پچھلے دو تین برسوں سے پاکستان میں آزادئ نسواں اور خواتین کے حقوق کے نام پر سرکس لگا ہوا ہے،
چند سرپھری، بے لگام خواتین ہاتھوں میں کچھ بینرز اٹھا کر (جن پر ایسے حیا سوز، اخلاق باختہ نعرے درج ہوتے ہیں کہ لاج، شرم والی خواتین تو دُور، مَردوں کی بھی دیکھ کر نگاہ جُھک جائے) مظاہروں، ریلیوں اور’’عورت آزادی مارچ‘‘ کےنام پرسڑکوں، چوراہوں، بازاروں میں نکل آتی ہیں اور خود اپنا ہی نہیں، اُس ’’عام عورت‘‘ کا بھی خوب تماشا بناتی، استہزا اُڑواتی ہیں، جو درحقیقت آج تک اپنے ہی نہیں، بنیادی انسانی حقوق تک سے محروم ہے۔ گزشتہ برس ’’کھانا خود گرم کرلو‘‘ اور ’’مائی باڈی از ناٹ یور بیٹل گرائونڈ‘‘ جیسے نعروں سے شہرت پانے والی یہ مُہم، اس برس تو ایسے فحش اور مخرّبِ اخلاق بینرز، اسکیچز تک جا پہنچی کہ دین و مذہب تو ایک طرف، سماجی اقدار و روایات، ادب و تہذیب تک کا جنازہ نکال دیا گیا۔ ’’مَیں آوارہ، مَیں بدچلن‘‘،’’میرا جسم، میری مرضی‘‘، ’’عورت بچّہ پیدا کرنے کی مشین نہیں‘‘، ’’اگر دوپٹا اتنا پسند ہے، تو آنکھوں پہ باندھ لو‘‘، ’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں‘‘، ’’آج واقعی ماں، بہن ایک ہورہی ہیں‘‘، ’’لو بیٹھ گئی صحیح سے‘‘، ’’دیکھو، مگر میری رضامندی سے‘‘، ’’طلاق یافتہ ہوں لیکن بہت خوش ہوں‘‘، ’’مجھے کیا معلوم، تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘، ’’نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں‘‘، اور ’’اپنا ٹائم آگیا‘‘، تو وہ نعرے ہیں، جنہیں پھر بھی کہیں نقل کیاجاسکتا ہے، جب کہ بعض سلوگنز، اسکیچز، نعرے تو دہرائے بھی نہیں جاسکتے کہ انہوں نے تو یورپ تک کو مات دے دی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس ایک روزہ بے مقصد اچھل کود، دھماچوکڑی، ناٹک، پُتلی تماشے (عرفِ عام میں ٹوپی ڈرامے) سے حاصل وصول کیا ہو رہا ہے۔ اِن بے ہودہ پلے کارڈز بینرز، سلوگنز، اسکیچز سے اُس عام استحصال زدہ عورت کے مسائل، مشکلات میں کیا کمی آگئی، جو پیدایش سے محنت و مشقّت، ظلم و جبر کی چکّی میں پِس رہی ہے اور مرتے دَم تک پستی رہے گی۔ کیا کھانا بنانا، گھر کے مَردوں (اپنے شوہر، بچّوں) کو کھانا گرم کرکے دینا، موزے، جوتے تلاش کرنا اور دوپٹا اوڑھنا کسی بھی عام عورت کے لیے کبھی بھی کوئی مسئلہ رہا ہے۔ ایک عام عورت کے حقیقی مسائل،مشکلات کاتوان بینرز میں کہیں ذکر ہی نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندہ اِن خواتین کو تو شاید اُن مسائل کا ادراک بھی نہیں۔
حیرت انگیز بات ہے، اپنے حُلیوں سے یہ خواتین جس طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں، کیا کھانا بنانا، گرم کرکے دینا، جوتے، موزے تلاش کرنا، صحیح سے بیٹھنا، اپنی پسند کا لباس نہ پہننا یا دوپٹا وغیرہ اوڑھنا کبھی ان کے مسئلے یا فرائض، ذمّےداریوں میں شامل بھی رہے ہیں۔؟ اس ایلیٹ، اپَر کلاس کے کس گھر میں ملازمین، خانسامے موجود نہیں۔ ہفتے میں ایک دوبار ہوٹلنگ بھی لازمی ہے اور پھر آج کے دَور میں کھانا گرم کرنا شہروں تو کیا، دیہات میں بھی بھلا کوئی کام ہے، گھر گھر گیس کے چولھے، اوون موجود ہیں۔
ہماری سمجھ سے تو یہ بات ہی بالاتر ہے کہ اِن عورتوں کا اصل جھگڑا کس سے ہے، دین سے، تہذیب و اخلاق، اقدار و روایات سے یا صنفِ مخالف سے۔ اور کیا اس بے ہودگی، بے حیائی، پھکّڑ پن، شور شرابے اور زور زبردستی سےشعائر اللہ، احکاماتِ الٰہی، معاشرتی و سماجی رویّوں یا مَردوں کی فطرت، ساخت و ذہنیت میں کوئی تبدیلی ممکن ہے۔
دنیا بھر میں احتجاج، مظاہرے، جلسے جلوس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے مسائل کی نشان دہی، حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، لیکن فوکس، مقاصد ہی پر رہتا ہے، نہ کہ محض دنیا دکھاوے اور ذرائع ابلاغ کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے اصل مسائل، مقاصد پسِ پشت ڈال کر نان ایشوز کو ایشوز بنادیا جائے۔ اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی لاحاصل، بے نتیجہ، نہ ختم ہونے والی بحث، لڑائی بلکہ جنگ شروع ہوجائے کہ جیسی اِن دنوں سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے گرما گرم محاذوں پر مسلسل جاری ہے۔ چند نام نہاد، روشن خیالوں کو تو جو کچھ کرنا تھا، کر گزریں، اس کے بعد کیا ہورہا ہے، اب اس آگ کی لپیٹ میں ہر وہ عورت آرہی ہے، جس نے کبھی بھی زندگی میں حقوقِ نسواں، عورت کی آزادی، مساوات کی بات کی یا عالمی یومِ خواتین کا نام بھی لیا۔ فتور تو چند ایک دماغوں کا ہوتا ہے، مگر گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پِستا ہے۔ بُرے کے ساتھ اچھا بھی دھر لیا جاتا ہے اور سزا کئی بے گناہوں کو بھی بھگتنی پڑجاتی ہے۔
ہمارا ان فیمینزم کی پرچارک، نام نہاد روشن خیال، لبرل خواتین سے صرف ایک سوال ہے کہ موقع تو ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا تھا، تو پھر دنیا بھر کی عورت اور خصوصاً پاکستانی عورت کے اصل مسائل کیوں اُجاگرنہیں کیےگئے۔ وہ کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ، قرآن سے نکاح، تعلیم کا حق، لڑکیوں کی خرید و فروخت، وراثت میں حصّہ، تیزاب گردی، زیادہ مشقّت، کم اُجرت، بیٹا، بیٹی میں تخصیص، بچّیوں سے زیادتی، جنسی ہراسانی، مرضی پوچھے بغیر رشتہ طے کردینا، علاج معالجے کی مناسب سہولتیں حاصل نہ ہونا اور نان نفقہ جیسے معاملات، مسائل کیا ہوئے۔ کیا اس عورت مارچ کا محور و مرکز، چارٹر محض مَردوں پہ طعنہ زنی، ذمّے داریوں سےآزادی ہی ٹھہرا۔ عورت کا کوئی ایک دیرینہ مسئلہ ہی ہائی لائٹ ہوجاتا۔ کوئی ایک پریشانی کم ہوتی، ایک شکایت دُور ہوجاتی۔ پبلک ٹرانس پورٹ میں ویمن پورشن بڑھانے، دفاتر کے ساتھ ڈے کیئر سینٹر بنانے، اپنی مرضی سے کیریئر کا انتخاب کرنے ہی کی بات کرلی جاتی۔ عجیب و غریب حُلیوں، کھلی باچھوں، ایک کان سے دوسرے تک پھیلی نمائشی مُسکراہٹوں کے ساتھ، بلند ہاتھوں میں بے مقصد، فضول پلے کارڈز اٹھا کر چوکوں، چوراہوں پہ آکے پایا بھی، تو کیا پایا، محض لعنت ملامت، رسوائی، جگ ہنسائی۔
’میرا جسم میری مرضی‘، ’لو بیٹھ گئی‘، ’ماں بہن‘ جیسے فقرے سارا سال ہمارے چہروں پر تھپڑوں کی طرح پڑتے رہیں گے۔ نہ فیکٹری میں کام کرنے والی عورت کی تنخواہ میں اضافہ ہوا، نہ مزدور عورتوں کو روک کر کھانا پیش کیا گیا، نہ کسی دفتر، کسی ادارے میں اس دن کے احترام میں ایک ڈے کیئر قائم کیا گیا، نہ کسی باپ بھائی نے بیٹیوں میں وراثت تقسیم کی، نہ بیٹیوں کو چند سال اور تعلیم کی اجازت دی گئی، نہ کسی بہن بیٹی سے منگنی یا شادی کرتے وقت اس کی رِضا پوچھی گئی، نہ کسی کے سر سے تہمت اتاری گئی اور نہ ہی کسی کا الزام جھوٹا قرار پایا، بس ایک عالمی دن منایا گیا اور پاکستان کی پسی ہوئی عورت کی عزت کو مزید روند ڈالا گیا۔ اتنے بڑے ملک کے ایک چوک پر کسی مہنگے ادارے میں پڑھنے والی، لاکھوں کی فیسیں دے کر انگلش سیکھنے والی جینز پہنے خواتین نے ایک چھوٹی سی ریلی نکالی، چار پانچ بے ہودہ قسم کے سلوگنز لکھے اور عورت کے لیے اٹھائی گئی ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا. اس شو کے ذریعے عورت آزادی مارچ کے منتظمین کا اصل ایجنڈا ضرور بےنقاب ہوا ، یہ واضح ہے کہ انکو عورتوں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں انہیں ان کا اصل مقصد عورت کا نام استعمال کر کے یہاں فحاشی، عریانی اور بےراہ روی کو فروغ دینا اور معاشرتی و خاندانی بنیادوں کو درہم برہم کرنا ہے۔
حنانرجس