ابھی بھی وقت ہے، اپنا احتساب کرو، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے!
دیکھیں! فیمنسٹوں کی طرف سے عورت مارچ کی مخالفت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس مارچ کا اصل مقصد مسلمان خواتین کو اسلام سے آزاد کرانا تھا، نہ کہ ان کی داد رسی۔ اگر چہ اس مارچ کے بہی خواہ، خواہ مخواہ کی تعبیریں پیش کرتے رہیں لیکن مارچ میں نکلے ہوئے شرکاء جس میں عورتوں سے زیادہ مرد تھے، نے اپنے نعروں اور بیانات سے ثابت کیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ جس میں اکثر کنفیوزڈ تھے۔ (اگرچہ کنفیوژن ہی مابعد جدیدیت کا بنیادی ہتھیار ہے)۔
یہ لوگ جن جاہلی اور فرسودہ روایات کی ماری ہوئی عورت کو جدید جاہلیت (جو قدیم جاہلیت کے مقابلے میں عورت کے معاملے زیادہ ظالم ہے) کی طرف دعوت دے رہے تھے۔
اب گرد بیٹھ گیا ہے اور منتظمین ان مارچوں میں لوگوں کی عدم دلچسپی یا مخالفت سے مایوس ہونے کے بجائے اب مزید سماجی پراجیکٹ کریں گے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس تحریک کا حصہ بنے۔
لیکن اب ہماری باری ہے، اپنا اور اپنے خاندان کا جائزہ لیں، اور احتساب کریں، کہ آیا خواتین کو وہ سارے حقوق ملے ہیں جو اسلام نے ان کو دئے ہیں۔ کیا اس حمام میں سارے ننگے نہیں ہیں؟
کیا ہمارے معاشرے میں عورتوں پر جاہلی روایات کی وجہ سے ظلم نہیں ہوتا؟
ان کو جائداد سے محروم نہیں رکھا جاتا؟
کیا ان کو ان کے مرضی کے بغیر کسی ان جانے کو نکاح میں نہیں دیا جاتا؟
کیا ان کو دین اور دنیا کی تعلیم میں مردوں کے مقابلے میں کم اہمیت نہیں دی جاتی؟ بلکہ ہم نے تو ان کو پوار دین مرد کے حوالے کیا ہیں۔ بہو کی صورت میں روز ان کو نہیں کوسا جاتا؟ بیوی کی صورت میں ان کے خاندان کے طعنے نہیں دئے جاتے؟
کیا مرد جھگڑا کرکے کسی بچی کو ونی یا سوارہ میں نہیں دیا جاتا؟
عزت اور ناموس کو بچانے کے خاطر عورت روز بھینٹ نہیں چڑھتی؟
اس طرح کے سینکڑوں ظلم ہیں سب کا ذکر محال ہے، جس سے اس معاشرے کی عورتیں گزرتی ہیں۔
فرسودہ روایات اور بگڑی ہوئی مذہبی تعبیرات کی بنیاد پر عورت کو روز کتنے زخم لگتے ہیں۔ کیا ہم نے اس پر کبھی غور کیا یا اس کے روک تھام کے لئے کبھی آواز اٹھائی۔ کب تک ہم یہ شور مچائیں گے کہ اسلام نے عورت کو تحفظ دیا حقوق دئے لیکن کیا ہم نے وہ حقوق عورتوں تک پہنچائے ہیں یا ان کو غصب کیا ہیں۔ کب تک ہم اپنی جاہلیت کو اسلام کے دامن میں چھپائیں گے۔ آخرکب تک ہم اسلام کے دئے گئے حقوق کا رٹ لگاتے رہیں گے۔
اگر ہم چپ رہیں گے تو یہی فیمنسٹ ان مظلوم خواتین کو اپنا ہم نوا بنائیں گے۔
اگر ہم شرعی پردے میں خواتین کو تعلیم کے حصول سے محروم رکھیں گے تو یہ لوگ برہنہ کرکے ان کو اپنی گھروں سے نکالیں گے۔
اگر ہم خواتین کو اپنی مرضی کی شادی سے منع کریں گے تو یہ لوگ ان کو بوائے فرینڈ مہیا کریں گے۔
اگر ہم عزت اور روایات کی خاطر عورتوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھیں گے تو یہ لوگ ان کو اسلام سے بیزار کریں گے۔
اگر پردے کے نام پر ہم نے عورت کو اپنے حقوق سے محروم کیا تو یہ لوگ تمہاری عورتوں کو پردے کا ہی دشمن بنائیں گے۔
اگر کسی عورت پر ظلم کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو یہ لوگ اس مظلوم عورت اپنے ڈاکیو مینٹری کا موضوع بنائیں گے۔
مطلب ہر ظلم اور محرومی کا بدلہ کئی چند دگنا ہوکر پلٹے گا اور تب ہم کچھ نہیں کر پائیں گے، کیوں کہ یہ بدلہ قانون کے سہارے آئے گا۔
لہذا عزم کریں، عورتوں کے حقوق دیں ان کے لئے آواز اٹھائیں اور ان فرسودہ روایات کو دقن کر دیں جو کفر سے توبہ کرنے کے بعد بھی ہم نے اپنے پلوں باندھیں ہوئے ہیں۔
اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاو۔ القرآن
محمد راشد