۔
”میری پیاری بیٹی لائبہ خان خاکوانی !
یہ خط میں ستمبر کی نو تاریخ کو لکھ رہا ہوں، سال دوہزار سولہ اور مقام لاہور شہر ہے، وہی لاہور جسے سو، سوا سوسال پہلے برصغیر کے ایک عظیم لیڈر سرسید احمد خان نے زندہ دلان کا شہر کہا تھا۔ بیٹی لائبہ خان! یہ خط ویسے تو تمہارے ہی نام ہے، مگر اس خوبصورت شہر لاہور، ہمارے پیارے ملک پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی ان گنت بچیوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ کاش میری یہ تحریر تمہارے ساتھ ان کے دلوں میں بھی اتر سکے۔ کاش رب تعالیٰ اس لفظوں میں وہ فسوں پھونک دیں، جن کا اثر دیر تک رہے۔
میری بیٹی! تم حیران تو ہوگی کہ آج تمہارے باپ نے گفتگو کے لیے خط کا سہارا کیوں لیا؟ ایک وجہ تو یہی ہے کہ میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا، وہ ایک سے زیادہ بیٹیوں تک پہنچ سکیں، یہ خیال آیا کہ کبھی لکھے الفاظ زبانی گفتگو سے زیادہ مئوثر ثابت ہوتے ہیں۔ اس تحریر کی ایک بڑی وجہ یہ بنی کہ پچھلی رات میں نے مشہور بھارتی اداکار امیتابھ بچن کے بارے میں پڑھا کہ انہوں نے اپنی پوتی اور نواسی کے نام ایک خط لکھا ہے، جس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر بھی شیئر کی گئی ہے۔ امتیابھ بچن کو تم جانتی ہوگی، وہی طویل قامت اداکار جو بھوت ناتھ فلم میں بھوت بنا تھا، تمہیں یاد ہوگا کہ اس سلسلے کی دوسری فلم بھوت ناتھ ریٹرن ہم نے اکٹھی دیکھی تھی۔ انہوں نے اپنی پوتی ارادھیابچن اور نواسی نیویا نندا کے نام خط لکھا ہے۔ وہ خط پڑھتے ہوئے مجھے بار بار یہ احساس ہوا کہ مجھے بھی اپنی اکلوتی بیٹی کے نام ایک خط لکھنا چاہیے۔ اپنی بھانجی ایشل فاطمہ، بھتیجی ہما طاہر کو مخاطب کرنا چاہیے، اسلام آباد میں رہنے والی مریم خان اورل اہور کی عنیزہ جاوید ملک جیسی تمہاری سہیلیوں، بلکہ ان تمام مسلمان بچیوں کے نام یہ خط کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے اگلے چند برسوں میں اپنی تعلیم مکمل کرنی، اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنا ہے۔
بیٹی! پہلے میں امیتابھ بچن کے اس خط کی کچھ تفصیل بتانا چاہوں گا، امیتابھ بچن کہتے ہیں، ”آپ دونوں کے نام کے ساتھ چاہے نندا لگے یا بچن، لیکن آپ ایک لڑکی، ایک عورت ہیں! اور چونکہ آپ خواتین ہیں، لہذا لوگ آپ پر اپنی سوچ، اپنی حدود تھوپنے کی کوشش کریں گے۔ ‘وہ آپ کو بتائیں گے کہ کس طرح کا لباس پہننا ہے، کس طرح کا برتائو کرنا ہے، آپ کو کس سے ملنا ہے اور آپ کو کہاں جانا ہے. ان لوگوں کے نظریات، فیصلوں کے سائے میں زندگی مت گزارنا، اپنی عقل کے مطابق اپنا انتخاب خود کرنا۔ اس بارے میں کسی کی مت سنیں کہ آپ کو کس سے دوستی کرنی ہے اور کس کے ساتھ نہیں، شادی صرف تب ہی کریں جب آپ واقعی شادی کرنا چاہتی ہوں۔ لوگ باتیں کریں گے، وہ کچھ خطرناک باتیں بھی کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو ہر ایک کی بات سننی ہے، اس بات کی کبھی بھی پروا نہ کریں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ دوسرے لوگوں کو اپنے لیے فیصلے مت کرنے دیں۔۔۔”
میری نور نظر، میری لخت جگر ، لائبہ! ممکن ہے یہ خط پڑھ کر تم یہ سو چ رہی ہو کہ اس میں برائی کیا ہے؟ بچن صاحب نے اپنی پوتی، نواسی کو صرف یہ مشورہ ہی دیا ہے کہ لوگوں کی نہ سنو، اپنے فیصلے کرو اور اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرو۔ بات واقعی سادہ، مگر اس کے اندر ہی ایک فتنہ موجود ہے۔ دیکھو میری بیٹی! تم میں اور امتیابھ بچن صاحب کی پوتی، نواسی میں ایک بڑا، بنیادی فرق ہے۔ وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں، مگر ایک فرق بہرحال ہے۔ تم ایک خدا کو مانتی ہو، اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺکو اپنا پیغمبر، آقا اور حقیقی رہنما مانتی ہو۔ ایک مسلمان لڑکی، مسلمان عورت کا زندگی کے بارے میں تصور دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے اندر اعتماد، مضبوطی، اپنی شخصیت پر یقین، کچھ کرگزرنے کا عزم، یہ سب ہونا چاہیے، مگر اسے اپنی زندگی اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارنی ہے۔ اس کی زندگی کا فکری، نظریاتی روڈ میپ پہلے سے طے شدہ ہے۔ اپنی عقل و دانش کو وہ استعمال کرتی، اس سے اچھائی برائی میں تمیز کرتی، راہ راست یعنی سیدھے راستے کا انتخاب کرتی اور پھر اپنے رب سے مدد مانگتے ہوئے اس پر چل پڑتی ہے۔ اپنی عقل کو وہ الہامی دانش پر غالب نہیں کرتی۔ جو کچھ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کہہ دیا، وہ اس کے لیے حرف آخر ہونا چاہیے۔ ہمارے رب نے ہمارے لیے کچھ پابندیاں لگائی ہیں، بہت سے معاملات میں آزادی بھی حاصل ہے۔ کچھ چیزوں کو کرنے سے روکا ہے، بہت سی چیزوں کی اجازت دی ہے۔
میری بچی! میری تمھیں یہی نصیحت، وصیت ہے کہ جن باتوں سے رب نے روکا، ان سے دور رہو، تمہاری عقل خواہ جس قدر بہکائے، نفس دلائل دے کہ یہ چھوٹی موٹی باتیں ہیں، کرنے سے کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ، تم اپنی عقل کو استعمال کرو، مگر رب تعالیٰ کے احکامات سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کا طریقہ وضع کرنے کے لیے۔ جو حدود یا جو لائنز اللہ نے لڑکیوں کے لیے مقرر کر دی ہیں، انہیں کبھی کراس نہ کرو۔ شرم، حیا اسلامی معاشرے کا بنیادی جز ہے۔ ہمارے آقا، ہمارے سردار، سرکار مدینہ محمدﷺ نے فرمایا کہ ہر معاشرے کا ایک جوہر ہوتا ہے، حیا اسلامی معاشرے کا جوہر ہے۔ میری بچی اپنی اس شرم اور حیا کی ہمیشہ حفاظت کرنا۔ اپنی عزت، عصمت کی ہمیشہ جان سے بھی بڑھ کر حفاظت کرنا۔ تم جب سکول حجاب لے کر جاتی ہو، تمہارے چہرے پر حیران کن معصومیت اور نرمی آ جاتی ہے، تمہارے باپ کے دل سے ہمیشہ یہی دعا نکلتی ہے کہ زندگی بھر تم ایک باحجاب، باحیا زندگی گزارو۔ میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہتا کہ اپنی زندگی کے فیصلے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دو۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ میری خواہش ہے کہ تم میں اعتماد آئے، تمہارے اندر مضبوطی پیدا ہو۔ بطور لڑکی، بطور عورت تم ہرگز کسی سے کم تر نہیں۔ کسی مرد کو کسی عورت پر برتری حاصل نہیں ہے۔ یہ مگر میری خواہش ہے کہ پلیز زندگی میں مرد بننے کی کوشش نہ کرنا۔ تم ایک لڑکی، عورت ہو، کائنات کی خوبصورت ترین مخلوق۔ اس حیثیت سے لطف اٹھائو، اللہ نے تمہارے اوپر کچھ فرائض رکھے ہیں، وہ پورے کرو، تمہارے بہت سے حقوق بھی ہیں، جوتمہیں ان شاءاللہ ضرور ملیں گے۔
پیاری بیٹی! تم جانتی ہو کہ گھر میں بطور بیٹی فائدے زیادہ ملے ہیں، حق تلفی کوئی نہیں ہوئی، تمہارے تینوں بھائیوں کی نسبت تمہاری زیادہ باتیں، زیادہ فرمائشیں مانی گئی ہیں۔ اس دن میں نے خود سنا کہ تم نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں بابا کی اکلوتی بیٹی ہوں، وہ میری بات نہیں ٹالتے۔ میری بیٹی، میری دعا ہے کہ زندگی بھر یہی طمانیت، آسودگی تمہارے ساتھ رہے۔ اگلے چند برسوں میں تمہارے سامنے یہ سوال بار بار آئے گا، میڈیا کے ذریعے، فلموں کے ذریعے تمھیں یہ بتایا جائے گا کہ ہم لڑکیاں کسی سے کم نہیں، ہم بھی ہر وہ کام کر سکتی ہیں جو مرد کر سکتے ہیں۔ میری بچی! تم سمجھ لینا کہ یہ احساس کمتری کی شکار عورتوں کا بیان ہے۔ لڑکیاں قطعی طور پر مردوں سے کمتر نہیں، مگر ان کا دائرہ کار مختلف ہوسکتا ہے۔اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی۔ انسانی جسم میں ہاتھ کس قدر اہم ہیں، مگر پیر بھی کم اہم نہیں، ہاتھ کے بغیر بھی جسم ادھورا، پیر کے بغیر بھی انسان معذور ہے۔ کام دونوں کا الگ الگ ہے۔ آنکھوں کا اپنا کام، کان کا الگ اور زبان کا الگ ہے۔ اگر یہ سب ایک ہی کام کرنے لگیں تو انتشار پھیل جائے، انسان سلامت ہی نہ رہ پائے۔ اس لیے احساس کمتری کا شکار ہونے کے بجائے پورے اعتماد سے ایک عورت کی ذمہ داریاں نبھائو۔ اگر حالات کا تقاضا ہو توگھر سے باہر جا کر ملازمت بھی کرو، اپنے خاندان کی معاشی کفالت میں ہاتھ بٹائو۔ اگر اس کی ضرورت نہیں تو اپنے گھر کو سنبھالنا، اپنے اہل خانہ کا خیال رکھنا، نئی نسل کی بہتر تربیت کوئی کم اہم کام نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کاموں کو اچھے طریقے سے سرانجام دینے والی عورت کو جنت کی خوش خبری سنائی۔ تم جانتی ہو کہ کسی مسلمان کے لیے جنت کی خبر سے بڑی اور اچھی کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔
میری بچی، میری آنکھوں کا نور! میں تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے خود لو، سوچ سمجھ کر کرو، مگر حق کے آگے جھکنے، سرنڈر کرنے میں کبھی گریز نہ کرنا۔ اگر کوئی تمہارے حق کی طرف بلائے، اچھی نصیحت کرے تو اسے یہ سمجھ کر رد نہ کرنا کہ میں لوگوں کی نہیں اپنی مرضی کروں گی۔ نہیں یہ فتنہ ہے۔ شیطان کے پھیلائے ہوئے جالوں میں سے ایک جال۔ حتمی بات صرف اللہ کے رسول ﷺ کی ہے۔ اپنا آئیڈیل ، رول ماڈل ان کی بیٹی اور جنت میں خواتین کی سردار حضرت بی بی فاطمہ ؓ کو بنائو، اماں عائشہ ؓ کو بنائو، جن کے علم نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی رہنمائی کی۔ رب تعالیٰ تمہارے لیے زندگی کا سفر آسان کرے، ہر مشکل وقت پراس کی مدد شامل رہے۔“
عامر ہاشم خاکوانی