ہماری لبرل خواتین کو یہ گلہ رہتا ہے ، اور ان کی تان میں تان ملانے کا کام ہمارے بعض “نان اسلامسٹ مولوی” بھی کرتے ہیں ، کہ ہمارا معاشرہ پدرسری ہے ، ہماری سوچ پدر سری ہے، قرآن و حدیث کی تعبیر پدرسری ہے، فقہ پدرسری معاشرے کی تخلیق ہے ، وغیرہ وغیرہ۔
حراری کی کتاب Sapiens کا آج کل ہمارے لبرلز اور نان اسلامسٹ مولوی بہت چرچا کرتے ہیں۔ اس لیے سوچا کہ ان کے سامنے حراری ہی کی چند باتیں عرض کردوں۔
حراری یہ سوال اٹھاتا ہے کہ انسانی معاشرہ ہمیشہ سے پدرسری کیوں رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ “سائنس” کی جانب سے پیش کیے جانے والے تین نظریات پیش کرتا ہے :
سب سے مقبول نظریہ یہ رہا ہے کہ مرد چونکہ جسمانی طور پر زیادہ قوت رکھتا ہے ، اس لیے زرعی معاشرے میں اس کی اہمیت زیادہ تھی۔ فصل بونا، اس کی نگہداشت کرنا، اسے کاٹنا ، ہر ہر مرحلے پر جسمانی قوت درکار تھی جو مرد کو ہی میسر تھی۔ (“جوابی بیانیے ” والے خورشید احمد ندیم صاحب کا تازہ کالم ملاحظہ کیجیےجس میں اس مفروضے کو حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔)
حراری اس پر دو بڑے اعتراضات اٹھاتا ہے:
ایک یہ کہ یہ دعوی کہ مرد جسمانی طور پر عورت سے زیادہ قوت رکھتا ہے، کوئی کلیہ نہیں ہے بلکہ صرف اوسط کی بنیاد پر ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک اوسط مرد ایک اوسط عورت سے زیادہ جسمانی قوت رکھتا ہے۔ نیز اوسطاً بھی عورتوں میں مشقت، بیماری اور تھکن کی برداشت کی قوت مردوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ تاریخی طور پر عورتوں کو ہر معاشرے میں بالعموم ان کاموں سے مستثنی /محروم رکھا گیا ہے جن کےلیے جسمانی قوت بہت کم درکار ہوتی ہے ، جیسے پروہت یا کاہن کا کام ، اور عورتوں سے جسمانی مشقت والے کام، جیسے کھیت میں یا گھر پر محنت مزدوری کے کام، لیے جاتے رہے ہیں۔
دوسرا اور زیادہ اہم اعتراض یہ ہے کہ جسمانی قوت اور سماجی حیثیت میں کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ ساٹھ سال سے زیادہ عمر رکھنے والے افراد، خواہ جسمانی طور پر کمزور ہوں، بیس سال کی عمر والے افراد سے زیادہ مؤثر مقام رکھتے ہیں۔ (حراری دلچسپ مثال دیتا ہے کہ فرعون یا پوپ کا انتخاب باکسنگ میچ کے ذریعے تھوڑی ہوا کرتا تھا۔) انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جسمانی قوت والے افراد بالعموم سماج کے نچلے درجے میں رہے ہیں اور کم جسمانی طاقت والے افراد نے انھیں استعمال کیا ہے۔
دوسرا نظریہ اس نظریے کو ذرا تبدیل کرکے یوں پیش کیا جاتا ہے کہ اصل چیز جسمانی قوت نہیں بلکہ جارحیت کا رجحان ہے۔ صدیوں سے ، بلکہ ہزاروں سال سے ، مرد عورت کی بہ نسبت زیادہ جارحانہ مزاج رکھتا آیا ہے۔ نفرت عورت اتنی ہی کرتی ہوگی جتنا مرد کرتا ہے لیکن عملی طور پر تشدد کی طرف مرد کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہمیشہ جنگیں مردوں نے ہی لڑی ہیں۔ انھی جنگوں میں حاصل کی گئی طاقت کے ذریعے وہ جنگ کے بعد بھی معاشرے کو کنٹرول میں رکھتے ہیں اور مزید کنٹرول میں رکھنے کےلیے مزید جنگیں لڑتے ہیں۔
حراری اس نظریے پر یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ مرد زیادہ جارحیت پسند ہوتے ہیں اور جنگیں بالعموم مردوں نے لڑی ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ ان لڑنے والوں کو لڑانے والے بھی مرد ہی ہوں؟ کیا کاٹن کی فصل اگانے والے سارے سیاہ فام غلام ہوں تو یہ ضروری ہے کہ زمین کا اور غلاموں کا مالک بھی کوئی سیاہ فام ہی ہو؟ اکثر معاشروں میں فوج میں افسر براہ راست آتے رہے ہیں اور رینک سے ترقی کرتے ہوئے اوپر آنے والے بہت تھوڑے رہے ہیں۔ مزید یہ کہ جنگ جیتنے کےلیے صرف جارحانہ مزاج ہی کافی نہیں ہوتا۔ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ آپ اپنے لوگوں میں امن کیسے قائم رکھتے ہیں، دوسرے لوگوں کے ساتھ اتحاد کیسے بناسکتے ہیں اور دشمن کا ذہن کس حد تک پڑھ سکتے ہیں؟ عام طور پر عورتوں کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مردوں کی بہ نسبت زیادہ چالاک ہوتی ہیں اور اس وجہ سے یہ صلاحیت ان میں زیادہ ہونی چاہیے تھی۔ اسی وجہ سے عورتوں کو زیادہ غالب پوزیشن پر ہونا چاہیے تھا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہے؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
اس مقام پر حراری تیسرا نظریہ پیش کرتا ہے جس کی رو سے اس سارے معاملے کے پیچھے “پدرسری جینز ” (Patriarchal Genes) کارفرما ہیں۔ اس نظریے کی رو سے یہ سارا معاملہ ارتقا کے نتیجے میں ہوا ہے کیونکہ تنازع للبقاء کے محرک کے زیر اثر شروع میں مردوں میں کشمکش ہوتی تھی کہ زرخیز عورتوں کو حاملہ کون بنائے۔ اس کشمکش میں دوسرے مردوں پر حاوی ہونا ضروری تھا۔ نتیجتاً یہ ہوا کہ اگلی نسلوں میں مرد جینز زیادہ سے زیادہ طاقت ، قوت اور جارحیت والے بنتے گئے ۔ دوسری جانب عورت کو بچہ چاہیے تھا تو اسے نو مہینے تک اس حمل کا بوجھ اٹھانا پڑتا تھا اور اس دوران میں وہ بہت کمزور پوزیشن پر ہوتی تھی اور خطرے میں رہتی تھی۔ اسے اپنی حفاظت کےلیے کوئی مرد چاہیے تھاجو اس کی اور اس کے بچے کی حفاظت کرتا۔ یوں اگلی نسلوں میں عورتوں کے جینز مسلسل کمزور ہوتے گئے۔ خلاصہ یہ کہ مرد اور عورت دونوں نے تنازع للبقاء میں الگ الگ حکمت عملی اختیار کی؛ مرد نے قوت اور جارحیت کی راہ چنی جبکہ عورت نے اپنی حفاظت کےلیے مرد پر انحصار شروع کیا ؛ اور یہ دونوں خصوصیات صدیوں میں ، بلکہ ہزاروں سال میں، مستقل حیثیت اختیار کرگئیں۔
حراری اس نظریے پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ اس کے حق میں کوئی سائنٹفک ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں نے مردوں پر ہی کیوں انحصار کیا؟ حاملہ عورتوں نے ایک دوسرے کے تحفظ کےلیے مردوں کے خلاف ایکا کیوں نہیں کیاجیسے کئی جانوروں میں مادائیں باقاعدہ جتھا بنا کر ایک دوسرے کی حفاظت کرتی ہیں ؟ ہتھنیاں ایسا کرسکتی ہیں تو عورتوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟
حراری بے چارہ کسی جواب تک نہیں پہنچ پایا لیکن میں اپنے قارئین سے یہ استدعا تو کرسکتا ہوں کہ بجاے اس کے کہ آپ اس چکر میں پڑیں کہ انسانی معاشرہ پدرسری کیوں رہا ہے، اس پر غور کریں کہ کیا یہ سوال ہی سرے غلط ہے اور اصل سوال کچھ اور ہے ؟
٭مسائل و اقداری غلبے کا تعلق: مردانہ معاشرت کی بحث
مسائل و سوالات کا تعلق فکری قضیات و اقداری ترجیحات سے ہوتا ہے، یعنی وہ position specific ہوتے ہیں۔ اگر آپ کی فکری پوزیشن تبدیل ہوجائے تو بہت سے سوالات نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتے ہیں بلکہ کچھ لایعنی بھی ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ کی فکری پوزیشن تبدیل ہوجائے تو بہت سے نئے سوالات و مسائل جنم لیتے ہیں جو جواب و حل طلب ہوتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بعض لوگوں پر اس فکری پوزیشن کا غلبہ اس قدر عمیق ہوتا ہے کہ وہ پوری انسانی تاریخ کا مطالعہ و تجزیہ بھی اس نئی فکری پوزیشن سے جنم لینے والے مسائل و سوالات کی روشنی میں کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کی ایک مثال Patriarchal Societies (مردانہ معاشرت) نامی عنوان سے ملتی ہے۔
تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی بھی مذھبی تہذیب میں اس عنوان نامی کوئی مسئلہ موجود نہیں، یہ خاص مسئلہ مغرب کے مخصوص تصور آزادی و مساوات کا پیدا کردہ ہے جو ہر ہر “فرد” کی مساوای آزادی کا خواہاں ہے (ظاہر ہے یہ ایک ظالمانہ اقداری تصور ہے، خیر فی الوقت اس پر گفتگو مقصود نہیں)۔ مغربی فکر کے متاثرین و حامی افراد کا المیہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ اس معاملے کو ایک مسئلہ سمجھتے ہیں بلکہ انسانی تاریخ کے معاشروں پر عدل و ظلم کا حکم بھی اسی پیمانے پر لگاتے ہیں، گویا ان کا مفروضہ تصور عدل ہی تاریخ کے سب انسانوں کا تصور عدل رہا تھا۔ چنانچہ اس مسئلے کو ایک تاریخی مسئلہ فرض کرکے وہ اپنے قاری کو یہ بتانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوھات تھیں جن کی بنا پر Patriarchal Societies کا غلبہ رہا۔ اس قسم کے تجزیوں کو دیکھنا ہو تو Harari کی کتاب SAPIENS کا مطالعہ کرنا چاہئے جہاں وہ اس مسئلے پر اسی تناظر میں بطور خاص بحث کرتا ہے۔
ان جیسے تمام مصنفین کا خیال ہے گویا غیر مغربی تاریخ پر مبنی شعور رکھنے والی خواتین بھی اپنے بارے میں یہی تصور رکھتی ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اس ظلم کو روا کیوں رکھا گیا۔ یہ ایک احمقانہ مفروضہ ہے، اس کی حقیقت جاننے کے لئے زیادہ دور نہ جائیے بلکہ اپنے گھروں و محلوں ہی میں موجود ہزاروں لاکھوں خواتین کو دیکھ لیجئے کہ کیا وہ بھی واقعی یہی سمجھتی ہیں؟ اس کے جواب میں یہ مصنفین کہیں گے کہ دراصل تمہارے نظام نے ان خواتین کی ایسی ذھنی کنڈیشننگ کردی ہے جس سے انہیں یہ نظام عادلانہ لگتا ہے۔ تو بھائی کنڈیشننگ کا یہی سوال اس ذھنی کیفیت پر کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا جو ان خواتین کی ذھنی کیفیت پر یہ سوال اٹھا رہا ہے؟ آخر تم میں ایسی کیا خوبی ہے کہ تمہاری فکری و اقداری ترجیحات کو تاریخ، معاشرت و حاضر نظام سے ماوراء فرض کرلیا جائے؟
ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر زاہد مغل