تاریخ کا جبر کہیے یا عصر رواں کی ستم ظریفی،ملکی فضاء ان دنوں قابل صد نفرین، اخلاق باختہ اور حیا سوز نعروں کی زد میں ہے۔مشت بھر نائکہ صفت عورتوں(جن کو لفظ عورت سے ملقب کرنا بھی عورت ذات کی تحقیر و تذلیل ہے) نے پیہم ایک ہاہاکار مچائی ہوئی ہے۔گوناگوں عنوانات کی آڑ میں مذہبی تصورات اور انسانی اقدار پر دھاوا بولا جا رہا ہے۔آبرو باختگی کے اس تند رَو طوفانِ بدتمیزی،کہ جس کو میڈیا کی مضبوط کمک بھی حاصل ہے، کو روکنے کے لئے علم و عمل کی سطح پر قوی اقدامات بروئے کار لانے ناگزیر ہیں۔یہ حیا سوز تحریک مجالِ علم میں جن دلائل نما جھانسوں کا سہارا لیے ہوئے ہے مضبوط بنیادوں پر ان کی تردید امرِ لابُدی ہے مگر افسوس کہ اِس پار جوشِ تردید کی طغیانی تو ہے لیکن تردید کی اساس نظروں سے اوجھل ہے۔بساطِ بحث پر محض خلط مبحث کے ریزے بکھرے ہوئے ہیں اور ریزہ چینی کی آپا دھاپی میں بحث و اختلاف کا سرا یکسر غائب ہے۔
گزارش ہے کہ فیمنزم انسانی تعلقات و سابقات کے کلی خاتمے کا نام ہے۔مغرب نے انسان کی جس غیر انسانی تشکیل کا بیڑا اٹھایا تھا فیمِنزم اپنے اطلاقات میں اس کا منتہائی مصداق ہے۔ انسان اور معاشرے کی تشکیل میں خاندان اور بندھن اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔بعینہ یہی اہمیت خاندان کی تشکیل میں اخلاقیات اور اقدار کو حاصل ہے،اسی لیے مذہب نے اخلاقیات کو غیر معمولی وقعت بخشی ہے۔اخلاقیات کا خاتمہ انسانی علائق و سابقات کی فنا کاری ہے۔مزید براں اخلاقیات کا کوئی بھی تصور کسی خارجی حَکَم کے بغیر رو بہ امکان نہیں لایا جاسکتا۔ زندگی سے خدا کو دیس نکالا دے دینے کے بعد اخلاقیات کا کوئی معنی باقی نہیں رہ جاتا۔ایسی صورتحال میں بس حقوق کی ڈفلی بچتی ہے جسے بجاتے رہنے سے اپنی مصنوعی طاقت کا خوشگوار احساس دامن گرفتہ رہتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مذہب میں حقوق کا کوئی تصور موجود نہیں۔مذہب میں حقوق کا مکمل تعین موجود ہے لیکن مذہب انسانی اعمال اور انسانی بندھنوں کو ‘حقوق اساس’ نہیں بلکہ ‘اخلاق اساس’ بناتا ہے۔اخلاق اساس علائق و سابقات میں فرائض کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے جس سے شجرِ حقوق ایک غیر محسوس طریقہ سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔حقوق اساس تعلقات کسی طور بھی ‘انسانی’ یا ‘رشتہ’ کہلائے جانے کے سزاوار نہیں ہیں۔حقوق اساس معاشرت میں تعلق اور رشتہ نہیں نفرت اور رقابتِ باہمی پنپتی ہے،آویزش اور کشاکشی پروان چڑھتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ فریق مخالف نے بڑی چابک دستی کے ساتھ اس بنیادی مبحث کو دبیز چلمنوں کے پیچھے دھکیل کر ہمیں ‘حقوق’ کی بحث میں الجھا دیا ہے۔بہ ایں ہمہ یہ بحث بھی قدرے شستہ روش کے ساتھ نبھائی جا سکتی تھی لیکن ہم نے خصم کی نفسیات اور اسکے مقاصد سمجھے بغیر یہاں بھی پراگندگی و انتشار کو سر اٹھانے کا بھرپور موقع فراہم کیا ہے۔حریف انتہائی ترت پھرت سے حقوق کا سوال اٹھاتا ہے اور ہم انتہائی سادگی سے جواب میں احادیث و روایات کا طومار لگا دیتے ہیں۔ہماری تمام تر جوابی تگ و دو کا حاصل یہی ہوتا ہے کہ بھئی حقوق کے لیے تمہاری یہ جست و خیز محض بیکار کی بیگار ہے کیونکہ فلاں فلاں حقوق تو مذہب نے پہلے ہی سے ‘فراہم’ کر رکھے ہیں۔لیکن جب حریف کی طرف سے اُن ‘حقوق’ کا علم بلند ہوتا ہے جو مذہب نے ‘فراہم’ نہیں کر رکھے تو ہم فورا مبہوت ہو جاتے ہیں اور پھر اسی سکتے میں دم توڑ دیتے ہیں۔ہم شاطرانہ موقف سن کر سٹپٹا جاتے ہیں اور بنیادی سوال کو مستحضر نہیں رکھ پاتے۔ہمیں محض اس ناتواں ستون کو جنبش آشنا کرنا ہے جس پر حریف کا سارا مقدمہ استوار ہے۔
گزارش ہے کہ مذہب فراہمیِ حقوق کا آلہ نہیں بلکہ حقوق کا منبع و سرچشمہ ہے۔مبحثِ حقوق کے ضمن میں ہمارا اور فریق مخالف کا جوہری نزاع یہی ہے۔مذہب کے نادان دوست جب اس بنیادی نکتہ سے بے اعتنائی برتتے ہوئے حقوق کے ہنگامِ نشور میں روایات و احادیث کا دفتر کھنگالنے لگتے ہیں تو دراصل وہ خود ہی مذہب کو فروتر درجہ پر اتار لاتے ہیں اور پھر فراہمی حقوق کی داستانیں سنا سنا کر اس کی حیثیت کو محض آلاتی بنا دینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔
حقوق کی بحث کو نتیجہ خیزی سے ہمکنار کرنے کے لئے چند بنیادی اور اساسی نوعیت کے سوالات سے تعرض ناگزیر ہے۔حقوق کا ماخذ کیا ہے؟حقوق کا منبع و سرچشمہ ہونے کی حیثیت کسے حاصل ہے؟مدعیانِ “حقوق” حقوق کی جس طولانی فہرست کو اٹھائے پھرتے ہیں اس کی تنفیذ آخر کس بنیاد پر چاہتے ہیں؟؟ ان سوالات پر نگاہِ اعتناء دوڑائے بغیر طویل و عریض ابحاث کی حیثیت دراز نفسی کے سوا کچھ نہیں!
مبحثِ حقوق ہی کے ذیل میں فیمنزم کے پرچارکوں کی طرف سے مرضی و آزادی وغیرہ کی بحث کے تار بھی چھیڑے گئے ہیں۔یہ بحث اپنی داخلی نہاد اور استدلالی دروبست میں مکمل جعلی ہے۔آزادی مغرب کا جوہری آدرش ہے اور اس کی مرادات اور مقتضیات ان کے ہاں طے شدہ ہیں۔ہرچند کہ یہاں بھی یہ اصطلاح انہی مرادات کے ساتھ درآمد کی جا رہی ہے مگر دانستہ طور پر ان مرادات کو پردہ اخفاء میں رکھا گیا ہے،یوں ایک گونہ جعلی پن اور ڈھونگ نے اس میں درخور پایا ہے۔بہرحال اس جعلی پن نے درآمد کاروں کی زیرکی کا پردہ ضرور چاک کر دیا ہے۔’میرا جسم میری مرضی’ کو مذہبی دلائل کی کشتی میں ڈھونے کے لئے بعض مذہبی دلاّل بھی دستیاب ہو چکے ہیں۔مذہبی تناظر میں ان دلالوں کا محاکمہ بھی ضروری ہے۔(ممکن ہے بعض احباب کی طبع نازک پر یہ تعبیر گراں بار ہو لیکن مرضی و آزادی کے دلفریب عنوان کے تحت زناکاری اور جسم فروشی تک کو روا کر دینے اور عفت مآب بیٹیوں کی عزتوں کو ہلکا کرنے والوں کے لئے اس سے ہلکی تعبیر میرے پاس نہیں ہے۔)
چکما یہ دیا گیا ہے کہ تکوینی اختیار کا محمل تشریعی آزادی قرار دے دیا گیا ہے۔یعنی تقدیری اور تکوینی طور پر جو مہلت یا ڈھیل نصوص سے ثابت ہے(جسے اختیار سے بھی تعبیر کر دیا جاتا ہے اور جو خالصتا عقیدہ سے متعلق ہے نہ کہ عمل سے)اسے تشریعی اور اقداری آزادی باور کروایا جا رہا ہے۔ان مذہبی دلالوں کی دلائل افشانیاں خاصی الل ٹپ ہوتی ہیں گاہے تقدیری و تکوینی مہلت پر دلالت کرنے والی آیات کی معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہوئے ‘مذہبی قدغنوں’ سے راہ فرار تلاش کرتے ہیں اور گاہے ‘میری ماں نے مجھے آزاد جنا ہے’ جیسے رومانوی جملوں سے تسکین براری چاہتے ہیں۔انسان تکوینی طور پر اپنے افعال کی انجام دہی میں یقینا اختیار و ارادہ کا حامل ہے لیکن اس اختیار کو “کس لئے اور کیسے استعمال کرنا ہے؟” اس کی ‘ہدایت’ خدا کے فرمان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اختیار اور اختیار کو استعمال کرنا تکوینی امر ہے اور اس میں انسان تکوینا آزاد ہے مگر ‘کیا کرنا ہے’ یا ‘کیا کرنا چاہیے’ ایسے اقداری سوالات کے جوابات کے لئے ربانی ہدایت سے کوئی مفر نہیں ہے۔کیا آوارہ منش مذہبی بھاڑو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر تشریعی طور پر بھی انسان آزاد و خودمختار ہے تو پھر الوہی ہدایت کی کیا معنویت باقی رہ جاتی ہے؟سلسلہِ وحی کی کیا مقصدیت رہ جاتی ہے؟عہد الست کے حامل انسان کے لئے آخر کیسے یہ بات روا رکھی جا سکتی ہے کہ وہ چوپائے کی سی خصلت اپنائے رکھے؟؟!مادر پدر آزادی کے حق میں ان ‘لبرل مذہبیوں’ کے بے سر و پا دلائل دیکھ سن کر یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ تجدد دراصل مذہب اور الحاد کے مابین محض ایک عبوری رہ گزر کا نام ہے!
آخری دعا ہے کہ خداوند متعال ہمیں جدید فتن کے مقابلہ کے لئے اسی پختہ شعور،عمیق بصیرت،اعلی صلاحیت اور وسیع دانائی سے نوازے جس کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمارے اسلاف عہد رفتہ کے فتنوں کے مقابلہ سے عہدہ برا ہوئے تھے۔آمین
محمد بھٹی