فیمنزم کی بنیاد اس مفروضے پر قائم ہے کہ انسانیت کی تمام تر معلوم تاریخ میں مرد زور زبردستی عورت کا استحصال کرتا آیا ہے، عورت کو کمتر جنس سمجھتا رہا ہے، اسے معاشرے میں وہ کردار ادا کرنے سے روکتا رہا ہے جس کی وہ اہل ہے، اسے تولید کے عمل اور مولود کی نگھداشت تک محدود کرتا رہا ہے۔ اس مفروضے کو Patriarchy کہا جاتا ہے۔ کسی بھی تناظر میں دیکھا جائے، فیمنزم کی جڑ سے یہی برآمد ہوگا۔
اب اگر اس مفروضے کو بلفرض مان لیا جائے تو اس کے عمل میں آنے کی صرف دو صورتیں نکلتی ہیں جنہیں ہم ایک ایک کر کے پرکھتے ہیں۔
۱) تاریخ کے ہر دور میں مرد نے عورت کا یہ “استحصال” کسی سوچی سمجھی منظم سازش کے تحت کیا۔
اگر ایسا ہے تو اس عالمگیر سازش کا ہر دور، ہر ریاست و سلطنت، ہر معاشرے میں کوئی تاریخی ثبوت لازما موجود ہونا چاہیے۔ تمام نہیں تو چند معاشروں سے تو اس عظیم سازش کا بیان ضرور ملنا چاہیے۔ لیکن ایسی کوئی بات حتمی طور پر ملنا تو دور، تاریخ میں اس موضوع کا ذکر بطور ‘استحصال’ ہی کہیں نہیں ملتا، فیمنزم بطور فکر تاریخ میں کہیں موجود ہی نہیں!!! یہاں تک کہ وہ سلطنتیں جن پر عورت کی حکمرانی قائم ہوئی، ان کے تاریخی دستاویز بھی اس عنوان سے مکمل خالی ہیں۔
پھر یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہ معاشرے جن کے درمیان کبھی کوئی روابط قائم نہیں ہوئے ان میں بھی مرد اور عورت اپنے منفرد سماجی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں لہذا اس کا قطعی کوئی امکان نہیں کہ یہ کسی غالب تہذیب کے مغلوب معاشروں پر اثر کا نتیجہ ہو۔
۲) یہ ‘استحصال’ مرد نے سوچ سمجھ کے تو نہیں کیا لیکن یہ غیرارادی مردانہ جبر کے باعث ہوا۔
اگر ایسا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ عورت تمام تاریخ میں غیرمحفوظ، ناخوش اور اس استحصال کے خلاف متحرک نظر آتی جس کے ناگزیر نتیجے میں خاندانی اور سماجی نظام متاثر ہوتا مگر نہ صرف یہ کہ اس امکان کی حمایت میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں بلکہ پوری تاریخ خود اس امکان کی مخالفت پر دلیل ہے۔
فیمنزم اور نیولبرلازم کے بعد عورت جتنی غیرمحفوظ، ڈپریس اور متحرک ہے اتنی تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو قدیم عورت معاشرے میں اپنے کردار سے مطمئن نظر آتی ہے اور اس کے اطمینان کے نتیجے میں ایک ایسے خاندانی نظام کا وجود نظر آتا ہے جو دورحاظر کے خاندانی مسائل سے پاک اور بےانتہا مضبوط ہے۔
درج بالا امکانات کے رد سے یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ فیمنزم کی عمارت بلکل کھوکھلے مفروضے پر اپنے اصول کو قائم کرتی ہے۔ جن حقائق کو فیمنزم عورت کا استحصال سمجھتی ہے وہ استحصال ہے ہی نہیں بلکہ انسانی اجتماعیت اور مردعورت کے باہمی ازدواجی و سماجی ربط کا فطری نتیجہ ہے جس پر عورت ہر دور میں راضی اور مطمئن رہی ہے اور اگر آج کی عورت مطمئن نہیں ہے تو اس کی وجوہات خارجی ہیں، فطری نہیں لہذا فیمنزم کی تشہیر کرنے کی بجائے ان خارجی مسائل کا سدباب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ موجودہ دور میں عورت کے استحصال کی اصل وجوہات ہیں۔
ابو ابراھیم