فیمنزم – پس پردہ منصوبے

مرد عورت کے قانونی رشتے سے خاندان وجود میں آتا ہے، جو معاشرہ کی بنیادی اکائی اور نسلِ انسانی کی بقا کا ضامن ہے. خاندان کا سادہ سا مطلب ہے: فرائض کی تقسیم، یعنی کچھ فرائض مرد کے لیے مخصوص ہیں اور کچھ عورت کے لیے. ان دونوں کے اس باہمی تعاون سے خاندان کا ادارہ پھلتا پھولتا ہے اور معاشرے کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے. یوں نسل انسانی کی تربیت، حفاظت اور کفالت کا نظام چلتا ہے.
اس تقسیم میں قدرتی طور پر کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری مرد پر ہے کہ اس کی جسمانی اور فطری ساخت اس کے مطابق ہے. دوسری طرف عورت کے بنیادی فرائض میں تربیت اور گھر کا انتظام شامل ہے. یہ تقسیم نسل انسانی کے آغاز سے قدرتی طور پر موجود رہی ہے، مذہب اسی تقسیم کو قانونا منظم کرتا ہے. بیسیوں صدی کے آغاز تک یورپ اور امریکہ میں بھی یہی تقسیم کسی نہ کسی حد تک موجود رہی ہے.لیکن پھر سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے مفادات اور منفعت کے لیے اس معاشرتی ڈھانچہ کی تشکیلِ نو کی کوششیں شروع کیں. انہیں گھر کے انتظام میں مشغول پچاس فیصد آبادی یعنی خواتین کی صورت میں سستی لیبر نظر آئی. انھیں گھر سے نکالنے اور سرمایہ دارانہ معیشت کا پہیہ بنانے کے لیے انھوں نے مرد و زن کی مساوات، عورتوں کی آزادی اور ان کی معاشی خود مختاری جیسے دل فریب نعرے تخلیق کیے.
چوں کہ مغرب کی عورت پہلے ہی تمام حقوق سے محروم تھی اس لیے ان دل فریب نعروں نے عورتوں کو خوب متاثر کیا اور وہ لگیں دھڑا دھڑا آزادی حاصل کرنے. لیکن پچھلی ایک صدی میں آزادی کے اس فریب نے انھیں ایسی گہری دلدل میں لاپھینکا ہے جہاں سے نکلنا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا یے. حال ہی میں یورپ میں کیے گئے سرویز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مغرب کی ورکنگ وومن اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے اور اس جہنم سے نکل کر گھر کی جنت میں پناہ لینا چاہتی ہے.لیکن اب ان کے لیے یہ قریب قریب ناممکن ہوچکا ہے. کیوں کہ جو دجالی طاقتیں اس نئے معاشرتی ڈھانچہ کا خاکہ بنا چکی ہیں وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ اب یہ سب کچھ واپسی کا سفر اختیار کرے. وہ ایک نئے ورلڈ آرڈر یا عالمی نظام کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں مرد و زن محض ایک حیوان اور مشین کی طرح زندگی گزاریں گے. ان کے درمیان جنسی تعلقات قانونی کی بجائے محض لذتی اور وقتی ہوں گے. رشتوں کی تقدیس اور حرمت ختم ہوجائے گی. دنیا کی آبادی ان کے کنٹرول میں ہوگی.
اس سلسلے میں زنا کے بعد ہم جنس پرستی، محرم رشتوں کے درمیان جنسی تعلق اور جانوروں سے بدفعلی کو تحفظ فراہم کرنے جیسے قوانین پوری دنیا میں بتدریج نافذ کیے جارہے ہیں. ایک دفعہ یہ قانون نافذ ہوجائے تو بھلے معاشرے کی اکثریت اس کی مخالف ہی کیوں نہ ہو پھر اس گناہ کو کرنے والے مجرم یا گناہ گار نہیں کہلا سکیں گے. پھر انھیں اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کی مکمل آزادی میسر ہوگی.
اس سلسلے میں سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ انھوں نے مغربی معاشروں میں بھی یہ قانونی آزادی یک دم حاصل نہیں کی. انھوں نے بتدریج معاشروں کی اقدار اور نارمز کو چھیڑا، موضوعِ بحث بنایا اور پھر شیطانی جمہوری نظام کے ذریعے اسے قانونی شکل دی ہے.آج یہی کچھ مسلم معاشروں میں ہورہا ہے. کچھ مسلم معاشرے ابھی پہلی سٹیج پر ہیں، کچھ دوسری اور کچھ تیسری سٹیج پار بھی کرچکے ہیں.
پاکستان جیسے ملک میں وہ اپنا گندا کھیل این جی اوز، میڈیا اور عالمی و ملکی طاقتوں کی سرپرستی میں کھیل رہے ہیں. اس سارے قضیے میں ایک بنیادی مسئلہ ضرور ہے، وہ یہ کہ ہمارے ہاں عورت کو وہ جائز حقوق اس طرح نہیں دیے جارہے جو اسلام کا مقتضا ہے. اس لیے اگرچہ یہاں زمین اس طرح تو ہموار نہیں جس طرح مغرب میں تھی لیکن پھر بھی وہ آہستہ آہستہ اپنے مذموم مقاصد کو میٹھے میٹھے اور کبھی گندے گندے نعروں کی آڑ میں آگے بڑھا رہے ہیں. یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں میڈیا کے ذریعے اس زمین کو ہموار کرنے کے لیے دن رات کوششیں جاری ہیں. دوسری طرف یونیورسٹیاں سیکولر اور لبرل زمین پر ہماری آنے والی نسلوں کو ملحد بنارہی ہیں. تیسری طرف چپکے چپکے زنا اور ہم جنس پرستی کو معاشرے میں عام کیا جارہا ہے. اس سلسلے میں کئی این جی اوز اور تنظیمیں پیش پیش ہیں.
اس لیے فی زمانہ صورتِ حال یہی ہے کہ وہ طاقت ور ہیں انھیں طاقت کے مراکز اور میڈیا تک رسائی حاصل ہے. خدانخواستہ اگلے دس بیس برسوں میں وہ مزید طاقت پکڑ لیتے ہیں تو یہاں تیسری سٹیج پار ہونے میں وقت بھی نہیں لگے گا. پھر بھلے یہاں معاشرے کی اکثریت انھیں برا سمجھے گی لیکن وہ کر کچھ نہیں سکے گی.کرنے کا کام یہی ہے کہ ان کے شیطانی منصوبوں کے آگے بند باندھا جائے، اس سلسلے میں سب سے اہم کردار اسلامی جماعتیں اور تنظیمیں کرسکتی ہیں. لیکن اصل حل وہی ہے جو میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں یعنی ایک اسلامی ریاست کی تشکیل نو جو اسلام، قانون اور عوام کی طاقت کے ساتھ ان کی چالوں کو انھی پر الٹ دے گی. باذن اللہ!
عاطف الیاس

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password