گزشتہ تحاریر میں اسلام کے جنگی قوانین کا مختصر تذکرہ پیش کیا گیا۔ ۔ یہ قوانین صرف کتابی باتیں نہیں ہیں بلکہ آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح پہلے دن تھیں انکی عملی تفسیر کے لیے ایک مثال حاضر خدمت ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی علمبردار امریکہ نے جب افغانستان پہ حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت طالبان حکومت کو دنیا کے سامنے میڈیا کے ذریعے ظالم اور وحشی ترین قوم کی صورت میں پیش کیا ۔ طالبان کے خلاف بھرپور میڈیا مہم چلائی گئی ۔ اسی مہم کے سلسلے میں لندن کے اخبار”سنڈے ٹائمز“ کی ایک مشہور صحافی ایوان ریڈلی طالبان کے حالات کی رپوٹنگ کے لیے 28 ستمبر2001ء کو افغانستان میں داخل ہوئی اور ایک چیک پوسٹ سے گرفتار ہوکر طالبان کی قید میں چلی گئی ۔ ایک عیسائی عورت پھر بظاہرا دشمن کی جاسوس ‘مہذب معاشرے میں اسکی سزا عافیہ صدیقی سے کم ازکم ذیادہ ہونی چاہیے تھی۔۔ ، پھر طالبان جیسے ‘وحشی ملاؤں’ کی قید میں ‘جدید تہذیب’ جن کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی ۔ ۔ریڈلی بھی کچھ یہی سوچ رہی تھی ۔ اپنی کتاب ‘ In the hands of taliban’ میں لکھتی ہے:
” میں نے سوچا اس وقت میں دنیا کے سب سے ظالم اور شیطان طالبان کی قید میں ہوں ، پتہ نہیں یہ میرا کیا حشر کریں گے؟ “ مسلح لوگ میرے گرد جمع ہو گئے، لیکن نہ کسی نے مجھے ہاتھ لگایا اور نہ کسی نے کوئی بات کی ۔ مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر آگے بڑھے۔ ایک مقام پر رک کر کھڑے ہو گئے، وہاں پر بہت سے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا شاید مجھے یہاں سنگسار کیا جائے گا۔ اتنے میں شور اٹھا، ایک آدمی ایک خاتون کے ساتھ ادھر ہی آرہا تھا۔ اس عورت نے آتے ہی میرے جسم کو ٹٹولنا شروع کیا۔ پتہ چلا کہ یہ لوگ یہاں رک کر اسی عورت کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آکر اس کی تلاشی لے سکے۔۔میں چکرا کے رہ گئی ‘میں نے سوچا کہ میں دنیا کے مہذب ترین ملک کی شہری ہوں، لیکن وہاں کسی عورت کی جامہ تلاشی کے لیے اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا، یعنی عموماً مرد سیکورٹی اہلکار ہی خواتین کی جامہ تلاشی لیتے ہیں اور یہ دنیا کے سب سے جاہل اور ظالم فوجی اس بات کا خیال کر رہے ہیں کہ ایک عورت کی جامہ تلاشی مرد نہ لے، بلکہ ایک عورت ہی لے ۔۔
تلاشی کے دوران ریڈلی نے اپنے کپڑے اوپر اٹھا دیے تو وہاں موجود تمام لوگ اپنا چہرہ دوسری طرف کرکے کھڑے ہو گئے۔
قید کے دوران کا ایک واقعہ لکھتی ہے:
”ہماری جیل میں مرد کم ہی آتے تھے، بس قید خانہ کے دروازہ پر مرد پہرے دار رہتے تھے۔ ایک بار میں نے اپنا انڈرویر دھو کر سکھانے کے لیے قید خانے کے ایک حصے میں پھیلا دیا۔ کچھ دیر بعد ایک افسر میرے پاس آیا اور اسے وہاں سے ہٹانے کو کہا، میں نے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا، اس پر اس نے ایک کپڑا اس کے اوپر ڈالوا دیا، لیکن مجھے انہیں پریشان کرنے میں مزا آتا تھا، میں نے وہ کپڑا اوپر سے ہٹا دیا اور کہا ، تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے، اگر ان کے اوپر کپڑا ڈال دو گے تو یہ خشک کیسے ہو گا؟
کچھ دیر بعد میں نے دیکھا ایک شخص میرے پاس آیا، تعارف کرایا گیا کہ یہ افغان نائب وزیرخارجہ ہیں۔ انہوں نے بھی مجھ سے میرے زیر جامہ وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ یہاں ہمارے پہرے دار ہوتے ہیں، اس کی وجہ سے انہیں فاسد خیالات آسکتے ہیں ۔ اس وقت میں سوچتی رہی کہ یا خدا! یہ کیسے لوگ ہیں؟ چند گھنٹوں بعد امریکا و برطانیہ بھرپور طاقت کے ساتھ ان کے ملک پر حملہ کرنے والے ہیں اور یہ صرف اس خوف سے مجھ سے میرے کپڑے ہٹانے کے لیے گفتگو کرنے آرہے ہیں کہ کہیں ان کے پہرے داروں کے دل میں فاسد خیالات نہ آجائیں۔”
گرفتاری کے بعد ریڈلی نے اس گروہ کے ایک فرد سے سٹیلائٹ فون کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ اپنے گھر اور دفتر والوں کو اپنی گرفتاری کی اطلاع دے سکیں۔ ان کے انکار پر ریڈلی نے بھوک ہڑتال کر دی۔ ریڈلی کا خیالی تھا کہ دنیا کی سب سے ظالم فوج کو ان کی بھوک ہڑتال کی کیا پروا ہو گی؟ لیکن وہ لوگ اس کی بھوک ہڑتال سے پریشان ہو گئے اور طرح طرح سے ان کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کرنے لگے ، پھر ایک بزرگ آئے ، وہ ریڈلی کو انگریزی میں سمجھانے لگے اور ان کے کھانے سے مسلسل انکار پر وہ رونے لگے۔
بھوک ہڑتال کے دوران ایک دن اس کی طبیعت خراب ہو گئی تو اس کے لیے فوراً ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ جس فوج کے بارے میں ریڈلی نے سن رکھا تھا کہ یہ دنیا کی سب سے ظالم اور شیطانی فوج ہے، ان کے اس رویے نے اسے حیران کرکے رکھ دیا تھا۔
اگلی صبح کچھ فوجی آئے اور اسے لے کر چلے ۔ ریڈلی نے سوچا شاید اسے رہا کیا جارہا ہے، مگر وہ اسے خواتین کے قید خانے میں لے گئے۔ جب وہ وہاں داخل ہوئیں تو اس نے دیکھا کہ وہاں کچھ یورپی خواتین دائرہ بنائے با آواز بلند بائبل کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ انہیں ان کی عبادت سے کوئی نہیں روک رہا تھا، کیوں کہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ریڈلی نے سگریٹ پینا چاہا تو ان خواتین نے بتایاکہ نو اسموکنگ ایریا ہے، یہاں مرد اور عورت کوئی سگریٹ نہیں پیتے۔ ایک دن ریڈلی نے ایک افسر کے سامنے تھوک دیا، افسروں کو برا بھلا کہنا تو اس کا معمول تھا، ریڈلی کو لگا کہ تھوکنے کی وجہ سے اسے سزائے موت ضرور دے دی جائے گی۔ ایک شخص نے کہا کہ تم نے ہمارے لیڈر کے ساتھ بدتمیزی کی ہے، جس کی سزا تمہیں ضرور ملے گی اور تمہاری سزا یہ ہے کہ آج سبھی قیدی اپنے اپنے گھر فون کریں گی، مگر تمہیں فون کرنے کی اجازت نہیں ملے گی ۔ دنیا کے ”سفاک ترین لوگوں“ نے اسے یہ سزادی۔۔
امریکی حملے کے دوسرے روز طالبان فوجی ریڈلی کے پاس آئے اور کہا کہ ہم تمہیں حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچا دیتے ہیں ۔ ریڈلی حیران تھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں، موت ان کے سروں پر کھڑی ہے اور یہ اسے حفاظت سے یہاں سے باہر نکالنے کی فکر میں ہیں؟ اس کے بعد وہ بحفاظت اُسے سرحد تک لائے اور پاکستانی حکام کے حوالے کر دیا۔
ریڈلی اسلام کا مطالعہ کرنے بعد جون2002ء میں مسلمان ہوئی ، موجودہ زندگی کے بارے میں لکھتی ہے :
” میں سمجھتی ہوں کہ اس سے پہلے میری زندگی کا کوئی نصب العین نہیں تھا اب مجھے جینے کا ایک واضح مقصد نظر آگیا ہے زنگی بہت خوبصورت دکھائی دے رہی ہے ۔البتہ ایک پچھتاوا ہے کہ میں نے اسلام کو سمجھنے میں اتنی دیر کیوں کردی پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نظر کرم کر ہی دی اب باقی زندگی اس کے احکام کے مطابق گزاروں گی ۔ میں اب غیر مسلموں میں غیر محسوس طریقے سے اسلام کی روشنی پھیلا رہی ہوں ۔۔۔۔”
ون ریڈلی کی کتاب (In the hands of taliban) کا اردو ترجمہ “طالبان کی قید میں” یہاں سے ڈاؤنلوڈ کیا جا سکتا ہے
http://allurdubooks.blogspot.com/2012/01/in-hands-of-taliban.html