ہر ماڈرنسٹ کہتا ھے کہ میں اصل اسلام سمجھنے کی کوشش کررہا ھوں، میں قرآن کے الفاظ سے استدلال کرتا ھوں، میں مغرب سے متاثر نہیں ھوں، البتہ اگر میری فکر یا کسی بات سے مغرب کے کسی نظرئیے، قدر یا ادارتی صف بندی کی تائید ھوتی ھے تو یہ اتفاق ھے۔ مگر یہ عجیب اتفاق ھے جو ڑیڑھ سو سال سے بلا استثنی ان میں سے ہر ماڈرنسٹ کے ساتھ ھوتا بلکہ لازما ھوکر رھتا ھے۔ اور تو اور اس اتفاقی حادثے کے نتیجے میں انکی فکر سے صرف غالب مغربی فکر، اقدار اور اداروں ھی کی تائید ھوتی ھے، ایسا کوئ اتفاق کسی دوسری مغلوب تہذیبی روایت کے حق میں پیش نہیں آتا۔ یعنی ایسا کبھی نہیں ھوتا کہ انکی فکر سے مثلا شنٹوازم کے نظریات و اقدار ثابت ھوجاتے ھوں۔ بھائ اگر یہ اچانک سے ھونے والا اتفاق ھے تو کبھی تو ایسا ھونا چاہئے نا کہ اتفاق سے یہ اتفاق ان پیچاری مغلوب تہذیبوں اور نظریات کے ساتھ بھی ھوجاۓ، مگر کیا مجال ھے اس اتفاق کی کہ اتفاق سے ادھر ادھر چلا جاۓ۔ معلوم ھوتا ھے اس ‘اتفاق’ نے مغرب کے ساتھ مکمل اتفاق کرلیا ھے کہ قرعہ فال ہر بار تمہارے ہی حق میں فیصلہ سناۓ گی۔
کیا کوئ عقلمند شخص ماڈرنسٹوں کا یہ دعوی قبول کرسکتا ھے؟ اتنے بے شمار اور ھم خیال لوگوں کے ساتھ اتنے تسلسل سے بار بار ایک ہی قسم کا واقعہ رونما ھونا بذات خود یہ بتا رھا ھے کہ یہ حادثاتی اتفاق نہیں بلکہ اسکی گہری علمی بنیادیں ہیں (جیسا کہ ایک پوسٹ ‘ماڈرنسٹون کے اپنے دفاع کے حربوں کا تعقب’ میں واضح کیا گیا)۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصدیق و توثیق مغرب ان جدید مفکرین کی ‘سنت متواترہ’ جو آج تک کبھی منقطع نہیں ہوئی