مغالطہ:اچھاہوازینب تم مرگئی ورنہ مولوی تم سے چار گواہ مانگتے!

٭جنسی تشدد زنا کی قسم نہیں ہے، نہ ہی اس کےلیے معیار ثبوت زنا کا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ فقہاے کرام کی ساری بحث باہمی رضامندی سے کیے جانے والے زنا سے متعلق ہے۔ اکراہ کا ذکر اس میں دیگر اثرات کا جائزہ لینے کےلیے آیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ جرم کی نوعیت اور اس کا معیارِ ثبوت دو الگ امور ہیں اور انھیں الگ الگ ہی سمجھنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم پہلے جرم کی نوعیت پر بحث کرتے ہیں۔
جرم کی نوعیت سمجھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ریپ یا “زنا بالجبر” کا تصور ہے۔ اس تصور نے ہی فقہاے کرام کے موقف کو سمجھنا مشکل کردیا ہے اور انگریزی قانون کے اس تصور کا ملبہ فقہاے کرام پر ڈالا جاتا ہے۔ پچھلی پوسٹ میں جہاں امام سرخسی کے حوالے سے زنی بمکرھۃٍ کی صورت کا ذکر ہے وہاں وہ ایک سیریز آف کیسز کا حصہ ہے جس میں پہلے ہی سے زنا ثابت شدہ ہے اور وہ اس پر بحث کررہے ہیں کہ اس صورت میں جبکہ عورت پر زبردستی کی گئی تھی اور اس بنا پر عورت سے حد ساقط ہوگئی تو کیا مرد سے بھی ساقط ہوسکتی ہے کہ فعل اس نے تنہا تو نہیں کیا تھا؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مرد کا فعل الگ ہے اور عورت کا فعل الگ اور مرد کو اس کے فعل کی سزا دی جائے گی۔ اس لیے وہ زنا کی حد سے نہیں بچ سکتا۔ وہ یہاں یہ بحث کر ہی نہیں رہے کہ “زنا بالجبر” کا معیارِ ثبوت کیا ہے؟ ان کی بحث اس سوال پر ہے کہ جب زنا ثابت ہوچکا ہے لیکن ساتھ ہی اکراہ (جبر)بھی ثابت ہوا ہے تو کیا اکراہ کی وجہ سے زنا کی حد معطل ہوجائے گی؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ پس جہاں اکراہ بھی ثابت شدہ ہو اور زنا بھی ہو ثابت شدہ ہو تو اکراہ کرنے والے کو اکراہ کی سزا بھی دی جائے گی اور زنا کی بھی۔ یہ رہا ایک مسئلہ۔
اب آئیے دوسرے مسئلے کی طرف۔ جہاں صرف اکراہ ثابت ہو تو وہاں کیا کیا جائے گا؟ اس سیدھے سادے سوال میں ہی سارے مسئلے کی کنجی ہے۔ اس سیدھے سادے سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں اکراہ ثابت ہو وہاں اکراہ کی سزا دی جائے گی۔ اس پر سوال قائم ہوتا ہے کہ اکراہ کی سزا کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے بہت سے دیگر جرائم کی طرح اکراہ کے جرم کی سزا بھی متعین نہیں کی ہے بلکہ اسے حکمران کی صواب دید پر چھوڑا ہے جو اکراہ کی صورت اور نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر مناسب سزا مقرر کر سکتا ہے۔ سنگین صورتوں میں وہ سزاے موت بھی مقرر کر سکتا ہے۔ بہت زیادہ سنگین صورتوں میں وہ سزاے موت کےلیے کوئی عبرتناک طریقہ بھی تجویز کرسکتا ہے۔ یوں فقہاے کرام کےلیے یہ معاملہ حدود کا نہیں، بلکہ “سیاسہ” کا ہوا۔
اب سوچیے کہ اکراہ کی ممکن صورتیں کیا ہوسکتی ہیں؟ انسان کس حد تک وحشی ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی جامع و مانع فہرست مرتب کرنا کسی انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ہم صرف چند موٹی موٹی کیٹگریز ہی ذکر کرسکتے ہیں۔ ان کیٹگریز میں ایک کیٹگری “جنسی تشدد” کی ہے۔ اب اس پر سوچیے کہ جنسی تشدد کی ممکن صورتیں کیا ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی جامع مانع فہرست بنانا ممکن ہی نہیں۔ بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں جن میں ایک وہ صورت بھی ہوسکتی ہے جسے انگریزوں نے ریپ کہا اور پھر یہاں اس کےلیے زنا بالجبر کا ترجمہ رائج کرایا۔
اب اگر کسی شخص نے کسی عورت کو نوچا کھسوٹا اور دیگر کئی وحشیانہ طریقے اختیار کیے لیکن اس نے دخول فی القبل نہیں کیا تو وہ جنسی تشدد تو ہے لیکن زنا بالجبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر اس نے دخول فی الدبر کیا تو یہ جنسی تشدد تو ہے لیکن زنا بالجبر نہیں ہے۔ نہ ہی ان دونوں صورتوں کو ریپ کہا جاسکتا ہے (دیکھیے: مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 375)۔
اس لیے ایک تو ریپ اور زنا بالجبر کا تصور انتہائی حد تک ناقص ہے۔ جنسی تشدد کی بے شمار دیگر قسمیں، جو زیادہ سنگین بھی ہوسکتی ہیں، اس تعریف میں آتی ہی نہیں۔ دوسرا یہ کہ اسے “زنا” کی صورت بنا دیا گیا ہے، جو فقہاے کرام کے اصولوں کے مطابق غلط ہے۔ یہ زنا کی قسم نہیں بلکہ جنسی تشدد کی قسم ہے، اکراہ کی قسم ہے، سیاسہ جرم ہے۔
اس بحث کے بعد معیارِ ثبوت کا مسئلہ خود بخود واضح ہوگیا۔ جب جنسی تشدد کا جرم زنا کے جرم سے الگ جرم ہے اور اس پر سیاسہ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے تو پھر اس کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی شرط بھی ضروری نہیں ہے اور اس کی سزا بھی سو کوڑے یا رجم کے علاوہ کچھ اور شکل اختیار کرسکتی ہے۔

٭کیا جنسی تشدد کے ثبوت کےلیے چار گواہ چاہئیں؟
اسلامی قانون سے مناسبت رکھنے والے کسی بھی شخص سے یہ سوال پوچھیے۔ وہ اس کا جواب نفی میں دے گا۔ متخصصین فی المیزان کی ساری بحث ہی غلط نہج پہ چل رہی ہے اور ان کی سمجھ میں آ بھی نہیں رہا کہ انھیں غلطی کہاں سے لاحق ہوئی ہے کیونکہ بے چارے پروپیگنڈے کے متاثرین ہیں اور اس لحاظ سے قابلِ رحم ہیں۔
پروپیگنڈے کی وضاحت کےلیے اس امر پر غور کریں کہ پاکستان میں حدود آرڈی نینسز کے خلاف جو ہنگامہ اٹھایا گیا اور غامدی صاحب جس کےلیے zietgeist تھے، اس میں بار بار یہ جھوٹ دہرایا گیا کہ ریپ کی شکار خاتون سے چار گواہ طلب کیے جاتے ہیں اور وہ بے چاری چار گواہ کہاں سے لائے۔ کسی نے اتنی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ جرم زنا آرڈی نینس ایک دفعہ پڑھ کر تو دیکھ لیا جائے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ چلیں ہم آپ کو اس آرڈی نینس کی بعض دفعات پڑھوا دیتے ہیں۔
دفعہ 6 میں زنا بالجبر کی تعریف پیش کی گئی تھی اور دفعہ 8 میں اس کےلیے معیار ثبوت یہ رکھا گیا تھا کہ ملزم اقرار کرے یا اس کے خلاف چار گواہ پیش ہوں۔ آرڈی نینس کے ناقدین نے اس سے آگے پڑھنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی۔ دفعہ 10 میں قرار دیا گیا تھا کہ چار گواہ نہ ہوں تو کیا کیا جائے گا۔ ملاحظہ کریں:
whoever commits … zina-bil-jabr which is not liable to hadd, or for which proof in either of the forms mentioned in Section 8 is not available and the punishment of ‘qazf’ liable to hadd has not been awarded to the complainant, or for which hadd may not be enforced under this Ordinance, shall be liable to tazir.
اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ 3 میں قرار دیا گیا تھا:
Whoever commits zina-bil-jabr liable to tazir shall be punished with imprisonment for a term which may extend to twenty-five years and shall also be awarded the punishment of whipping numbering thirty stripes.
ان دفعات کی روشنی میں یہ دعوی قطعی غلط تھا کہ ریپ کی شکار خاتون اگر چار گواہ پیش نہ کرسکی تو ریپ ثابت نہ ہوتا، یا یہ کہ ریپ کے ثبوت میں ڈی این اے اور میڈیکل رپورٹس ناقابل اعتبار ٹھہرائی گئیں۔ ایسا نہیں تھا بلکہ معاملہ صرف اتنا تھا کہ چار گواہ “حد” کی سزا کےلیے درکار تھے۔ ڈی این اے اور دیگر رپورٹس اور ثبوتوں پر 25 سال تک قید اور 30 کوڑوں کی تعزیری سزا دی جاسکتی تھی۔
جہاں تک قذف کا تعلق ہے، ریپ کے مقدمے میں ایک امکان یہ بہرحال موجود ہوتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ملزم کو جھوٹے دعوے میں فریم کیا جارہا ہو۔ اس لیے اس آرڈی نینس میں یہ قرار دیا گیا کہ اگر الزام لگانے والی کو عدالت نے قذف کی سزا سنائی تو پھر ریپ کے ملزم کو ریپ کی تعزیری سزا نہیں دی جاسکے گی۔ یہ تو عین منطقی بات تھی۔ جب اس پر لگایا گیا الزام عدالت میں جھوٹا ثابت ہوا تو کیسے اسے ریپ کی سزا دی جاتی؟
قانون نے پولیس کو یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ ریپ کا الزام لگانے والی خاتون پر قذف کا مقدمہ بھی دائر کردے۔ قذف آرڈی نینس میں قذف کی تعریف صرف زنا کے الزام پر محیط تھی، نہ کہ زنا بالجبر کے الزام پر۔ تاہم پولیس، بالخصوص پنجاب پولیس، نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا جس کی وجہ سے مظلوم خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس سلسلے کو وفاقی شرعی عدالت نے روکا۔
یہ تو رہا حدود آرڈی نینسز اور “زنا بالجبر” کا معاملہ جس میں حدود آرڈی نینسز کے تحت بھی جرم کو چار گواہوں کے بجاے دیگر طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا تھا لیکن اس صورت میں حد کے بجاے تعزیر کی سزا دی جاتی۔
اس کے بعد (متخصصین فی المیزان کی سمجھ میں تو نہیں آئے گا لیکن عام لوگوں کے لیے واضح کردوں کہ) ہماری بحث “زنا بالجبر” پر نہیں بلکہ “جنسی تشدد” پر ہورہی ہے۔ کیا متخصصین فی المیزان کسی ایک فقیہ کا نام بتاسکتے ہیں جو جنسی تشدد کے ثبوت کےلیے چار گواہ لازمی سمجھتے ہوں؟
چلیں کسی ایسے فقیہ کا ہی نام بتادیں جو جنسی تشدد کے الزام کو قذف کہتا ہو۔
یہ بھی نہیں تو کسی ایسے فقیہ کا نام بتادیں جو “زنا بالجبر” کے الزام کو قذف کہتا ہو اور اس وجہ سے ثبوت میں چار گواہ مانگتا ہو۔
یہ بھی نہ ہوسکے تو کم از کم یہ تو مان لیجیے کہ فقہ اور فقہاے کرام کے متعلق آپ خواہ مخواہ کی بدگمانیوں میں مبتلا ہیں۔
صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کےلیے
تحریر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد چیئرمین شعبۂ قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password