معروضیت : بعض مسلم دانش وروں کے تاثرات کی روشنی میں ایک جائزہ :
اصولِ تحقیق پر جدید دور میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں ایک اصول Objectivism کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ عربی میں عام طور پر اس کے لیے ’الحياد البحثي/ العلمي‘ اور اردو میں ’غیر جانب داری‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں اسے معروضیت (Objectivism) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ اصول اس اعتبار سے تو درست ہے کہ انسان کسی حقیقت کے بیان میں تلبیس سے کام نہ لے، کوئی خاص تعصب دوسرے کی تصویر اس شکل میں پیش کرنے پر مجبور نہ کرے جو واقعتاً اس کی تصویر ہے نہیں۔ شیخ سعدیؒ نے ’بوستان‘ میں لکھا ہے کہ ایک بار کسی نے شیطان کو خواب میں دیکھا کہ نہایت حسین وجمیل ہے۔ اس نے اس سے پوچھا کہ آپ کی ہیئت وحقیقت تو ہمارے ہاں بہت بری بنا کر پیش کی جاتی ہے، جب کہ آپ تو اس مہرِ نیم روز جیسے جمالِ دل فریب کے حامل ہیں! شیطان نے کہا: ’قلم در دستِ دشمن است‘ (یعنی قلم دشمن کے ہاتھ میں ہے۔) ہم اپنی مقامی سطح پر مذہبی اور مسلکی تعبیروں میں اس کا نہایت افسوس ناک استعمال دیکھتے ہیں۔ ہر گروہ کے متعصب لوگ اپنے اہلِ حق ہونے پر اتنا مصر نظر آتے ہیں کہ دوسرےکی خوبی کو عام طور پر دفن کر کے اس کی ایسی تصویر عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ سراپا شر معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو معروضیت ایک ناگزیر وصف ٹھہرتا ہے جس کی پاس داری ایک محقق کے لیے بہرحال واجب ہے، تاہم مسلم دینی فکر اور تہذیبی روایت کے تناظر میں اس معروضیت یا غیر جانب داری کو کو ایک ایسا اصول نہیں مانا جا سکتا جس کی کوئی حدود نہ ہوں اور وہ ہر صحیح وغلط کو اپنے اندر سمو لے۔ عصرِ حاضر میں جو رواداری نام کی ہوا چلی ہے، اس کے سلبی پہلوؤں پر عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی اور یہ رویہ ہمارے تصورِ حیات کے مسخ ہونے کو مستلزم ہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ رواداری کے اس غلط مفہوم پر تنقید کرتے ہوئے بجا طور پر لکھتے ہیں:
’’اگر ایک ہی شے کو ایک شخص سیاہ کہے، دوسرا سپید، تیسرا زرد اور چوتھا سرخ تو ممکن نہیں ہے کہ یہ چاروں سچے ہوں۔اگر ایک ہی فعل کو ایک برا کہتا ہے اور دوسرا اچھا، ایک اس سے منع کرتا ہے اور دوسرا اس کا حکم دیتا ہے تو کسی طرح ممکن نہیں کہ دونوں کی راے صحیح ہو، دونوں برحق ہوں اور دونوں امرونہی کا کھلا ہوا اختلاف رکھنے کے باوجود اپنے حکم میں درست ہوں۔جو شخص ایسے متضاد اقوال تصدیق کرتا ہے اور ایسے متضاد احکام کو برحق قرار دیتا ہے، اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوگا۔ یا تو وہ سب کو خوش کرنا چاہتا ہے، یا اس نے اس مسئلے پر سرے سے غور ہی نہیں کیا اور بے سوچے سمجھے راے ظاہر کر دی۔ بہرحال دونوں صورتیں عقل اور صداقت کے خلاف ہیں اور کسی دانش مند اور حق پسند اںسان کے لیے یہ زیبا نہیں کہ کسی وجہ سے بھی مختلف الخیا ل لوگوں کی تصدیق کرے۔عموما لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینا ’’رواداری‘‘ ہے؛ حالانکہ یہ دراصل رواداری نہیں، عین منافقت ہے۔رواداری کے معنیٰ یہ ہیں کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں،ان کو ہم برداشت کریں، ان کے جذبات کا لحاظ کر کے ان پر ایسی نکتی چینی نہ کریں جو ان کو رنج پہنچانے والی ہو اور انھیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لیے زبردستی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لوگوں کو اعتقاد وعمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن عمل ہے، بلکہ مختلف الخیال جماعتوں میں امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری بھی ہے۔‘‘ (سید ابوالاعلیٰ مودودی، ’’تفہیمات‘‘، 1: 109(
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلم فکر، ’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی‘ کے مصداق کسی باطل اور گمراہ کن بات کو ’رواداری‘ کے نام پر صحیح نہیں کہ سکتی، البتہ یہ ضروری ہے کہ دوسرے کی بات کو صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے اپنی طرف سے غور وفکر کی امکان بھر صلاحیت صرف کی جائے، صحیح بات تک پہنچنے کے لیے جملہ وسائل کو بروے کا رلایا جائے۔ اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ دوسرے کی بات صحیح شکل میں نہ سمجھی گئی ہو۔ اگر انسان واقعتاً جویاے حق ہے اور دوسری کو ہار منوانا یا پچھاڑنا اس کا مقصود نہیں تو اگر دوسرا اس پر اپنی بات کی حقیقت واضح کرے تو پھر اول شخص کے لیے لازم ہے کہ اپنی انا کو شکست دے کر صحیح وضاحت کو نہ صرف قبول کرے بلکہ اس کا اعلان بھی کرے کہ فلاں تحریر یا موقف میں مجھ سے فلاں غلطی ہوئی ہے، اس لیے میں اس سے رجوع کرتا ہوں۔ اسلافِ امت کی تاب ناک زندگیوں میں ہمیں اس طرز کے کئی نمونے ملتے ہیں۔
دینی نقطۂ نظر سے معروضیت کی اس صحیح حقیقت کی وضاحت کے بعد ایک نظر اہلِ مغرب کی معروضیت کے بعض پہلوؤں پر بھی ڈالنا مناسب ہے؛ کیوں کہ یہ تاثر خاصا عام ہے کہ مغرب جملہ امور میں معروضیت پسند ہے۔
مسلم دنیا میں مغرب کے دعواے معروضیت کے تنقیدی مطالعے کو مسلم دنیا کے مختلف اہلِ علم نے اپنی گفت گو کا مرکز بنایا ہے۔ مصر کے ایک نہایت فاضل مسلم دانش ور ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری (م 2008ء) نے اس موضوع کو ’فقه التحيز‘ (جانب داری کا علم ) کا نام دیا ہے۔ ایک سیمی نار کے مجموعہ ہاے مقالات کو انھوں نے’’ إشکالية التحيز- رؤية معرفية ودعوة للاجتهاد‘‘ کے نام سے شائع کیا جس پر ان کی ایک مبسوط تحریر ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ایک سابق محقق جناب عمر فاروق نے ’’جانب داری – ایک مطالعہ‘‘ (2009ء) کے نام سے اردو میں منتقل کیا۔ مصنف نے اس طویل تحریر میں بنیادی بات یہ پیش کی ہے کہ دنیا میں جانب داری کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ ماننا ناگزیر ہے کہ ’تحیز‘ (جانب داری ) انسان کے ارادے اور انفرادیت کا لازمی تقاضا ہے۔ ڈاکٹر مسیری نے اس جانب داری کی کئی شکلوں پر بحث کی ہے اور مغربی دنیا میں اپنے قیام کے سلسلے میں اہلِ مغرب کی جانب داری کی مختلف شکلوں کو واضح کرتے ہوئے مسلم دنیا کے اپنے اوپر مغربی سانچوں کے مسلط کرنے پر گفت گو کی ہے۔ مغرب کی جانب داری کی اس جبریت کا نتیجہ ہے کہ آج ایک مخصوص مادی طرزِ زندگی وہ بزوِ شمشیر دنیا میں نافذ کرنے پر مائل ہے۔ ڈاکٹر مسیری مغربی تحیز کے مقابلے میں ایک ’جوابی بیانیہ‘ بھی پیش کرتے ہیں جس کے خصائص و احوال انھوں نے اس تحریر میں بیان کیے ہیں۔
مغربی دنیا کی’’غیر جانب داری‘‘ کی ایک مثال یہاں ڈاکٹر اقبال آفاقی کی کتاب’’تہذیبی اسلام- ابنِ عربی اور پس ِ جدیدیت‘‘ سے دی جاتی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے آخری دور(1987ء) میں ڈاکٹر آفاقی انگلینڈ گئے۔ اسی ہنگامہ خیز دور میں سلمان رشدی نے The Satanic Verses تحریر کی۔وہ کہتے ہیں کہ میرے تھیسز کے سپروائزر پروفیسر کیتھ وارڈ سے میرا پہلا اختلاف رشدی کی اس کتاب کے سلسلے میں ہوا تھا۔جب میں نے ایک سیمی نار میں اٹھ کر عرض کیا کہ سلمان رشدی نے مسلمانوں کے حساس معاملات پر لکھتے ہوئے غیر مہذب زبان کے استعمال کے ساتھ غلط بیانی سے بھی کام لیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کا ردعمل فطری ہے۔رشدی کے نام کو نفرتی مواد (Hate Material) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اسلام اس قدر سیکولر نہیں کہ آپ اس کے ماننے والوں سے مغربی معاشروں کے سے طرزِ عمل کی توقع کریں۔ میری اس گزارش کے خلاف کچھ کہا تو نہ گیا، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے مجھے ہر کوئی شدید نفرت سے دیکھ رہا تھا۔ پروفیسر کیتھ وارڈ کا رویہ بھی دوسروں سے مختلف نہیں تھا۔ وہ کھلے قلب وذہن کا آدمی تھا۔کم از کم میرا یہی خیال تھا، لیکن اس واقعہ کے بعد کیتھ وارڈ اور میرے درمیان ایک ایسی دیوار حائل ہوئی جو کبھی گرنہیں سکی۔ سلمان رشدی کی اڑائی ہوئی دھول انگلینڈ میں مسلسل میرا تعاقب کرتی رہی۔ میں جو بڑا لبرل اور متشکک تھا، اب حیران تھا کہ یہ کیا ہوا اور اس کے نتائج مجھے کس طرح بھگتنا پڑیں گے۔بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ میرے اندر چھپا ہوا لارڈ میکالے کا بھوت اڑن چھو ہو چکا تھا۔مجھ پر یہ کھل چکا تھا کہ چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں۔ (ص 10)
ڈاکٹرآفاقی اپنے بعض تاثرات کو یوں رقم کرتے ہیں:
مغربی تہذیب نے مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کیا اور نہ ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ میں دوزخ سے نکل کر ایک پیراڈائز میں آگیاہوں۔مجھے اکثر لگا کہ اسلام آباد لند ن سے ہزار درجہ بہتر رہنے کی جگہ ہے۔۔۔۔
ہر مہذب اور تعلیم یافتہ شخص کا چیزوں کے بارے میں اپنا نقطۂ ہوتا ہے۔وہ اختلاف راے کا حق مانگتا ہے، لیکن یہ روش، یہ عادت اس تہذیب کے لیے ناقابلِ برداشت ہے جو معاشی خوش حالی کا حق تو دیتی ہے لیکن غیروں کو مختلف ہونے کا حق نہیں دیتی۔جو ایسا کرتے ہیں، ان کو مشکوک، کم عقل اور مفسد قرار دیا جاتا ہے؛ حالانکہ خود اس تہذیب کی بنیاد اختلاف راے کی طلب پر قائم ہے، انگریز اس کے لیے تیسری جنگِ عظیم بھی لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اس کے برعکس وہ یہاں معاشی مہاجرت اختیار کرنے والوں سے مطابقت اور ہم آہنگی کی توقع رکھتے ہیں۔۔۔ انگریز اگرچہ سیکولر ہیں لیکن مذہبی حتمیت کا دعویٰ ان کے خون میں نسلی تفاخر کی طرح شامل ہے۔ وہ کثرتیت کا اعلان کرتے پھرتے ہیں، لیکن برتری کے آئیوری ٹاور سے باہر نہیں نکلتے۔۔۔
انگریز مہاتما بدھ سے مہاتما گاندھی تک سب کو مانتا ہے، لیکن جونہی پیغمبرِ اسلام کا نام سامنے آتا ہے تو اس کی کشادہ دلی اور کثرتیت کا نظریہ مدہم پڑنے لگتا ہے۔۔۔۔(ص 12، 13)
ہمارے یہاں روشن خیال مسلمانوں کی اکثریت مغرب میں جاتی ہے تو اپنے سفر ناموں اور کالموں میں صرف وہاں کے روشن پہلوؤں کا ذکر کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہمارے یہاں کے اچھے خاصے دین دار بھی اپنی ترقی کی معراج کا خواب وہیں دیکھتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ہمارے یہاں کی بعض نئی مذہبی تعبیروں اور بیانیوں میں بھی عالمِ کون مکاں کا موجودہ فساد بس مسلمانوں کے سر ہی تھوپا گیا ہے، دیارِ مغرب میں جا کر دیے جانے والے ’خطبات‘ میں بھی یہی لے کارفرما نظر آتی ہے۔ ان تعبیرات کے حاملین بظاہر بہت غیر جانب داری کی باتیں کرتے ہیں، لیکن ان کی فکر اور تحریریں اکثر یک رخے ذہن کا پتا دیتی ہیں جن میں علمی بددیانتی، مسلم علما و فقہا کے خلاف بغض اور سطحیت پر مبنی نتائج کے مظاہر اکثر وبیش تر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ مظاہر ایک حقیقت پسند، سلیم ذہن کے سامنے ’کواکب‘ کی’ بازی گری‘ کی حقیقت کھول کر نمایاں کر دیتے ہیں۔
تحریر — سید متین احمد شاہ