اسلام نےمردکوگھرکاسربراہ بناکےعورت پر فوقیت کیوں دی ؟

.

خاندان کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام نے مرد کو برتری اور فضیلت عطا کی ہے اور اس کے لیے قرآن مجید میں لفظ ’’قوام‘‘ استعمال ہوا ہے. اس سطح پر آ کر مرد اور عورت ہرگز مساوی نہیں ہیں. اس معاملے میں مساوات کا تصور عقل کے بھی بالکل خلاف ہے‘ اس لیے کہ خاندان در اصل ایک انتظامی ادارہ (unit) ہے اور کسی بھی انتظامی ادارے میں مساوی اختیارات کے حامل دو سربراہ نہیں ہو سکتے. یہ ممکن ہی نہیں‘ قطعی نا قابل عمل بات ہے. آپ پورے انسانی تمدن کا جائز ہ لے لیجیے! بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے ادارے کو سامنے رکھ لیجیے کہ کیا کوئی ایسا ادارہ موجود ہے کہ جس کے سربراہ دو ہوں اور بالکل مساوی اختیارات رکھتے ہوں؟ بالفرض کہیں یہ حماقت کی گئی ہو تو پھر وہ ادارہ صحیح طور پر اپنا کام انجام نہیں دے سکتا. یہ نا ممکن ہے‘ محالِ عقلی ہے. لہٰذا اگر یہ مقصد پیش نظر ہو کہ خاندان کے ادارے کو مستحکم کیا جائے‘ مضبوط بنایا جائے‘ جیسا کہ اسلام چاہتا ہے اور اس کا عین منشا ہے‘ تو قانون اور اختیار دونوں اعتبارات سے خاندان میں کسی ایک فرد کو برتری دینا ہو گی‘ اس کے بغیر خاندان کا ادارہ نہ مستحکم ہو سکتا ہے اور نہ وہ وظیفہ انجام دے سکتا ہے جو اس کے ذمہ ہے.
مرد اور عورت نظامِ خاندان کے دو بنیادی ارکان ہیں، اس کی سربراہی ان میں سے کسی ایک کو ہی دی جاسکتی تھی۔ اسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی۔ قرآن میں اسی کو ’درجہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ۔ (البقرۃ:۲۲۸) ترجمہ :عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔
اسی ذمہ داری کی بنا پر مرد کو قرآن میں ’قوّام‘ (سربراہ) کہا گیا ہے: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَآء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَآ أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ۔ (النساء:۳۴) ترجمہ :مرد عورتوں کے سربراہ ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لفظ ’قوّام‘ کی تشریح:
بعض مترجمینِ قرآن نے اردو ترجمہ میں لفظ ’قوّام‘ کو جوں کا توں باقی رکھا ہے۔بعض نے اس کا ترجمہ حاکم ، افسر، سرپرست، سردھرے، وغیرہ الفاظ سے کیا ہے۔ اس سے اس کے پورے مفہوم کی وضاحت نہیں ہوپاتی۔عربی زبان میں ’قام‘ کا ایک معنٰی نگرانی و خبر گیری ہے۔ قام علی الامر: کسی کام میں مشغول ہونا، کسی کام کو سنبھالنا، قام علی أہلہ: اہل و عیال کی دیکھ بھال کرنا، کفالت کرنا، خرچ اٹھانا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے: ’’قوّام یا قیّم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو‘‘(مولانا سید ابوالاعلی مودودی، تفہیم القرآن، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی ، ۱/۳۴۹
)
مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے لکھا ہے: ’’قوّام کے معنیٰ ہیں کسی شے کے محافظ ، منتظم، مدبّر کے اور یہاں مراد یہ ہے کہ مرد عورتوں کے امور کا انتظام کرنے والے، ان کی کفالت کرنے والے، ان پر احکام نافذ کرنے والے ہیں‘‘۔(مولانا عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنؤ، ۱/۷۳۰)
ماہرین لغت کے اقوال سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ فیروز آبادی فرماتے ہیں: قام الرجل المرأۃ وقام علیہا، مانہا و قام بشأنہا۔ (مجدالدین الفیروز آبادی، القاموس المحیط، دارالفکر بیروت، ۱۹۹۵ئ، ص۴۷۴) اس کا مطلب ہے مرد کا عورت کی کفالت کرنا اور اس کی دیکھ بھال کرنا۔

مرد کو قوّام بنائے جانے کے اسباب:
آیتِ بالا میں مردوں کو عورتوں پر قوّام بنائے جانے کے تذکرہ کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں جن کی بنا پر انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو اسباب مذکور ہیں۔ مفسرین کے بیان کے مطابق پہلا سبب وہبی ہے اور دوسرا کسبی۔ (بیضاوی، ۱/۲۸۲، بقاعی، ۵/۲۷۰، ابوالسعود، ۱۷۳، آلوسی، ۵/۲۳، محمد رشید رضا، تفسیر المنار، مطبعۃ المنار، مصر،)
الف- وہبی فضیلت:
پہلے سبب کے ضمن میں قرآن نے بہ طریق اجمال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے مردوں کو عورتوں پر فوقیت بخشی ہے۔ بِمّا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ: اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک دو سرے پر فضیلت دی ہے۔ یہاں ’فضیلت‘ سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھا ہے:’’یہاں فضیلت بہ معنی شرف او رکرامت اور عزّت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنیٰ میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں ، یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوّام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے او رعورت فطرۃً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے‘‘۔ (تفہیم القرآن ، مودودی، ۱/۳۴۹)
علامہ رشید رضاؒ نے لکھتے ہیں:
’’مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا تذکرہ صراحت سے کرنے کے بجائے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس سے یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مرد اور عورت دونوں ایک بدن کے مختلف اعضاء کے مثل ہیں۔ اس لیے نہ مرد کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی طاقت کے نشے میں عورت پر ظلم کرے اور نہ عورت کو زیب دیتا ہے کہ اس کی فضیلت کو بار سمجھے اور اس چیز کو اپنی ناقدری گردانے، اس لیے کہ جس طرح کسی شخص کے لیے یہ عار کی بات نہیں ہے کہ اس کا سر ہاتھ سے یا دل معدہ سے افضل ہو، اس لیے کہ بعض اعضاء کا دیگر اعضاء سے افضل ہونا پورے بدن کے مفاد میں ہوتا ہے، جب کہ اس سے کسی عضو کو کوئی ضرر لاحق نہیں ہوتا، اسی طرح کمانے اور تحفظ دینے کی قوت و طاقت رکھنے کے معاملے میں عورت پر مرد کی فضیلت میں حکمت پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ اس طرح عورت بہ آسانی اپنے فطری وظائف: حمل، ولادت اور بچوں کی تربیت وغیرہ انجام دیتی ہے۔ وہ اپنے گوشۂ عافیت میں بے خوف و خطر رہتی ہے اور وسائلِ معاش فراہم کرنے کی فکر سے بھی آزاد رہتی ہے۔ فضیلت کی غیر واضح تعبیر اختیار کرنے میں ایک دوسری حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے، مردوں کے تمام افراد کی عورتوں کے تمام افراد پر نہیں ہے۔ اس لیے کہ بہت سی عورتیں ایسی ہوسکتی ہیں جو علم، عمل، بلکہ جسمانی قوت اور کمانے کی صلاحیت میں اپنے شوہروں سے افضل ہوں۔ اس سے واضح ہوا کہ آیت کے اس ٹکڑے میں اعجاز کی حد تک ایجاز پایا جاتا ہے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/۶۹-۷۰)
آگے علامہ رشید رضاؒ نے ، مفسرین کی بیان کردہ وجوہ فضیلت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’زیادہ تر مشہور مفسرین نے وجوہِ فضیلت میں نبوت، امامتِ کبریٰ، امامتِ صغریٰ، اذان، اقامت اور خطبۂ جمعہ وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کو حاصل یہ امتیازات ان کے کمالِ استعداد پر مبنی ہیں، لیکن یہ وہ اسباب نہیں ہیں جن کی بناپر مردوں کو عورتوں کے معاملات کی سربراہی تفویض کی گئی ہے۔ اس لیے کہ نبوت ایک اختصاص ہے جس پر اس طرح کا حکم مبنی نہیں ہوسکتا اور نہ ہر مرد کے ہر عورت سے افضل ہونے کی یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ تمام انبیاء مرد تھے۔ یہی حال امامت و خطابت اور دیگر امور کا ہے ، جن کی صرف مردوں کے لیے مشروعیت کا تذکرہ مفسرین نے کیا ہے۔ اگر شریعت نے عورتوں کو جمعہ اور حج میں خطبہ دینے ، اذان دینے اور نماز کی امامت کرنے کی اجازت دی ہوتی تو بھی یہ امر اس چیز میں مانع نہ ہوتا کہ مرد بہ تقاضائے فطرت عورتوں کے قوّام ہوں۔ لیکن اکثر مفسرین دینِ فطرت کے احکام کی علّتیں بیان کرنے میں قوانینِ فطرت کی طرف رجوع نہیں کرتے اور دوسرے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں‘‘۔ (ایضاً، ۵/۷۰)
ب- کسبی فضیلت

عورتوں پرمردوں کی فضیلت کا دوسرا سبب قرآن نے یہ بیان کیا ہے:وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ اَمْوَالِہِمْ اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
شریعت نے افرادِ خاندان کی کفالت کرنے، ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے اور ان کے لیے وسائل معاش فراہم کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے او رعورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ یہ چیز بھی مرد کو خاندان کی سربراہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ شیخ رشید رضا نے اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے:
’’عورتیں عقدِ زوجیت کے ذریعے مردوں کی سربراہی میں داخل ہوتی اور ان کی ماتحتی قبول کرتی ہیں۔ مہر کی شکل میں انھیں اس کا عوض اور بدلہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح گویا شریعت نے عورت کو ایک اعزاز بخشا ہے کہ اسے ایک ایسے معاملے میں مالی بدلہ کا مستحق قرار دیا جس کا فطرت اور نظامِ معیشت تقاضا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کا شوہر اس کاسربراہ ہو۔اس معاملے کو عُرف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، جسے لوگ باہم رضامندی سے انجام دیتے ہیں۔ گویا عورت نے اپنی مرضی سے مطلق مساوات سے تنزلی اختیار کرلی اور مرد کو اپنے اوپر ایک درجہ (سربراہی کا درجہ) فوقیت دینے پر تیار ہوگئی اور اس کا مالی عوض قبول کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْْہِنَّ دَرَجَۃٌ۔ (البقرۃ: ۲۲۸) اس آیت سے مردوں کو وہ درجہ مل گیا جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے۔( ایضاً، ۵/۶۷-۶۸)
فقہاء کرام نے آیت کے اس ٹکڑے سے استنباط کیا ہے کہ مرد پر عورت کا نفقہ واجب ہے۔ (جصاص، ۱/۲۲۹)
اس آیت کے ذیل میں فقہاء نے ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ اگر کبھی شوہر بیوی کا نفقہ برداشت کرنے پر قادر نہ رہے تو اس کی قوّامیت باقی نہیں رہتی اور اس صورت میں بیوی کو نکاح فسخ کروانے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ مقصود باقی نہ رہا جس کی بنا پر نکاح کی مشروعیت ہوئی تھی۔ یہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ عورت کا نفقہ برداشت کرنے پر شوہر قادر نہ ہو تو بھی نکاح فسخ نہ ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور اگر وہ تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو۔( قرطبی، ۵/۱۶۹، ابوحیان، ۳/۳۳۶، آلوسی، ۵/۲۴)
ایک علمی مجلس میں ایک خاتون کی جانب سے عہد حاضر کے مشہور عالم دین مولانا سید جلال الدین عمری سے سوال کیا گیا کہ ’’قرآن مجید میں الرجال قوامون کہا گیا ہے۔ اس کے تحت بیوی کے نان نفقہ کی ذمے داری مرد پر ڈالی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خاوند جو بے روزگار ہے اور بیوی کا معاشی بار نہیں اٹھارہا ہے، یا وہ جسمانی طور پر معذور ہے اور اسے جسمانی تحفظ (Physical Protection) نہیں دے سکتا۔ کیا پھر بھی وہ قوّام ہوگا؟‘‘ اس سوال کا انھوں نے یہ جواب دیا:
’’آپ اس سے بھی زیادہ بھیانک مثال پیش کرسکتی ہیں۔ ایک آدمی نابینا ہے یا اپاہج اور معذور ہے۔ خود تعاون اور مدد کا محتاج ہے۔ عورت اس کی خدمت کرتی اور اس کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو کیا اس صورت میں مرد کی حیثیت قوّام ہی کی ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے بہ حیثیتِ نوع مرد کو قوّام کہا ہے۔ اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں، ایک یہ کہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔ یہ برتری جسمانی، ذہنی او رعملی تینوں پہلوؤں سے یا ان میں سے ایک یا دو پہلو سے ہوسکتی ہے۔ اسی برتری کی وجہ سے اسلام نے عورت کے مقابلے میں مرد پر سیاسی، سماجی اور معاشی ذمے داریاں بھی زیادہ ڈالی ہیں۔ مرد کے قوّام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہ عورت پر اپنا مال خرچ کرتا ہے ۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ استثنائی مثالیں ہر دو رمیں رہی ہیں۔ آج بھی موجود ہیں کہ ایک عورت ذہنی اور جسمانی لحاظ سے مرد سے بہتر ہے اور اس کی معاشی حیثیت بھی مستحکم ہے اور وہ شوہر پر خرچ بھی کررہی ہے۔ اس کے باوجود مرد کے قوّام ہونے کی حیثیت ختم نہیں ہوجائے گی۔ ورنہ مرد اگر اپنے مرد ہونے کی وجہ سے اور عورت اپنی معاشی حیثیت کی وجہ سے باہم ٹکرانے لگیں تو گھر کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا‘‘۔ (سید جلال الدین عمری، اسلام کاعائلی نظام، مرکزی مرکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی)
نگراں نہ کہ داروغہ
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلیٰ کی ہے، جس کے ماتحت بیوی بچے اور دیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتا ہے، انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے، انھیں مکروہاتِ دنیا سے بچاتا ہے، اگر ان کے کسی رویے میں دین سے انحراف پاتا ہے تو ان کی اصلاح کی کوشش کرتاہے، اگر ان سے کسی معاملے میں کوئی کوتاہی سرزد ہوتی ہے تو انھیں سمجھاتا بجھاتا ہے او راگر وہ باز نہیں آتے تو ان کی سرزنش کرتا ہے۔ اس کی مثال ریوڑ کے چرواہے کی سی ہے، کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑ بکریوں پر نظر رکھتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے، انھیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچاتا ہے او راگر ان میں سے کوئی اِدھر اُدھر بھاگنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ہانک کر ریوڑ میں شامل کرتا ہے۔ ایک حدیث میں (جو پیچھے گذر چکی ہے) یہی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مرد اپنے گھر والوں کا راعی (نگراں) ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔( صحیح بخاری، کتاب الاحکام، ۷۱۳۷، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، ۱۸۲۹) شیخ محمد عبدہٗؒ اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں قوّامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت شخص اپنے پورے ارادہ و اختیار کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ماتحت شخص پوری طرح مجبور محض ہوتا ہے، وہ کسی ارادہ و اختیار کا مالک نہیں ہوتا اور صرف وہی کام انجام دیتا ہے جس کی اس کا سربراہ اسے ہدایت دیتا ہے۔ کسی شخص کے دوسرے پر قوّام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے جن کاموں کی رہ نمائی کرتا ہے ان کے نفاذ کے سلسلے میں اس کی دیکھ ریکھ اور نگرانی رکھتا ہے‘‘۔ (رشید رضا، ۵/ ۶۸)
مردوں کو سربراہی و نگرانی کے اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ قرآن و حدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اپنے ان اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں اور اپنے زیردست عورتوں کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں اور انھیں کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائیں، بلکہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور محبت، شائستگی اور ہم دردی کے ساتھ پیش آئیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً۔ (النسائ:۱۹) ترجمہ: ’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو‘‘ ۔
متعدد احادیث میں مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور لطف و کرم کے ساتھ پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں نیک عورت کو دنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا گیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دنیا سامانِ زیست ہے اور دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے۔( صحیح مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، ۱۴۶۷)
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password