طالبان تو نہیں مانتے لیکن کیا سیکولر حضرات دستور پاکستان کو مانتے ہیں؟کیا ان احباب کو علم نہیں کہ آئین کے آرٹیکل 2 کی رو سے پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہے ؟ کیا وہ لا علم میں کہ آئین میں اللہ کو پوری کائنات کا حاکم مطلق قرار دیا گیا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ ایک ایسے نظام کی تشکیل آئینی فریضہ ہے جس میں قرآن و سنت کے اصولوں کے تحت زندگی گزاری جا سکے؟ مذہب کو انفرادی زندگی تک محدود کر دینے کے یہ داعی کیا اس بات سے آگاہ نہیں کہ آئین نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کو بھی اسلام کے اصولوں کے مطابق گزارنے کا تقاضا کرتا ہے؟
اپنے بیانیے کے اولین مرحلے میں یہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ کسی فرد کا محض ذاتی فعل ہے۔ کیا انہوں نے آرٹیکل 31 نہیں پڑھا جس میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق گزارنے کے لیے سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری قرار دی گئی ہے، بلکہ ریاست کو اس بات کا بھی پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ عوام قرآن و سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست اس بات کی بھی پابند ہے کہ وہ اسلام کے اخلاقی معیارات کو فروغ دے؟ کیا ان کی عقابی نظروں سے کبھی آرٹیکل 227 نہیں گزرا جس نے یہ اصول طے کر دیا ہے کہ موجودہ تمام قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے گا اور کوئی ایسا نیا قانون نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے منافی ہو؟ آئین کے ان آرٹیکلز سے پوری آگہی کے باوجود اگر یہ عالی مرتبت شخصیات سیکولرزم کی بات کرتی ہیں تو اس رویے کو کیا نام دیا جائے؟ آئین دوستی تو یہ کہلا نہیں سکتی، کیا اسے سیکولر انتہا پسندی کہا جائے؟
آرٹیکل 37 فحش ادب اور فحش اشتہارات کی ممانعت کرتا ہے لیکن میڈیا کیا دکھا رہا ہے؟ بات کی جائے تو میک اپ سے لدے خواتین و حضرات کیمروں کے آگے تشریف فرما ہو جاتے ہیں اور کمال معصومیت سے سوال کرتے ہیں: یہ فحاشی کیا ہوتی ہے؟ اس لمحے آدمی سوچتا ہے یہ حضرات کسی کے ہاں پیدا ہوئے تھے یا ورکشاپ میں تیار ہو کر آ گئے ہیں کہ بنیادی انسانی اخلاقیات اور ریاستی قوانین کو انہوں نے سینگوں پر لے رکھا ہے۔
آزادی رائے کے حوالے سے دستور پاکستان کے آرٹیکل 19 کا حوالہ آئے تو شوکت عزیز صدیقی کی عدالت کو بتایا جاتا ہے کہ اس پر عمل کیا گیا تو چھ سات چینل بند کرنا پڑ جائیں گے۔ سوال ہے کہ کیوں؟ کیا یہ چینل دستور پاکستان سے بالاتر ہیں؟ آرٹیکل 19 میں ایسی کیا بات ہے جس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو آدھا میڈیا بند ہو جائے گا؟ یہی کہ آزادی رائے کا حق آپ کو حاصل ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اسلام کی شان و شوکت کا خیال رکھیے، یہی کہا گیا ہے نا آزادی رائے کا حق مسلمہ ہے لیکن شائستگی اور اخلاقیات کا خیال رکھا جائے، یہی کہا گیا ہے نا کہ آپ کی آزادی رائے کا حق مسلمہ ہے لیکن پاکستان کی سلامتی، وقار اور آزادی کے خلاف کوئی بات نہ کیجیے۔ سواال یہ ہے کہ اس میں غلط کیا ہے؟ کیا سیکولرازم ایسا سانڈ ہے جو مذہب، باخلاقیات، ریاست سب تصورات سینگوں پر رکھنا چاہتا ہے؟
یہ کسی غیر مسلم کو پاکستان کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ آئین کہہ رہا ہے کہ وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونا ضروری ہے۔ وزیراعظم اس وقت تک منصب پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک وہ یہ حلف نہ اٹھا لے کہ وہ مسلمان ہے، اللہ پر، اس کی کتابوں پر، قرآن پر، یوم آخرت پر اور ختم نبوت پر یقین رکھتا ہے۔
آرٹیکل 38 نے سود کے خاتمے کی بات کی ہے لیکن جب شرعی عدالت کا فیصلہ آ گیا تو حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل کر دی۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے اس کھلی جنگ کی حکمرانوں کو کیسے ہمت ہوئی اور سپریم کورٹ نے کیسے حکومت کی اپیل مان لی۔ ذرا غور تو کیجیے آئین کدھر گیا؟
قادیانیوں کو کسی ایک آدھ مولوی نے نہیں، اس پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیا۔ قانون کی رو سے وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، اپنے عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے، وہ نام اور علامات استعمال نہیں کر سکتے جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں۔ وہ اقلیت ہیں اور بطور اقلیت ان کے اپنے حقوق ہیں لیکن انہوں نے آئین کو سینگوں پر لے رکھا ہے اور خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ ہمارے سیکولر احباب بھی انہیں ’ قادیانی مسلمان‘ کہتے ہیں۔ سیکولر احباب کی انتہا پسندی کا عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر اے کیو خان پر تبرا کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبد السلام کے گن گاتے ہیں، اور سوشل میڈیا پر مہم چل پڑتی ہے’’ واحد مسلمان سائنسدان جسے نوبل انعام دیا گیا‘‘۔ اب کہاں گیا آئین اور قانون؟ جنہیں آپ کا قانون غیر مسلم کہہ رہا ہے، آپ اس کو مسلمان بنانے پر تلے ہو؟ کیا یہ آئین اور قانون پسندی ہے ؟
سچ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند کی طرح مذہب بے زار انتہا پسند بھی اس آئین کو نہیں مانتا. ایک کا اعتراض یہ ہے کہ یہ مکمل اسلامی کیوں نہیں اور دوسرے کا اعتراض یہ ہے کہ یہ تھوڑا تھوڑا اسلامی کیوں ہے؟
آصف محمود