حیا دار رویے، حیا دار ملبوسات… سماج کا جبر! خواہ ’بعد ازاں‘ عورت اپنی مرضی سے ہی وہ کام کیوں نہ کرنے لگی ہو! ہے وہ اپنی حقیقت میں جبر؛
خواہ اس حجاب وغیرہ پر عمل عورت کے ہاں اب رضاکارانہ کیوں نہ ہونے لگا ہو؛ یا حتیٰ کہ عورت وہ کام کتنا ہی بہ اصرار کیوں نہ کرنے لگی ہو… مگر ہم سوشیالوجسٹ آپ کو بتاتے ہیں دراصل یہ ایک سماجی جبر کا نتیجہ ہے! لبرلزم اور ماڈرن انتھروپالوجی کا ایک اہم مقدمہ۔
البتہ اس کا اطلاق ’حجاب‘ اور ’جسم ڈھانپنے‘ کے تصور پر ہو گا۔ اس کا اطلاق ’’حیاء‘‘ اور ’’اخلاق‘‘ نامی اشیاء پر ہوگا۔
ظاہر ہے اس کا اطلاق ہزاروں تماش بین مردوں کے سامنے ایک جوان لڑکی کے ’کیٹ واک‘ کرنے پر نہیں ہو گا۔ ہزاروں بےرحم دیدے پھاڑپھاڑ دیکھنے والے بھنبھناتے نفوس کے آگے ایک اشتہا انگیز تھال کی طرح لڑکی کا ’پیش‘ ہونا اور بیک وقت ہزاروں لُچوں کےلیے تفریح و تماشا کا ایک ’آبجیکٹ‘ بن کر پہاڑ سے بھاری قدم اٹھاتے ہوئے پورا ریمپ گزر کر دکھانا اور وہ بھی اٹھلا اٹھلا کر، یہ تو عورت میں ’طبعی طور پر پائی جانے‘ والی ایک چیز ہے… اس کو بھی ایک خاص قسم کے ’سماج‘ کے جبر کے کھاتے میں ڈالنا، یہ تو آپ کی نری غلط فہمی ہے۔ بلکہ آپ کی سوچ کا اس طرف کو چلے جانا بذاتِ خود ’سماج کا جبر‘ معلوم ہوتا ہے، جس سے اب آپ کو آزاد کرانا ضروری ہے!
یعنی ’فطرت‘ کا تصور یہاں بھی ختم نہیں ہوا۔ صرف اِس خانے میں فٹ ہونے والی ’’چیز‘‘ بدلی گئی ہے۔
چیزیں یہاں بھی ابھی تک دو ہیں: ایک فطرت۔ اور ایک سماج کا جبر۔ضروری نہیں ہر چیز جو یہاں آپ کو نظر آتی ہے ’سماج کا جبر‘ ہو؛ کوئی کوئی چیز ’فطرتاً‘ بھی انسان میں ہوتی ہے! ضروری نہیں ہر چیز ’فطرتاً‘ ہو؛ کوئی کوئی چیز سماج کا جبر بھی ہوتی ہے!’فطرت‘ تو ہوتی ہے آپ سے آپ۔ اس کی تو نہ کوئی تفسیر ممکن ہے نہ اس کے معاملے میں ’سماج کا جبر‘ فرض کرنے کی کوئی ضرورت؛ وہ انسان کے اپنے وجود کا حصہ باور ہوتی ہے۔اور ’سماج کا جبر‘ وہ چیز جو باہر سے آپ پر مسلط کی گئی ہوتی ہے؛ اس کو فطرت نہیں کہا جا سکتا۔
البتہ سارا مسئلہ اس بات کا تعین کرنے میں ہے کہ کیا چیز انسان میں ’طبعی طور پر‘ ہے اور کیا چیز باہر ’سماج کا اثر‘… یہ ’تعین‘ کرنے کےلیے آپ کا کوئی عقیدہ ہونا ضروری ہے؛ خواہ انبیاء پر ایمان اور خواہ انبیاء کے ساتھ کفر؛ دونوں ہی عقیدہ ہیں؛ مگر پہلی چیز کو ’عقیدہ‘ کہہ کر بائسڈنیس biasedness قرار دے دیا جائے گا اور دوسری چیز کو کسی بھی ’عقیدے‘ dogma سے بالاتر ہونا…!
سارا مسئلہ اِس کرسی پر جج بن کر بیٹھنے میں ہے۔ انبیاء کو اِس کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ انبیاء کے معاندین کو ہے!
یعنی اس بات کا تعین کرنے کےلیے کہ کونسی چیز ’انسان میں خودبخود‘ ہے اور کونسی چیز ’باہر سے مسلط‘ ہوئی ہے… یہ تعین کرنے کےلیے یہاں جو جج بیٹھا ہو گا اس کی بابت یہ فرض کرنا ضروری ہے، اور اس کو خود بھی یہ دعویٰ کرنا ہو گا، کہ اس پر تو کسی قسم کے ’سماج کا جبر‘ نہیں اور کوئی انتھروپالوجی اس کے خیالات کو جنم دینے یا اس کے احساسات و جذبات پر اثرانداز ہونے والی نہیں ہوئی! وہ تو بس اُدھر پیدا ہوا اور اِدھر فیصلے کی کرسی پر آ بیٹھا! وہ تو کسی قسم کے ’سماجی رویے ‘ social behavior اور کسی قسم کی اھواء inclination کا پروردہ یا کسی سماجی نزاع سے متاثر ہی نہیں ہے۔ وہ تو خالص سٹیل کا بنا ہوا ہے اور کسی بھی قسم کے نظریاتی اور سماجی عوامل کو پاس پھٹکنے نہ دینے کے باعث معروضیت objectivity کا دعویدار ہو سکتا ہے۔ اور کیونکہ وہ کسی نزاع کا حصہ نہیں؛ نہ کسی سے بغض نہ کسی سے پرخاش نہ کسی فکر کے خلاف رد عمل اور نہ کسی فکر سے متاثر؛ بس غیرجانبدارِ محض! لہٰذا کیونکہ اب یہ تو فرشتوں کی طرح سوچ سکتا ہے لہذا آبجیکٹی ویٹی objectivity کی ٹھیکیداری بس اِسی کو زیب دیتی ہے!
پھر یہ ایک given حقیقت ہے؛ اور آپ کو اس کا یہ دعویٰ لازماً تسلیم ہی کرنا ہوگا؛ آخر وہ اس وقت سوشیالوجی کا پروفیسر یا انتھروپالوجی کا ایک مصنف ہے اور باہر اس کی ’گرل فرینڈ‘ اس کا انتظار کر رہی ہے اور اُس کا شام کا نائٹ کلب لیٹ ہو رہا ہے! ’بیوی‘ انتظار کر رہی ہوتی یا ’نماز‘ لیٹ ہو رہی ہوتی تو چلیے آپ اس کو بائسڈ biased کہہ بھی لیتے!
سوشیالوجی کے اِس مصنف اور انتھروپالوجی کے اِس مدرّس کی ’غیرجانبداری‘ یا اس کے ’کسی بھی نظریے یا رویے سے متاثر نہ ہونے‘ یا ’کسی بھی سماجی نزاع کا حصہ نہ ہونے‘ پر آپ کے دل میں اگر شک بھی گزر گیا تو آپ ایک تنگ نظر اور متعصب آدمی ہیں جو چیزوں کو ایک خاص رنگ میں دیکھنے کا عادی ہے!
چنانچہ اصل مسئلہ اِس جج پر ’ایمان بالغیب‘ لانا ہے۔ باقی باتیں تو وہی ہیں: ایک چیز انسان کی فطرت ہے جیسے لچرپن اور ہزاروں تماش بینوں کے سامنے خوشبوؤں کے بھبھکے اڑاتی ایک بیس بائیس سالہ لڑکی کا اپنے جسم کو تھال میں رکھ پیش کرتے ہوئے کیٹ واک کرنا۔ اور ایک چیز ہے سماج کا جبر جیسے حجاب، شرم اور حیاء کا تصور!
چیزیں اب بھی دو ہی ہیں۔بس اتنا ہے کہ انبیاء نے ان کو اس طرح بتایا تھا کہ حیاء انسان کی فطرت ہے اور لچرپن اس پر شیاطین کا مسلط کردہ۔انبیاء کے منکرین نے صرف اس کو الٹ دیا ہے اور ان کا کہنا ہے: لچرپن انسان کی فطرت ہے اور حیاء و اخلاق اس پر کچھ پاکیزگی پسند عناصر کا مسلط کردہ۔
پس خانے اب بھی دو ہی رہے۔ مسئلہ ان دونوں کو ’لوکیٹ‘ locate کرنے کا ہے کہ کونسی بات کس خانے میں رکھیں۔ جس بات کو آپ ’فطرت‘ کہہ دیں اس کے حق میں آپ بار بار بولیں گے بھی۔ البتہ اس بار بار بولنے اور ہر ہر سطح پر اس کی سرپرستی کرنے کو آپ ’سماجی جبر‘ بھی نہیں گے!!! اور خود اپنے اِس رویے کو آپ ’دھونس‘ بھی نہیں کہیں گے؛ بلکہ یہ ’حق پرستی‘ ہے! اب چونکہ یہ بات اصولاً آپ کو بھی تسلیم ہے؛ لہٰذا اِن حوالوں سے ہم انبیاء کو ماننے والے بھی اصولاً ’جبر‘ کے الزام سے بری ہوئے۔ اصل بات صرف ایک رہ گئی اور وہ یہ کہ اِس جج کے منصب پر کون بیٹھا ہے؟ جو اِس منصب پر جا بیٹھا وہ ’’حقیقت‘‘ کا تعین کرنے کا مجاز ٹھہرا اور اس کی یہ حیثیت given ہے!
یہ ہے اِس ماڈرن سوشیالوجسٹ کے مقدمہ کی مختصر حقیقت؛ جس کو ’چونکہ، چنانچہ، مگر اور اگرچہ‘ کے کچھ غیرمعمولی تاؤ دے کر ایک ’علمی حقیقت‘ ٹھہرا دیا گیا ہے۔
میں آپ سے ایک عرض کروں… یہ سوشیالوجسٹ یہاں ایک اتنے بڑے منصب کا دعویدار ہے اور ’حقیقت‘ کا ایک ایسا منہ پھٹ ٹھیکیدار ہے کہ وہ پرانے مذاہب جن کو یہ محض دھکا اور خرافات کہتا ہے، اِس کے مقابلے پر ایک بہت چھوٹی دھونس ہو گی۔ سب سے بڑا لٹھ مار انسانی تاریخ میں یہ ہے؛ محض اِس لیے کہ اِس کے ہاتھ میں آج یونیورسٹیاں اور تعلیم کا ڈائس ہے!
اور بلاشبہ یہ ایک قوی دلیل ہے! بلکہ اصل دلیل ہی یہ ہے۔ اِس ’دلیل‘ سے انبیاء کو انسانی زندگی سے بےدخل کرنا کچھ ایسا نیا بھی نہیں ہے:”فرعون لگا اپنی قوم میں پکارنے: اے میری قوم! مصر کی فرماں روائیِ مطلق کیا مجھ کو سزاوار نہیں؛ آخر یہ نہریں میرے ہی نیچے تو بہتی ہیں۔ تو کیا تم دیکھ نہیں سکتے؟ کیا (اس منصب کےلیے) میں بہتر ہوں یا بھلا یہ شخص جو ذلیل ہے اور بات صاف کرتا معلوم نہیں ہوتا؟ (بھلا یہ کچھ ہوتا تو) اس پر کیوں نہ (آسمان سے) سونے کے کنگن آ گرتے یا اس کے ساتھ فرشتے ہی آکر (دکھاتے) جو اس کے پاس رہتے۔ تب فرعون نے اپنی قوم کو کم عقل کرلیا تو وہ اس کے کہے پر چل پڑے۔ بیشک وہ تھے ہی بدکار لوگ”۔(الزخرف: 51۔54)
پس یہ ہے اصل منطق۔ سٹیٹس کو۔ خصوصاً فکری intellectual status quo ۔ مختصراً… ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کی بجائے فی الحال آپ یوں کہہ لیجیے: جس کی یونیورسٹیاں اس کی دانش… university is might !
یہاں جو مضمون بیان کرنا مطلوب تھا ہمارا وہ مقدمہ تو مکمل ہوا۔
البتہ یہاں سے آپ کو ہمارا ایک اور مقدمہ بھی بآسانی سمجھ آسکتا ہے اور وہ ہے:اس بات کی فرضیت کہ دینِ آسمانی کے پاس معاشرے کو اپنے علمی اقتدار کے زیرنگیں رکھنے کا انتظام ہو۔ ورنہ یہ کسی کے علمی اقتدار کے زیرنگیں ہو گا۔ اسی بات کا ایک سادہ ترجمہ: اسلام کے پاس خود اپنی دولت (ریاست) ہونے کی فرضیت؛ جہاں ایک عام آدمی پر کوئی بیرونی مصدرِ دانش مسلط نہ ہو اور ’’حقیقتوں کے تعین‘‘ میں واحد حوالہ آسمانی وحی ہو۔ (کسی نہ کسی مصدرِ دانش اور تصورِ اَقدار کو تو لازماً مسلط impose ہونا ہے؛ ورنہ اس کو ’معاشرہ‘ کہیں گے ہی نہیں؛ معاشرہ ظاہر ہے محض کسی ’انتظامی‘ بندوبست ہونے کا نام نہیں)۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیمِ دین کے نام پر المورد کے جاری کردہ ’قوانین‘ میں سے کسی بھی قانون سے یہ ایک بڑا قانون ہے: دینِ آسمانی کے معاشرہ پر حاکم ہونے کی فرضیت اور آدمی کو محض انفرادی طور پر کافر ہونے کی اجازت۔ معاشرے پر حاوی ’دانش‘ prevailing epistemology کی صورت میں دراصل آپ معاشرے کو ایمان پڑھا رہے ہوتے ہیں یا معاشرہ آپ کو الحاد پڑھا رہا ہوتا ہے؛ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ بالکل نہیں ہے۔ اسلام کے پاس دولت (ریاست) ہونے کی فرضیت کی یہ ایک ایسی واضح برہان ہے کہ نصف النہار کا آفتاب اس کے مقابلے پر کم ہو گا۔ قرآنی آیت حتىٰ لا تکونَ فتنۃٌ میں ’’فتنہ‘‘ کی تفسیر اگر آپ ’’جبر‘‘ بھی لینا چاہیں، جس پر مدرسۂ وحید الدین خان کا پورا ڈسکورس کھڑا ہے، تو بھی اِس ’’جبر‘‘ کو محض کسی ڈنڈے اور لاٹھی کے اندر دیکھنا البتہ تعلیم و ابلاغ کے ایک دیوہیکل انتظام کی صورت میں اِس ’’جبر‘‘ کو نہ دیکھ پانا کوتاہ نظری کی حد ہے۔
’’خلافت‘‘، خواہ اس کی عملی صورت جو بھی ہو (اور یہ تو بالکل ہی ضروری نہیں کہ وہ حزب التحریر والی ہو! بنیادی طور پر ہماری مراد ’’خلافت‘‘ یا ’’دولت‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ سے ہوتی ہے معاشرے پر دینِ آسمانی کا اقتدار؛ خواہ اس کی انتظامی صورت جو بھی ہو)… اِس ’’خلافت‘‘ کے ریشنال rationale میں یہ بات ’حدود و تعزیرات یا اسلام کے معاشی احکام وغیرہ کو لاگو کرنے کی ضرورت‘ والی دلیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اور آج اِس ریشنال کو نمایاں کرنا حد سے بڑھ کر ضروری؛ کہ ایک چیز کے بدترین عواقب (خود سماجیات ہی میں شیاطین کا ایک بھرپور فکری تصرف؛ بلکہ ایک باقاعدہ ’’مرجع‘‘ reference کی حیثیت اختیار کر لینا) آپ اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگے۔
حق یہ ہے کہ اسلام کے پاس ایک دولت ہونے کی فرضیت ہزارہا جہت سے ثابت ہوتی ہے؛ اور یہ بات ضروریاتِ دین میں آتی ہے۔ اِس کا انکار ایک مکابرہ ہے اور اُسی معرفی جبر epistemological coercion کا نتیجہ جو کوئی صدی بھر کی ’اینلائٹنمنٹ‘ enlightenment سے آپ کے ذہنوں پر عمل پزیر ہوا ہے؛ اور جس کے نتیجے میں ایک دوسری سطح پر آپ کا نوجوان اب اس بات کو given ماننے پر آمادہ ہو چلا ہے کہ حیاء اور اخلاق وغیرہ اِس ’ہیومن بیئنگ‘ human being پر محض باہر سے مسلط ہوجانے والی چیزیں رہی ہیں یعنی سماجی جبر! …
تحریر شیخ حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ