اسلام میں بیوی کو طلاق دینے کا اختیار کیوں نہیں دیا گیا؟

۔

معاشی پہلو :
ایک مرد اور ایک عورت میں نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے “ومن قُتِلَ دُون أهْلِهِ فهو شَهيدٌ ” وہ جو اپنی اہلیہ کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے “(ابوداود)” کی خوش خبری سنا کر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے، اور “حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك” یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے “(بخاری)” کہہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے، وہ اسے “اتقوا الله في النساء”’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو ‘ کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلا وجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو “خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي” کہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔
اسکے بعد اسلام مرد پر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے،اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے، یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے، یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے، یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے، اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے، ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔ ان سب کے علاوہ مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد اسلام بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔
مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو اصولا اس رشتے کو توڑنے کا حق بھی اسی کے پاس ہونا چاہیے ۔ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟
سوال : اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟
فرض کریں آپ نے ایک ایک عورت پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، آپ نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، آپ نے جونہی مہر بیوی کے حوالے کیا، اس نے کہا”میں تمہیں طلاق دیتی ہوں، طلاق طلاق۔ اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے۔۔۔ تو آپ کے دل پر کیا بیتے گی ۔؟
صرف یہی نہیں اس سے آگے چلیں ، مرد جو کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔ ۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور اس شک کی بنا پر صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔۔۔۔!!
کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے، اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔۔؟؟؟
ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے یہی معترضین لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے ہیں ۔ اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرنی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔
اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں، اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کے بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا، اگر شوہر کسی صورت اس کا حق نہیں دیتا، یا دینے پر قادر ہی نہیں ہے، تو اس سے عورت کو طلاق دینے کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر وہ طلاق بھی نہیں دیتا، تو عدالت اسے جیل میں بند کردے گی، تھانے جائے گا، پولیس والوں کے چھتر کھائے گا، تنہائی اور بے بسی کا مزہ چکھے گا تو خود ہی دوسرے کی بے بسی کا احساس پیدا ہوگا، ورنہ جب تک اس کی بیوی عذاب میں رہے گی، وہ بھی اسی دائمی عذاب میں مبتلا رہے گا۔

نفسیاتی پہلو :
مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، چنانچہ جسمانی ساخت سے لے کر ذہنی اور فکری استعداد تک وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جسمانی و نفسیاتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کو اسی حساب سے تقسیم فرمایا ہے، عورت کی طبیعت میں مرد کی نسبت متاثر ہونے کی استعداد و صلاحیت زیادہ ہے، ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے، ان کو غصہ بہت جلدی آتا ہے ۔ چونکہ اندیشہ تھا کہ عورت اپنی فطری کمزوری، جلد بازی سے اس بندھن کو توڑ کر در،در کی ٹھوکریں نہ کھائے، اس لئے اس معاہدئہ نکاح کے فسخ کا حق عورت کو نہیں دیا گیا اور اس عقد کو باقی رکھنے کے لئے مرد کو بھی خصوصی ہدایات دی گئیں کہ اگر خدانخواستہ خواتین کی جانب سے ایسی کسی کمی کوتاہی کا مرحلہ درپیش ہوتو مردوں کو اس عقد کے توڑنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ دونوں جانب کے بڑے بوڑھوں اور جانبین کے اکابر و بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اصلاح کی فکر کرنی چاہئے۔(النساء:۳۵)
اگرایسی صورت پیداہوجائے کہ عورت کا اس مرد کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے یا شوہر ظلم و تشدد پر اتر آئے تو ایسی صورت میں عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی عدالت یا اپنے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ خلع لے کر سکتی ہے ۔ اس ساری صورت حال پر غور کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ اس میں عورت کی عزت، عصمت اور عظمت کے تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے، کیونکہ طلاق کے بعد مرد کا تو کچھ نہیں جاتا، البتہ عورت کے لئے کئی قسم کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، مثلاً: خود اس کا اپنا بے سہارا ہوجانا، اس کے بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت، ان کے مستقبل اوراس کے خاندان کی عزت و ناموس کا معاملہ وغیرہ، ایسے بے شمار مسائل اس بندھن کے ٹوٹنے سے کھڑے ہوسکتے ہیں، اور ان تمام مسائل سے براہِ راست عورت ہی دوچار ہوتی ہے۔اس لیے پہلے تو کوشش کی گئی ہے کہ اس کے یہ رشتہ ٹوٹنے ہی نا پائے ، پھر اس رشتے کے ٹوٹنے کی راہوں کو اس طرح تنگ کردیا گیا ہے کہ کوئی بہتری کی ساری متبادل آپشن کے استعمال کے بعد ہی یہ قدم اٹھاسکے تاکہ بعد میں پچھتاوا نا ہو اور اس رشتے سے منسلک باقی لوگ عذاب میں مبتلا نا ہوں ۔
تحریر و ترتیب : احسن خدامی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password