خواتین کے استحصال اور ان پر ظلم وستم کو عموماً روایتی معاشرے کا ایک مظہر تصور کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال کا واحد ماخذ روایتی معاشرہ نہیں، جدید لبرل اور سرمایہ دارانہ معاشرت اس استحصال اور تذلیل کے شاید اس سے بھی سنگین مواقع اور صورتیں پیدا کر رہی ہے اور بدقسمتی سے ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔
ان چند مظاہر پر ذرا ایک نظر ڈالیے:
۱۔ خواتین کو معاشی سرگرمیوں میں شریک کرنے کا ایسا رجحان جس کا نتیجہ آخر یہ نکلے کہ انھیں اپنا معاشی بوجھ خود اٹھانے کا ذمہ دار سمجھا جائے اور مرد ان کی کفالت کی ذمہ داری سے بالکل دست بردار ہو جائیں۔ اس صورت حال کا خمیازہ نہ صرف خواتین بلکہ اولاد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے اور مغربی معاشروں میں ڈے کیئر سنٹرز اس تباہی کا صرف ایک مظہر ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ خواتین کو گھر کے محفوظ اور فطری ماحول سے باہر نکال کر ایک طرف انھیں اپنی تمام تر صنفی وجسمانی نزاکتوں کے ساتھ کسب معاش کے لیے مردوں کی مسابقت پر مجبور کیا جاتا ہے جس کے لیے انھیں بلا استثنا ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اور دوسری طرف اس تمام تگ ودو کے بعد بھی ان کے معاوضے مردوں سے کم ہی رہتے ہیں۔
۲۔ کچی عمر میں، جب صنف مخالف کی کشش ایک ہیجان کی صورت اختیار کیے ہوئے ہوتی ہے، بچیوں کو مخلوط تعلیم کے اداروں میں بھیج دینا جہاں آداب اختلاط کی کوئی پاس داری نہ ہو۔ ہمارے ہاں حقوق نسواں کے علم برداروں کو یہ ظلم تو نظر آتا ہے کہ نابالغی کی عمر میں بچیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں،لیکن یہ ظلم کسی کو محسوس تک نہیں ہوتا کہ کچی عمر کی بچیوں کو موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں دے کر مخلوط ماحول میں بھیج دینے اور میڈیا کے متعارف کردہ کلچر کے زیر اثر مخالف صنف سے دوستی کے نام پر جذباتی، نفسیاتی اور بسا اوقات جسمانی استحصال کا شکار ہونے کے لیے بے یار ومددگار چھوڑ دینے کا رجحان کیا ستم ڈھا رہا ہے۔
۳۔ نسوانی حسن کو کاروباری مقاصد کے لیے ایک ذریعہ بنانے کا رجحان جس کا اظہار ماڈلنگ کی مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الیکٹرانک میڈیا پر بعض ٹاک شوز کی اینکرنگ کا انداز بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا۔ اس کی بد ترین اور سب سے گھناؤنی شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے جسے مغربی معاشروں میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس صنعت کو، جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین کی کوئی شکل انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، زندہ رکھنے کے لیے غیر محفوظ اور نفسیاتی طور پر بے سہارا خواتین کو پھانسنے یا انھیں ترغیب وتحریص کے مختلف طریقوں سے اس پیشے میں لانے کے لیے باقاعدہ نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔
۴۔ فیمنزم کے عنوان سے مرد اور عورت کے مابین منافرت کے رجحانات اور تصورات کا فروغ جو خواتین کو یہ باور کراتے ہیں کہ مرد دراصل ان کے ”زوج“ نہیں، بلکہ دشمن اور حریف ہیں۔ اس کا نتیجہ جس نفسیاتی اور ذہنی وفکری عدم توازن کی صورت میں نکلتا ہے، وہ واقعتاً ایک عبرت کا سامان ہے اور اس کی سب سے عبرت انگیز مثال سرے سے شادی اور خاندان کے ادارے کو ہی خواتین کی آزادی کے منافی قرار دینے کا رجحان ہے۔ اس فکر کے علم بردار شادی کو جبر اور قانونی قحبہ گری سے تعبیرکرتے ہیں جس کی رو سے مجبور اور بے بس عورتیں محض معاشرتی روایات کے دباؤکے تحت ایک معاہدے کے ذریعے سے مردوں کے لیے اپنے استحصال کا قانونی حق قبول کر لیتی ہیں۔
۵۔ روزگار اور معاش کے سلسلے میں ملازمت یا تجارت کے لیے میاں بیوی کے درمیان ایسی طویل جدائی کہ میاں بیوی اور بچوں کے ایک جگہ اور اکٹھے رہنے کا تصور بس ایک خیال بن کر رہ جائے۔ بالخصوص تلاش روزگار کے لیے بیرون ملک قسمت آزمائی کے لیے جانے والوں کے گھریلو معاملات ایسے دگرگوں ہو جاتے ہیں کہ جنسی اخلاقیات کی پاس داری اور بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی باتیں خواب وخیال ہو کر رہ جاتی ہیں۔
۶۔ صنفی مساوات کے ایک غیر حقیقی اور تخیلاتی نظریے کے زیر اثر خاندانی نظام میں مرد کی برتری اور اختیار کو اس طرح چیلنج کرنا کہ مرد خود کو بالکل بے اختیار ہوتا ہوا محسوس کرے اور نتیجتاً یا تو خود کو ان ذمہ داریوں سے ہی بری سمجھے جو اختیار کے ساتھ اسے حاصل تھیں اور یا رفتہ رفتہ گھر بسانے میں ہی دلچسپی ختم ہوتی چلی جائے۔
یہ تمام مظاہر کسی تخیل کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ مغربی معاشروں میں ان سب کو بچشم سر دیکھا جا سکتا ہے اور مغربی معاشرہ چلا چلا کر ہمیں یہ دعوت دے رہا ہے کہ
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
تحریر عمار خان ناصر، استفادہ :لقمان عارف