ہم جنسی پرستی کی جنیاتی وجوہات کی تلاش پر تحقیق کی ناکامی

یہ آج سے کم و بیش چار پانچ سال پرانی بات ہے کہ فیس بک پر پروفائل پکچر کو قوس قزح کے رنگوں میں رنگنے اور ہم جنس پرستوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا چلن چلا، خیر ہمارے ملک کے اکثر لوگوں نے تو بغیر سوچے سمجھے ہی اپنی پروفائل پکچر رنگ دی، ایسا ان سے معصومیت میں ہوا۔مگر میری فہرست میں موجود دو افراد نے سوچ سمجھ کر یہ کام کیا اور پھر اپنی رائے کے حق میں بڑی طویل تقاریر بھی تحریر کیں، ان دو میں سے ایک میرے سابق طالب علم ہیں اور بیچارے ایک برگر بچے ہیں اور دوسری صاحبہ مجھ سے چند سال جونیئر شعبہ نفسیات کی فارغ التحصیل خاتون تھیں جو اسلام آباد میں ایک نسوانی NGO چلاتی ہیں، یہ دونوں ہی افراد اپنے اپنے سماجی رول کی وجہ سے ہم جنس پرستی کے حق میں بولنے پر خود کو مجبور پاتے تھے۔ ہم جنس پرستی کے مخالفین جب آیات قرآنی لکھتے تو یہ ہم جنس پرستی کے حق میں سائنس کی توپ لاتے اور فرماتے کہ ہم جنس پرستی تو جینیٹک ہوتی ہے اور سائنس نے اس کو نارمل مان لیا ہے، تو پھر اب اس پر اعتراض کرنا غلط ہے۔
خیر جدیدیت کے ماننے والوں کے لئے سائنس خود ایک مذہب ہے جس کی نام نہاد “Finding” کو وہ بالکل اسی طرح پیش کرتے ہیں جیسے وہ نعوذ باللہ صحیفہ آسمانی ہوں۔میں نے تب دونوں کو بتایا کہ یہ ”نارمل“ والی بات دراصل سائنسی تحقیق کی وجہ سے نہیں بلکہ ہم جنس پرستوں کے مظاہروں اور دباؤ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ نفسیاتی بیماریوں کے مینول سے ہم جنس پرستی کا اخراج خالص غیر سائنسی وجوہ سے ہوا تھا۔ اس دلیل پر ایک اور صاحب جو بدقسمتی سے میرے طالب علم رہ چکے ہیں، درمیان میں تو کود گئے اور خوب گرجے برسے کہ ”ہم کو اس بات پر سوال اٹھانے کا کوئی حق نہیں کہ کون سی بیماری مینول میں کیوں شامل کی گئی ہے اور کون سی کیوں نکالی گئی، ہمیں بس اس کو ماننا ہے اور اس کے مطابق چلنا ہے!“ ہائے بے چارہ جدیدیت کے پردے میں چھپا تقلیدی ذہن!۔
(مغرب میں ہم جنس پرستی کے مقدمے کے حق میں سب سے بڑی دلیل فطری گھڑی گئی تھی ۔ یہ کہا گیا بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جینیاتی اور نفسیاتی ساخت کی بنا پر ہم جنس پرستی ہی عین فطرت ہے اور یہ کسی قسم کی کوئی بیماری یا انحراف نہیں۔ سب سے بڑا اور مضبوط استدلال یہ کیا گیا کہ ہم جنس پرستی بعض جینیاتی وجوہات کی بنا پر کچھ لوگوں کے لیے عین فطرت ہے۔ یہ اگر ان کی فطرت ہے تو انھیں اس سے ہٹانا ان پر بدترین ظلم ہے۔ پھر مزید یہ بھی بار بار بیان کیا گیا کہ ہم جنس پرست دوسروں سے زیادہ اچھے انسان ،قانون پسند، پرامن شہری ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں اس تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی رہیں کہ آخر کار مغربی سماج نے قانون اور اقدار کی سطح پر یہ مان لیا کہ ہم جنس پرستی ایک نارمل رویہ ہے۔ چنانچہ 1990میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزئش (WHO) نے اسے ذہنی امراض کی فہرست سے نکال دیا۔ جس کے بعد ایک ایک کرکے تمام مغربی ممالک،جنوبی امریکہ ،کینیڈا اور امریکہ میں انفرادی ریاستیں ہم جنس شادی کو باقاعدہ قانونی قبولیت دیتے چلے جارہے ہیں۔)مگر کچھ عرصہ قبل اس معاملے میں سائنس کی دنیا میں کچھ ایسا ہوا ہے کہ جس نے بڑی حد تک اس پورے نظریے پر جیسے بجلی گرا دی۔
ہوا کچھ یوں کہ Science نام کے جریدے میں اگست 2019ء میں ایک بڑی تحقیق شائع ہوئی، اس تحقیق میں تقریباً 5 لاکھ افراد کا نمونہ لیا گیا، عموماً اتنا بڑا نمونہ کبھی بھی تحقیق میں نہیں لیا جاتا مگر اتنی جسیم تحقیق کرنے کا جگر اور سرمایہ صرف اہل مغرب کے ہی پاس ہے۔ پھر اس بات پر بھی اہل مغرب کو سلام کہ انہوں نے اپنے نظریات سے اتنی حد تک متضاد نتائج کو بھی کھلے دل سے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کا اظہار بھی کیا۔ مگر اس تحقیق کے چھپنے کے بعد سے ہی مغرب کے بہت سے حلقوں میں کھلبلی سی مچ گئی اور یہ کھلبلی تاحال مچی ہوئی ہے۔ دراصل یہ تحقیق اس لئے کی گئی تھی کہ اس مفروضے کو جانچا جائے کہ آیا ہم جنس پرستی جینیاتی طور پر موجود کوئی حقیقت ہے؟ جب کہ جو جواب اس تحقیق سے سامنے آیا وہ یہ ہے۔
It is not possible to predict your sexual behavior from your DNA alone.
پھر اسی تحقیق کے محققین میں سے ایک (Robbee Wedow) اپنے مورخہ 31 اگست 2019 کے نیویارک ٹائمز میں شائع مضمون میں لکھتے ہیں
It is important not to overstate the role of genes
واہ واہ سرکار واہ! ہم بے چارے تو شروع سے یہی کہتے تھے مگر آپ لوگ ہی کب مانتے تھے؟ اور Gene میں تو موروثی بیماریاں بھی موجود ہوتی ہیں، آپ اس بنیاد پر ان بیماریوں کو تو نارمل نہیں کہہ دیتے۔
پھر 29 اگست کو ہی نیو یارک ٹائمز میں شائع Pam Belluck کے تحریر کردہ مضمون میں اس ہی تحقیق کا ایک اور دلچسپ حصہ سامنے آیا جو انہی کے الفاظ میں تحریر کر دوں کہ تعصب کا الزام نہ لگے۔
The researchers found that whether someone ever engaged in same-sex sexual behavior showed genetic correlations with mutual health issues, like major depressive disorder or schizophrenia, and with traits like experience and loneliness.
اب ظاہر سی بات ہے کہ risk taking تو کوئی بھی عجیب کام کرنے میں چاہئے ہی اور رہی بات open men to experience کی تو وہ بھی اتنا عجیب experience کرنے کے لئے چاہئے ہی، یہ دونوں صفات نہ تو اچھی ہیں نہ بری۔ لیکن یہ طے ہے کہ Cannabis کی سی شے کی طلب یا تنہائی کوئی اچھی صفات نہیں۔ اور ہم جنس پرستی اور شیزوفرینا اور مایوسی کے درمیان جو ہم ضیافت پائی گئی ہے اس کا کیا جواب ہے، ہم جنس پرستی کے وکیلوں کے پاس؟
بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک عرصے تک اہل مذہب پر اہل فلسفہ یہ الزام لگاتے رہے کہ وہ اپنے عقائد کے جواز جوئی کے لئے فلسفے کو صرف استعمال کرتے ہیں، یہ الزام تاریخی طور پر St Thomas Aquinas پر بھی لگا اور امام غزالی پر بھی مگر آج کی حقیقت یہ ہے کہ اہل مغرب نے اپنے نظریات کی جواز جوئی کے لئے سائنس کو محض استعمال کیا ہے اور اگر کبھی سائنس نے ان کی آواز سے آواز نہیں ملائی تو پھر ہمیں کچھ اس طرح کے جملے سننے کو ملے۔
It is important not to overstate the role of genes

رپورٹ کے لنکس 1 2 3

سائنسی طریقہ علم اور دو قسم کے غلو اور انتہائیں:

ویسے تو اس خبر میں سمجھنے والوں کے لئے کئی اسباق ہیں لیکن میں اس خبر کے حوالے سے دو غلو اور انتہاوں کا خاص ذکر کرنا چاہونگا۔
غلو ۱:
سائنس کو حقیقت کا واحد ماخذ سمجھنا (سائنٹزم) اور الہامی علوم سے بالکل انحراف کرنا۔ اس انتہا کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سائنسی ثابت شدہ معلومات کے بےحد محدود ہونے اور سائنسی تحقیقات میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان ہونے کے باعث انسان نہ کبھی حق و باطل کا تعین کر سکتا ہے اور نہ ہی اخلاقی اقدار وضع کر سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وجود، عقل اور احساس کے بھنور میں پھنسا انسان اپنی نفس کے مطابق سائنسی مفروضوں اور مغالطوں کو ‘حقیقت’ سمجھ کر ‘انسانیت’ کے نام پر مثلا ہمجنس پرستی کو جینیاتی رویہ کہتا ہے، اس کی ترویج کرتا ہے، اس بنیاد پر وحی کی تعلیمات کو غلط ثابت کرنے کی تگ و دو کرتا ہے اور بالآجر سائنس کے ہاتھوں ہی منہ کی کھاتا ہے۔
غلو ۲:
سائنس کا طریق (method) سمجھے بغیر اسے اسلامی تعلیمات سے متصادم سمجھنا اور سائنسی علوم کو فتنہ کہنا۔ اس روش سے ہوتا یہ ہے کہ مذہبی طبقہ سائنس سے مکمل کٹ جاتا ہے اور نتیجتاً سائنسی میٹھڈ سے ناآشنائی کی وجہ سے ان سائنسی مفروضوں کو جو سائنٹزم کی وجہ سے تشہیر پا رہے ہوتے ہیں، ثابت شدہ سائنس سمجھ بیٹھا ہے جس کے نتیجے میں مذہب کا بیانیہ کمزور پڑتا ہے، مذہبی حلقوں میں سائنس سے نفرت پیدا ہوتی ہے، سائنس (بطور علم) کو مکمل دجال کا آلہ کار سمجھنے جیسے من گھڑت عقائد پیدا ہونے لگتے ہیں، سائنس کے اصولوں سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسی باتیں ہونے لگتی ہیں کہ “سائنس تو ہے ہی اس لئے کہ ہمجنس پرستی کے جواز گھڑے” اور پھر بالآخر سائنس ہی اس تنگ نظر بیانیے کو اپنی ہی تحقیق اور طریق سے غلط ثابت کر دیتی ہے۔
حرف آخر یہ کہ سائنس بطور علم مشاہدے، تجربے اور حساب پر قائم ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ اس میں dogmatism (عقیدہ سازی) کی کوئی گنجائش ہو۔ یہ نہ الحاد کی باندی ہے اور نہ مذہب کی۔ یہ اپنے تخیل سے تحقیق، تحقیق سے اصول، اصول سے رد اصول اور رد اصول سے متبادل اصول خود بناتی، توڑتی اور پھر بناتی ہے۔ سائنس یہ سارے کام خود کرتی ہے اور اس میں وہ مذہب یا الحاد سے مدد نہیں مانگتی۔ یعنی عین ممکن ہے کہ آج سائنس کی کوئی تحقیق الحاد کے بیانیے کو مطابقت فراہم کر رہی ہو تو کل خود سائنس اس کے برعکس تحقیق پیش کر دے جو مذہب کے بیانیے کی حمایت کرنے لگے (جیسا اس ہمجنس پرستی کی تحقیق میں ہوا) لہذا سائنس نہ تو وحی کے مقابلے میں حقیقت کو جاننے کا واحد ماخذ مانا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے بطور علم دجل و فتنہ کہ کر اس سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
ابو ابراھیم، ڈاکٹر فرحان کامرانی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password