کیاآج عورت کے پیچھے رہ جانے کا سبب اسلام ہے ؟

۔

کیا بیٹی کو بوجھ سمجھ کے والدین اور اسلام نے اپنی زندگی جینے اور جیتنے کا پورا حق نہیں دیا؟؟
(ایک محترمہ کی بات کی وضاحت میں )
بات غلط نہیں مگر اس کا رخ غلط جانب ضرور ہے. کس والد کی خواہش نہ ہو گی کہ اس کی بیٹی فرض کریں ایک روشن فکر عالمہ،ایک صحیح الدماغ فاضلہ، ایک آفاق کی وسعتوں کو کھوجنے والی جستجو کار یا استادِ فن نہ بنے. کیا اسے یہ سب بننے اور کرنے سے اس کے والد نے روک دیا؟
اچھا ، جنھیں یہ موقع دے دیا گیا کیا انھوں نے کتابیں لکھ لکھ کے لائبریریاں بھر دیں اور کیا ان کے تھیسز اور ریسرچ پیپرز نے دنیا بدل ڈالی؟ اسے بھی چھوڑئیے. یہ دیکھئے کہ کیا مرد سارے مصنف بن گئے؟ ریسرچر بن گئے؟
یقینا جواب ہو گا کہ جی نہیں تو پھر رکاوٹ کیا والدین ہوئے؟ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دراصل یہ عہد overall ہمارے downfall کا عہد ہے. اس میں عورت کو اس کا حق نہیں مل رہا یا اس کی ساری صلاحیتوں کے مکمل اظہار کو مناسب میدان نہیں مل رہا تو یہ بھی تو دیکھئے کہ ہماری کرکٹ ٹیم بھی کپ نہیں لاتی.
ہمارا ڈاکٹر بھی تشخیص صحیح نہیں کرتا. ہمارا عالم بھی مجتہدانہ بصیرت پر مبنی رائے پیش نہیں کرتا. یہاں تک کہ ہمارا دکاندار سودا درست نہیں دیتا اور ہمارا سویپر صفائی تک ٹھیک نہیں کرتا.
چنانچہ جب ہم مقابلے میں یورپ یا مغرب میں اپنی صنف یا پیشے کو بہتر اور فروغ پذیر دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاں کے ہر طبقے کو یوں لگنے لگتا ہے کہ شاید اس کے پیچھے رہنے کا باعث اس کے خلاف برتے جانے والے اس کے اپنوں کے مخصوص رویے یا مخصوص عقائد ہیں. اور ایسا موقع پا کر لبرل ہمیں باور کرانے آجاتے ہیں کہ اور کچھ نہیں بلکہ اس سب کا ذمے دار اسلام ہے. وہی ایسی پابندیاں عاءد کرتا اور ایسی ذہن سازی کرتا ہے۔ اب اس میں بھلا کسے شک کہ اسلام نے چند اصول دے کے عورت اور مرد دونوں کو بلا امتیاز برابر اس کارگہ حیات میں لا اتارا ہے. چلو بعد کے ادوار کو تو سر دست آپ چھوڑئیے. خود عہد رسالت کے ایک خالص دیہی ماحول میں وە کون سا کام ہے جس میں عورت شریک نہیں رہی؟
سیدہ خدیجہ نے تجارت کی اور اپنی شادی کا پیغام خود بھیجا. سیدہ صفیہ کو رسول اللہ ص نے کھیتوں سے اکیلے کام کرکے آتے پایا تو سواری کی پیش کش کی. صحابہ کے مسجدوں سے انسلاک اور محبت کے باوجود مسجد کی صفائی کرنے میں ایک عورت ممتاز تھی. خواتین نے جنگوں میں کردار ادا کیا اور وە بہترین داعی بھی بنیں . انھوں نے مسجدوں میں جا کے نماز پڑھی اور انھوں نے ہجرتیں بھی کیں. وقت آیا تو سیدہ عایشہ نے جنگ جمل کی قیادت کی.ادب اور ان کی زبان دانی کے مظاہر دیکھنے ہوں تو سیدہ خنسا کو دیکھئے کہ حسان بن ثابت جیسے نابغہ شاعر کے کلام سے جنھوں نے غلطیاں نکالیں. ام معبد کو دیکھئے کہ آج احادیث کے ذخیرے میں ان سے زیادە فصیح سراپائے رسول کا بیان کسی اور کی زبانی نہیں ملتا.
تو کیا آج عورت کے شکوے اور پیچھے رہ جانے کا باعث اسلام ہے؟
• اور کیا ایک سازگار ماحول میں محض والدین نے بوجھ سمجھ کے بیٹی کے پر کاٹ رکھے اور اس کی پرواز روک رکھی ہے؟
جی نہیں یہاں اگر عبید شرمین چنائے ہے تو یہاں پردے میں ایک خاتون پائیلٹ بھی ہے. ۔ہر شعبہ حیات میں عورت کا ایک قابل قدر مثبت اور تعمیری کردار ہے. رہا وە مثالی کردار جو مزید ہو سکتا تھا تو یہ اس عہد زوال میں ہماری پوری امت پر اتری شام زوال کے گہرے سائے ہیں . جس کا کوئی ایک بالخصوص ذمہ دار نہیں اور کوئی ایک بالخصوص استحصال کی زد میں بھی نہیں.ہاں بطور صنف یا پیشہ کہیں کمی کہیں زیادتی ہو سکتی ہے. وگرنہ سبھی برابر جھیل رہے ہیں. سبھی کے درد ہیں ، کہیں کم کہیں زیادہ
یوسف سراج

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password