منطق اور اجتماعِ نقیضین

در اصل جب تم یہ مانتے ہو کہ منطقی قوانین ہر مسئلے میں یکساں ہیں تو تم غلطی کرتے ہو۔ منطق کا اطلاق صرف اور صرف کسی خاص “معلوم” کے قواعد اور قوانین پر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایک علم یا ادب کے اصولوں پر قائم کی گئی منطق دوسرے علم یا ادب کے اصولوں پر پوری نہ اترتی ہو۔ اس کا مطلب سادہ ترین انداز میں صرف یہ ہے کہ منطق اپنے معلوم کی پیروی میں چلتی ہے۔ اور جس وقت وہ معلوم ختم ہوجائے اس وقت وہی منطق بے معنی اور غیر معتبر ہوجائے گی۔ اس لیے اگر کوئی یہ کہے کہ منطق یا منطقی بات ہر کسی کے لیے ایک جیسی اور ہر معاملے میں لائقِ اطلاق ہے تو یہ ایک ناقابلِ قبول بات ہے۔
مثلاً اگر تم کہو کہ دن اور رات ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ یا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یا ایک دوسرے کو تباہ کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وقت میں یا تو دن ہوگا یا رات ہوگی۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں دن اور رات دونوں موجود ہوں۔ یہ منطق ہے جو اجتماعِ نقیضین کی روک تھام کرتی ہے۔ یعنی منطق یہ بتاتی ہے کہ دو متضاد چیزیں کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہونگی۔ یعنی دن اور رات ایک وقت میں جمع ہونا ممکن نہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ منطق معلوم کی حدود کے اندر لائقِ اطلاق ہے۔ اس سے باہر جاؤگے تو وہی منطق بے معنی ہوجائے گی۔ تم اس حد سے باہر نکل گئے تو دن رات کی نفی کرنا چھوڑ دے گا۔ دن اور رات ایک دوسرے کے نقییض نہیں رہیں گے۔ کیونکہ جہاں دن اور رات ایک دوسرے کی نفی کرتے تھے تم نے اس حد کو پار کردیا ہے۔ اب نہ تو دن ہے، نہ رات ہے۔
یا پھر قرب اور بُعد کی بات کرو۔ تمہیں معلوم ہے کہ جب تک اپنے معلوم قوانین کی حدود میں اور وقت کی پابندی میں موجود ہو تب تک یا تو قرب ہوگا یا بُعد ہوگا۔ ایک وقت میں قرب اور بُعد کا اجتماع موانعِ منطقی ہوتا ہے۔ لیکن جب تم نے وقت کی حد پار کردی تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پھر قرب کسی بُعد کی نفی نہیں کرے گا۔ پھر نہ تو قرب ہے نہ بُعد۔ لیکن اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس تعبیرات کی کمی ہے۔ تو یہاں تم نے سمجھا کہ منطق کا اطلاق صرف معلوم کی حدود میں باقی ہے۔ اس حد سے آگے وہی منطق فنا ہوجاتی ہے، بے معنی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح جب میں کہتا ہوں کہ کائنات پر تمہیں جو اثر ملتا ہے وہ اثر “الف” کرتا ہے۔ اب تم جانتے ہو کہ تمام مادہ متاثر ہے۔ اگر الف مادہ ہے تو وہ بھی متاثر ہوگااس لیے الف کا مادہ ہونا محال ہے اس لیے الف کا وجود رکھنا بھی محال ہے۔ لیکن وہ “ہے”۔ کیسے ہے؟ کس طرح ہے؟ یہ تم کبھی نہیں پاسکتے۔ لیکن اس کے نہ ہونے کے لیے یہ کہنا کافی نہیں کہ مادہ نہ ہونا موجود نہ ہونے کی دلیل ہے۔
الف اللہ ہے۔
ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password