اجتہاد کی تعریف بلکہ اس کا نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑا نازک اور اہم کام ہے، جس میں شرعی مآخذ کی روشنی میں غیرمنصوص مسائل کا استنباط کرنا پڑتا ہے، اس لیے فطری بات ہے کہ اس کے لیے تقویٰ، خداترسی اور عدل وثقاہت کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی علمی تبحراور انتہائی فہم وفراست درکار ہوتی ہے، اس لیے اصولیین اور اسلامی قانون کےماہرین نے کارِ اجتہاد انجام دینے والوں کے لیے چند شرطوں اور صلاحیتوں کوضروری قرار دیا ہے، جن کے بغیر انہیں اس راہ میں ایک قدم رکھنا بھی جائز نہیں، ذیل میں انہیں شرطوں کوایک خاص ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے:
۱۔ان میں سب سے اہم اور بنیادی شرط تقوی اور خدا ترسی ہے کہ اس کے بغیر مسائل کی صحیح تخریج تقریباً ناممکن ہے، اس جوہر کے بغیر جوبھی اس راہ میں قدم رکھے گا خوفِ خدا اور عنداللہ جواب دہی کا احساس نہ ہونے کی وجہ سے کوشش کرے گا کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارا جائے اور شریعت کواپنی ہوس اور خواہش کا تابع بنایا جائے؛ یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ مجتہدین علمی تبحر اورفہم وفراست کے ساتھ عدل وخداترسی میں بھی مشہور زمانہ تھے۔(اصول الفقہ لابی زہرہ:۳۶۵)
۲۔عربی زبان میں مہارت: عربی زبان قرآن وحدیث کی زبان ہے، اسی میں مذہب کے اصلی الفاظ اور دینی اصطلاحات ہیں، اس سے مکمل واقفیت کے بغیر اسلامی نظامِ حیات سے براہِ راست واقفیت اور اس کے عظیم الشان ذخیرہ سے نہ صحیح اور نہ زندہ تعلق استوار ہوسکتا ہے اور نہ اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، ترجمے خواہ کتنی ہی مہارت سے کیوں نہ کئے گئے ہوں کسی بھی اصل کتاب کی تمام کیفیات کے حامل نہیں ہوسکتے چہ جائیکہ قرآن وحدیث کہ جن کی مختصر سی عبارت بھی معانی وفکر سے لبریز ہوتی ہے اسی لیے عربی زبان اور اس سے متعلق علوم، لغت، صرف، نحو اور اصولِ بلاغت پربھی دست رس ضروری ہے، ہاں یہ لازم نہیں کہ ان علوم میں بھی اجتہاد کا درجہ حاصل ہو بلکہ بوقتِ ضرورت ان علوم سے متعلق کتابوں کی مراجعت کرسکے، یہ بات بھی کافی ہے۔ (الابہاج فی شرح المنہاج:۳/۲۵۵)
۳۔قرآن وحدیث کا علم: قرآن وحدیث کی تعلیمات اور مضامین کا اجمالی لیکن جامع اور محیط خاکہ مجتہد کومستحضر رہنا چاہئے، خصوصیت کے ساتھ ان آیات واحادیث پرگہری نگاہِ کامل دست رس اور مکمل بصیرت ہونی چاہئے، جن کا تعلق احکام ومسائل سے ہو، عام علماء کی تشریح کے مطابق ایسی آیات ۵۰۰/ اور احادیث تقریباً ۳۰۰۰/ہیں لیکن اس سے مقصود فقہی اور قانونی آیات واحادیث کوایک خاص عدد میں منحصر کرنا نہیں، یہ تعداد دراصل ان آیات واحادیث کی ہے جوبہ صراحت اصولِ تشریع واحکام سے متعلق ہیں ورنہ محقق مفسرین ومحدثین نے اس سے کہیں زیادہ آیات واحادیث سے مسائل کی تخریج کی ہے۔ (شرح ابن بلدان علی روضۃ الناظر:۲/۴۰۲، بحوالہ: اسلامی عدالت)
اس باب میں پسندیدہ اور معتدل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے احکام ومسائل سے متعلق حصہ کا حافظ ہونا بہتر ہے، ناسخ ومنسوخ کی پہچان اور شناخت بھی ضروری ہے، ان سے واقفیت کے بغیر کسی بھی مسئلہ میں فتویٰ دینا یاکسی اصل شرع سے مسئلہ کی تخریج کرنا فتنہ اور لغزش سے خالی نہیں۔(اصول الفقہ لابی زہرہ:۳۵۸)علمِ حدیث میں متاوتر مشہور اور خبرِواحد کی شناخت اور متعارض روایات کے درمیان تطبیق یاترجیح کے اصول اور طریقِ کار سے واقفیت، نیزجرح وتعدیل یافن اسماء الرجال پرنگاہ ہونا بھی ضروری ہے، جس سے حدیث کی صحت وسقم اور ناقلینِ حدیث کا قابل اعتبار ہونا اور نہ ہونا معلوم ہوتا ہےـ تدوینِ فقہ کے ابتدائی دور میں چونکہ یہ تمام بحثیں مرتب نہیں تھیں، اس بنا پر مجتہد کے لیے ان کومحفوظ اور مستحضررکھنا ضروری تھا، ہمارے دور میں جب کہ حدیث اور متعلقاتِ حدیث پرنہایت محققانہ بحثیں کتابی شکل میں محفوظ ومرتب ہوچکیں، اس باب میں اتنی صلاحیت کہ بوقتِ ضرورت متعلقہ کتب سے استفادہ کیا جاسکے کافی ہوگی۔
۴۔اجماعی احکام:اختلافی مسائل کی شناخت بھی مجتہد کے لیے لازمی ہے تاکہ کسی مسئلہ میں ایسا فیصلہ اور فتویٰ نہ دے بیٹھے جو خارقِ اجماع ہو، فقہا اور اصولیین کے درمیان جن مسائل پراتفاقِ رائے نہ ہوسکا ان کی واقفیت مجتہد کے اندر مختلف فیہ مسائل میں تقابل اور ترجیح کی صلاحیت اور استدلال واستنباط کی قوت پیدا کرتی ہے تاہم ان تمام مسائل کا زبانی یاد رکھنا ضروری نہیں، اس باب میں بھی اتنی صلاحیت کافی ہوگی کہ بوقتِ ضرورت متعلق کتب کی مراجعت کرکے ان کا استحضار کیا جاسکے۔ (اصول الفقہ:۳۶)
۵۔علم اُصول الفقہ:فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اور فہم کتاب و سنت کے لیے جن علوم کی ضرورت ہے ،ان میں مہارت ہو خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہیئے اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جاسکتا ۔اس میں بھی خاص کرقیاس اور اس کے ارکان وشرائط کا علم نیزمختلف دلائل میں ترتیب وترجیح کے اصول وطریقہ کار سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ (شرح الاسنوی:۳/۳۱۰، بحوالہ، اسلامی عدالت)
۶۔مقاصد شریعت:اسلامی قانون کی کامیابی کی سب سے بری وجہ شریعت کے عطا کردہ ایسے وسیع اور ہمہ گیر رہنمایانہ اصول ہیں جو ہرزمانہ اور تمام حالات میں انسانی معاشرے کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابلِ عمل ہیں، ایسی صورت میں مجتہد کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق اور اس کی روح سے واقف ہو اور پھراحوالِ ناس کے تغیر اور عرف وعادت کی تبدیلیوں سے پیدا شدہ نئے مسائل ومشکلات کا اسلامی حل پیش کرے۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جوبھی تغیروتبدیلی ہوگی، یانئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی حکم کی یافت کی جائے گی وہ عین شریعت کے مطابق ہی ہوگی، اس کی مثال میں عہد صحابہؓ وتابعین کی بہت سی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
۸۔زمانہ آگہی:اجتہاد کے لیے ایک نہایت اہم اورضروری شرط جس کا عام طورپر صراحۃً ذکر نہیں کیاگیا ہے وہ یہ ہے کہ مجتہد اپنے زمانہ کے حالات سے بخوبی واقف ہو،عرف وعادت ،معاملات کی مروجہ صورتوں اورلوگوں کی اخلاقی کیفیات سے آگاہ ہوکہ اس کے بغیر اس کے لیے احکام شریعت کا انطباق ممکن نہیں،اس لیے محققین نے لکھا ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ اورعہد کے لوگوں سے یعنی ان کے رواجات معمولات اورطورطریق سے باخبر نہ ہو وہ جاہل کے درجہ میں ہے۔ (رسم المفتی:۱۸۱، زکریا بکڈپو)
مجتہد کے لیے زمانہ آگہی دووجوہ سے ضروری ہے، اول ان مسائل کی تحقیق کے لیے جو پہلے نہیں تھے اب پیدا ہوئے ہیں کیونکہ کسی نوایجاد شئی یا نو مروج طریقہ پر محض اس کی ظاہری صورت کو دیکھ کر کوئی حکم لگادینا صحیح نہیں ہوگا، جب تک اس کی ایجاد اوررواج کا پس منظر معلوم نہ ہو، وہ مقاصد معلوم نہ ہوں جو اس کا اصل محرک ہیں،معاشرہ پر اس کے اثرات ونتائج کا علم نہ ہو اوریہ معلوم نہ ہو کہ سماج کس حد تک ان کا ضرورت مندہے؟ اس سب امور کے جانے بغیر کوئی بھی مجتہد اپنی رائے میں صحیح نتیجہ تک نہیں پہونچ سکتا۔
دوسرے بعض ایسے مسائل میں بھی جوگواپنی نوعیت کے اعتبارسے نوپید نہیں ہیں لیکن بدلے ہوئے نظام وحالات میں ان کے نتائج میں فرق واقع ہوگیا ہے،دوبارہ غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے،یہ ایک نہایت اہم پہلو ہے جو فقہ اسلامی کو زمانہ اوراس کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھتا ہے؛اکثر اہل علم نے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے۔ حافظ ابن قیمؒ نے اپنی مایہ ناز تالیف اعلام الموقعین میں اس موضوع پر مستقل باب باندھا ہے (اعلام الموقعین:۳/۷۸)
9۔ایمان وعدل:اجتہاد کےلیے ایک نہایت اہم شرط شریعت اسلامی پر پختہ ایمان وایقان اوراپنی عملی زندگی میں فسق وفجور سے گریز واجتناب ہے۔موجودہ زمانہ میں تجددپسند اوربزعم خود روشن خیالوں کو اجتہاد کا شوق جس طرح بے چین ومضطرب کئے ہوا ہے،علاوہ علم میں ناپختگی کے ان کی سب سے بڑی کمزوری ذہنی مرعوبیت،فکری استقامت سے محرومی اورمغربی عقیدہ وثقافت کی کورانہ تقلید کا مرض ہے،ان کے یہاں اجتہاد کا منشاء زندگی کی اسلامی بنیادوں پر تشکیل نہیں ہے؛بلکہ اسلام کو خواہشات اورمغرب کی عرضیات کے سانچہ میں ڈھالنا ہے یہ اسلام پر حقیقی ایمان اور تصدیق سے محرومی کا نتیجہ ہے،ظاہر ہے جو لوگ اس شریعت پر دل سے ایمان نہیں رکھتےہوں،جن کا ایمان ان لوگوں کے فلسفہ وتہذیب پر ہوجو خدا کے باغی اور اس دین وشریعت کے معاندہوں ان سے اس دین کے بارے میں اخلاص اورصحیح رہبری کی توقع رکھنا راہزنوں سے جان ومال کی حفاظت کی امید رکھنے کے مترادف ہے۔
خلاصہ :
شرائط اجتہاد کے سلسلہ میں اب تک جتنی معروضات پیش کی گئیں ان کاخلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد کے مقام پر فائز ہونے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عملی اعتبار سے شریعت پر کامل یقین رکھتا ہو،اورکردار کے اعتبار سے فاسق و فاجر نہ ہو علمی اعتبار سے ایک طرف اصول فقہ میں عبور ومہارت رکھتا ہو، اوردوسری طرف عربی زبان ولغت اوراسلوب بیان سے پوری طرح آگاہ ہو،زمانہ شناسی عرف وعادت اورمروجہ معاملات ونظام کی واقفیت میں بھی مجتہد کا پایہ بلندہو۔
آج کے ماحول میں جب کہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتارنے کارحجان بڑھا ہوا ہے، دینی کیفیتیں اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہیں، کسی کوبھی محض کمال تحقیق کی بناپراجتہاد کا حق دینا فتنہ سے خالی نہیں، پھر ایسے یکتا اشخاص کا وجود جو ان مجتہدانہ صفات میں کامل ہوں ، موجود دور میں بیحد مشکل ہے اس لیے مناسب ہے کہ کتاب وسنت کے ساتھ فقہاء کے اجماعی اور مختلف فیہ مسائل پرنگاہ رکھنے والے اصحاب بصیرت اور جدید علوم وفنون کے زمانہ شناس ماہرین ومتخصصین پرمشتمل ایک مجلس کی تشکیل عمل میں لائی جائے، جہاں یہ حضرات جمع ہوکر اجتماعی تبادلۂ خیال، غوروفکر اور بحث وتحقیق کے ذریعہ مسائل حل کریں، اس طرح کے اجتماعی غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کی مثالیں عہدسلف میں بھی ملتی ہیں، حضرت عمرؓ کے عہد میں فقہاء صحابہؓ کا اجتماع مدینہ کے فقہاء سبعہ کی مجلس فقہ، امام اعظمؒ اور ان کے رفقا کی مجالس اجتہاد اس طرف بہ صراحت رہنمائی کرتی ہےـ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقیہہ الامت ہونے کے باوجود ،انفرادی اجتہاد نہیں کیا بلکہ اس مقصد کے لیے ایسے چالیس افرا د کی جما عت تشکیل کی جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ یکتائے زمانہ تھا جیسا کے الموفق نے ”مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ “میں ذکر کیا ہے ۔)حجۃاللہ البالغہ باب الفریق بین المصالح و الشرائع، عقد الجید ) ــ موجودہ دور میں فقہ اکیڈمیوں اور مجامع کے ذریعہ اجتماعی غوروفکر اور تبادلۂ خیال کی جوطرح پڑی ہے، وہ اسی صفت کی تجدید اور اس میں توسیع ہے۔