مرد کو چار شادیوں کی اجازت کیوں دی گئی ؟

۔

کثرت ازواج polygamy اسلام میں حکم نہیں ہے بلکہ ایک رخصت ہے- ایک ایسی رخصت جو اسلام محض اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے نہیں دیتا بلکہ اس لیے کہ اس کے ذریعے یتیم , طلاق یافتہ ، بیوہ عورتوں اور معاشرے کی فاضل عورتوں کی کفالت اور دلجوئی کا بندوبست کیا جائے ۔ چنانچہ یہ عورت کے خلاف نہیں بلکہ عورت کے لیے ہی اللہ کا ایک قانون ہے۔ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو یہ کہتا ہے کہ ۔” اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو(“-سورہ النساء۔آیت3)
کثرتِ ازواج کی رخصت بہت سی حکمتوں کی بناء پر دی گئی ہے۔چند ایک کا تذکرہ پیش ہے:
1۔ بسااوقات ایک عورت امراض کی وجہ سے یا حمل اور تولد النسل کی تکلیف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتی کہ مرد اس سے منتفع ہوسکے تو ایسی صورت میں مرد کے زنا سے محفوظ رہنے کی عقلا اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ اس کو دوسرے نکاح کی اجازت دی جائے۔
2۔ بسااوقات عورت امراض کی وجہ سے یا بانجھ ہونے کی وجہ سے توالدالنسل کے قابل نہیں رہتی اور مرد کو بقاء نسل کی طرف فطری رغبت ہوتی ہے ایسی صورت میں عورت کو بے وجہ طلاق دے کر علیحدہ کرنا یا اس پر کوئی الزام لگا کر طلاق دے دینا بہتر ہے یا یہ صورت بہتر ہے کہ اس کی زوجیت اور اس کے حقوق کو محفوظ رکھ کر دوسرے نکاح کی اجازت دے دی جائے ؟۔
3۔ عورتوں کی تعداد قدرتا اور عادۃ مردوں سے زیادہ ہے مرد بہ نسبت عورتوں کے کم پیدا ہوتے اور (جنگوں ، حادثات، پریشانیوں کیوجہ سے )مرتے زیادہ ہیں ۔ یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دس لاکھ سے زائد عورتیں ایسی ہیں جنکی نکاح کی عمر گزر چکی ہے ۔ اگر ایک مردکو کئی شادیوں کی اجازت نہ دی جائے تو یہ فاضل عورتیں بالکل معطل اور بے کار رہیں ، کون ان کی معاش کا کفیل اور ذمہ دار بنے اور کس طرح یہ عورتیں اپنے کو زنا سے محفوظ رکھیں ۔ چنانچہ تعدد ازدواج کا حکم بے بس کس عورتوں کاسہارا ہے اور ان کی عصمت اور ناموس کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے اور ان کی جان اور آبرو کانگہبان اور پاسبان ہے۔ عورتوں پر اسلام کے اس احسان کا شکر واجب ہے کہ ان کوتکلیف سے بچایا اور راحت پہنچائی اور ٹھکانا دیا اور لوگوں کی تہمت اور بدگمانی سے محفوظ کردیا۔
ایک سروے کے مطابق اگر امریکہ کا ہر مرد صرف ایک ایک شادی پر اکتفا کرے تو تقریباً 25 لاکھ سے زائد خواتین ایسی بچتی ہیں جن کے لئے شوہر میسر نہیں رہتا جبکہ 10 فیصد آبادی ہم جنس پرستوں کی اسکے علاوہ ہے۔ اس صورتحال میں غیر شادی شدہ عورت کے پاس صرف دو راستے رہ جاتے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ وہ کسی شادی شدہ مرد سے ہی شادی کر لے جبکہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ خود کو پبلک پراپرٹی بنالے اور جنسی درندوں کے حوالے کردے۔ مغربی معاشرہ اس مسئلے کا کوئی بہتر حل تجویز نہیں کرتا، وہاں سرے سے نکاح کا ہی کنسیپٹ مٹتا جارہا ہے، عورت محض جنسی خواہشات پوری کرنے کی مشین ہے ۔ بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر ہے اس لیے میاں،بیوی اور اولاد کے کسی حق یا فرض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جنسی خواہش پوری کرو اور اپنی اپنی راہ لو ، ابارشن اور حرامی بچوں کی بہتات ہے ۔
معاملہ چونکہ خاندانی نظام کا ہے جس سے ایک معاشرہ اور نسل تیار ہوتی ہے اس لیے اسلام اس معاملے سے آنکھیں چرانے کی بجائے اسکا بہترین حل نکالتا ہےاور ان دونوں راستوں میں سے پہلے راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ کسی بھی مرد کو کسی بھی عورت کے ساتھ جنسی تعلق کی اس وقت تک اجازت نہیں دیتا جب تک وہ اس عورت کے مالی اخراجات اور جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کی پرورش اور اخراجات کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر قبول نہ کرے۔ شریعت مغرب کے موجودہ فلسفہ اور کلچر کی طرح جنسی تعلقات کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑتی کہ مرد تو اپنا جنسی تقاضا پورا کر کے چلتا بنے اور عورت اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تنہا رہ جائے۔ شریعت نے عورت کی عزت اور حقوق کے تحفظ کے لئے اس بات کو زیادہ پسند کیا ہے کہ وہ داشتہ بننے کے بجائے کسی شادی شدہ مرد کی بیوی بن کر باعزت زندگی گزارے ۔ اسے وہ تمام حقوق بھی ملیں جو ایک بیوی کے حقوق ہوتے ہیں جبکہ ایک داشتہ کے نہ تو کوئی حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی اسکی کوئی عزت۔
جو لوگ تعدد ازدواج کو برا سمجھتے ہیں ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب ملک میں عورتیں لاکھوں کی تعداد میں مردوں سے زیادہ ہوں تو ان کی فطری اور طبعی جذبات اور ان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کے پاس کیا حل ہے اور آپ نے ان بے کس اور تنہا رہ جانے والی عورتوں کی پریشانیاں دور کرنے کے لیے کیا قانون بنایا ہے؟
افسوس اور صد افسوس کہ اہل مغرب اور انکے غلام اسلام کے اس جائز تعدد پر تو عیش پسندی کا الزام لگائیں اور غیر محدود ناجائز تعلقات اور بلا نکاح کے لاتعداد آشنائی کوتہذیب اور تمدن سمجھیں ۔زنا جو کہ تمام انبیاء اور مرسلین کی شریعتوں میں حرام اور تمام حکماء کی حکمتوں میں قبیح رہا ‘مغرب کے مدعیان تہذیب کو اس کا قبح نظر نہیں آتا اور تعدد ازدواج کہ جو تمام انبیاء ومرسلین اور حکماء اور عقلاء کے نزدیک جائز اور مستحسن رہا وہ ان کو قبیح نظر آتا ہے ان مہذب قوموں کے نزدیک تعدد ازدواج تو جرم ہے اور زنا اور بدکاری جرم نہیں۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی قانونی یک زوجی(لیگل مونو گیمی) رائج کی گئی ھے وھاں غیر قانوںی تعددِّ ازواج (الیگل پولی گیمی )کو فروغ نصیب ھو کر رھا ھے !!!آپ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتے کہ قانونی یک زوجی نے کہیں کسی زمانے میں بھی عملی یک زوجی کی شکل اختیار کی ھو ۔۔ اس کے برعکس اس قانونی پابندی کا نتیجہ ہر جگہ یہی ھوا ھے کہ آدمی کی جائز بیوی تو صرف ایک ھوتی ھے ، مگر حدودِنکاح سے باہر وہ عورتوں کی غیر محدود سے عارضی اور مستقل ،ہر طرح کے ناجائز تعلقات پیداکرتا ھے،جن کی کوئی ذمہ داری وہ قبول نہیں کرتا ،جن کے کوئی حقوق اس پر عائد نہیں ھوتے ،جن سے پیدا ھونے والی ناجائز اولاد سے بھی وہ بالکل بری الذمہ ھوتا ھے ۔۔ اب آپ کے سامنے اصل مسئلہ یہ نہیں ھے کہ آپ یک زوجی (مونو گیمی )کو اختیار کریں یا تعددِازواج (پولی گیمی) کو۔۔بلکہ اصل مسئلہ یہ ھے کہ آپ قانونی تعددِازواج ( لیگل پولی گیمی )کو قبول کرتے ھیں یا غیر قانونی تعددِازواج(الیگل پولی گیمی) کو ؟!!
اگر پہلی چیز آپ کو قبول نہیں ھے تو دوسری چیز آپ کو لازماً قبول کرنی پڑے گی ،اور اس کے ساتھ کنواری ماؤں اور حرامی بچوں کی اس روز افزوں تعداد کا بھی خیر مقدم کرنا ھوگا جو قانونی یک زوجی پر عمل کرنے والے ملکوں کے لیئے ایک پریشان کن مسئلہ بن چکی ھے ۔۔
اگر آپ اس خیال خام میں مبتلا ھیں کہ جس حماقت کے برے نتائج دوسرے دیکھ چکے ھیں اسکا ارتکاب کرکے وہ نتائج دیکھنے سے آپ بچے رہ جائیں گے ،تو تجربہ آپ کو بتا دیگا کہ آپ احمقوں کی جنت میں بستے تھے ۔۔مگر اس وقت آپ کی آنکھیں کھلیں گی بھی تو اس کا فائدہ کچھ نہ ھو گا ۔کیونکہ جس فساد کا دروازہ آپ کھول چکے ھوں گے اسے بند کرنا آپ کے بس میں نہ ھوگا۔
ایک طرف تو مغرب کی اندھی تقلید میں آپ فحش لٹریچر، عریاں تصاوہر ،شہوانی موسیقی، اور ہیجان انگیز فلموں کا سیلاب ملک میں لا رھے ھیں جو لوگوں کے صنفی جذبات کو ہر وقت بھڑکاتا رھتا ھے ، آپ مخلوط تعلیم Co-Education کو رواج دے رھے ھیں ،”ثقافت ” کے پروگرام چلارھے ھیں ،روز بروز زیادہ سے زیادہ عورتوں کو ملازمتوں میں کھینچ کھینچ کر لارھے ھیں ، جس کی بدولت بنی سنوری عورتوں کے ساتھ مردوں کے اختلاط کے مواقع بڑھتے چلے جارھے ھیں ۔دوسری طرف آپ کے تازہ اقدامات یہ ھیں کہ تعددِازوج پر آپ نے ایسی پابندیاں لگانی شروع کی ھیں جن سے وہ عملاً ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ھوجاتا ھے اور 16 سال سے کم عمر کی لڑکی اور 18 سال سے کم عمر لڑکے کی شادی آپ نے قانوناً ممنوع کردی ھے ۔۔کیا اس کا صاف مطلب یہ نہیں ھے کہ آپ نے اس ملک کو زنا کے طوفان میں غرق کردینے کا ہی فیصلہ کرلیا ھے ؟

مستفاد : سید مودودی ، زاہد الراشدی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password