حضرت محمد ﷺ کی 9 سالہ عائشہ ؓ سے شادی۔ مباحث کا ایک جائزہ

۔

1۔ تعارف

حدیث میں آتا ہے کہ:

” سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور ان کی رخصتی ہوئی وہ نو برس کی تھیں اور وہ آپ کے پاس نو برس رہیں”۔ [i]

 نبیﷺ کی حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی کا معاملہ اسلام پر مناظرانہ مباحث میں ایک ابتدائی مسئلہ ہے۔ اس کے پیچھے حقیقت کو سمجھنا اور سمجھانا بے شمار معاشرتی اور علاقائی عوامل کی وجہ سے اور مخصوص رویوں کی وجہ سے مشکل ہے، جو  خاص طور پر پچھلی صدی کے دوران بہت زیادہ تبدیل ہو چکے ہیں، ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شادی صرف پچھلی ایک صدی میں مناظروں اور مذہبی صحیفوں کے محافظین کا موضوع بنا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافے اور تبدیلی کے باعث تغیر کو سمجھنے کی اہمیت

 ابن خلدون (متوفی 808/1406) جو کہ ممتاز ترین آبادیاتی اور معاشرتی تاریخ دان تھے، انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں سے قطع نظرکرکے تاریخ پڑھنے کے خطرناک نتائج پر روشنی ڈالی تھی:

“تاریخ نگاری میں ایک چھپی ہوئی غلطی اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ہے کہ ادوار کی تبدیلی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوموں اور نسلوں کے اندرونی حالات بدل جاتے ہیں… دنیا اور اقوام کے حالات ، ان کے رواج اور مکاتب فکر کی حالت ایک ہی مستقل شکل میں برقرار نہیں رہتی ہے۔ زمانوں اور ادوار کے مطابق اختلافات ہیں ، اور ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ یہی حال افراد ، زمانوں اور شہروں کا ہے اور اسی طرح علاقوں اور اضلاع ، ادوار اور خاندانی سلسلوں میں بھی ہوتا ہے۔ “

انہوں نے مزید کہا کہ؛

“تمثیلی استدلال اور موازنہ کرنا معروف  انسانی فطرت ہے۔ انسان غلطی سے محفوظ نہیں ہیں۔ فراموشی اور غفلت انسان کو اس کے مقصد سے ہٹاتی ہےاور اسے اس کی منزل سے دور کر دیتی ہے۔ اکثر اوقات ، جو شخص ماضی کی تاریخ کا اچھی طرح سے مطالعہ کر چکا ہوتا ہے ، تاہم وہ حالات کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا۔ ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کے بغیر وہ اپنے  (موجودہ) حالات پر تاریخی معلومات کو لاگو کر دیتا ہے اور اپنی تاریخی معلومات کی مدد سے اپنی آنکھوں دیکھی چیزوں کی ناپ تول کرتا ہے ، حالانکہ دونوں کے درمیان فرق بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ، وہ گمراہی کے پاتال میں گر جاتا ہے”۔[ii]

 اسی مناسبت سے ، اخلاقیات اور صنفی میل جول پر موجودہ عہد کے نظریات کا اطلاق کرنا غلط ہے اور وہ بھی ایک ایسی تہذیب سے ادھار لیا جائے جو پچھلے 500 سال سے مسلسل معاشرتی ٹوٹ پھوٹ اور افتراق کا شکار ہے(یعنی مغربی تہذیب)، تاکہ ایک ایسی تہذیب پر ان نظریات کا اطلاق کیا جا سکےجو نہ صرف ایک بالکل ہی مختلف معاشرہ (اسلامی معاشرہ) رہا ہے بلکہ 1500 سال پرانا ہے۔

۔ساتویں صدی عرب کے مخصوص اور عجیب و غریب حقائق

لہذا ، اپنے موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے ساتویں صدی عرب کے بارے میں کچھ ضروری آبادیاتی حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

  • بلوغت کی عمر

بلوغت کی عمر ہر تہذیب میں مختلف ہوتی ہے۔ جغرافیائی حالات اور آب و ہوا کی کیفیت سے لے کر ثقافتی پہلو  کسی علاقے کی خاص خوراک اور صنفی کردار تک کے بہت سے عوامل اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک مطالعہ کے مطابق؛

“یہ بات مشہور ہے کہ جغرافیائی ، نسلی اور جینیاتی عوامل معاشرتی و معاشی حیثیت ، صحت ، خوراک اور جذبات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی بھی فرد کے لئے بلوغت کے آغاز کی صحیح عمر کا تعین کیا جا سکتا ہے”۔[iii]

ساتویں صدی عیسوی کے عرب میں لڑکیوں میں نو سال میں بلوغت کو قبل از وقت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کی اطلاع خود حضرت  عائشہ ؓ نے دی ہے اور اس کی تصدیق دیگر معلومات کے ذریعہ ہوتی ہے۔ حرب بن اسماعیل الکرمانی (وفات 280/893) فرماتے ہیں:

حدثنا إسحاق، قال: أنبا زكريا بن عدي، عن أبي المليح، عن حبيب بن أبي مرزوق، عن عائشة -رضي الله عنها-، قالت: إذا بلغت الجارية تسعا فهي امرأة

اسحاق نے ہم سے بیان کیا: زکریہ بن عدی نے ابو ملیح سے حبیب بن ابی مرزوق کا بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: “اگر لڑکی کی عمر نوسال ہو تو وہ مکمل جوان ہے”۔[iv]

البیہقی (متوفی 458/1066) اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

تعني والله أعلم فحاضت فهي امرأة

اس کا مطلب ہے ، “[نوویں سال میں] اسے حیض آتا ہے اور اس طرح ایک عورت ہے ، اور اللہ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے”۔[v]

اسی کو نبیﷺکی ایک حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے اگرچہ اس کی سند کمزور ہے۔[vi]

  • کم عمری کی شادیاں

بلوغت کے آغاز پر ہی ہونے والی شادیاں تاریخ میں باقاعدہ قلم بند ہیں۔ معاویہ بن ابی سفیان نے اپنی نو سالہ بیٹی ہند کا نکاح عبد الله بن عامر ابن كريز[vii]سے کیا۔ ابو العاصم الضحاک کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ان سے صرف بارہ سال بڑی تھیں۔ وہ سال 122/740 اور ان کی والدہ 110 / 728-29 میں پیدا ہوئی تھیں[viii]۔ لیث بن سعد کے کاتب ابو صالح (متوفی 223/837) نے بتایا کہ ایک شخص نے انہیں اپنی دس سالہ بیٹی کے بارے میں بتایا جو حاملہ ہو چکی تھی[ix]۔ اسی ابو صالح نے اپنے پڑوس کی ایک لڑکی کا ذکر کیا جو نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی[x]۔ الشافعی (وفات 204/820) نے بھی ذکر کیا کہ تہامہ (مغربی عرب) میں نو سال کی عمر میں ہی لڑکیاں بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اطلاع دی کہ صنعا (یمن) میں انہوں نے ایک اکیس سالہ دادی کو دیکھا[xi]۔ یہی اطلاع الحسن بن صالح (متوفی 169 / 785-86) سے ملی ہے[xii]۔ مرد بھی کبھی کبھی بہت کم عمری میں رشتہ ازدواج میں باندھ دیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر “عبد اللہ ؓبن عمرو ؓبن العاص” اپنے والد عمرو سے صرف بارہ سال چھوٹے تھے[xiii]۔

  • معاشرتی ساخت اور صنفی فرائض منصبی

آج کے دور کے برعکس، ڈیڑھ ہزار سال قبل کالج یا یونیورسٹی میں باضابطہ تعلیم مکمل کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ ہی کسی ایک یا کسی دوسرے شعبے میں روزگار کے مواقع ڈھونڈنے کا کوئی دباو ہوتا تھا، خاص طور پر خواتین کے لئے اور وہ بھی مکہ کے قبائلی معاشرے میں۔ اس طرح کی “مجبور کُن” تاخیری وجوہات کی عدم موجودگی میں، شادی کے قدرتی مرحلے کو بلوغت کے آغاز اور مناسب جسمانی نشوونما کے بعد زیادہ نہیں لٹکایا جاتا تھا (cf. Nina Epton’s observation about 20th century Britain below)

حضرت عائشہؓ بالغ ہو چکی تھیں:

متعدد عوامل یہ بتاتے ہیں کہ شادی کے وقت حضرت عائشہؓ واقعی بالغ ہو چکی تھیں۔

  • تکمیل شادی میں تاخیر

شادی کا معاہدہ یعنی نکاح اس وقت ہوا تھا، جب حضرت عائشہؓ کی عمر چھ یا سات تھی ، لیکن رخصتی میں دو سال سے اوپر عرصے کی تاخیر کی گئی، جب تک کہ حضرت عائشہؓ نو سال کی نہ ہو گئیں۔ طبری ، ایک ابتدائی صاحب سند نے اس لئے کہا کہ؛

 فأما عائشة فكانت يوم تزوجها صغيرة لا تصلح للجماع

جہاں تک حضرت عائشہؓ کی بات ہے ، جب انہوں نے ان سے شادی کی تھی تو وہ بہت چھوٹی تھیں اور ابھی تک خلوت کی عمر کو نہیں پہنچی تھیں[xiv]۔

اگر ابھی تک رخصتی صرف اس لئے نہیں کی گئی تھی کہ حضرت عائشہؓ چھوٹی تھیں ، تو صرف ایک ہی منطقی دلالت بنتی ہے کہ واقعی بلوغت اور جسمانی تبدیلیوں کے بعد ہی رخصتی ہوئی تھی۔

  • حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان

بلوغت کی عمر کے بارے میں اوپر بیان کردہ حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان بتاتا ہے کہ یہ خود ان کے لئے بھی درست تھا۔

  • حضرت عائشہؓ کے والدین نےرخصتی کی خود درخواست کی۔

حضرت عائشہؓ کے بلوغت کا ایک اور اہم ثبوت اس حقیقت میں ہے کہ نکاح کے تقریبا تین سال کے بعد ان کے والدین کے کہنے پر رخصتی کی گئی۔ وہ کہتی ہیں؛

عن عائشة قالت: تزوج بي النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست فاستحث النبي صلى الله عليه وسلم أبواي بالبنا۔

پیغمبرﷺ نے مجھ سے شادی کی جب میں چھ سال کی تھا۔ اس کے بعد میرے والدین نے رخصتی کرنے پر زور دیا (تین سال بعد)[xv]۔

 اور؛

إنا قدمنا المدينة فنزل مع عيال أبي بكر ونزل آل رسول الله ورسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ يبني المسجد وأبياتا حول المسجد، فأنزل فيها أهله، ومكثنا أياما في منزل أبي بكر، ثم قال أبو بكر: يا رسول الله , ما يمنعك من أن تبني بأهلك؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الصداق» . فأعطاه أبو بكر الصداق اثنتي عشرة أوقية ونشا، فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلينا، 

 “اس کے بعد ہم مدینہ پہنچے ، اور میں ابوبکرؓ کے بچوں کے ساتھ تھی ، اور (ابوبکرؓ) نبی اکرمﷺ کے پاس گئے۔ مؤخر الذکر اس وقت مسجد اور اس کے ارد گرد ہمارے گھر بنانے میں مصروف تھے ، جہاں انہوں نے (بعد میں) اپنی بیویوں کو رکھا۔ ہم ابوبکرؓ کے گھر میں کچھ دن رہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے (نبیﷺ) سے پوچھا: ” یا رسول اللہﷺ! آپ اپنی اہلیہ کو رخصت کیوں نہیں کرا لیتے؟  اِس میں کیا رکاوٹ ہے؟  (مراد یہ تھا کہ آپ اپنی زوجہ اپنے گھر کیوں نہیں بلوا لیتے؟)۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: اِس وقت میرے پاس مہر اداء کرنے کے لیے رقم موجود نہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آپﷺ کو ساڑھے بارہ اوقیہ یعنی 500 درہم دیے۔ سرورِ عالم ﷺ نے یہ تمام رقم حضرت عائشہ ؓ کو بھجوا دی اور اِس طرح آپ کی رخصتی عمل میں آئی “۔[xvi]

 محمد اسد کا کہنا ہے کہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ “ابو بکر ؓ کو نبیﷺ کو یاد دہانی کے طور پر کہنا پڑا کہ وہ اپنی دلہن کو لے جائیں” اور وہ کہتے ہیں کہ:

” یہ یاد دہانی یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ تب تک حضرت عائشہؓ بلوغت کو پہنچ چکی تھیں ، اور حضرت ابوبکر ؓکو اس کا علم ہو چکا تھا”۔[xvii]

مزید یہ کہ ، حضرت عائشہؓ نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ خلوت حضرت ابو بکرؓ کے گھر میں واقع ہوئی تھی۔

فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث من الخزرج في السنح، قالت: فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل بيتنا واجتمع إليه رجال من الأنصار، … فخرجوا وبنى بي رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتنا

” جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو ہم نے ” مقام سخ” میں بنو حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا، ایک دن نبی ﷺ ہمارے گھر میں تشریف لے آئے اور کچھ انصاری مرد و عورت بھی اکٹھے ہو گئے…..اس کے بعد مردوعورت یکے بعد دیگرے وہاں سے جانے لگے، اور نبی ﷺ نے ہمارے گھر میں ہی میرے ساتھ تخلیہ فرمایا”۔[xviii]

لہذا الطبری کہتے ہیں کہ؛

“ماہ شوال میں بدھ کے دن رسول اللہﷺ حضرت عائشہؓ کے ساتھ سنح میں حضرت ابوبکرؓ کے گھر میں شب باش ہوئے”۔[xix]

مذکورہ بالا روایت کے ساتھ یہ روئداد مؤثر طریقے سے ثابت کرتی ہے کہ حضرت عائشہؓ اپنے نکاح کے وقت بالغ نہیں تھیں۔ کیرن آرمسٹرونگ(Karen Armstrong) نے صحیح طور پر مشاہدہ کیا ، “طبری کا کہنا ہے کہ وہ اتنی چھوٹی تھیں کہ وہ اپنے والدین کے گھر میں رہ رہی تھیں اور بعد میں جب وہ بلوغت کو پہنچیں تو پھر رخصتی ہوئی تھی”۔[xx]

  • حضرت عائشہؓ کی والدہ کا ان کی جسمانی نشوونما کا خیال رکھنا

اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ حضرت عائشہ ؓکی والدہ نے ان کی جسمانی نشوونما میں خصوصی دلچسپی لی تھی جو بظاہر ان کو ازدواجی زندگی کے لئے تیار کرنے کے لئے تھی۔ خود حضرت عائشہؓ بتاتی ہیں:

أرادت أمي أن تسمنني لدخولي على رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلم أقبل عليها بشيء مما تريد حتى أطعمتني القثاء بالرطب، فسمنت عليه كأحسن السمن

“ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میری ماں میرے موٹا ہونے کا علاج کرتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ وہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کر سکیں، لیکن کوئی تدبیر بن نہیں پڑی، یہاں تک کہ میں نے ککڑی کھجور کے ساتھ ملا کر کھائی، تو میں اچھی طرح موٹی ہو گئی”۔[xxi]

اس حدیث کے مختلف طرق کے مطابق نہ صرف ان کی والدہ بلکہ ان کے علاوہ افراد بھی ان کی نشوونما پر مطمئن تھے[xxii]۔  اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی والدہ ان کو ازداجی زندگی کے لئے تیار کر رہی تھیں۔ اس میں ایک عقلی دلیل ہے کہ کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات ایک ماں کے یقین کی جگہ نہیں لے سکتے ، کم از کم کسی لڑکی کے پوشیدہ معاملات کے حوالے سے نہیں۔

5۔عائشہ بطور خوش اور کامیاب بیوی

وہ  نہ صرف شادی کے لئے ہی تیار تھیں ، بلکہ حضرت عائشہؓ دراصل ایک انتہائی خوشگوار شادی شدہ زندگی گزار رہی تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ ان سے محبت اور پیار کا اظہار کیا۔ وہ ایک ساتھ کھاتے پیتے اور آنحضرتﷺ گوشت کے ٹکڑے اور برتن پر ادھر ہی اپنا دہن مبارک رکھتے تھے جہاں حضرت عائشہؓ اپنا منہ رکھتی تھیں اور وہ بھی جب وہ حالت حیض میں ہوتی تھیں[xxiii]۔ وہ ایک ہی برتن سے پانی لیکر مل کر نہاتے[xxiv]۔ رسول اللہ ﷺ کبھی کبھی حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑ بھی لگاتے تھے[xxv]۔ در حقیقت ، پیغمبر اکرم ﷺ کی حضرت عائشہؓ کے ساتھ محبت ان کے ارد گرد کے لوگوں میں کافی مشہور تھی[xxvi]۔ اس کا ذکر انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے بھی کیا جس پر انہوں نے بھی حضرت عائشہؓ سے اپنی محبت کا اظہار کیا[xxvii]۔ اسی مناسبت سے ، لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کو تحفہ بھیجنے کے لئے حضرت عائشہؓ کی باری کے دن کا انتظار کرتے تھے[xxviii]۔ در حقیقت ، رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد بھی لوگ انھیں “اللہ کے رسولﷺ کی محبوب بیویؓ” (حبیبۃ الرسول اللہ[xxix]) اور ان کی عزیز ترین بیوی سے منسوب کرتے تھے[xxx]۔ حضرت عائشہؓ خود بھی رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتی تھیں اور ان کے لئے قربان ہونے کی خواہش کرتی تھیں[xxxi]۔

ایک بار حضرت عائشہ ؓ نے نبی اکرم ﷺکو عربی لوک داستانوں میں سے ایک کہانی کا ذکر کیا جس میں ام زر سمیت گیارہ خواتین اپنے شوہروں کے طرز عمل اور برتاو کا  بیان کرتی ہیں[xxxii]۔ جبکہ باقی عورتیں اپنے شوہروں کا ذکر منفی انداز میں کرتی ہیں، صرف ام زر اپنے شوہر ابو زر اور اس کے گھر والوں کی صرف اچھی باتیں بیان کرتی ہیں، سوائے اس کے کہ ابو ذر نے بعدازاں اسے طلاق دے دی اور ام زر نے ایک سردار سے شادی کی، جس نے اسے بہت سے تحائف عطا کیے۔ کہانی کے اختتام پر ام زر نے رائے دی کہ اس کے موجودہ سردار شوہر نے اسے جو بھی تحفے دیے ہیں وہ ابو زر سے ملنے والے سب سے کمتر تحائف کے مقابلے میں بھی بیکار تھے۔ قصہ سننے کے بعد ، رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا ، “میں آپ کے ساتھ اس طرح ہوں جیسے ابو زر ام زر کے ساتھ تھا ، (سوائے اس کے کہ ابو زر نے طلاق دے دی جب کہ میں نہیں دوں گا۔)”[xxxiii] اور حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ، “در حقیقت ، میرے نزدیک تو آپﷺ ابو زر سے بہتر ہیں”۔[xxxiv]

عمر کے فرق کے باوجود  حضرت عائشہؓ اور رسول اللہ ﷺکے مابین غیر معمولی بے تکلفی تھی۔ ایک بار حضرت عائشہ ؓ کی نبی اکرمﷺ کے ساتھ ان بن ہو گئی، جس میں ان کی آواز معمول سے اونچی  ہو گئی۔ اسی وقت حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسے سلوک کرنے پر عائشہ ؓ پر غصے کا اظہار کیا اور انہیں تھپڑ مارنے لگے۔ نبی ﷺ ، تاہم ، ان دونوں کے درمیان آ گئے اور جب ابوبکرؓ رخصت ہوئے تو آپ نے عائشہ ؓ سے کہا ، ”دیکھا تم نے میں نے تمہیں اس شخص سے کیسے بچایا“۔[xxxv]

اس کی مزید تصدیق حضرت عائشہ کے اپنے بیانات سے ہوتی ہے جو نہ صرف نبی اکرم سے محبت اور پیار کا ظہار کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ، ان کے لئے رشک بھی ظاہر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسی عورت پر مجھے اتنی غیرت نہیں آتی تھی جتنی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ذکر بکثرت کیا کرتے تھے”[xxxvi]۔ اسی پیرائے میں ایک عمدہ تمثیل کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واحد اہلیہ ہیں جو پہلے سے شادی شدہ نہیں تھیں[xxxvii]۔ روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے کہا ، “مجھے کیا ہوا جو میری سی زوجہ (کم عمر، خوب صورت) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے خاوند پر رشک نہ آئے؟”[xxxviii]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تفریح میں بھی اپنی جوان بیوی کی دلچسپیوں کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں کے ساتھ کھیلتی تھیں، جو رسول اللہ کے آنے پر چھپ جاتی تھیں ، لیکن حضرت عائشہ کا کہنا ہے کہ ، “پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں”[xxxix]۔ اسی طرح ، وہ مسجد کے صحن میں حبشیوں کے کھیل دیکھنے دیتے اور آپ اس وقت تک انتظار کرتے جب تک کہ حضرت عائشہ کھیل دیکھنا چاہتیں۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں:

“خدا کی قسم ،  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میرے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اپنی چادر سے مجھے چھپائے ہوئے تھے اور حبشی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں اپنے ہتھیاروں سے کھیلتے تھے تاکہ میں ان کے کھیل کو دیکھوں۔ پھر کھڑے رہتے تھے میرے لئے یہاں تک کہ میں ہی (سیر ہو کر) لوٹ جاتی تھی تو خیال کرو جو لڑکی کم سن اور کھیل کی شوقین ہو گی، وہ کتنی دیر تماشہ دیکھے گی (یعنی جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہتے تھے اور بیزار نہ ہوتے تھے یہ کمال خلق تھا)”۔[xl]

            اس طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ نو سال کی عمر میں ان کی شادی ، اس عمر کی خوشیوں میں رکاوٹ نہیں بنی تھی۔ کیونکہ اگر یہ شادی خوشگوار اور سازگار نہ ہوتی تو یہ با مسرت لمحات ممکن ہی نہ ہوتے۔

یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس طرح کے تعلقات کی بنا پر تھا کہ جب آیات تخییر (قرآن 33: 28) نازل ہوئی اور رسول اللہﷺکی ازواج مطہرات سے یہ فیصلہ کرنے کو کہا گیا کہ وہ ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں یا نہیں ، تب نبی ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا کہ وہ اپنے والدین سے مشورہ کر لیں اور فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کریں تو حضرت عائشہؓ نے جواب دیا ، ” آپ ﷺ کے مقدمہ میں میں ان سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اختیار کرتی ہوں اللہ کو اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو”۔[xli]

یہ تفصیلات رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کے مابین کمال موافقت کے بارے میں کچھ بھی کہنے کے لئے نہیں چھوڑتیں۔ اس سے قبل ہم نے حضرت عائشہؓ کا اپنا بیان دیکھا کہ ان کی والدہ نے انہیں ازدواجی زندگی کے لئے کس طرح تیار کیا اور ان کے والد نے نبی اکرم ؓ  کو رخصتی کی یاد  دہانی کرائی۔ کیا کسی کو یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ جب متعلقہ فرد اور اس کے والدین، سب اس شادی سے خوش تھے تو کسی اور کی رائے کی کیا اہمیت رکھتی ہے؟

گڑیوں کے ساتھ کھیلنا اور: فتح الباری کا حوالہ

ہم نے اس بات کا ثبوت دیکھا ہے کہ رخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ بلوغت کو پہنچ چکی تھیں اور یہ کہ نبی کریمﷺ انکی نسبتا کم عمری کی وجہ سے انکو اور انکی سہیلیوں کو گڑیوں سے کھیلنے دیتے اور تفریح کے دوسرے مواقع فراہم کرتے تھے۔ تاہم ، ان کا گڑیوں کے ساتھ کھیلنا نصاویر سے متعلق اسلامی قانون سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852/1449) نے صحیح بخاری کی شرح میں یہ بحث کی ہے، جس کو صحیح البخاری کے مترجم محسن خان نے اپنے ترجمے میں حضرت عائشہؓ کا گڑیوں سے کھیلنے والی حدیث میں خلاصہ بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں:

(گڑیا اور اس سے ملتی جلتی تصاویر کے ساتھ کھیلنا ممنوع ہے ، لیکن اس وقت حضرت عائشہ ؓکو اس کی اجازت تھی ، کیوں کہ وہ ایک چھوٹی سی لڑکی تھیں ، ابھی بلوغت کی عمر تک نہیں پہنچی تھیں۔) (فتح الباری صفحہ 143 ، جلد: 13)[xlii]

آئیے پہلے ابن حجر کا حوالہ مکمل طور پر دیکھیں؛

قال الخطابي في هذا الحديث أن اللعب بالبنات ليس كالتلهي بسائر الصور التي جاء فيها الوعيد وإنما أرخص لعائشة فيها لأنها إذ ذاك كانت غير بالغ قلت وفي الجزم به نظر لكنه محتمل لأن عائشة كانت في غزوة خيبر بنت أربع عشرة سنة إما أكملتها أو جاوزتها أو قاربتها وأما في غزوة تبوك فكانت قد بلغت قطعا فيترجح رواية من قال في خيبر ويجمع بما قال الخطابي لأن ذلك أولى من التعارض-

الخطابی نے کہا: “اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ گڑیوں کے ساتھ کھیلنا دوسری تصاویر کے استعمال کی طرح نہیں ہے، جس کی مذمت کی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ کو اس سے استثنا حاصل تھا کیوں کہ وہ ابھی بلوغت تک نہیں پہنچی تھیں (كانت غير بالغ)۔” میرے نزدیک ، یہ کہنا واضح طور پر (وہ ابھی تک بالغ نہیں ہوئی تھیں) قابل اعتراض ہے، کیوں کہ خیبر کی لڑائی کے واقعے کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر چودہ سال کے آس پاس تھی۔ تاہم تبوک کی جنگ کے وقت تک ، وہ یقینی طور پر بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ ان لوگوں کی روایت جو اس واقعے کو خیبر کے واقعہ کے قریب بناتے ہیں، اسی لئے ترجیح دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اس کی تطبیق (تصویروں کی ممانعت اور گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت سے متعلق حکم میں تضاد کے درمیان) کی گئی ہے جیسا کہ الخطابی نے بیان کیا کہ تطبیق تضاد سے بہتر ہے۔[xliii]

کچھ گذارشات پر غور کرنا پڑے گا؛ اول، اوپر حضرت عائشہ موضوع نہیں ہیں، نہ ان کی عمر اور نہ  ہی ان کی شادی، بلکہ یہ ایک بظاہر قانونی  تضاد کے بارے میں ہے، جو حضرت عائشہؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے  کھیلنے والی حدیث اور ان دوسری احادیث کے مابین  لگتا ہے جن میں زندہ ہستیوں کی تصاویر بنانے سے منع فرمایا گیا ہے۔ گوکہ ابن حجر الخطابی کے نقطہ نظر کی طرف جھکاو رکھتے ہیں، یہ جھکاو مضبوط دلائل کے بجائے مصالحت کی  ایک محتاط کوشش ہے۔

دوئم، جس روایت کو ابن حجر  نے حضرت عائشہ کی گڑیوں سے کھیلنے والی حدیث کا زمانہ معلوم کرنے کے لئے  ترجیح دی، اس میں پروں والے گھوڑے کا ذکر ہے، جو کہ ابو داود[xliv]، نسائی [xlv]، ابن حبان[xlvi] اور البیہقی [xlvii]میں مذکور ہے۔ جبکہ نسائی کی روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کسی مہم سے واپس لوٹے تھے۔ ابو داود کی روایت میں ایک راوی کو شک ہے کہ آیا رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس آئے تھے یا خیبر سے؟ اور بیہقی میں صرف تبوک کا ذکر ہے۔دوسری طرف ابن حبان والی روایت میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺ کسی بھی قسم کے سفر سے واپس لوٹے تھے۔ اس وجہ سے ابن حجر کے پاس کوئی واضح دلیل نہیں ہے کہ حدیث کے سیاق و سباق میں انہوں نے خیبر کو تبوک کی جگہ کیوں لیا۔

اس سے ہمارا اندیشہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ یہ ان نایاب مواقع میں سے ایک ہے جب ابن حجرنے جلد بازی میں خیبر کو تبوک پر فوقیت دی تاکہ الخطابی کے نقطہ نظر کو بظاہر معقولیت سے مماثلت دی جا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الخطابی نے قول پیش کیا تھا کہ “تطبیق تضاد سے بہتر ہے”۔اپنی جلد بازی میں وہ حضرت عائشہؓ کی شادی کی تفصیلات کو زیر غور نہ لا سکےاور الخطابی کی مصالحت کی غیر معقول  کوشش کے مضمرات کو نظر انداز کر گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ زیر غور روایت میں ابن حجر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ خیبر والے واقعہ کے وقت حضرت عائشہؓ بالغ نہیں ہوئی تھیں، جو 7 ہجری میں پیش آیا[xlviii]۔ جبکہ فتح الباری میں ہی دوسری جگہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کا مسجد میں حبشیوں کا کھیل دیکھنے والے واقعہ اسی سال (یعنی 7 ہجری)  پیش آیا اور صاف واضح الفاظ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ اس وقت تک بالغ ہو چکی تھیں۔ وہ لکھتے ہیں:

فالظاهر أن ذلك وقع بعد بلوغها وقد تقدم من رواية بن حبان أن ذلك وقع لما قدم وفد الحبشة وكان قدومهم سنة سبع فيكون عمرها حينئذ خمس عشرة سنة۔

          “واضح طور پر، یہ حضرت عائشہؓ کے بالغ ہونے کے بعد(وقع بعد بلوغها) ہوا اور یہ پہلے ہی  ابن حبان کی ایک روایت میں  آ چکا ہےکہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب حبشہ سے ایک وفد آیا تھا۔ یہ عام علم ہے کہ وہ 7 ہجری میں آئے تھے، اور لہذا حضرت عائشہؓ اس وقت 15 سال کی تھیں”۔[xlix]

            ابن حجر نے اس کی مدد سے ایک معروضہ پر استفسار کیا تھا کہ شاید اس وقت تک حضرت عائشہؓ بالغ نہیں ہوئی تھیں اور انہوں نے یہی نکتہ ایک اور موقع پر بھی دہرایا تھا[l]۔ مزید برآں، انہوں نے اپنی کتاب التلخیص الحبیر میں ایک حدیث پر بحث کرتے ہوئے، جس میں پردوں کا ذکر آیا جن پر پروں والے گھوڑے بنے ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں؛

ورد قولها: الخيل ذوات الأجنحة في: حديث آخر لعائشة أيضا: أنها كانت تلعب بذلك وهي شابة ، لما دخل عليها رسول الله – صلى الله عليه وسلم – في قدومه من غزاة. أخرجه أبو داود والنسائي والبيهقي۔

        “حضرت عائشہؓ کے الفاظ “پروں والا گھوڑا” ایک اور حدیث میں بھی آتے ہیں، (جس میں ہے کہ)جب وہ نوعمر تھیں (وهي شابة)اور اس سے کھیل رہی تھیں، تب رسول اللہ ﷺ کسی غزوہ سے واپسی پر ان کے پاس  پہنچے یہ حدیث ابو داود، نسائی اور بیہقی میں مرقوم ہے”۔[li]

            اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الخطابی اور ابن حجر، دونوں زیر بحث قول کی شرح میں غلطی کھا گئے ہیں۔ یقیناً غیر معمولی ذہین افراد سے بھی کبھی کبھار بھول چوک ہو سکتی ہے اور پاک ذات صرف اللہ سبحانہ و تعالی کی ہے۔

            ایک مختصر اضافہ یہ ہے کہ زندہ اشیاء کی تصاویر کی ممانعت کے مسئلے  اور حضرت عائشہؓ کی گڑیوں سے کھیلنے والی حدیث کے تناظر میں، علماء نے یا تو یہ کہا ہے کہ ممانعت بعد میں ہوئی تھی، یا گڑیاں وغیرہ عمومی ممانعت سے مستثنی ہیں۔ زیادہ تر علماء کا موقف بعد والا ہے۔[lii]

حضرت عائشہؓ کی رسول اکرمﷺ سے شادی پر تنقید کی تاریخ اور اسباب۔

ہم نے پہلے اس بات پر بحث کی ہے کہ ساتویں صدی کے عرب میں شادی کی مناسب عمر کے بارے میں  تصورات اور بلوغت کے آغاز    کے بارے میں ذہنی نظریات بالکل مختلف تھے۔ حالات اتنی شدت سے نہیں بدلے جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ جو بدلا ہے، وہ تصورات اور قیاسات اور اصول و ضوابط ہیں۔ صنعتی انقلاب اور اس کے ساتھ لازم و ملزوم شہری طرز زندگی میں اضافہ ، شادی کے بارے میں تصورات اور رویوں میں بدلاو کا باعث ہیں۔اگرچہ اتنے طاقتور عوامل نے بھی ان تصورات کی تبدیلی میں  ایک بڑا طویل عرصہ لیا۔

انیسویں صدی کے آخر تک، بہت ساری امریکی ریاستوں میں سن بلوغت 10 سال تک تھی اور ڈیلاوییر (Delaware) کی ریاست میں یہ عمر 7 سال تھی[liii]۔یونیسکو (UNESCO)کی ہندوستان میں  ایک تحقیق کے مطابق دیہی آبادی کا 40 فیصد 11 سے 14 سال کی عمر کو لڑکیوں کی شادی کی مناسب عمر سمجھتا تھا۔ جبکہ ان میں سے 11 فیصد کے مطابق 8 سے 10 سال کی عمر لڑکیوں کی شادی کی بہترین عمر تھی۔اور ان اعداد و شمار  کا تقریباً آدھا ان لوگوں میں پایا گیا جو دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کر چکے تھے۔[liv]

یہاں تک کہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشروں میں، جہاں شادی کی کم از کم عمر کو بالغ ہونے کی عمر سے کھینچ تان کر آگے کر دیا گیا ہے، اس نمونہ کے مطابق نہیں چلے۔ نینا ایپٹنNina Epton،( d. 2010) اپنی تصنیف  میں لکھتی ہیں:

     “شیکسپییر کی جولیٹ 14 سال کی تھی۔ آجکل کی جولیٹ تقریباً ہم عمر ہیں، جبکہ والدین، اساتذہ اور سماجی کارکنان کو اس حقیقت اور اس کے قدرتی نتائج  کا اندازہ لگانے میں بہت وقت لگا ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے جسمانی طور پر جلدی بالغ ہو رہے ہیں۔ کچھ ڈاکٹر وں کی مطابق یہ فرق اس صدی کے شروع  کے مقابلے میں  2 سال کا ہے……

آج کی جولیٹ، گو کہ ، 14 سال کی عمر میں شادی نہیں کر سکتی۔ مزید برآں، موجودہ روش کسی ہوئی چوٹی یا دم دار چوٹی کا ہے، گوکہ وہ کب کی بالغ ہو گئی ہوتی ہے۔ سکول ختم کرنے کی عمربڑھا دی گئی ہے، جبکہ اس کو مزید بڑھانے کا سوچا جا رہا ہے۔ جولیٹ سکول ختم ہونےسے بہت پہلے ہی دوستیاں اور آشنائیاں شروع کر دیتی ہے”۔[lv]

مزید یہ کہ، ایک رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے،جس میں بتایا گیا کہ  50 میں سے ایک لڑکی 17 سال سے پہلے حاملہ ہو جاتی ہے، وہ کہتی ہیں کہ، ” بہت سارے ایسے کیسز بھی ہیں جن میں 11 اور 12 سالہ لڑکیاں بچوں کو جنم دیا ہے”۔[lvi] وہ ایک ہیڈ ماسٹر کو قول بھی نقل کرتی ہیں، ” میرے سکول میں معاشقے 5 سال کی عمر میں شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر آپ کو نظر آنا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ پر کشش لگنا شروع ہو جاتی ہیں”[lvii]۔اس کے بعد وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ” ویرانوں میں نمو پذیر نو عمر بچوں میں آزادانہ ناجائز تعلقات قائم ہوتے ہیں”۔[lviii]

ان عوامل کے ادراک کی روشنی میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ  بیسویں صدی کے شروع تک حضرت عائشہ ؓ کی چھوٹی عمر میں شادی کے مسئلے کو کسی مغربی مصنف نے نہیں اٹھایا۔بلکہ  17ویں صدی کے آخر میں  ہمفری پریڈاکس() نے اپنی کتاب ، ”  The True Nature of Imposture, Fully Displayed in the Life of Mahomet“، میں اس شادی کی توجیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ لکھتے ہیں:

“اس وقت عائشہؓ صرف 6 سال کی تھیں، اور انہوں(رسول اللہ ﷺ) نے ان سے دو سال تک خلوت نہیں کی، جب تک کہ وہ مکمل آٹھ سال تک کی نہیں ہو گئیں۔ کیونکہ ان گرم ممالک میں میں ایک معمول کی بات ہے، جیسا کہ پورے ہندوستان میں ہوتا ہے، جو کہ عرب کے موسم سے مماثلت رکھتا ہے، کہ وہاں کی خواتین اس عمر میں  شادی کے لائق ہو جائیں اور اس سے اگلے سال بچے پیدا کرنے کے لئے بھی تیار ہوں”۔[lix]

اس مشاہدہ کی تصدیق ای ڈبلیو لین E.W. Lane  (d. 1876) نے بھی کی ہے، جو  19ویں صدی کے پہلے حصے میں مصر میں رہتے تھے[lx]۔ اور محمد اسد نے بھی ایسے ہی ملتے جلتے واقعات کا ذکر کیا ہے، جب وہ بیسویں صدی کے شروع میں عرب میں رہائش پذیر تھے۔[lxi]

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ واشنگٹن ارونگ(Washington Irving (d. 1859)) اور ولیم مویر (William Muir (d. 1905))، جو کہیں سے بھی رسول اللہﷺ کے ہمدرد نہیں تھے، نے اس مشہور حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ حضرت عائشہؓ شادی کے وقت کم عمر تھیں مگر اس کا ذکر ایک قابل ملامت واقعہ کی حیثیت سے نہیں کیا[lxii]۔ دوسری طرف، جان ڈیونپورٹ (John Davenport (d. 1877))، “جنہوں  نے ایک عاجزانہ اور سنجیدہ کوشش کی تاکہ تاریخ میں حضرت محمد ﷺ پر سے غلط اور تنگ نظر الزامات دور کیے جا سکیں”،نے حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر کا ذکر کرنےکی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ ڈی ایس مارگولییتھ (D. S. Margoliouth (d. 1940)) مبینہ طور پر پہلا شخص تھا جس نے اس شادی کا ذکر توہین آمیز انداز میں کیا اور وہ بھی ایک جملہ معترضہ کے طور پر، جس کا اصل مقصد رسول اللہ ﷺ کی غزوہ بدر کے بعد غریبی کے حالات کو اجاگر کرنا تھا۔وہ لکھتا ہے:

“رسول اللہﷺ کس قدر کفایت شعار تھے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ مدینہ آنے کے 7 ماہ بعد جب ان کی شادی حضرت عائشہؓ سے ہوئی تو ولیمہ نہیں کیا۔ چونکہ ان کے والد، ابو بکر صدیق نے دولہا کو دلہن کے لئے حق مہر دیا تھا، شاید یہ بے جوڑ اتحاد (اس طرح ہمیں اس 53 سال کے آدمی کی 9 سال کی لڑکی سے، جسے جھولے اور کھلونوں میں سے اٹھا کر، شادی کی تصویر کشی کرنی ہو گی)اس لئے جلدی جلدی کیا گیا تاکہ کچھ پیسے فوراً حاصل ہو جائیں”۔ [lxiii]

گو کہ مارگولییتھ کے بعد تمام مستشرقین نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا[lxiv]،  مگر اب یقیناً یہ اسلام پر تنقید کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔[lxv]

گو کہ پہلے ذکرکردہ حقائق کی روشنی میں اس مسئلے کی کھوج لگانا کسی منطقی ذہن کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مغربی عیسائیت کا تاریخی ارتقاء، یا مغرب میں اخلاقی فلسفہ کی “تنزلی” جدید عالمی نظام میں سیکولر  سامراجیت کے دوہرے معیارات کو نمایاں کرتے ہیں، جس میں صرف رسول اللہ ﷺ ہی اپنی شادی کے واقعے پر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔[lxvi]

نہ صرف یہ کہ کچھ امریکی ریاستوں میں ابھی تک شادی  کی کم از  کم عمر کا تعین نہیں ہے اور کئی حالات میں “کم عمری کی شادیاں” ہوتی بھی ہیں[lxvii] ۔ سلسلہ وار مراحل طے کئے جا رہے ہیں تاکہ نا بالغ بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو ایک عام سی بات بنا دیا جائے[lxviii]۔ جدید مغرب میں ویسے ہی روایتی شادی کا تصور ایک غیر مفید چیز بن چکی ہے، نوشتہ دیوار کہہ رہا ہے کہ شیر خوار بچوں تک کے جنسی استحصال کا جواز فطری جنسی دلچسپی کی حیثیت سے کیا جائے گا۔حیرانگی یہ ہے کہ تاریخ اور اقدار کے تغیر و تبدل   سے بھرپور ایک تہذیب کے اصول و ضوابط کیسےایک طے شدہ معروضی اصول کے تحت لئے جا سکتے ہیں تاکہ کچھ افعال پر ، صورتحال کے کسی بھی پہلو پر غور کئے بغیر فیصلہ صادر کیا جا سکے۔

حضرت عائشہؓ کی شادی مسلمانوں کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ۔

حضرت عائشہ غیر معمولی طور پر ذہین و فطین تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ رسول پاک ﷺ کے معیت، ان کی  تحقیق پسند فطرت، معاملات کی رمز شناسی کی صلاحیت اور کمال حافظہ نے ان کو ایک ایسی عالمہ بنا دیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ابو موسی الاشعریؓ، جو ایک مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں، گواہی دیتے ہیں کہ:

” ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور ملی”۔[lxix]

حقیقتاً، روایات میں آتا ہے کہ حتی کہ کبار صحابہ بھی حضرت عائشہؓ سے وراثت جیسے  پیچیدہ مسائل پر مشورہ لیتے تھے[lxx]۔ حضرت عائشہؓ نے بے شمار صحابہ کی احادیث رسولﷺ کی تفہیم اور خبر کی درستگی کی۔ الزرخشی ایسے 74 واقعات کا ذکر کرتے ہیں[lxxi]۔ کچھ احادیث ایسی تھیں، جن کی تفہیم ایسے اسلوب میں کی گئی کہ اس سے صنف نازک کی قدر گھٹتی تھی یا ان پر غیر ضروری قانونی بوجھ پڑتا تھا، لیکن حضرت عائشہؓ نے ان کے اصل معانی  کو واضح کیا۔ اس میں نماز کے دوران عورت کا آگے سے گزرنا، عورت بحیثیتِ نحوست اور نہاتے وقت چٹیا کھولنے کا مسئلہ شامل ہے۔

یہ اس لئے تھا کہ وہ زیادہ تر صحابہ کے مقابلے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث کو بہتر سمجھتی تھیں۔ محمود لبیدکہتے ہیں: “رسول پاک ﷺ کی ازواج کو احادیث کی ایک بڑی تعداد یاد تھی مگرحضرت عائشہؓ اور  حضرت ام سلمہؓ کی طرح کوئی یاد نہیں رکھتا تھا۔ حضرت عائشہؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دور میں اور اس کے بعد اپنی وفات کے وقت تک فتوی دیتی تھیں۔ اللہ ان پر اپنی رحمتوں کا نزول کرے۔رسول پاک ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ ان سے مختلف مسائل پر نبوی اسوہ کے بارے میں استفسار کرتے تھے[lxxii]۔ ابن حزم کہتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ سے 2210 احادیث مروی ہیں[lxxiii]۔ مزید برآن، ان کی تحقیق پسند فطرت اور رسول اللہ ﷺ سے  بے تکلفی کی وجہ سے وہ آپ ﷺ سے وہ سب سوالات کر لیتی تھیں، جو دوسرے نہ کر پاتے تھے[lxxiv]۔یہ تفصیلات ہمیں حضرت عائشہؓ کا ایسا روپ دکھاتی ہیں، جو ایک مظلوم کم عمر لڑکی کا نہیں ہے بلکہ ایک پر اعتماد اور واجب التعظیم عائشہؓ کا ہے جو اسلام کو خاص اور پاک کرنے اور اس کی ترویج کی صف اول میں کھڑی نظر آتی ہیں۔

خلاصہ اور نتیجہ

حضرت عائشہؓ کی شادی اپنے زمانے کے معمول سے مطابقت رکھتی تھی جو کسی قانون یا عقلی توجیح کے خلاف نہیں تھی۔ ان کی سوانح حیات اور  زندگی کاڈھنگ اس سے کہیں برتر و اعلی تھا کہ اس بات پر بحث و جدل کیا جائے کہ ان کی عمر کیا تھی اور کیا ہونی چاہیے تھی۔سب سے بڑھ کر انہوں نے  آشکار کیا کہ اسلام نے کیسے اپنے آخری اور دائمی نمونہِ زندگی یعنی حضرت محمد ﷺ کے ذریعے ا یک عورت کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔نہ صرف ایک زندگی کے ساتھی کی حیثیت سے بلکہ اسلام نے عورت کو ایک عالمی تہذیب کی بنیادیں کھڑی کرنے کے قابل بنایا، جو صدیوں سے جاری شدید حملوں اور تمام سیاسی و معاشرتی مخالفتوں کے سامنے مضبوط دیوار کی طرح کھڑا رہا ہے۔ اسلامی قانون کی ترویج و اشاعت اور اسلامی طرز زندگی کی کامیابیوں میں     حضرت عائشہؓ کی شخصیت کی اہمیت اس قدر زیادہ ہےکہ ہم اس حقیقت کی داد دینے پر مجبور ہیں کہ یہ شادی الہامی وحی کے ذریعے  وقوع پذیر ہوئی اور رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہؓ کو بعد میں بتاتے ہیں کہ:

” تم مجھے دو مرتبہ خواب میں دکھائی گئی ہو۔ میں نے دیکھا کہ تم ایک ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور کہا جا رہا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں ان کا چہرہ کھولئے۔ میں نے چہرہ کھول کر دیکھا تو تم تھیں۔ میں نے سوچا کہ اگر یہ خواب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے تو وہ خود اس کو پورا فرمائے گا”۔[lxxv]

بہرحال یہ بات غورطلب ہے کہ رسول پاکﷺ کی جن دو شادیوں کو ناقدین نے سب زیادہ موضوع سخن بنایا، دونوں ہی محفوظ شدہ وحی کے ذریعے وقوع پذیر ہوئیں۔ اگرچہ زینب بنت جحشؓ کے ساتھ شادی پہلے دن سے ہی  ہر قسم کی گفتگوکا محور بنی رہی ہے، حضرت عائشہؓ کے ساتھ شادی، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، ایک عام موضوع حال ہی میں بنا ہے(اس واقعہ سے خواب میں وحی الہی اور بھی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے)۔


تحریر : وقار اکبر چیمہ ، ترجمہ علی ایمن رضوی

تحریر انگلش میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

حوالہ جات:

[i] صحیح البخاری، حدیث نمبر 5134۔

[ii] Ibn Khaldun, al-Tarikh (Diwan al-Mubtada’ wa al-Khabr …), (Beirut: Dar al-Fekr, 1988) Vol.1, 37-39, translated in Franz Rosenthal, Muqaddimah – An Introduction to History, Abridged and edited by N. J. Dawood (New Jersey: Princeton, 2005) 24-26

[iii] Nancy J. Hopwood, et al, “The Onset of Human Puberty: Biological and Environment Factors” in John Bancroft & June Machover Reinisch, Adolescence and Puberty, (New York: Oxford University Press, 1990) 40; see also Craig A. Hodges & Mark R. Palmert, “Genetic Regulation of the Variation in Pubertal Timing” in Ora H. Pescovitz & Emily C. Walvoord, When Puberty Is Precocious: Scientific and Clinical Aspects, (Totowa: Humana Press, 2007) 84

[iv] Al-Kirmani, Harb bin Isma’il, Masa’il (Al-Taharah wa Al-Salah), Ed. Muhammad bin Abdullah Al-Sari‘ (Beirut: Al-Rayan Publishers, 2013) 587, No. 1289; see also al-Tirmidhi, al-Sunan/ al-Jami’ al-Kabir, (Riyadh: Maktaba Dar-us-Salam, 2007) Vol.2, 480 (under hadith 1109); al-Baihaqi, Abu Bakr,  Sunan al-Kubra (Beirut: Dar al-Kotob al-‘Ilmiya, 2003) Vol.1, 476, where it is mentioned without isnad (chain of narrators); Prominent Hanbali scholars have mentioned that Ahmad bin Hanbal reported this statement of ‘Aisha with isnad. See, Al-Maqdisi, Ibn Qudama, al-Mughni, (Cairo: Maktaba al-Qahira, 1968) Vol.7, 42; Ibn ‘Abd al-Hadi, Shams al-Din, Tanqih al-Tahqiq fi Ahadith al-Ta’liq, (Riyadh: Adwa’ al-Salaf, 2007) Vol.4, 324. It is, however, not found in Musnad and other well-known works of Ahmad bin Hanbal. Al-Albani too was unable to trace an isnad for this, see his Irwa’ al-Ghalil fi Takhrij Ahadith al-Manar al-Sabil, (Beirut: Maktab al-Islami, 1985) Vol.6, 229; Al-Kirmani’s work which, as quoted here, includes an isnad for this report, though not through Ahmad b. Hanbal, was first published in 2013 and was inaccessible to al-Albani (d. 1999).

[v] Al-Baihaqi, Abu Bakr,  Sunan al-Kubra, Vol.1, 476

[vi] Al-Asbahani, Abu Nu‘aim, Akhbar Asbahan, (Beirut: Dar al-Kotob al-Ilmiyah, 1990) Vol.2, 243; Al-Albani, Nasir al-Din, Irwa’ al-Ghalil fi Takhrij Ahadith al-Manar al-Sabil, Vol.1, 199

[vii] Ibn ‘Asakir, Abu al-Qasim, Tarikh al-Damishq, (Beirut: Dar al-Fekr, 1995) Vol.70, 188

[viii] Al-Kalabadhi, Abu Nasr, al-Hidaya wa al-Irshad fi Ma’rifah Ahl al-Thiqa wa al-Sidad, (Beirut: Dar al-Ma‘rifa, 1407 AH) Vol.1, 370; Ibn ‘Asakir, Abu al-Qasim, Tarikh al-Damishq, Vol.24, 358, 361

[ix] Ibn ‘Adi, Abu Ahmad, al-Kamil fi al-Du‘afa al-Rijal, Vol.5, 343

[x] Ibid

[xi] Al-Baihaqi, Abu Bakr,  Sunan al-Kubra, Vol.1, 476

[xii] al-Dainwari, Ibn Qutaiba, al-Ma‘arif, (Cairo: al-Ha’iyah al-Misriyya, 1992) 287; Al-Baihaqi, Sunan al-Kubra, Vol.1, 476

[xiii] Al-Kalabadhi, Abu Nasr, al-Hidaya wa al-Irshad fi Ma‘rifah Ahl al-Thiqa wa al-Sidad, Vol.1, 386; Ibn ‘Asakir, Abu al-Qasim, Tarikh al-Damishq, Vol.31, 244

[xiv] Al-Tabari, Ibn Jarir, Tarikh al-Rusul wa al-Muluk, (Beirut: Dar al-Turath, 1387) Vol.3, 161 translated in Poonawala, Ismail K., The History of al-Tabari: Volume IX – The Last Years of the Prophet, (Albany: State University of New York Press, 1990) 128

[xv] Al-Isbahani, Abu Nu‘aim, Al-Tibb al-Nabawi, Ed. Mustafa Khezr Dönmez (Beirut: Dar Ibn Hazm, 2006) Vol.2, 732 No. 82; Abu Nu‘aim’s other work Akhbar Isbahan has the same report with the wording “فاستحث النبي صلى الله عليه وسلم أبوي بالبناء” replacing أبواي with أبوي. See, Akhbar Isbahan, Ed. Seyyed Kasrawi Hassan (Beirut: Dar al-Kotob al-‘Ilmiya, 1990) Vol.1, 233. This alters the meaning altogether and makes ‘Aisha say, “The Prophet then urged my parents for consummating the marriage.” It is, however, Al-Tibb al-Nabawi version which appears to be the correct firstly because its critical edition is based on six manuscripts and the editor mentions no variance across these manuscripts for the word under consideration whereas even Akhbar Isbahan’s recent edition is reprint of the Leiden edition which in turn was based on a single manuscript. See, Dedering, Sven, (ed.), Dhikr Akhbar Isbahan, (Leiden: E.J. Brill, 1934) Vol.2, x (Foreword). Secondly, Al-Tibb al-Nabawi version is corroborated by another report given below.

[xvi] Ibn Sa’d, Tabaqat al-Kubra, (Beirut: Dar al-Kotob al-‘Ilmiyah, 1990) Vol.8, 50; Al-Tabari, Ibn Jarir, Tarikh al-Rusul wa al-Muluk, Vol.11, 601-602 translated in Tasseron-Landau, Ella, The History of al-Tabari: Volume XXXIX – Biographies of the Prophet’s Companions and Their Successors, (Albany: State University of New York Press, 1998) 172-173; the narrations ends with statement of ‘Aisha, “He consummated our marriage in my house, the one where I live now and where he passed away” which contradicts an assertion below.

[xvii] Asad, Muhammad, Sahih al-Bukhari – The Early Years of Islam (Gibraltar: Dar al-Andalus, 1981) 199

[xviii] Ahmad bin Hanbal, al-Musnad, (Beirut: Al-Resalah Publications, 2001) Hadith 25769; classified as hasan by Ibn Hajar al-‘Asqalani and Shu‘aib al-Arna’ut. See also, Al-Halabi, Abu al-Faraj, Insan al-‘Uyun fi Sirat al-Amin al-Ma’mun, (Beirut: Dar al-Kotob al-‘Ilmiyah, 1427 AH) Vol.2, 167

[xix] Al-Tabari, Ibn Jarir, Tarikh al-Rusul wa al-Muluk, Vol.2, 400 translated in McDonald, M.V., The History of al-Tabari, Volume VII – The Foundation of the Community, (Albany, State University of New York Press, 1987) 8.

[xx] Armstrong, Karen, Muhammad: A Biography of the Prophet, (San Francisco: Harper, 1992) 157

[xxi] Al-Sajistani, Abu Dawud, al-Sunan, , (Riyadh: Maktaba Dar-us-Salam, 2008) Hadith 3903; Ibn Majah, al-Sunan, (Riyadh: Maktaba Dar-us-Salam, 2007) Hadith 3324; classified as sahih by al-Albani

[xxii] Ibn Abi ‘Asim, al-Ahad wa al-Mathani, Hadith 3022; Al-Isbahani, Abu Nu‘aim, Al-Tibb al-Nabawi, No. 840

[xxiii] Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, (Riyadh: Maktaba Dar-us-Salam, 2007) Hadith 300; compare this to the Biblical instructions in the Book of Leviticus (15:19-33) that term one touching an object a woman in menses has touched impure.

[xxiv] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 250, 261; Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 321 (46)

[xxv] Al-Sajistani, Abu Dawud, al-Sunan, Hadith 2578; Ahmad b. Hanbal, al-Musnad, Hadith 26277; classified as sahih by al-Albani and Shu‘aib al-Arna’ut; the second race happened in Sha‘ban 4/January 626 at the eve of second campaign to Badr. See, al-Tahawi, Abu Ja‘far, Sharh Mushkil al-Athar, (Beirut: Al-Resalah Publishers, 1994) Hadith 1881; Ibn Hisham, ‘Abd al-Malik, Sirah al-Nabawiyya, Edited Mustafa Saqa, (Cairo: Mustafa Babi, 1955) Vol.2, 209;

[xxvi] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 3662 (Narrated by ‘Amr b. al-‘As)

[xxvii] Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 3442 (83)

[xxviii] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 2574, 2581, 3775

[xxix] This is related from; (i) ‘Umar b. al-Khattab: Ibn Sa‘d, al-Tabaqat al-Kubra, Vol.8, 53, (ii) ‘Ammar b. Yasir: al-Tirmidhi, al-Sunan/ al-Jami’ al-Kabir, (Riyadh: Maktaba Dar-us-Salam, 2007) Hadith 3888; one version of the report adds that ‘Ali b. Abi Talib was present when ‘Ammar said this and he listened to him silently implying his approval, see Ahmad b. Hanbal, Fada’il al-Sahaba, (Beirut: al-Resalah Publishers, 1983) Hadith 1625 (iii) Masruq: Ibn Sa‘d, al-Tabaqat al-Kubra, Vol.8, 53

[xxx] As stated by ‘Amir al-Sha‘bi, see al-Tabarani, Abu al-Qasim, Mu‘jam al-Kabir, (Cairo: Maktaba Ibn Taimiya, 1994) Hadith 293; its narrators are those of al-Sahih [of al-Bukhari], see al-Haithami, Majm‘ al-Zawa’id, (Cairo: Maktaba al-Qudsi, 1994) Hadith 15322

[xxxi] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 4939; Ahmad b. Hanbal, al-Musnad, Hadith 24519, 24596

[xxxii] [32] In some versions it is reported as if ‘Aisha related the story while in others it appears to have come all from the Prophet (ﷺ). Ibn Hajar gives a reasonable way to explain the attribution of the description of the whole story to the Prophet (ﷺ). See, al-‘Asqalani, Ibn Hajar, Fath al-Bari, (Beirut: Dar al-Ma’rifa, 1379 AH) Vol.9, 257;

[xxxiii] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 5189; Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 2448 (92); for the words; “except that Abu Zar‘ divorced while I would not.” See, al-Tabarani, Abu al-Qasim, Mu‘jam al-Kabir, Vol.23, Hadith 270; another version says, “I am to you as Abu Zar‘ was to Um Zar‘ in affection and fidelity and not in parting and breaking up.” See, al-‘Asqalani, Fath al-Bari, Vol.9, 275

[xxxiv] Ishaq b. Rahuwayh, al-Musnad, (Madina: Maktaba al-Iman, 1991) Hadith 744-745; al-Nasa’i, al-Sunan al-Kubra, (Beirut: al-Resalah Publishers, 2001) Hadith 9092-9093

[xxxv] Al-Sajistani, Abu Dawud, al-Sunan, Hadith 4999; Ahmad b. Hanbal, al-Musnad, Hadith 18394; classified as sahih by al-Albani and Shu‘aib al-Arna’ut

[xxxvi] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 3816-18, 5229 et al.

[xxxvii] She said, “O Allah’s Messenger (ﷺ)! Suppose you landed in a valley where there is a tree of which something has been eaten and then you found a tree of which nothing has been eaten, of which tree would you let your camel graze?,” see, Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 5077

[xxxviii] Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 2815 (70)

[xxxix] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 6130

[xl] Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 892 (18); also Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 5236

[xli] Muslim b. Hajjaj, al-Sahih, Hadith 1478 (29)

[xlii] Under Hadith 6130 of Sahih Bukhari ONLINE SOURCE; See, Khan, Muhsin, The Translation and Meanings of Sahih Al-Bukhari, (Riyadh: Maktaba Dar us Salam, 1997) Vol.8, 88-89

[xliii] al-‘Asqalani, Fath al-Bari, Vol.10, 527

[xliv] Al-Sajistani, Abu Dawud, al-Sunan, Hadith 4932

[xlv] al-Nasa’i, al-Sunan al-Kubra, Hadith 8901

[xlvi] Al-Busti, Ibn Hibban, al-Sahih, (Beirut: Resalah Publishers, 1988) Hadith 5864

[xlvii] Al-Baihaqi, Abu Bakr, al-Sunan al-Kubra, Edited by Dr. ‘Abdullah al-Turki (Cairo: Markaz Hijr, 2011) Hadith 21023

[xlviii] al-‘Asqalani, Fath al-Bari, Vol.7, 464-465 (Ibn Hajar critically analyzes reports on dating of Khaibar), 192; Vol.6, 87, 193

[xlix] al-‘Asqalani, Fath al-Bari, Vol.2, 445; see also, See, Al-Busti, Ibn Hibban, al-Sahih, Hadith 5876; these people had come from Abyssinia alongwith Ja’far al-Tayyar who we know reached the Prophet (ﷺ) just at the time of Khaibar. See, Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 3136 and, Ibn Hadida, Jamal al-Din, AlMisbah Al-Mudi fi Kitab Al-Nabi Al-Ummi wa Rusilihi ila Muluk Al-Ard min ‘Arabi wa ‘Ajami, (Beirut: ‘Alam al-Kitab, n.d.) Vol.2, 43-44.

Whereas for Ibn Hajar ‘Aisha being fifteen years of age only goes with the fact that she had attained puberty, Muhsin Khan in his translation of Sahih al-Bukhari makes embarrassing mistakes on this point. To a Hadith (No. 5190) about ‘Aisha seeing the Abyssinians sport in the mosque he adds a footnote “‘Aisha was fifteen years old then”; and in translation of another hadith about the same event he adds in parenthesis a note describing ‘Aisha as a girl “who has not reached the age of puberty” (Hadith 5236); see, Khan, Muhsin, The Translation and Meanings of Sahih Al-Bukhari, Vol.7, 85, 109

[l] al-‘Asqalani, Fath al-Bari, Vol.9, 336-337;

[li] Al-‘Asqalani, Ibn Hajar, al-Tamyiz fi Talkhis Takhrij Ahadith Sharh al-Wajiz (=Talkhis al-Habir), (Riyadh: Dar ‘Adwa’ al-Salaf, 2007) Vol.5, 2400; Whereas Ibn Hajar completed the first draft of Talkhis al-Habir in Shawwal 813/February 1411 and started with the fuller and extant version of Fath al-Bari in the year 817/1414, he himself tells us that he completed a supplementation to al-Talkhis al-Habir in Jumda-II 820/Jul-Aug 1417. (Vol.6, 3295) For dates on Fath al-Bari see, al-‘Asqalani, Ibn Hajar, Intiqad al-I‘tirad fi al-Radd  ‘ala al- ‘Ayni fi Sharh al-Bukhari (Riyadh: Maktaba al-Rushd, 1993) Vol.1, 7

There is evidence that he kept adding to al-Talkhis years later as well. At one point in al-Talkhis Ibn Hajar refers to his relevant discussion in Fath al-Bari (Vol.3, 1051), and at another point he provides a reference which he says he had come across in the year 840/1436-37 (Vol.2, 739). While there is no categorical evidence, mention of the quoted remark seems to be an addition made after the first draft was completed for it falls under a heading, ‘caution’ (tanbih) disrupting the flow of the text.

[lii] Al-Yahsubi, Qadi ‘Iyad, Ikmal al-Mu‘lim bi Fawa’id al-Muslim, (Cairo: Dar al-Wafa’, 1998) Vol.7, 447-448

[liii] Cocca, C.E., Jailbait: The Politics of Statutory Rape Laws in the United States (New York: State University of New York Press) 23-24

[liv] Textor, Robert B., et al., The Social Implications of Industrialization and Urbanization: Five Studies of Urban Populations of Recent Rural Origin in Cities of Southern Asia, (Culcutta: Unesco. Research Centre on the Social Implications of Industrialization in Southern Asia, 1956) 92

[lv] Epton, Nina, Love and the English, (Middlesex: Penguin Books, 1964) 353

[lvi] Ibid., 354 (note 1)

[lvii] Ibid., 358-359

[lviii] Ibid., 359

[lix] Prideaux, Humphrey, The True Nature of Imposture, Fully Displayed in the Life of Mahomet, 10th ed. (London: W. Baynes, 1808) 37

[lx] Lane, Edward William, An Account of the Manners And Customs of the Modern Egyptians, Fifth ed. (London: J.M. Dent & Sons, 1908) 161; he wrote, “The Egyptian females arrive at puberty much earlier than the natives of colder climates. Many marry at the age of twelve or thirteen years; and some remarkably precocious girls are married at the age of ten: but such occurrences are not common. Few remain unmarried after sixteen years of age. An Egyptian girl at the age of thirteen, or even earlier, may be a mother.”

[lxi] Asad, Muhammad, Sahih al-Bukhari: The Early Years of Islam, (Gibraltar: Dar al-Andalus, 1981) 199; he wrote, “For anyone, however, who knows something about the rapid physical development of Arabian women there is hardly anything astonishing in such marriages. During my long sojourn in Arabia I have come across one or two cases where a girl of twelve became mother; and I was told, on very good authority, that sometimes even younger mothers have given birth to living children.”

[lxii] [62] Irving, Washington, The Life of Mahomet, (London: Henry G. Bohn, 1850) 63; William Muir, The Life of Mohammad, (Edinburg: John Grant, 1923) 113

[lxiii] Margoliouth, D. S., Mohammed and the Rise of Islam, (London: G. P. Putnam’s Sons, 1905) 234-235; this was highlighted by Dr. Jonathan Brown as well. See, Brown, Jonathan, Misquoting Muhammad, (London: OneWorld Publications, 2014) 144; Dr. Brown also discusses (p. 291-293) the account of the marriage given by Lodovico Maracci (d. 1700) and Simon Ockley (d. 1720).

[lxiv] Some of them actually were able to make sense of it. See, McDonald, M.V.,  The History of al-Tabari, Volume VII – The Foundation of the Community, (Albany, State University of New York Press, 1987) xviii (Translator’s Foreword); he wrote, “According to the ideas of the times, the age nine was seemingly not too young for marriage.” also Turner, C., Islam: the Basics, (New York: Routledge, 2006) 34-35

[lxv] Perhaps what added fuel to fire was some Muslims’ own readiness to get into a revisionist mode by altogether denying that ‘Aisha was nine when the Prophet (ﷺ) married her. A critical review of such arguments will be presented in a forthcoming article.

[lxvi] Describing the effects of hegemonic modernity affected in the Muslim world through the colonial project Wael B. Hallaq observes; “Together with changing notions of community and individualism came another transformation in the social values that define adulthood, a transformation that has largely been due to major shifts in economic structures and modes of production.” See, Hallaq, Wael B., Shari’a: Theory, Practice, Transformations (New Delhi, Cambridge University Press, 2009) 463

[lxvii] Ferguson, Sarah, What You Need To Know About Child Marriage In The U.S. (October 29, 2018)

[lxviii] Gilligan, Andrew, ‘Paedophilia is natural and normal for males’ – How some university academics make the case for paedophiles at summer conferences, (July 5, 2014)

[lxix] al-Tirmidhi, al-Sunan/ al-Jami’ al-Kabir, Hadith 3883; al-Tirmidhi graded it as hasan sahih, and al-Albani as sahih

[lxx] Ibn Abi Shaibah, al-Musannaf, Edited by Muhammad ‘Awwamah (Beirut: Dar Qurtaba, 2006) Hadith 31684; al-Darimi, Abu Muhammad, al-Musnad/ al-Sunan, (Riyadh: Dar al-Mughni, 2000) Hadith 2901

[lxxi] Al-Zarkashi, Badr al-Din, Al-Ijāba li-Īrād mā Istadrakathu ‘Āisha ‘alā al-Sahaba, Ed. Sa‘id al-Afghani (Beirut: Maktab al-Islami, 1970)

[lxxii] Ibn Sa‘d, al-Tabaqat al-Kubra, Vol.2, 286

[lxxiii] Al-Andalusi, Ibn Hazm, Asma’ al-Sahaba  wa ma li-Kulli wahid minhum min al-‘Adad, Ed. Mus‘ad ‘Abdul Hamid al-Sa‘dani (Cairo: Maktabah al-Qur’an, n.d.) 32

[lxxiv] See for instance, al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 4939 etc.

[lxxv] Al-Bukhari, al-Sahih, Hadith 3895, 5078, 5125, 7011

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password