جاتا تھا۔
کیا مارٹن لوتھر کے دور کی عیسائیت کی طرح موجودہ اسلامی صورتحال بھی اسی طرز کی تجدیدکا تقاضا کرتی ہے ؟
مارٹن لوتھر نے پاپائیت اور ملوکیت کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کے کچھ واضح اسبا ب بھی تھے۔ پاپائے روم کو بائبل کی تعبیرو تشریح میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا اور بات دلیل کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ پوپ کو خدا کا نمائندہ تصورکیا جاتاتھا اور اب بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مغرب میں اندلس کی اسلامی معاشرت وتعلیم کے نتیجے میں فکری بیداری پیدا ہوئی اور سائنسی علوم نے آگے بڑھنا شروع کیا تو کلیسا اس کی راہ میں مزاحم ہوا ۔پاپائیت نے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ مل کر ظلم وجبر کی تکون قائم کردی اور سائنس کی ترقی کو کفر کے مترادف قراردیا۔ بادشاہ اور جاگیر دار کے مظالم کے خلاف عوام کا ساتھ دینے کے بجائے پوپ نے ظلم وجبر کا ساتھی بننے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے بغاوت پیدا ہوئی۔ پوپ کی طرف سے بائبل کی شخصی اور جانبدارانہ تعبیرو تشریح کی مزاحمت کے لیے مارٹن لوتھر آگے بڑھا اور جب دیکھا کہ پاپائیت اپنے عوام دشمن اورعلم دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی پید اکرنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے علم بغاوت بلند کرکے پاپائیت کی نفی کردی اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بنیاد رکھی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی نئی تعبیرو تشریح کی اساس بنی۔
مختصر یہ کہ مغرب کی معروضی صورت حال ایسی ہی تھی اور مغر ب کی یہ ضرورت تھی کہ وہاں یہ تبدیلی آئے، لیکن ہمارے مہربانوں نے یہ دیکھے بغیر کہ مغرب کے اس عمل کے لیے پائے جانے والے اسباب ہمارے پاس موجود ہیں یانہیں اورہماری معروضی صورتحال اس کی متقاضی ہے یا نہیں، صرف اس شوق میں کہ چونکہ مغرب نے اپنے مذہب کی تشکیل نو کی ہے اورمسیحیت کی تعبیروتشریح کے قدیمی فریم ورک کو مسترد کردیاہے، اس لیے ہمیں بھی یہ کام ضرور کرنا ہے اورجیساکہ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ پڑوسی کا منہ سرخ ہو تو اپنا منہ تھپڑ مار مار کر سرخ کرلیا جائے، ہم نے اپنے ہی منہ پر تھپڑ برسانا شروع کر دیے جو اب تک مسلسل برستے چلے جا رہے ہیں۔
ہمار ے جدت پسندوں نے دو مفروضوں پر اپنی فکری کاوشوں کی بنیاد رکھی۔ ایک یہ کہ انہوں نے مسیحیت کے پاپائی سسٹم کی طرح اسلام کی تعبیرو تشریح میں فقہا کے قائم کردہ فریم ورک کو بھی پاپائیت قرار دے دیا، حالانکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ پاپائیت میں فائنل اتھارٹی شخصیت کو حاصل ہے اور اسے خدا کا نمائندہ تصورکیاجاتاہے جبکہ اسلام میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کی یہ کہہ کر نفی کر دی تھی کہ میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں گا تو میرا ساتھ دو اور اگر ٹیڑھا چلنے لگوں تو مجھے سیدھا کردو۔ یہ فرما کر حضرت صدیق اکبرؓنے شخصیت کے بجائے دلیل کی بالادستی کا اعلان کیا اور جب حضرت ابو بکر صدیق کو کسی نے خلیفۃ اللہ کہہ کرپکارا تو انہوں نے فوراً ٹوک دیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اس ارشاد کا مطلب بھی پاپائیت کے اس تصور کی نفی تھا کہ کوئی شخص خود کو خدا کا نمائندہ کہہ کر دین کی تعبیرو تشریح میں حتمی اتھارٹی قرار دینے لگے۔
پھر جن ائمہ کرام کے فقہی اصولوں پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے، ان میں سے کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات کو صرف اس لیے قبول کیا جائے کہ وہ بات امام ابو حنیفہ ؒ نے کہی ہے یا امام شافعیؒ نے کہی ہے یا امام مالکؒ نے کہی ہے یا امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے۔ اگر کوئی شخص تقلید کا یہ معنی سمجھتاہے تو وہ سرے سے اجتہاد اور تقلید کے مفہوم سے واقف نہیں ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کی بات کو قبول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی دلیل، قبول کرنے والے کے نزدیک زیادہ وزن رکھتی ہے اور امام شافعی ؒ کی بات کو ان کے پیروکار ترجیح دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی ذہن کار فرما ہوتاہے کہ ا ن کی دلیل دوسروں سے زیادہ وزنی ہے۔جب ہر امام کے پیروکار یہ کہہ کر ان کی بات کو قبول کرتے ہیں کہ ان کی بات صحیح ہے مگر اس میں خطا کا احتمال بھی موجود ہے اور جب یہ منظر سب کے سامنے ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے سامنے بیٹھ کر ان کے شاگرد ان سے اختلاف کررہے ہیں اور دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کے بجائے اپنے استدلال کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس سارے عمل کو پاپائیت کے مترادف قراردینے والے دوست یا تو پاپائیت کے مفہوم سے آگاہ نہیں ہیں اور یا پھر اجتہاد اور تقلید کے مسلمہ فریم ورک کے ادراک سے محروم ہیں، اس لیے کہ پاپائے روم کی بات کو قبول کرنے کی بنیاد ان کی شخصیت ہے اور ائمہ مجتہدین کے ا رشادات کو قبول کرنے کی اساس ان کی دلیل اور استدلال ہے۔ اتنی واضح سی بات اگر کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تو اس میں اجتہاد اور تقلید کے فریم ورک کا کیا قصور ہے؟
اس حوالے سے ہمارے جدت پسندوں کا دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ترقی کے لیے مارٹن لوتھر کی طرح اسلام کی تعبیر وتشریح کے پرانے فریم ورک کو بھی چیلنج کرنا اور اس کی نفی کرنا ضروری ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے پرانے فریم ورک نے جسے اجتہاد اور تقلید کے نظام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کبھی پاپائیت کی طرح وقت کی ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ کرنے سے انکار نہیں کیا اور جب بھی ضرورت پیش آئی ہے، اجتہاد اور تقلید کے نظام میں ایسی لچک اورگنجائش موجود رہی ہے کہ وقت کے تقاضوں کو اس میں سمویا جا سکے اور چودہ سو سال کے طویل دور میں کسی ایسے مرحلے کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد اور تقلید کے روایتی نظام نے قرون مظلمہ کی پاپائیت کی طرح علم کی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہو، سائنس کے ارتقا کی مخالفت کی ہو، جاگیردار اور بادشاہ کی طرفداری اس طرح کی ہو کہ پورے کا پورا سسٹم ظلم وجبر کا پشت پناہ بن گیا ہو۔ افراد کی بات الگ ہے، ظالم حکمرانوں کو افراد ضرور ایسے ملتے رہے ہیں جو دین کے نام پر ان کے ظلم وجبر کو سند جواز فراہم کرتے رہے ہیں، لیکن پاپائیت کی طرح دین کی تعبیرو تشریح کا پورا نظام ظلم و جبر کا ساتھی بن گیا ہو، اس کی ایک مثال بھی پوری تاریخ اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی، جبکہ اس کے برعکس اسلام کے مجتہدین نے حق کی خاطر ،عوام کے حقوق کی خاطر، اور ظلم وجبر کے خلاف ہر دو ر میں جیلیں آباد کی ہیں، پھانسی کے تختے کو چوما ہے اور ظلم وجبر کا حوصلہ واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیاہے۔ اس لیے دین کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد وتقلید کے روایتی نظام کو کسی بھی حوالہ سے پاپائیت سے تشبیہ دینا درست نہیں ہے اور ایسا کرنا صریحاً ظلم اور ناانصافی کے زمرے میں آتاہے مگر ہمارے جدت پسند مہربان پورے زور کے ساتھ اسے پاپائیت قراردینے پر مصرہیں، صرف اس لیے کہ دین کی تعبیرو تشریح کے روایتی نظام اورفریم ورک پر پاپائیت کی پھبتی کسے بغیر اسے چیلنج کرنے اور اسے مسترد کرکے دین کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نعرہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کہنے کی گنجائش بلکہ ضرورت ہے، اور ان شاء اللہ وقتاً فوقتاً ہم اس پر اظہار خیال کرتے رہیں گے۔ سرِدست جناب نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں کہ’’تم یہود ونصاریٰ کی قدم بہ قدم پیرو ی کروگے ‘‘ اس کے صرف ایک پہلو کی طرف ہم قارئین کو توجہ دلا رہے ہیں کہ مارٹن لوتھر نے جو کچھ مسیحیت کی تعبیر نو کے لیے ضروری سمجھا، اس سے قطع نظر کہ ہمارے ہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اورہمارے ہاں وہ اسباب جنہوں نے مارٹن لوتھر کو اس کام کے لیے مجبور کیاتھا، پائے بھی جاتے ہیں یا نہیں، اس کی پیروی کو ہر حال میں ضروری تصورکیا جارہاہے۔ کیا’’قدم بہ قدم پیروی‘‘ کی ا س سے بہتر کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟
استفادہ تحریر مولانا زاہد الراشدی