سماجی ڈھانچے کے نقطہ نظر سے شریعت کی تعلیمات معاشرے کی اکائی اور خاندان کے کردار پر زور دیتی ہیں۔ خاندان بھی وہ جسے وسیع تناظر میں دیکھا جائے، نہ کہ جدید خاندانی تصور کے تحت۔ مدینہ میں پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کا سب سے عظیم سماجی کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے موجود قبائلی نظام کی حد بندیوں کو توڑا اور ایک ایسا متبادل مذہبی نظام تشکیل دیا جو ایک جانب مسلم امہ سے منسلک تھا تو دوسری جانب خاندان سے۔ ایک مسلمان خاندان پورے مسلم معاشرے کی جھلک ہے جس میں اس کی مضبوطی کا پتا چلتا ہے۔ اس میں باپ ایک رہنما یا امام کے طور پر اسلام کی فطرت کے مطابق اپنے کام انجام دیتا ہے، اس کے کاندھے پر اس کی مذہبی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔
خاندان میں باپ کی حیثیت ایمانی اصولوں کی پاس داری کرانے والے، اور اس کی سربراہی کی حیثیت خدا جیسی اتھارٹی کی علامت کے طور پر ہے۔ ایک مرد خاندان میں اس لیے قابلِ عزت ہے کہ وہ خاندان کے افراد کی جائز خواہشات کی تکمیل کرتا ہے۔ کچھ اسلامی معاشروں میں بعض حلقوں کی طرف سے مسلمان خواتین کی بغاوت اُس وقت سامنے آئی ہے جب مردوں نے ان عورتوں کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنا بند کردیا اور خاندان کی سربراہی کے کردار کو فراموش کردیا۔ مردوں کے غیر متاثر کن رویّے کی وجہ سے خواتین میں بغاوت کا عنصر وقوع پذیر ہوا جس کے بعد انھوں نے خود کو کسی بھی مذہبی اتھارٹی سے آزاد کرلیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے مسلم معاشرے میں ایک چھوٹے سے لیکن اہم طبقے میں، خواتین کی جانب سے روایتی اسلامی معاشرے کے خلاف بغاوت سامنے آئی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر تہذیب میں ایک ردعمل ہمیشہ سے موجودہ قوت کے خلاف آتا ہے۔ اسلام میں بہت زیادہ تذکیری نوعیت کی روایت موجود ہے۔ اسی لیے بہت سی مسلم خواتین خاندانی نظام کے مربوط سلسلے کو ڈھانے کی کوشش کررہی ہیں، حتیٰ کہ یہ چودہ صدیوں کے خلاف بغاوت ہے۔ ان میں بیشتر کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ اسلام کی اندرونی قوتوں نے اس نظام کو کیسے چلایا ہے۔ اسلام کی مردانہ فطرت کے خلاف آج کل چند جدیدیت پسند مسلمان خواتین نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ اگرچہ تعداد میں محدود ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان مرد مغرب کی تمام چیزوں کے زیادہ پیاسے ہیں۔ وہ اپنے لباس اور عادات میں تیزی کے ساتھ جدید بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عمل اُس وقت سامنے آتا ہے جب انسان گہرے نفسیاتی عوامل کو سمجھنے سے قاصر ہوجائے۔
اسلامی نقطہ نظر سے مردوں اور عورتوں کی برابری کا سوال بے معنی ہے۔ یہ گلاب اور چنبیلی کی برابری پر بحث کی طرح ہے۔ ہر ایک کی اپنی صورت اور خوب صورتی ہے۔ مرد اور عورت ایک جیسے نہیں ہیں، ہر ایک کی اپنی خصوصیات ہیں۔ خواتین مردوں کے برا بر نہیں ہیں، نہ ہی عورتوں کے برابر مرد ہیں۔ اسلام میں مسابقانہ کردار نہیں پایا جاتا، بلکہ اعزازی اختیار دیا گیا ہے۔ ہر ایک کو اس کی فطرت کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے ہیں۔
مرد کے پاس بعض مراعات جیسے سماجی حاکمیت، اور نقل و حرکت کی آزادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی بھاری ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ وہ تمام معاشی ضروریات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندان کی کفالت کرے خواہ اس کی بیوی مال دار ہی کیوں نا ہو، تب بھی اس کی ذمہ داری پوری کرنا اس کا کام ہے۔ ایک روایتی اسلامی معاشرے میں عورت کو فکرِ معاش کے بارے میں فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی لڑکی کی شادی نہ ہوئی ہو تو اسے بڑے خاندان میں رہتے ہوئے پناہ حاصل ہوتی ہے، وہ سماجی اور معاشی دباؤ سے عہدہ برآ ہوتی ہے۔ وسیع خاندانی نظام میں ایک مرد اکثر اپنی بیوی، بچوں، بلکہ ماں، بہن، پھوپھیوں، سسرالیوں اور دور کے رشتہ داروں کی بھی معاونت کرتا ہے۔ شہری زندگی میں ایک فرد کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر وہ صاحبِ روزگار ہو تاکہ اقتصادی ضروریات درست طریقے سے پوری ہوں اور اس کا بار عورتوں کے کندھے پر نہ پڑے۔ دیہی علاقوں میں ایک خاندان بذاتِ خود معاشی اکائی ہے۔ ان جگہوں پر ایک چھوٹا خاندان کسی بڑے خاندان یا قبائل کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
دوم، ایک عورت کو شریکِ حیات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اس بات کی چنداں فکر نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے ساتھی کو چننے کے لیے ہزار ہا منصوبے بنائے یا اپنے آپ کو قابل توجہ بنانے کی کوشش کرے۔ چوں کہ اس کی فطرت سچی ہے، اس لیے وہ اپنے والدین یا سرپرست پر بھروسا رکھتی ہے کہ وہ اس کے لیے ایک مناسب رشتے کا انتخاب کریں گے۔ یہ عام طور پر ایک مذہبی فرض کی ادائی اور مضبوط خاندانوں کی سماجی حدود کے احساس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان میں طلاق شاذو نادر ہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ رشتے جو جذبات پر مبنی ہوتے ہیں، زیادہ دیرپا نہیں ہوتے۔
سوم یہ کہ مسلمان عورتیں براہِ راست فوجی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مبرا ہیں، شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے جب انھیں ایسی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے۔ یہ نکتہ کچھ لوگوں کے لیے ایک محرومی تو ہوسکتا ہے لیکن نسوانی فطرت کی حقیقی ضروریات کی روشنی میں یہ خواتین کے لیے بہتر ہے کہ وہ ان بھاری ذمہ داریوں سے مبرا رہیں۔ حتیٰ کہ جدید معاشروں میں جہاں برابری کے عمل کے ذریعے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں تھا، جہاں کام کے اعتبار سے عورت اور مرد کو مساوی درجہ دیا گیا ہے وہاں خواتین عام طور پر انتہائی حالات میں سوائے فوجی خدمات کے کسی اور کام سے بچ نہیں پاتیں۔
ان مراعات کے بدلے جو مسلمان عورت کو حاصل ہیں، اس پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ خاندان کو ایک گھر فراہم کرے اور بچوں کی مناسب طریقے سے پرورش کرے۔ گھر میں عورت ملکہ کے طور پر حکمرانی کرتی ہے جب کہ ایک مسلمان مرد ایک طرح سے گھر میں اپنی بیوی کا مہمان ہے۔گھر اور بڑا خاندانی نظام دراصل مسلمان عورت کی دنیا ہے۔ اس کا ان تمام چیزوں سے الگ ہوجانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے دنیا سے الگ ہوجانا، یا مرجانا۔ ایک عورت وسیع خاندانی نظام میں اپنے وجود کے معنی تلاش کرلیتی ہے اور اسے اپنی بنیادی ضرورت کا احساس اور خود کو زیادہ سے زیادہ تعمیری کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
شریعت انھیں یہ اعزاز بخشتی ہے کہ عورت اور مرد اپنی فطرت کے مطابق کام کریں۔ یہ کسی مرد کے سیاسی و سماجی اختیارات کو اس لیے استحقاق دیتا ہے کہ وہ بڑی ذمہ داریاں ادا کرے، اپنے خاندان کی حفاظت کرے اور ان کی معاشی ضروریات اور دیگر عوامل کی کفالت کرے۔ اگرچہ بڑے پیمانے پر اس دنیا میں خاندان کے سربراہان گھر میں اپنی بیوی کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس دائرے میں اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خدا نے ان کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر رکھ دی ہیں۔ ایک مسلمان مرد اور عورت اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے خاندان تشکیل دیتے ہیں جو مسلم معاشرے کی بنیادی ساخت ہے۔
نسوانیت پرست ہونے کے لیے حقوق ِ نسواں کے علَم برداروں نے یک جنسی معاشرے کی تجویز دی۔ وہ معاشرہ جو جنسوں کے مابین ثقافتی اور سماجی امتیاز نہ رکھتا ہو… ایسا معاشرہ جو شادی کے بغیر ہو… گھر، خاندان، حیا، عفت اور مامتا جہاں دھتکارے جاتے ہوں… ایسا معاشرہ پیش رفت (Progress) اور آزادی (Liberation) کی نمائندگی نہیں کرتا۔ اصل میں یہی تنزلی کی بدترین مثال ہے۔ اس کا نتیجہ صاف و خالص یہ ہے کہ وہ معاشرہ انتشار، افراتفری اور الجھن کا شکار ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو تحریکِ نسواں اتنی مقبول کیوں ہے؟
سماجی صف بندی جس کی بنیاد مادہ پرستی نے رکھی ہے، وہ قدیم ترین اور مقبول ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلی بخش نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس میں آسانی سے ایسا ارتقا وقوع پذیر ہوتا ہے جو فوری طور پر اکثریت کے لیے تمام حالات اور تمام زمانوں میں قابلِ قبول ہوجائے۔ موجودہ سماجی نظام کی کشش عوام میں ہے، اس لیے اس کی جڑیں اتنی گہری نہیں۔ نہ یہ انسانی ذہانت کی سطح بڑھانے میں معاون ہے، نہ کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے، نہ اس میں انسان دوستی ہے، اور نہ یہ پائیدار ہے۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہی دیتی ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام تسلسل کے ساتھ انسانیت پر اثر رکھنے کے لیے نہیں آیا ہے، مگر اس نظام کے اثرات انسانی دنیا پر گہر ے ہیں۔
اس نظام کے اثر سے کبھی ایسا اخلاقی بدحالی اور سماجی تنزل انسانوں پر عالمی سطح پر نہیں آیا، جیسا کہ اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے۔ حقوقِ نسواں کے آدرشوں کو اپنانے کے بعد انسان جانوروں سے بھی نچلے درجے پر آگیا ہے۔ جانور بھی اپنی جبلت کے تحت زندہ رہتے ہیں اور وہ اپنی فطرت کے خلاف نہیں جاتے۔ جانوروں میں مادری تعلق اُس وقت عروج پر ہوتا ہے جب ان کے بچے اپنی حفاظت خود نہ کرسکیں۔ اکثر جانوروں میں نر اپنے بچوں میں دل چسپی نہیں لیتا۔ حیوانوں میں یہ تعلق حیا، عفت، شادی اور آبائی جیسا نہیں ہے۔ یہ رویّے صرف انسانوں کے لیے خاص ہیں۔ انسان ہر ثقافت، ہر تہذیب اور تا ریخ میں ان رویوں کے گرویدہ رہے ہیں۔ نسائیت پرست ان خواص کو ختم کردینا چاہتے ہیں، جو تمام رشتوں اور سماجی بندھنوں کی بنیاد ختم کردینے جیسا ہے۔ اس کا نتیجہ خودکشی ہوگا، بلکہ ایک ایسی تنہا قوم جس کا وجود نہ تو تاریخ، نہ انسانی نسل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔(مطبوعہ: فرائیڈے اسپیشل، 15تا 21۔22تا 28مارچ ۔ 2019ء، بتلخیص)
متر جم:خا لد امین، (اسسٹنٹ پر وفیسر،شعبہ اردو جامعہ کراچی)