جنسی تشددسےحفاظت کیلئےبچوں کی ضروری تربیت وحفاظت کاخاکہ

نئی دنیا کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک گڑھے سے نکالی گئی مٹی کو ٹھکانے لگانے کے لیے دوسرا گڑھا کھودتی ہے۔ ہم ابھی اپنے بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں اسکولوں کے حوالے کر دینے کے مسئلے پر غور کر رہے تھے۔ ڈھائی تین سال کی ننھی سی جان کو ماں باپ رنگین کتابوں، اسٹیشنری کے سامان او رنت نئے بھاری بھرکم مضامین سے مزین ثقیل کورس سے نبرد آزما کر دینے کے لیے بستہ لاد کر اسکول بھیج دیتے ہیں۔ اس کے بعد بچہ تعلیم گاہ کو ایسا پیارا ہوتا ہے کہ ماں کی طرف واپس لوٹ نہیں پاتا۔ گھر واپسی کا وقت ٹی وی، کمپیوٹر، ٹیوشن وغیرہ میں گزر جاتا ہے۔ ماں کا کہانی سنانا، نظمیں گنگنانا، مسئلے سننا، ادب تمیز سکھانا سب کام اسکول اور استانی کے ذمے اور اب مختلف کورسز اور ورکشاپس کا چرچا سنتے ہیں۔
اب ہمیں لگا کہ بچوں کو اپنی جسمانی تبدیلیوں اور حفاظت کے بارے آگاہی نہیں ہوتی۔ تو ہم کہتے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن شروع کی جائے۔ پوچھنا یہ ہے اس حساس اور اہم موضوع کو بھی ریاضی اور اردو کے رٹے رٹائے اسباق کی طرح اسکول ہی پڑھائے گا؟ کوئی کام تو ماں باپ کے لیے بھی رہنے دیں!
بچوں کو آگاہی دینے کا نکتہ اہم ہے۔ مگر اس میں کئی حساس مقامات آتے ہیں۔ بچے کو حفاظت کے طریقے سمجھاتے ہوئے خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کی معصوم، حسین اور محبوب دنیا کو ایک آسیب زدہ بستی نہ بنادیں؟ چند مریضوں کی وجہ سے ہر رشتے اور ناتے کا اعتبار نہ چھین لیں۔جدید دنیا میں ہارر فلم محض کسی خون آ شام بلا کی کہانی کا نام نہیں۔ ہارر وہ کہانی ہے جو آپ سے امید اور روشنی کی ہر کرن چھین لے، ایک نہ ختم ہونے والی ایسی دہشت کا بیان ہے کہ بلا سامنے نہ ہو، مگر اس کی پہنچ اور شکنجے میں جکڑے جانے کا خیال ہمہ وقت اس طور طاری رہے کہ نہ ختم ہونے والی مایوسی امید کی ہر کرن کو کھا جائے۔ یہ دہشت انسان کو اندر سے تباہ کر دیتی ہے۔ ہم نے بچوں کو ایسے نہیں ڈرانا کہ وہ ہر رشتے کو عفریت سمجھنے لگے اور یہ خوف ان کا بچپن کھا جائے۔
دوسرا پہلو یہ کہ بچے معصوم ہوتے ہیں . ایک شیطانی ذہن دس طریقے سوچ سکتا ہے، بچے کو پھسلانے اور خوفزدہ کرنے کے.پھر بہت سے اتنے چھوٹے بچوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے جن کو آپ سمجھا نہیں سکتے۔ آپ کون سی عمر سے یہ تعلیم دینا شروع کریں گے؟ کینیڈا میں چوتھی جماعت میں شروع کی جاتی ہے؟ اس سے قبل child abuse قسم کے کسی کورس کا حوالہ نہیں ملا۔ آپ کا کیا ارادہ ہے؟
پھر جس مغرب کا حوالہ ہے، وہاں اس کورس کے مقاصد اور مندرجات بالکل مختلف ہیں۔ child abuse سے اس کا تعلق نہیں۔ وہ بچوں کو ایک نئی تبدیلی کے لیے خود مختارانہ چوائسز کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہاں چونکہ عفت اور نکاح کے ضروری ہونے کا تصور نہیں۔ معاشرہ بچوں تک کو آزادی دیتا ہے اپنی جنسی زندگی کی چوائسز کا اس لیے اس کورس کا مقصد بچوں کو آگاہی دینا ہے۔ والدین کے بجائے ریاست یہ فریضہ اس لیے انجام دیتی ہے کہ بچے اس معاملے میں خود مختار ہیں۔ کیا ہم بھی اسی قسم کی تعلیم دینا چاہتے ہیں؟
ہماری ضروریات یہ ہیں کہ بچوں کو بتائیں کہ اپنے اور دوسروں کے جسم کی حفاظت کے لیے ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اپنی جسمانی تبدیلیوں کے ساتھ کس طرح مینج کریں۔ ہماری دین کی تعلیمات اس کے اوامر و نواہی اور اخلاقی ذمہ داریاں بھی ہمارے لیے اہم ہیں۔ یہ سب موضوعات حساس بھی ہیں۔
اس گفتگو کو کرنے کی ذمہ داری ماں باپ پر ڈ الیں کہ وہ اپنے تعلق کو ایک پناہ گاہ اور مربّی بنائیں۔ اسکولوں اور مدرسوں میں جو گفتگو کی جائے وہ اس موضوع کی حساسیت اور معاشرے کی اقدار کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ یہ گفتگو کرنے والے کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔
سب سے اہم بات کہ معاشرے کو احساس دلائیں کہ اصل ذمہ داری آپ کی ہے۔ بچہ بچہ ہے۔ کوئی بھی کورس یالیکچر آپ کو بری الذمہ نہیں کرتا۔ بچوں کی حفاظت کے لیے سخت اور واضح قانون سازی اوران کا نفاذ سب سے زیادہ اہم ہے۔ ظالم کو ڈرائیے کہ وہ کسی حرکت کا ارتکاب کرے گا تو سارے زندگی اس کے نتائج بھگتے گا۔ مغرب میں بھی کسی کورس پر تکیہ کر کے نہیں بیٹھ گئے بلکہ قانون کی کڑی نگاہیں بہت سوں کا ہاتھ روکتی ہیں۔ ہمارے یہاں نہ جانے کیوں مظلوم کو سمجھانے کا کلچر عام ہے۔ ظالم کو سزا کے معاملے میں فلسفے شروع ہو جاتے ہیں۔

٭جنسی تشدد سے بچاؤ کیلئے بچوں کی ضروری تربیت و حفاظت کا ایک خاکہ :


سانحہ قصور کے بعد بچوں کو جنسی زیادتی سے محفوظ رکھنے یا کسی حادثے کی صورت میں ان کی مدد کرنے کے حوالے سے آگہی عام کرنے کا بڑا چرچا ہے، والدین پریشان ہیں کہ کیا اور کیسے کیا جائے ۔ کچھ لوگ سیکس ایجوکیشن سسٹم کی بات کررہے ہیں جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا یہ کام والدین کے کرنے کا ہے اور شروع سے وہی اس کام کی ذمہ داری نباتے رہے ہیں۔ اس کے لیے کسی بڑے تربیتی کورس کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے کیے صرف انہیں اپنے بچوں کو اہمیت دینی ہوگی اور انکے لیے ٹائم نکالنا ہوگا ۔ اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ جنریشن گیپ کا ہے ، والدین کے پاس بچوں کے لیے ٹائم نہیں ، فکرِ معاش نے انہیں اولاد کی تربیت سے بے پروا کر رکھا ہے، تربیت کی ساری ذمہ داری انہوں نے میڈیا، سکولوں اور ٹیوشن سنٹرز پر ڈال رہی ہے۔ والدین بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ کو ہی تربیت کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور اپنے رعب کے لیے انکو اتنا پریشر میں رکھتے ہیں کہ اگر بچہ چاہے بھی تو اپنے مسائل انکے ساتھ ڈسکس نہیں کرسکتا، اسے یہ ڈر رہتا ہے کہ گھر سے مزید ڈانٹ پڑے گی ۔یہ بہت خطرناک روش ہے، ہمیں اب اس کو ترک کرنا ہوگا، ہمیں بچوں کو اپنے قریب کرنا ہے اس سے پہلے کہ وہ غیروں کے قریب اور ہم سے بہت دور ہو جائیں ۔ بچوں تربیت و حفاظت کے سلسلے میں جن نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے ذیل میں انکا ایک خاکہ پیش ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ہر پہلو پر تھوڑی تھوڑی بات کی جائےاسلیے تحریر طویل ہوگئی ہے اور دوقسطوں میں پیش کی جائے گی۔

  1. شروع سے ہی گھر میں دینی ماحول بناکر رکھیں۔ بچوں کو حیادار اور پاک دامن بنائیں۔بچوں کو ایسا بنائیں کہ وہ اپنی حیااور پاک دامنی پر کسی طور کمپرومائز نہ کریں۔بچوں کے سامنے نہ تو گالی دیں، نہ کسی صورت بچوں کے سامنے حیا باختہ گفتگو کریں اور نہ ہی کوئی ایسا اشارے کریں جس سے بے حیائی جھلکتی ہو۔ اب اگر ہم اپنی نسلوں کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کی خاطر خود کو مثال بنانا ہوگا۔قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں وارد ہونے والی مسنون حفاظتی دعائیں بچوں کو یاد کروائیں۔
  2. بچی اور بچے دونوں کو حیا کا تصور دیں،جوائنٹ فیملی میں رہنے والے بچوں کو مناسب الفاظ میں شروع سے ہی محرم اور نا محرم کا تصور دیں۔میڈیا کے بے لگام گھوڑے کو اپنے گھر میں نہ دوڑائیں،اگر آپ ماں ہیں, بہن ہیں یا ٹیچر ہیں تو اپنا کردار ادا کریں ہماری بچیوں کو ہماری رہنمائی کی ضرورت ہے.انہیں سمجھائیں کہ باہر ڈوپٹے کو پھیلا کر رکھیں. جسم کو جتنا زیادہ چھپا کر باہر نکلا جائے اچھا ہے ۔جس معاشرے میں گوشت خور درندے پائے جاتے ہوں وہاں بچیوں کے لباس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
  3. بہت سی مائیں اپنی بچیوں کو چست ٹراؤزر، تنگ پاجامے پہنا دیتی ہیں کہ ابھی بچی ہی تو ہے کیا ہوتا ہے ۔کاش انہیں وہ آنکھیں کچھ دیر دیکھنے کو مل جائیں جو ہوس پرستوں کے چہرے پر لگی ہیں تو کبھی پھر بچیوں کو نہ تو ایسا لباس پہنائیں نہ یہ کہیں کہ”بچی ہی تو ہے کچھ نہیں ہوتا”۔کچھ نہیں ہوتا ہوتا کرتے بہت کچھ ہو جاتا ہے.ہماری مائیں بہنیں کسی بھی بات پر کہہ دیتی ہیں کہ “کیا ہوا بچی تو ہے”بچی آدھی آستینیں پہن کر باہر گھوم رہی ہے”کیا ہوا بچی تو ہے”ڈوپٹہ کیوں نہیں لیا ہوا اور ہے تو سر پر کیوں نہیں”کیا ہوا بچی تو ہے”کزن کے ساتھ بائیک پر بٹھا دیا یا اکیلے کہیں بھیج دیا”کیا ہوا بچی تو ہے”شادی میں ڈانس کرلیا “کیا ہوا بچی تو ہے “ایک بات ذہن میں بٹھا لیں کہ مرد لڑکی کی عمر نکاح کرنے کے لئے دیکھتا ہے زنا اور زیادتی کرنے کے لئے نہیں ۔اسلئے اس جملے کو کہیں دفن کردیں کہ”کیا ہوا بچی تو ہے “۔ زینب جیسی لڑکیاں بھی بچیاں ہی تھیں۔
  4. یہی خطرہ نہیں ہے کہ باہر درندے گھوم رہے ہیں۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ آپ اس انسان کے اندر دبے حیوان کو نظرانداز تو نہیں کررہے، جو آپ کے قریب قریب اور اردگرد موجود ہیں۔ وہ بچوں پر ایک بار ہی حملہ نہیں کرتے۔ وہ اتنے عیّار بھی ہوتے ہیں کہ جسمانی تبدیلیوں سے گزرتے بچوں کو اپنا عادی بھی بنا دیتے ہیں۔ وہ وقت سے پہلے انہیں شہوت کی لذت چکھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بچہ نہ صرف عادی ہوجاتا ہے بلکہ ہم راز بھی بن جاتا ہے۔ اور یہ سب عین ماں باپ کی ناک کے نیچے ہورہا ہوتا ہے اور انہیں خبر بھی نہیں پڑتی۔ عموماً بچیاں کم عرصہ نہیں بلکہ کئی کئی برس، جوان ہونے تک اپنے شکاری کے پنجے میں پھنسی ذہنی کرب سے گزرتی رہتی ہیں۔ ضرور غور کیا کیجیے کہ آپ کی بچی کیوں سہمی سہمی رہتی ہے! کیوں اپنا جسم بڑے بڑے دوپٹوں میں خواہ مخواہ لپیٹے رکھتی ہے! کیوں بات بات پر نروس ہوجاتی ہیں! کیوں گھر سے باہر نہیں نکلتی! یا کیوں چڑچڑی رہتی ہے! کیوں بدتمیز ہے! کیوں تنہائی پسند ہے! کیوں بناؤ سنگھار کرنے سے کتراتی ہے!
  5. بچوں کو ان کے جسم سے آگاہی اس طرح دینی چاہیے کہ وہ دوسروں کی مداخلت کی حد کو پہچان سکیں۔وقت ضرورت اپنے بچاؤ کے لئے اقدامات کر سکیں۔ بچے کو اچھے انداز سے سمجھادیں کہ اگر کوئی آپ کے منہ، چھاتی ٹانگوں کے بیچ، شرمگاہ کو آگے یا پیچھےسے، محسوس یا غیر محسوس انداز سے چھونے کی کوشش کریں یا آپ کے جسم پر وہاں ہاتھ لگانے کی کوشش کرے جہاں آپ کواچھا نہ لگے، تو فوراً شور مچانا شروع کریں اور وہاں سے جلد از جلد بھاگ کر کسی محفوظ جگہ خودکو پہنچائے۔ انہیں سکھائیں کہ اگر کوئی ان کو ان کی مرضی کے خلاف چھیڑتا ہے تو وہ ضرور آپ کو بتائیں۔ بچوں کو ذیادہ ڈرانے کی بجائے حدود سے آگاہی دیں۔
  6. قانون بنائیں کہ آپ کا بچہ آپ سے پوچھے بغیر کوئی بھی کام نہیں کرے گا یا کسی بھی دوسری جگہ کسی کے ساتھ نہیں جائے گا۔ اگر بچہ کسی جاننے والے کے پاس نہیں جانا چاہتا تو اس کی بات کو غور سے سنیں اور وجوہات جاننے کی کوشش کریں، ایسی بات کو نظر انداز بالکل مت کریں۔جب بچہ کوئی ایسا لفظ بولتا ہے جو اسے نہیں بولنا چاہیے تو فوراً پتا کریں کہ وہ اس نے کہاں سے سیکھا ہے؟ محلے یا گلی میں آنے والے ایسے افراد جن سے بچوں کی روز ملاقات ہوتی ہے، جیسے آئس کریم والا یا جھولے والا، ان افراد پر نظر رکھیں اور بچوں کو بھی ایسے افراد سے تعلق بنانے سے یا بڑھانے سے روکیں۔
  7. اپنے بچیوں کو کسی بھی قیمت اس کی سہیلی کے گھر رکنے کی اجازت نہ دیں بھلے وہ کتنی ہی بااعتبار کیوں نہ ہو۔ ۔ بچیوں کو پارٹیوں، گیٹ ٹو گیدرز،سالگروں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اکیلے نہ جانے دیا جائے۔ جانا اگر ضروری ہوتو بڑی بہن یا ماں ضرور ساتھ جائیں۔
  8. دروازہ کھٹکھٹانے پر بچے کو اکیلا باہر نہ بھیجیں بلکہ خود جائیں یا کسی بڑے کو بھیج دیں۔ گھر میں اگر مرد حضرات نہیں ہیں تو بچے کو دروازے پر بھیجتے ہوئے ماں بھی پیچھے چلی جایا کریں اور دروازے کے اوٹ میں کھڑی رہ کر بچے کی نگرانی کریں۔
  9. بچے کو سمجھائیں کہ جب تک والدین آپ کو کسی اجنبی شخص کے بارے میں نہ بتائیں کہ یہ ہمارا رشتہ دار ہے اسے اجنبی ہی سمجھے-دوران سفر ہو جانے والی دوستیوں سے بچوں کو “یہ خالہ ہیں” “یہ پھپھو ہیں” کہہ کر نہ ملوائیں بچہ ان بے حد وقتی چہروں کے کنفیوژن میں کسی اجنبی کے ہتھے چڑھ سکتا ہے۔
  10. بچوں کو safe circle کا تصور دیں اس سرکل میں سکول،گھر،نانی،دادی کے گھر کا تصور دلوائیں۔ ماں باپ بہن بھائیوں اور ٹیچرز کے علاوہ کوئی بھی متعلقہ شخص جو کسی خاص جگہ ان کے ساتھ موجود ہو اسے اس دن کے لیے سیف سرکل کا حصہ بنائیں۔📈بچوں کو بتائیں کہ سیف سرکل کے افراد قابل اعتماد ہیں اور کسی بھی مسئلے کی صورت میں فورا اپنے سیف سرکل کو انفارم کریں۔
  11. کرایہ داروں کے ہاں اور پڑوس میں بچوں کو اکیلا ہر گز نہ جانے دیں۔ کوئی چیز بھیجنی ہوتوخود جائیں۔ اگر کبھی بچے کو بھیجنا پڑے تو اسے تاکید کریں کہ گھر کے اندر نہ جائے، باہر سے چیز دےکرآجائےاور ذیادہ وقت نہ گزارے۔ بچوں کے دوستوں اور ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں۔ خصوصاً کسی بڑی عمر والے سے۔ بچے کہاں کھیلتے ہیں، کیا کھیلتے ہیں، کن امور میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ سب آپ کی نظرمیں ہونا چاہیے۔ اس بندے پر نظر رکھیں جو خواہ مخواہ آپ کے بچوں کا خیال رکھنا چاہتاہے۔ یہ ہمسایہ بھی ہو سکتا ہے، استاد بھی اور رشتہ دار بھی۔ اگر بچہ کسی رشتہ دار یاپڑوسی، پڑوسن کے پاس بار بار جائے یا جانے کی ضد کرے تو فورا نوٹس لیں۔اگر بچہ کسی خاص فرد سے گھبرائے یا خوفزدہ ہو تو نظر انداز مت کریں۔
  12. بچوں کو خبردار کردیں کہ کسی بھی اجنبی سے، ٹافی ، چاکلیٹ یا کوئی بھی چیز نہ لیں۔ بچے کو ورغلانے میں یا لے جانے میں صرف ایک منٹ ہی لگتا ہے۔ ہم عموماً اپنے بچوں کو اجنبی لوگوں سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ تلقین تب دھری کی دھری رہ جاتی ہے جب ایک بالغ بچے تک سیدھا پہنچتا ہے اور اپنا تعارف کرواتا ہے یا کوئی ایسی حرکت کرتا ہے کہ وہ فوراً اجنبی سے شناسا بن جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق نوے فیصد کیسیز میں مجرم ایسا فرد ہوتا ہے جسے آپ کا بچہ اچھی طرح جانتا ہے تو ایسی صورتحال میں کیا کرنا چاہیے، بچے کو بتائیں۔
  13. بچوں کو یہ بھی تنبیہ کریں کہ کسی کے پوچھنے پر کہ “فلاں کا گھربتانے، ایڈریس سمجھانے میرے ساتھ چلے‌” کسی بھی اجنبی کےساتھ کہیں بھی نہ جائیں۔ اپنے بچے کو چوکیدار، نوکر اور ڈرائیور وغیرہ کے رحم وکرم پر بھی نہ چھوڑیں۔اس بارے بھی نہایت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
  14. بچے کو واضح طور پر بات کرنا سکھائیں یعنی ایسی صورتحال میں جب وہ خدانخواستہ اجنبی جگہ پر ہو اور کوئی انہیں چھونے یا اٹھانے کی کوشش کرےیا گھر کے اندر بھی تو وہ صرف رونے کی بجائے ‘بچاؤ بچاؤ ‘کی آواز لگائے یا ‘میں اسے نہیں جانتایا ‘ میرے انکل نہیں ہیں’ وغیرہ کہے۔تاکہ لوگ متوجہ ہوں۔
  15. بچوں کو اپنااوراپنے والدین کا نام، پتہ اور فون نمبر ضرور یاد کروائیں۔بچوں کو ہلکی پھلکی مارشل آرٹس یا کراٹے کی تربیت ضرور دلوائیں۔کسی انتہائی صورتحال میں انھیں دانتوں اور ناخنوں کا استعمال کرنے کے بارے میں آگاہی دیں۔ ان کو یہ ضرور سکھائیں کہ اگر وہ کسی ہجوم والی جگہ پر آپ کو کھو دیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ انہیں یہاں آپ کو اونچی آواز میں پکارنا ہے چلانا ہے یا کس سے رابطہ کرنا ہے؟ کس جگہ پر جاکر کھڑے ہو جانا ہے۔ کسی ایسی عورت کو جا کر بتانا ہے جس کے ساتھ اس کے بچے ہوں وغیرہ وغیرہ اور یہ ہر سفر میں کسی نہ کسی طرح انہیں یاد کروا دیں۔
  16. باہر سے کوئی چیز لانے بچے کو اگر بھیجیں تو اسے سمجھادیجیے کہ دکاندار سے کاؤنٹر سے باہر کی طرف کھڑے ہوکر بات کرے۔ وہ اگر اندر کی طرف بلائے تو اس دکان سے نکل جائے اور وہاں سے کچھ نہ خریدے۔
  17. اگر آپ راہ چلتے کسی اجنبی کی کسی بچے کے ساتھ ابنارمل ایکٹیویٹی دیکھیں، یا آپ کو لگے کہ بچے کے ساتھ زبردستی کی جارہی ہے یا کسی بھی طرح کی ایسی کوئی مشکوک سرگرمی دیکھیں تو خدارا خدارا! اسے ہر گز اگنور مت کریں، بلکہ فوراً حرکت میں آجائیں اور تصدیق کریں۔ بچے سے پوچھیں یہ اجنبی آپ کا کیا لگتاہے؟ تصدیق ہونے پر معذرت بھی کریں ورنہ اگر صورتحال دوسری ہوئی تو فوراً متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرکے کارروائی کریں۔یاد رکھیں! آج اگر آپ نے اسے اگنور کردیاتو کل کو دوسرا بچہ آپ کا بھی ہوسکتاہے۔
    جب بچہ سکول جانے کی عمر کو پہنچ جائے تو مندرجہ ذیل عوامل پہ توجہ مرکوز کریں۔
  18. بچے کو ٹوائلٹ کی ٹریننگ دیں، خود بیٹھنا اور دھونا سکھائیں۔اگریہ نہیں ہو سکا تو بچےکوسختی سے تنبیہ کریں کہ سکول میں کسی male مرد ملازم کے ساتھ ٹوائلٹ نہ جائے ،نہ دھونے کی اجازت دے۔سکول میں ایک سے زیادہ بار پرنسپل کو یا ٹیچر کویہ بات کہہ دیں کہ بچوں کو مرد ملازم کے ساتھ ٹوائلٹ نہ بھیجا جائے۔بچوں کو چھٹی کے بعد سکول میں ذیادہ دیر نا چھوڑیں ۔
  19. بچوں کو خود سکول لائیں اور لے جائیں اگر ممکن نہ ہو تو exclusive ٹرانسپورٹ کی بجائے زیادہ بچوں والی وین یا گاڑی میں بھیجیں ۔ وین کے ڈرائیور سے خودملیں اور کچھ دوسرے افراد سے بھی رائے لیں۔اس معاملے میں کسی معمولی سی مشکوک حرکت یا رائے کو بھی غیر اہم نہ سمجھیں۔بچے سے وقتا فوقتا پوچھتے رہیں کہ ڈرائیور سب کو اکٹھے اتارتاہے یا کسی کو ذیادہ وقت بٹھا کر بھی رکھتا ہے یا واپسی پہ اتارنے کا کہہ کر ساتھ بٹھا لیتا ہے۔سکول کے چوکیدار سے کہیں کہ وہ بچوں کو اتارتے ،سوار کرتے وقت وین کے آس پاس موجود رہے۔بچے سکول یا وین بدلنے کی بات کریں تو اسے سنجیدگی سے لیں۔بچہ کسی دن بھی گبھرایا ہوا یا غیر معمولی ایکسائیٹڈ ہو تو نوٹس لیں اور وجہ جانیں۔
  20. گھر پر قرآن یا سکول کی ٹیوشن پڑھانے کےلیے جسے بھی رکھیں اس کا بیک گراؤنڈ ضرور چیک کریں۔اس کاپورا پروف بھی اپنے پاس رکھیں اور کسی کی ضمانت پر ہی اسے رکھوالیں،ورنہ بعد میں پچھتائیں گے۔ بچوں کو اگر کسی کے ہاں ٹیوشن کے لیے بھیجیں تو اس کی بھی خبرگیری کریں۔ خصوصاً ایسے گھر میں جہاں ٹیوشن پڑھانے والا/والی اکیلی رہتی ہو، بہت احتیاط سے کام لیں۔ اگر ضروری ہو تو خصوصاً بچیوں کو گروپ شکل میں بھجوائیں۔ چار پانچ بچیاں گروپ کی صورت اکٹھی جائیں اور اکھٹی ہی واپس آئیں، ورنہ گھر کا کوئی بڑا ساتھ ضرور جایا کرے۔
  21. اس استاد پر ضرور نظر رکھیں جو آپ کے بچوں کو اکیلے میں پڑھاتا ہے یا سکول میں بچوں پر خصوصی شفقت کرتے ہوئے خصوصی طور پر زائد وقت دیتا ہے یا وہ بندہ جو آپ کے بچوں کو غیر ضروری تحائف دیتا ہے۔ یا وہ بندہ جو آپ کے بچوں کو وقتا فوقتا کسی بہانے سے اپنے گھر میں آ کر کھیلنے کے لئے کہتا ہے یا وہ بندہ آپ کے بچوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ اچھا ہے۔بچیوں کے ساتھ ریپ کرکے انہیں ماردینا اکثر کسی”جاننے” والے کا کام ہوتاہے اور وہ بچی کو مار بھی اسی لیے دیتاہے تاکہ کسی کو اس کے بارے بتانہ سکے، سواس حوالےسے خصوصی نظر رکھاکریں۔

٭بچہ/بچی جب بلوغت کو پہنچ جائے:

  1. بچوں کو بلوغت کی تبدیلیوں کے بارے میں بتائیں. اس دوران جو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ان کے بارے میں آگاہی دیں. مائیں بیٹیوں کو اور باپ بیٹوں کو اضافی بالوں کی صفائی کا طریقہ سکھائیں اور بتائیں کہ یہ عبادت ہے.مائیں بیٹیوں کو حیض کے مسائل بتائیں اور باپ بیٹوں کو احتلام کے.مائیں بچیوں کو چھاتیوں کی افزائش کا مقصد بتائیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ماں بننے کی تیاری ہے تاکہ شادی کے بعد وہ اپنے “بچے” کو دودھ پلا سکیں اور ساتھ ہی انہیں ڈھانپنے اور پردے کے مسائل بتائیں. اس حوالے سے سورۃ النور و احزاب سے مدد لیں.
  2. بچوں کو بتائیں کہ ان تبدیلیوں کے بعد ان میں جنس مخالف کے لیے کشش اور جنس مخالف میں ان کے لیے کشش بڑھ جائے گی اسکی وجہ بتائیں اور افزائش نسل کی اہمیت کا بائیولوجکل پہلو بھی بتائیں ۔اس بات کی اہمیت کو بار بار اجاگر کریں کہ یہ عمل اور حصول لذت صرف میاں بیوی کے درمیان جائز ہے اور یہی انسانیت ہے. یہاں سورۃ یوسف سے متعلقہ دروس ضرور دیں.
  3. بلوغت کے آثار نظر آتے ہی اوپر والی باتوں کو دہرائیں. بدنظری کے نقصانات ، غض بصر ، محرم غیر محرم کا تصور اور پردے کی اہمیت اچھی طرح پھر سے اجاگر کریں. اس سلسلے میں قرآن و حدیث سے تفصیل سے مدد لیں۔
  4. آج کے دور میں بچوں کو میڈیا سے بچانا تقریبا ناممکن ہے۔بچوں کی ایکٹویٹی کو دیکھتے ہوئے انکے ساتھ انٹرنیٹ ، میڈیا، فلموں،ڈراموں ، گانوں کی حقیقت اور انکے اثرات پر بات کرتے رہیں ۔ مثبت پہلوؤں کی طرف راغب کریں، ، اچھی ڈاکومنٹریز دکھائیں۔ انکی دینی تربیت کے لیے ان میں مطالعے کاذوق پیدا کریں ، اچھے ناول اور کہانیوں کی کتابیں خود لاکے دیں، پھر آہستہ آہستہ آسان اور دلچسپ اور فائدہ مند دینی لٹریچر پڑھنے کودیں۔ مستند سکالرز کی تقاریر و دروس سننے کا ذوق پیدا کریں ۔

تربیت کے طریقہ کار کے لیے کچھ تجاویز:

  1. بچوں پر ایک دم ان سب باتوں کو ٹھونسنے کی کوشش نا کریں ، بلکہ وقفے وقفے سے موقع محل کی مناسبت سے اتنی ہی بات کریں جو انہیں یاد رہے اور ایسے انداز میں سمجھائیں کہ ان کے لیے سمجھنا آسان ہو ۔ کوشش کریں بات حدود تک اور مسئلے کی حساسیت آپ تک محدود رہے۔ بچے میں ایکسٹر ا خوف پیدا نا ہو، اسکے اعتماد اور امیدکو نقصان نا پہنچے۔
  2. اپنے گھر سے گھٹن کا ماحول ختم کیجیے۔ دنیا کھل چکی ہے۔ آپ بچوں سے باتیں چھپا ہی نہیں سکتے۔ آپ کے سات سالہ بچے کو اگر کچھ باتوں کا پتہ چل جائے تو اس میں برائی نہیں اچھائی ہے۔ بچہ کھلونا ایک مکمل انسان ہوتا ہے۔ یہ آپ کے کھیلنے کے لیے نہیں ہے۔ وہ اپنی مکمل زندگی جینے کے لیے دنیا میں موجود ہے۔ خود پر قابو پائیے۔
  3. کوشش کریں کہ خود بات شروع کرنے کے بجائے بچے کے سوال سے گفتگو کا آغاز کریں. البتہ اگر بچہ شرمیلا ہے اور کبھی ایسے سوالات نہیں کرتا تو پھر خود “کسی بہانے سے” بات شروع کریں.
  4. بچے کی حقیقی زندگی کے تجربات کو مثال بنائیں. اگر آپ کے گھر میں “پیٹس” ہیں تو پالتو جانوروں کی مثال سے بات شروع کرنا مفید ہو سکتا ہے یا پھر چڑیا گھر کی مثال سے. اسی طرح بچہ کسی حاملہ خاتون کو دیکھ کر سوال کرے تب بات کو آگے بڑھائیں.
  5. یہ گفتگو کار میں یا کسی پارک میں بنچ پر پہلو بہ پہلو بیٹھ کر کرنا کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان صورتوں میں آپ دونوں سامنے دیکھ رہے ہوں گے اور “آئی کانٹیکٹ” سے پریشانی نہیں ہوگی.
  6. بچہ اگر کوئی “غیر مناسب” سوال پبلک میں یا بلند آواز میں پوچھ لے تو غصے میں نہ آئیں. اسے کہیں کہ چلو ہم گاڑی میں یا کہیں علیحدگی میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں. یوں اسے اس موضوع کی پرائیویسی کا بھی احساس ہوگا.
  7. تیز و تند سوالوں سے پریشان نہ ہوں. جھوٹے جواب نہ دیں. بچے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر آپ کو بہتر طریقے سے سمجھاؤں گا. اس میں کوئی عار والی بات نہیں.
  8. بات کو دو طرفہ مکالمے کی صورت میں کرنا مفید ہو سکتا ہے. پہلے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ بچے کو “خود سے” اس بارے میں کتنا پتہ ہے اور بڑے دوستانہ انداز میں اس کی معلومات کا سورس جاننے کی کوشش کریں. پھر اس کے اوپر “بلڈ اپ” کریں.
  9. یہ بھی ذہن میں رہے بچوں پر ایکسٹرا سختی، انکو ہر وقت پابند کیے رکھنے سے انکی تربیت نہیں ہوتی بلکہ انکے اندر کی صلاحیتیں مرجاتی ہیں ، انکی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے ۔انکو بری صحبت سے بھی بچائیے لیکن انکی معصوم خواہشوں کا گلا نہ گھوٹیے ۔ ان کلیوں کو کھلنے دیجیے ، انکو اپنے بچپنے کا اظہار کرنے دیجیے ۔ اپنی نظروں کے سامنے ہی سہی لیکن انکو اپنی عمر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع دیجیے ۔انکو رشتہ داروں میں بیٹھنے کی اجازت دیجیے تاکہ ان کو بات کرنے کا، ملنے ملانے کا سلیقہ آئے ۔ انکو بولنے دیجیے کہ انکے اندرکی گھٹن ختم ہو ۔ انکو غلطیاں کرنے دیجیےکہ انکو ان سے کچھ سیکھنے کا موقع ملے ، اور یہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرسکیں ۔ ان پر اعتبار کیجئے، انکے اچھے کاموں پر انکی تعریف کیجئے، انکو اپنی مرضی کرنے، اپنے قدموں پر کھڑا ہونے دیجیے تاکہ انکے اندر خود اعتمادی پیدا ہو ۔
    نوٹ: یہ ہدایات محض ایک خاکہ ہیں. آپ اپنے بچوں کی ذہنی استعداد اور ماحول کے مطابق ان میں ترمیم و اضافہ کر سکتے ہیں اور ہمیں بھی مزید مفید مشوروں سے نواز سکتے ہیں.
    استفادہ تحریر : ڈاکٹر رضوان اسد خان ، ڈاکٹر جویریہ سعید ، نورالہدی شاہ، محمد صابر، عثمان حبیب

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password