امام غزالی ؒکےفلسفےمیں تشکیک کی معنویت اوراہمیت

مغربی محققین اور مستشرقین کی تصانیف میں ابوحامد الغزالی کے بارے میں یہ خیال بالعموم ظاہر کیا جاتا رہا کہ وہ نہ صرف تشکیک کو ایک منہاجِ حصولِ علم سمجھتے تھے بلکہ اس ضمن میں ان کے افکار ڈیکارٹ کی فلسفیانہ ارتیابیت کے پیش رَو بھی ہیں۔ بعض مسلمان مفکرین بھی اس رائے کے قائل ہوئے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ ایک سطحی مشابہت ہے اور دونوں مفکرین کے تصورِ کائنات کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھنے سے ان دونوں کا اساسی فرق واضح ہوسکتا ہے۔ نیز یہ اسلامی تمدن کے ان مظاہر اور ان افکار کی بھی ایک مثال ہے جو اپنے اسلامی تناظر سے اُکھاڑ کر ایک اجنبی تمدن میں پیوند کیے گئے اور ان کی مابعد کی منفی نشوونما کو اسلامی تہذیب کا فیض قرار دے کر اس پر فخر کیا گیا۔ اس سلسلے کی دوسری اہم مثال ’’سائنسی طریقہ کار‘‘ ہے۔ آیندہ صفحات میں عثمان بکر صاحب کے مضمون کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے، جس میں انھوں نے اس اہم مسئلے پر قلم اُٹھایا ہے۔
ابوحامد محمد غزالی (۹۴؍۱۰۵۸۔ ۵۰۵؍۱۱۱۱) کی وہ کتابیں جنھیں واقعی ان کی تصانیف میں شمار کیا جاتا ہے بہت سی ہیں، اور موضوعات کے ایک وسیع سلسلے سے بحث کرتی ہیں۔ تاہم ان کی وہ خاص تصنیف جس کے حوالے سے بہت سے اہل علم ان کے فلسفیانہ نظام میں تشکیک کے مسئلے پر اظہار کرتے رہے ہیں، المنقذ من الضلال (گمراہی سے نجات) ہے۔۱؎ یہ سوانحی تصنیف غزالی نے اپنی وفات سے تقریباً پانچ برس پہلے مرتب کی۔ گمان غالب ہے کہ اس وقت وہ میمونہ نظامیہ کالج نیشاپور کی مسند تدریس پر واپس آ چکے تھے اور یہ ذوالقعدہ ۴۹۹ھ؍جولائی ۱۱۰۱ء کا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے کا تمام طویل زمانہ انھوں نے عزلت میں تہذیب نفس اور ریاضت میں گذارا۔ ان کی اس کتاب کا موازنہ بہت سے معاصر اہل علم نے سینٹ آگسٹائن کے اعترافات، نیو مین کی Grammar of Assent اور بنین کے Grace Abounding سے کیا ہے۔۲؎ موخرالذکر دونوں کتابوں میں سے پہلی کے ساتھ موزانہ فکری لطافت اورسوانحی بیان کے طور پر اور دوسری سے پابندی شرع میں غایت احتیاط کے پہلو سے۔ہمارے اس وقت کے نقطۂ نظر سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ غزالی کی اس تصنیف کے حوالے سے یہ بات اکثر کہی جاتی رہی ہے کہ منہاج تشکیک غزالی کے نظامِ فکر اور نظریۂ علم کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے نیزیہ کہ اس مسئلے پر غزالی نے وہی خیال پیش کیا ہے جو بعد میں ڈیکارٹ (۱۶۵۰-۱۵۹۶ئ) نے پیش کرنا تھا۔۳؎ بلکہ دونوں مفکرین کے نظامِ فکر میں تشکیک کے مقام ومنصب کے بارے میں متعددتقابلی مطالعے کیے بھی جاچکے ہیں۔
راقم الحروف کا مقصود اپنی تحریرسے یہ ہے کہ غزالی کی زندگی اور فکر میں تشکیک کی اہمیت اور معانی پر گفتگو کی جائے اس اعتبار سے نہیں کہ وہ جدید مغربی فلسفے کے ارتیابی روّیے یا منہاج تشکیک کے پیش روتھے بلکہ یہ دکھانے کے لیے کہ یہ اسلام کی عقلی روایت کی علمیات کا ایک اہم تکمیلی جز ہے اور غزالی اس عقلی روایت سے پوری طرح وابستہ ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ غزالی کی تشکیک کی نوعیت، طریقۂ کار اور اس کی روح کا تجزیہ کریں۔ اس سوال پر بحث کرتے ہوئے ہم دو اہم باتوں کو ذہن میں رکھیں گے۔ ایک تو وہ مخصوص عقلی، مذہبی اور روحانی فضا جو غزالی کے زمانے میں عالم اسلام میں عام تھی اور جو بلاشبہ غزالی کی زندگی کے ابتدائی دور میں تشکیک کو جنم دینے والے سب سے بڑے خارجی عنصرکی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری کا تعلق ایسے تمام مجموعہ امکانات سے ہے جو اسلام کی جانب سے انسان کے سامنے یقین کی تلاش کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔ الغزالی کی زندگی کا جتنا بھی ہمیں علم ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے لیے ان امکانات تک پہنچنے کی راہیں کھلی ہوئی تھیں۔ مزید برآں غزالی کی تشکیک کا جوہر صحیح طور پر تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب اسے اس مقصد کے صحیح سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے جس کے لیے المنقذ لکھی گئی اور ایسا کرتے ہوئے غزالی کی بعد کی تصانیف بھی نگاہ میں رہیں۔
الغزالی’المنقذ من الضلال’ میں بتاتے ہیں کہ ان کی زندگی کے عنفوان کے زمانے میں کس طرح ان کے نفس کو ایک پُر اسرار مرض نے آ لیا۔دو ماہ تک یہ مرض ان پر طاری رہا اس عرصے میں وہ ’’فی الواقع ایک متشکک مگر قول و فکر کے اعتبار سے معمول کے مطابق رہے۔‘‘۴؎ ان کی عمر اس وقت بیس پچیس سال کی رہی ہوگی جب نظامیہ کالج نیشاپور میں دوران تعلیم انھیں تشکیک کی اس بیماری نے آ لیا۔سوال یہ ہے کہ غزالی کے اس شک کی نوعیت کیا ہے؟غزالی بتاتے ہیں کہ ان کی تشکیک کا آغاز ان کی تلاش ایقان کے دوران ہوا جب وہ حقائق الاُمور کی جستجو کر رہے تھے یا دوسرے لفظوں میں اشیا کی حقیقت ’’جیسی کہ وہ ہیں۔‘‘۵؎ حقیقت اشیا کا علم ’’جیسی کہ وہ ہیں‘‘ کو الغزالی علم یقین کہتے ہیں۔ ایسا یقینی اور مسلم علم جس میں ان کی تعریف کے مطابق ’’معلومہ شے اتنی بیّن اور ظاہر ہو جاتی کہ اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا نہ کوئی امکان فریب و خطا رہ جاتا ہے بلکہ ذہن ایسے کسی امکان کو فرض بھی نہیں کر سکتا‘‘۔۶؎ مناسب ہوگا کہ یہاں ہم غزالی کی اس داخلی تلاش و جستجو کے بارے میں کچھ گفتگو کریں کیونکہ ہماری موجودہ بحث سے اس کا خاص تعلق ہے۔ فی الحقیقت اگر ہمیں غزالی کی تشکیک کی نوعیت اور اہمیت کا صحیح فہم حاصل کرنا ہے تو اس تلاش کے معنی ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئیں۔
اسلام میں حقائق الاُمور کی اس جستجو کا منبع حضورؐ کی وہ مشہور دعا ہے جس میں انھوں نے اللہ سے حقیقتِ اشیا دکھانے کی طلب کی ہے (اللھم ارنی حقیقۃ الاشیاء کماھی)۔ آنحضرتؐ کی یہ دعا اساسی طور پر ایک عارف کی دعا ہے اس لیے اس کا تعلق اشیا کی مستور اور فوق الفکری حقیقت سے ہے۔ اسی وجہ سے صوفیا کی جماعت ہی وہ طبقہ ہے جس میں آنحضرتؐ کی اس دعا کی بازگشت سب سے زیادہ اخلاص اور دیانت سے گونجتی سنائی دیتی ہے۔ معروف صوفی جامی (م ۱۴۹۲ئ) نے اس دعا کو ایک حسین انداز میں اس طرح پھیلا کر لکھا ہے کہ صاحب عرفان کی اس جستجو کی روح ان کے بلیغ بیان میں کھنچ آتی ہے۔
الٰہی الٰہی خلصنا عن الاشتغال بالملا ہی و ارنا حقائق الاشیاء کما ہی،غشاوہ غفلت از بصر بصیرت ما بگشای، وہر چیز را چنانکہ ہست بما بنمائی، نیستی را بر مادر صورت ہستی جلوہ بدہ، از نیستی بر جمال ہستی پردہ منہ این صور خیال را آئینہ تجلیات جمال خود گردان نہ علت حجاب و دوری واین نقوش وہمی راسرمایہ دانائی و بینائی ماگردان، نہ آلت جہالت و کوری، و محرومی و مہجوری ما، ہمہ از ماست، مارا بما مگذارما را از ما رہائی کرامت کن، و با خود آشنائی ارزانی دار۔۷؎
الغزالی کی تلاشِ ایقان جیساکہ انہوں نے خود بیان کیا ہے ایک صاحب عرفان کی اس مذکورہ جستجو سے مختلف نہیں ہے ابتدا میں البتہ یہ ایک خالص عقلی جستجو تھی۔خارجی اور داخلی دونوں قسم کے محرکات نے اس جستجو کو مہمیز کر نے میں حصہ لیا۔اس حد تک کہ غزالی کی جوانی میں ہی ان پر وہ دور آگیا جب وہ شدید تشکیک میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے اپنے اعتراف کے مطابق، داخلی طور پر، ان کا قدرتی رجحان فکر ہمیشہ سے اشیا کی اصل حقیقت کو گرفت میں لانے کا تھا۔ جہاں تک خارجی قوتوں کا تعلق ہے تو ہم ان میں سے اہم ترین کی جانب پہلے ہی اشارہ کر چکے ہیں۔ ہماری مراد غزالی کے زمانے کے ان مختلف عقلی، دینی اور روحانی دھاروں سے ہے جو یقیناان جیسے مشاہدہ اور سوچ بچار کرنے والے ذہن کو متاثر کرتے ہوں گے۔ المنقذ سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ مختلف دھارے ان کی توجہ کا مرکز تھے۔ فی الحقیقت وہ اپنی معروف تشکیک کا نقطہ آغاز انھی فکری دھاروںمیں تلاش کرتے ہیں۔ مذاہب اور عقائد کا تعدد ان کو عجیب لگتا تھا اور اس بات پر بھی تعجب ہوتا تھا کہ ہر مذہب کے متبعین اپنے موروثی معتقدات پر پوری ہٹ دھرمی سے جمے رہتے تھے۔ اس سوال پر تنقیدی غور و فکر کا ایک تو نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر تقلیدات (وہ موروثی معتقدات جنھیں بے چوں و چرا قبول کر لیا گیا ہو)کی گرفت باقی نہ رہی۔ مگر غزالی ایک ایسے عہد میں سانس لے رہے تھے جب ماورا کا تصور نفوس انسانیہ میں ایک جیتی جاگتی حقیقت تھی۔ چنانچہ تعددِ ادیان کا مسئلہ غزالی کو اضافیت کی اس راہ پر نہیں ڈالتا جو آج کی جدید دنیا میں اس مسئلے کے جواب میں پیدا ہوئی ہے۔۸؎ اس کے برعکس اس مسئلے سے ان میں انسانی فطرت کی داخلی حقیقت کی تلاش کا داعیہ پیدا ہوا۔ انسان کی فطرت قدیمہ جو اس دنیا میں آ کر وہ ظرف فراہم کرتی ہے جو دینی ہیتوں اور دینی اظہار کے تنوع کو قبول کر سکے۔
تاہم مذکورہ بالا سطور سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہوگا کہ غزالی فی نفسہٖ تقلید کے خلاف تھے۔ انھوں نے کبھی بھی تقلید کو سرے سے ترک کر دینے کا مشورہ نہیں دیا۔ فی الحقیقت وہ اسے ان اہل ایمان کے لیے ضروری سمجھتے تھے جن کے سادہ ذہن اس قسم کے عقلی تجسس سے آزاد تھے جو اللہ نے دوسری قسم کے لوگوں میں رکھی ہے اور اسی لیے یہ سادہ لوگ اشیا کو دوسروں کی سند پر مان کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ تقلید پر غزالی کے جو اعتراض ہیں اسے بلند ترین درجہ یقین کے لیے غزالی کے تجسس کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جانا چاہیے۔ عملی اعتبار سے یہ جستجو عوام کے لیے ہے ہی نہیں بلکہ غزالی جیسے گنے چنے افراد سے متعلق ہے۔ ایسی جستجو کے نقطۂ نظر سے تقلید یقینا ایک بڑی رکاوٹ ہے جو اس کے تحقق کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے چنانچہ وہ خود کو تقلید کے بندھن (رابطۃ التقلید) سے آزادکر لیتے ہیں۔ یہاں ہمیں دوباتوں میں فرق واضح کرنا ہوگا ایک تو تقلید جس کا مطلب ہے اکتسابِ تصورات کا ایک خاص طریقہ اور دوسری ہے تقلیدات جس سے مراد خودوہ تصورات ہیں۔ مگر غزالی کا فکری مطالعہ کرنے والے بہت کم لوگ یہ امتیاز قائم کر پاتے ہیں۔ غزالی جب اول الذکر کو اپنی ذات کے حوالے سے رد کرتے ہیں تو اس کی بنیاد اس طریقے کی خلقی محدودیت کی منہاجی تنقید ہوتی ہے جب کہ عوام الناس کے لیے اسے قبول کرتے ہوئے وہ محض عالم انسانی کی حقیقت کے ایک پہلو کا اثبات کرتے ہیں۔ تقلید پر اعتماد نہ کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ صحیح اور غلط دونوں قسم کی تقلیدات قبول کر سکتے ہیں اور غلط تقلیدات کا مسئلہ صرف اس چیز سے بھی حل نہیں ہو سکتا کہ تقلید کو یکسر ترک کر دیا جائے جو عملاً ناممکن ہے۔ بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ خود ان تقلیدات ہی کے حق و باطل ہونے کے سوال پر غور کیا جائے۔ چنانچہ المنقذ میں غزالی ہمیں بتاتے ہیں کہ تقلید کے مسئلے پر غور کرنے کے بعد انھوں نے کس طرح ان تقلیدات کی چھان پھٹک شروع کی تاکہ ان میں سے صحیح کو غلط سے جدا کر سکیں۔۹؎ ان کی فکری کاوشوں کا بہت سا حصہ اسی کام کے لیے وقف رہا۔
غزالی کے خیال میں تقلید کامثبت منصب یعنی کسی سند کی بنیاد پر حقائق کو تسلیم کرنا ایسی چیز ہے جس کی حفاظت سچا علم رکھنے والوں کو کرنا چاہیے۔ یہی لوگ ہیں جنھیں جائز طور پر یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ دینی اور روحانی اُمور کے سلسلے میں علم کی تشریح اور تعبیر کریں۔ جہاں تک علم کا معاملہ ہے تو غزالی نے اقلیم انسانی کی اس حقیقت کی توثیق کی ہے کہ علم کے درجات یا مراتب ہوتے ہیں اور نتیجتاً اہل علم کے بھی۔ ان کے اس خیال کی بنیاد قرآن کی وہ آیت ہے جو غزالی نے درج کی ہے، ’’تم میں سے جو ایمان رکھتے ہیں اور علم والے ہیں اللہ ان کے درجات اونچے کرتا ہے‘‘۔۱۰؎ اسلام میں مراتب اسناد کا ایک نظام ہے جس میں سب سے اونچی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور جو بالآخر خود اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے۔ غزالی کہتے ہیں کہ ایمان علم کا ایک درجہ ہے اور اس کا مطلب ہے دوسروں کا تجربہ اور دوسروں کی بات پر مبنی علم کو سن کر مان لینا حسن ظنی۔۱۱؎ اس طرح جن کی بات مانی جاتی ہے ان میں بلند ترین مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
جدیدیت پرستوں کے بعض حلقوں سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ تقلید کو لوگوں کے ایک طبقہ کے لیے تسلیم کرنا اور دوسرے گروہ کے لیے ناقابل قبول ٹھہرانا ایک خطرناک تصور ہے اس لیے کہ اس سے ایک طرح کی ذات پات کے نظام کو تشکیل دینے کی راہ کھلتی ہے جو اسلام کی روح کے خلاف ہے۔سطور بالا میں اس مسئلے پر جو کچھ کہا گیا ہے وہ فی الواقع اس اعتراض کی تردید کے لیے کافی ہے تاہم ایک ایسے صاحب علم کی رائے اس ضمن میں نقل کرتے ہیں جسے اس بات کا افسوس ہے کہ جدیدیت پرستوں کے ہاتھوں اسلام کا تصور مراتبِ علم اور مراتب ِاسناد برباد ہو گیا۔ ’’جہاں تک معاشرے میں انسانی درجہ بندی کا تعلق ہے تو ہم ’مراتب‘ سے قطعاً اس کی وہ ملتی جلتی صورت مراد نہیں لیتے جس کے تحت استحصال، جبر اور استیلا کو سند جواز عطا کی جاتی ہے گویا یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے اُصول ہوں۔۔۔ یہ اَمر درست ہے کہ انسانی معاشرے میں نظام مراتب اتھل پتھل ہوتا رہا ہے مگر اس چیز کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اقلیم انسانی میں مراتب کا کوئی جواز نہیں کیونکہ فی الحقیقت نظام تخلیق میں ایک ’’جائز‘‘ درجہ بندی پائی جاتی ہے۔ یہ امر اللہ ہے جو تمام مخلوقات پر جاری ہے اور عدل الٰہی کا مظہر۔۱۲؎ مراتب ِعلم اور مراتب ِوجود کا یہی تصور ہے جو غزالی کے نظریۂ علم اور نظامِ فکرمیں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور انھیں کبھی یہ خیال بھی نہ گزرا ہوگا کہ اس تصور میں ذات پات کے معاشرتی نظام کو اسلام کی طرف سے سندِ جواز عطا کرنے کا شائبہ بھی ہو سکتا ہے۔
تقلید پر غزالی کی منہاجیاتی تنقید پر اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کَہ سکتے ہیں کہ وہ تقلید سے اس لیے مطمئن نہ تھے کہ وہ ان کی شدید عقلی تشنگی کو سیراب کرنے سے قاصر تھی۔ ان کی اپنی نوعمری کے باوجود یہ ایک بین چیز تھی کہ تقلید حق اور باطل دونوں تک لے جا سکتی ہے۔ لیکن حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے بارے میں ان کے گردو پیش بحث کا ایک سمندر تھا جو انھیں بُری طرح بے چین رکھتا تھا۔ فلسفے کے سب سے مرکزی سوال پر ان کے غور و فکر کا دراسی سے وا ہوتا ہے۔ یہ سچا علم کیا ہے یہی سوال ان کے ارتیابِ فکر ی کی شدت کا نقطۂ آغاز ہے۔ تعدد ادیان اور اختلاف ِعقائد اور ان کا مرکزی مسئلہ یعنی تقلید تو خیر تھی ہی، اس کے علاوہ ایک اہم ترمذہبی اور روحانی لہر نے بھی ان کے اس شک کے آغاز میں حصہ لیا اور ان کے ذہن کو شدت سے متاثر کیا۔ ان کے بیان کے مطابق یہ چیز مکاتب فکر (مسالک) اور فرقوں کی کثرت کا خود اسلامی معاشرے میں وجود تھاان میں سے ہر ایک حق کی تفہیم اور اثبات کا اپنا اپنا طریقہ رکھتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ یہی فرقہ نجات یافتہ ہو گا۔ الغزالی نے المنقذ میں لکھا ہے کہ اُمت کے ان حالات کی مثال ’’اس گہرے سمندر کی ہے جس میں بیشتر لوگ غرق ہو جاتے ہیں اور صرف چند نفوس بچ کر نکل سکتے ہیں‘‘ اور اس میں نبی علیہ السلام کی مشہور و عید پوری ہوتی دکھاتی دیتی ہے، ’’میری اُمت ستر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے ایک ناجی ہوگا۔‘‘ یہ مذہبی فضا کوئی غزالی کے زمانہ ہی سے خاص نہیں تھی۔ چند صدیاں ادھر حارث بن اسد المحاسبی (۸۳۷ھ؍۲۴۳-۷۸۱؍۱۶۵ھ) نے بھی اُمتِ اسلامیہ کی ایسی ہی افسوسناک صورتحال کا نوحہ کیا تھا۔ المحاسبی اپنے دور کے مشہور صوفی تھے۔۱۳؎ اور ان کی تحریروں نے غزالی کو بہت متاثر کیا تھا بلکہ المنقذ کا سوانحی انداز تحریر بھی شاید المحاسبی کی تصنیف کتاب الوصایا کے دیباچے (النصائح) کے سوانحی انداز کا مرہون منت ہے۔۱۴؎
کتاب الوصایا کا مندرجہ ذیل اقتباس المنقذ کی بعض عبارتوں سے حیران کن مشابہت رکھتا ہے اور المحاسبی کے زمانے کی مذہبی فضا کی نوعیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے:
ہمارے زمانے میں یہ بات عام ہو گئی ہے کہ یہ اُمت ستر سے زیادہ فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ان فرقوں میں سے صرف ایک راہ نجات پر گامزن ہے اور باقی سب کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ میں اپنے لیے کَہ سکتا ہوں کہ میں نے کبھی زندگی کے ایک لمحے کو بھی ان اختلافات پر سوچ بچار ترک نہیں کیا جن میں اُمت مبتلاہے اور واضح راستہ اور طریق حق کی کھوج لگاتا رہا۔ اس کے لیے میں نے نظریہ اور عمل دونوں کی جستجو کی اور راہ آخرت کی ہدایت کے لیے علم کلام کے ماہرین کی ہدایت حاصل کی۔ علاوہ ازیں میں نے تعلیمات الٰہیہ کا مطالعہ فقہا کی تعبیرات کی مدد سے بھی کیا اور اُمت کے مختلف حالات پر سوچتا رہا۔ اس کی متنوع تعلیمات اور اقوال کو جانچتا رہا۔ ان میں سے میں نے مقدور بھر علم حاصل کیا اور میں نے دیکھا کہ ان کا اختلاف گویا ایک گہرا سمندر ہے جہاں بہت سے ڈوب چکے اور صرف ایک چھوٹا ساگروہ اس سے بچ کر نکل پایا اور میں نے ان میں سے ہر جتھے کو یہی دعویٰ کرتے دیکھا کہ نجات ان کی پیروی میں ہے اور یہ کہ وہ شخص جو ان سے اختلاف کرے گا مٹ جائے گا… ۱۵؎
دلچسپ چیز یہ ہے کہ گو غزالی کی سوانحی تصنیف محاسبی کی تصنیف سے زیادہ ڈرامائی اور زور بیان میں بڑھی ہوئی ہے تاہم دونوں آدمیوں پر ایک ہی سا ذاتی بحران گزرا تھا جو ملتے جلتے خارجی حالات کا پیدا کردہ تھا۔دونوں ہی کو نور یقین کی اور ایسے علم کی تلاش تھی جو نجات کا ضامن ہو اور دونوں ہی نے تصوف میں یہ روشنی حاصل کی۔ اپنی اس تلاش میں دونوں ہی نے علم کا سماجی اور فلسفیانہ تجزیہ کیا۔ اس تجربے کی تفاصیل ہنوز مطالعے کی محتاج ہیں تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شک اور یقین کی فلسفیانہ بحث خالصتاً غزالی کا اپنا اضافہ ہے۔
اس سے قبل ہم یہ بحث کر چکے ہیں کہ وہ کون سے عناصر تھے جنھوں نے غزالی کی تشکیک کو جنم دیا اور جس سے ان کا بنیادی سوال پیدا ہوا کہ علم کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ ہم نے اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کاشک اس وقت اور زور پکڑ جاتاہے جب وہ پوری سنجیدگی سے مندرجہ بالا سوال پر غور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب ہم غزالی کی تشکیک کے فلسفیانہ معنی پر گفتگو کریں گے۔ یقینی اور ناقابلِ خطا علم (علم الیقین) کی جو تعریف غزالی نے کی ہے وہ ہم درج کر چکے ہیں۔ یہ ایسا علم ہے جوہر غلطی اور شک سے کاملاً مبرا ہے اور جس سے دل کو مکمل اطمینان ہو جاتا ہے۔ کیا ایسا ایقان یا ایسا یقین ممکن ہے؟ یہ چیز اہم ہے کہ غزالی نے کبھی یہ سوال نہیں پوچھا بلکہ سطور بالا میں درج معیار یقین کی کسوٹی پر فوراً اپنے علم کی حالت کو پرکھنا شروع کر دیا۔
ان پر یہ واضح ہو اکہ ان کے پاس ’’کوئی ایسا علم نہیں ہے جو مذکورہ معیار پر پورا اُترتا ہو سوائے حواس سے آنے والے علم (حسیات) اور بدیہی حقائق کے (ضروریات)‘‘۔۱۶؎
پھر وہ اپنے علمِ حواس پرشک پیدا کرنا شروع کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ علم نا قابلِ خطا اور شک شبہ سے بالا ہے یا نہیں۔ ان کی اس کاوش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علمِ حواس کو یقین بہم پہنچانے کا جو دعویٰ ہے وہ باطل ٹھہرتا ہے۔ اس کاوش میں عقل حکم کا کردار ادا کرتی ہے۔ عقل کی جانب سے ادراک بالحواس پر غلط ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، حواس اس کی تردید نہیں کر سکتے۔
حسی ادراکات پر سے غزالی کا اعتبار اُٹھ گیا تو انھوں نے عقل کے فراہم کردہ یقین میں پناہ ڈھونڈی جس کے مطابق ’’حقائق اوّلیہ موجود ہیں مثلاً، دس تین سے زیادہ ہے اور ایک ہی چیز کی تائید اور تردیدبیک وقت نہیں کی جا سکتی(اجتماع النقیضین) اور ایک ہی چیز بیک وقت حادث اور قدیم، موجود اور معدوم، واجب اور محال نہیں ہو سکتی۔‘‘۱۷؎ تاہم عقل کے فراہم کردہ مواد (عقلیات) کی پناہ گاہ بھی تشکیک کے عناصر سے محفوظ نہیں۔ اس مرتبہ شک اس اعتراض سے پھوٹتا ہے جو حسی مدرکات کی طرف سے عقل کے دعویٰ ایقان پر کیا جا سکتا ہے۔ عقل کے یہ دعاوی اس طرح رد نہیں ہوتے جیسے اس قبل نے حواس کے دعاوی رد کیے تھے۔ ان میں شک صرف ایک مشابہ دلیل کے ذریعے پیدا ہوتا ہے اور یہ شک ایسا ہے جسے عقل مکمل طور پر رفع نہیں کر سکتی۔ عقل کے سامنے صرف یہ امکان پیش کیا جاتا ہے کہ ایک فیصلہ کرنے والا اس سے بھی برتر ہے جو اگر ظاہر ہو تو ’’عقل کے فیصلوں کو باطل قرار دے دے گا ایسے ہی جیسے عقل کے حَکم نے حواس کے فیصلوں کو جھوٹا قرار دیا تھا۔‘‘۱۸؎ اگر یہ تیسرا جج نمودار نہیں ہو ا تو یہ چیزاس کے وجود کے امکان کو محال نہیں بناسکتی۔
غزالی کے اندریہ داخلی مباحثہ اس وقت اور زور پکڑ جاتا ہے جب عقل جزئی سے ورا ایک اور نوع کے ادراک کا امکان مختلف قسم کے دلائل اور شواہد سے مستحکم ہونے لگتا ہے۔ سب سے پہلے عقل جزئی سے یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ خواب کے مظاہر پر اُصول مشابہت کا اطلاق کرے؛ مذکورہ فوق الفکری درجے کا تعلق ہماری بیداری کی حالت سے جس میں حواس اور عقل جزئی پوری طرح کام کر رہے ہوتے ہیں ایسا ہی ہے جیسا کہ اس موخر الذکر حالت کا تعلق نیند سے ہے۔ اگر ہماری حالت بیداری ہمارے عالم خواب کے تخیلات اور افکار کے لیے بنیاد ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو فوق الفکری مرتبہ ہمارے فکریااعتقادات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ غزالی خود بھی ان فقہا میں تھے جن کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی۔ یہاں یوں لگتا ہے جیسے ان کی دلیل کے مخاطب فقہا اور دوسرے لوگ ہیں جو عقل جزئی کے حامی اور قیاس و اُصول مشابہت میں ماہر تھے۔ہمارا اشارہ اس جانب نہیں ہے کہ یہ خیال غزالی کو اس وقت آیا جب وہ واقعی اپنے داخلی مباحثے کے تجربے سے گذر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ خیال اس وقت اُبھرا ہو جب انھوں نے المنقذ کے لکھنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ہماری رائے میں المنقذ لکھی ہی اس لیے گئی تھی کہ عقلیت پرستوں پر یہ چیز واضح کی جائے کہ اسلامی علمیات فوق الفکری ادراکات کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اسے علم کی حقیقی کلید سمجھتی ہے۔ چنانچہ المنقذ میں غزالی نے عقلیت پرستوں کو بایں الفاظ ہدوف ملامت بنایا ہے۔ ’’چنانچہ وہ شخص جو کشفِ حقائق کو دلائل موضوعہ پر منحصر جانتا ہے، اللہ کی رحمت واسعہ کو یقینا محدود کر رہا ہے‘‘۔۱۹؎
فوق الفکری مرتبہ کے امکان کی تائید میں عقل جزئی کے سامنے جو دوسری چیز پیش کی جاتی ہے وہ لوگوں کے ایک گروہ یعنی صوفیا کا وجود ہے جو اس مرتبے کا واقعی تجربہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان احوال کے تجربے سے گزرتے ہوئے جو مظاہر وہ دیکھتے ہیں وہ عقل جزئی کے عام ادراکات سے لگانہیں کھاتے۔ آخری چیز جس پر بطور شہادت عقل جزئی کی توجہ دلائی جاتی ہے حدیث نبویؐ ہے۔ ’’الناس نیام اذا ماتوا استیقظوا‘‘(لوگ سوئے ہوئے ہیں’جب وہ مریں گے تب جاگیں گے)ا ور قرآن کی یہ آیت ’’لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غفلۃٍ مِنْ ھَذا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَائَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدً‘‘۔(اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا ہم نے تیرے سامنے سے اب وہ پردہ ہٹا دیا اور آج تیری نگاہ خوب تیز ہے) ۲۰؎ حدیث اورقرآن کی آیت دونوں میں انسان کی حالت مابعدالموت کا حوالہ ہے اور عقل جزئی کے سامنے یہ بات رکھی جاتی ہے کہ یہی حالت ہے جس پر ہم بات کر رہے ہیں۔
حق کے بارے میں عقل جزئی کے فیصلہ کن ہونے پر تمام اعتراضات ایسے ہیں جن کا اطمینان بخش رد عقل جزئی کے بس میں نہیں۔ الغزالی کے نفس کا پر اسرار روگ جو تقریباً دو ماہ جاری رہا عقل جزئی اور ایک دوسرے ملکہ کے درمیان اسی داخلی کھینچ تان اور تنائو سے عبارت تھا۔ یہ دوسرا ملکہ یا یہ دوسری استعداد حواس کے ذریعہ عقل جزئی تک یہ مطالبہ پہنچاتی ہے کہ اس کا وجود اور ان تجربات کا امکان تسلیم کیا جائے جو اس ملکہ کی مختلف قوتوں سے متعلق ہیں اور جن کا دعویٰ صوفیا کو اپنے لیے ہے۔ یہ قوت یا یہ ملکہ فوق الفکری اور ماورا ئے منطق ہے اور اسے ملکہ وجدان یا کشف کہتے ہیں۔ اس وقت تک غزالی کی جس قدر فکری نشو و نما ہوئی تھی اس کے مطابق وہ صرف ان تجربات کے امکان کو تسلیم کر سکتے تھے۔ بعد میں اپنی زندگی کے بھرپور روحانی دور میں البتہ انھوں نے اس ملکہ کی اعلیٰ قوتوں کا حامل ہونے کا اعلان کیا ہے جن سے ان پر علم روحانی کے لاتعداد اسرار کھلے۔۲۱؎ الغزالی کی اصطلاح میں یہ قوتیں کشف (بلا واسطہ دید) اور ذوق ہیں۔ موخر الذکر کو میکار تھی نے ’’تجربہ ثمر آور‘‘ اور واٹ نے ’’تجربۂ مباشر‘‘ کے الفاظ سے ترجمہ کیا ہے۔۲۲؎
حسی ادراکات سے فکری مدرکات تک درجہ بدرجہ پہنچنے میں غزالی کو کوئی ایسی دشواری نہیں ہوتی مگر فکری تجربہ جب پہلی بار وجدانی کشفی تجربے سے براہ راست دو چار ہوتا ہے تو یہ غزالی کے لیے ایک تکلیف دہ چیز ثابت ہوتی ہے۔ دو ماہ کے عرصے کے لیے جو وہ ’’قول و عقائد میں تو نہیں مگر فی الواقع متشکک‘‘ ہو گئے تھے تو اس عرصے میں انہیں اپنے عقل جزئی کے ملکہ پر اعتماد کرنے میں شدید تشکیک کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ملکۂ وجدان کی طرف سے بعض ایسی چیزوں کا ظہور ہو رہا تھا جو اوّل الذکر سے ٹکراتی تھیں۔ ان کا مسئلہ یہ تھا کہ علم کے پورے نظام میں انسان کے قوائے علمیہ کا صحیح مقام دریافت کریں اور بالخصوص عقل جزئی، کشف اور وجدان کے مابین صحیح تعلق استوار کیا جائے(موخرالذکر اصطلاح کو اس کے روایتی معنوں میں سمجھنا چاہیے)پس جب انھوں نے اپنے مرض سے شفا پائی تو یہ منطقی ثبوت یا عقلی دلائل کی بنا پر نہیں بلکہ اس نور کے اثر سے تھا جو اللہ نے ان کے سینے میں اتارا۔ ان کا فکری توازن بحال ہو گیا اور وہ پھر سے ضروریات (بدیہیات) کے ذیل میں عقلی مدرکات کو قابل اعتماد سمجھنے لگے۔ تاہم اس نئے عقلی توازن میں اب فکر یا عقل جزئی کو پہلے کی طرح مقام غالب حاصل نہیں تھا کیونکہ غزالی کا کہنا ہے کہ اللہ نے ان کے سینے کو جو روشنی عطا کی وہی بیشتر علم کی کلید ہے۔۲۳؎
ہم اس رائے سے جو بعض اہل علم نے ظاہر کی ہے اتفاق نہیں رکھتے کہ منہاج تشکیک غزالی کی علمیات اور نظام فکر میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ المنقذ کی تمام روح اس نظریے کی تائید نہیں کرتی کہ غزالی حقائق کی تلاش کے لیے تشکیک کو ایک ذریعہ بنانے کی وکالت کرتے ہیں۲۴؎ اور المنقذ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا ڈیکارٹ کے اس قول سے موازنہ کیا جا سکے کہ ’’زندگی میں ایک بار یہ لازمی ہے کہ ممکنہ حد تک ہر شے پر شک کیا جائے۔‘‘۲۵؎ یہاں سے ہمارا سوال پیدا ہوتا ہے کہ الغزالی کے پہلے ذاتی بحران کی صحیح نوعیت کیا تھی؟ میکارتھی نے تشکیک کے اس بحران کو ایک علمیاتی بحران قرار دیا ہے جو صرف عقل سے متعلق ہے جب کہ اس کے برعکس الغزالی کا دوسرا ذاتی بحران اس کے بیان کے مطابق ضمیر کا بحران ہے اور روح سے متعلق ہے۔۲۶؎ فادر پوگی جس کی کتاب مسلمانوں کی کلاسیکی روحانی تالیف کو میکار تھی نے الغزالی اور المنقذ کے نفیس ترین مطالعات میں سے ایک قرار دیا ہے، اس کے خیال میں الغزالی کی نوعمری کی یہ تشکیک غیر حقیقی اور محض ایک طریقہ کار ہے۔۲۷؎ اٹلی کے ایک اور ممتاز مستشرق گیوسیپ فرلائی کو بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ الغزالی کی تشکیک ایک متشکک کی نہیں بلکہ علم کے ناقد کی تشکیک ہے۔۲۸؎ ہم ان ماہرین کی رائے سے متفق ہیں کہ اس بحران کے زمانے میں الغزالی نہ تو مذہبی متشکک تھے نہ فلسفیانہ تشکیک میں مبتلا اور ان کا بحران علمیاتی یا طریقۂ حصول علم سے متعلق تھا۔ اس نقطۂ نظر کی تائید کے لیے المنقذ ہی سے وافر شہادت فراہم ہو جاتی ہے۔
غزالی متشکک فلسفی تھے ہی نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی مابعد الطبیعیاتی ایقان کی قدروقیمت پر شبہ نہیں کیا۔ وہ حقیقت کے بالقوہ ایقان کے ہمیشہ معترف رہے۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے تذکرہ ہوا وہ کبھی یہ سوال نہیں اُٹھاتے کہ حقائق الاُمور کا علم ممکن ہے یا نہیں۔ بلکہ اس علم کے حصول کے لیے ان کا طبعی میلان فکر ایک طرح سے تائید اور ثبوت ہے کہ انھیں بالقوۃ ایقان حق کا یقین تھا۔شیخ عیسیٰ نورالدین نے لکھا ہے کہ’’ یہ صرف لا ادریے اور اضافیت پرست لوگ ہیں جو یہ دکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ حق کا ایقان حاصل کرنا اُصولاً ایک فریب ہے۔ اس کے لیے وہ اس کے مقابل یہ بات لاتے ہیں کہ خطا کا امکان فی الواقع یقینی ہے گویا جھوٹے ایقانات کے نفسیاتی مظاہر سے سچے ایقانات اپنی حیثیت بدل کر کچھ اور ہو جائیں گے اور ان کی افادیت ختم ہو جائے گی اور گویا خود ان جھوٹے ایقانات کا وجود اپنے انداز میں سچے ایقانات کا ثبوت نہیں فراہم کرتا۔‘‘۲۹؎
جہاں تک الغزالی کا تعلق ہے تو وہ اضافیت پرستوں اور لاادر یوں کی مذکورہ بالا فلسفیانہ ترغیب کا کبھی شکار نہیں ہوئے۔ ان کی تشکیک خود حقیقت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ حق کو تسلیم کرنے اور معلوم کرنے کے انداز سے متعلق ہے۔ مگر چونکہ حقیقت سے ان کی مراد یہاں حقیقۃالاشیا ہے لہٰذا اس حقیقت کی جستجو میں اس کا علم حاصل کرنے کے ایسے طریقے کی تلاش بھی شامل ہے جو حقیقت کے متوافق ہو۔ علم حاصل کرنے کے جتنے انداز ان کے عملی تحقیق کی مد میں آتے تھے ان سب پر ان کی تنقید کا محرک ایک اور طریقِ حصولِ علم کے امکان کی نظری آ گہی ہے جو صوفیا اپنے سے خاص جانتے تھے۔ الغزالی کے ذہن کو اس امکان نے اس وقت مضطرب کیا ہو گا جب وہ ذاتی طور پر طریق صوفیا سے دوچار ہوئے۔ یہاں ہم قارئین کو الغزالی کا ابتدائی تعلیمی پس منظر یاد دلائیں گے۔ ان کی یہ تعلیم تصوف کے قوی اثرات سے مملو تھی۔ سبکی کے بیان کے مطابق ان کے والد ایک درویش خدا ترس تھے جو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت صوفیا کی صحبت میں گذارتے تے۔۳۰؎ الغزالی کو ابتدائی تعلیم کے لیے جس استاد کے سپرد کیا گیا تھا وہ ان کے والد کے ایک متقی صوفی دوست تھے۔ غزالی کے چھوٹے بھائی احمد الغزالی (م۔ ۱۱۲۶) بھی ان کے ہم درس تھے جو اگرچہ ان جیسے مشہور تو نہیں ہوئے مگر بعد کو عظیم صوفی بنے۔ ان کے مریدین میں عبدالقاہر ابو نجیب السہروردی (م۔۱۱۶۸) بانی سہروردیہ سلسلہ شامل ہیں۔ بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ خود الغزالی بھی انہی کے مرید تھے۔نیشاپور میں اپنے زمانے طالب علمی کے قیام کے دوران انھوں نے تصوف کا نہ صرف بطور ایک موضوع مطالعہ کیا تھا بلکہ صوفی ابوعلی الفضل بن محمد ابن علی الفارمدی الطوسی سے بیعت بھی ہوئے جو القشیری (م:۴۶۵ھ؍۱۰۷۴ئ) کے شاگرد تھے۔ الفارمدی (م۴۷۷ھ؍۱۰۸۴ئ) سے الغزالی نے تصوف کے نظری اور عملی حصے سیکھے اور انھی کی نگرانی میں چند روحانی اشغال اور ریاضتیں بھی انجام دیں۔
صوفیا جو خداکا ایک ذاتی بلا واسطہ تجربہ حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں اس میں غزالی کے لیے کشش بڑھتی جا رہی تھی تاہم اس چیز سے ان کی قدرے دل شکنی ہوتی تھی کہ وہ اس مرحلے تک نہیں پہنچ سکے جہاں آکر صوفیا کو ’اوپر کی رفعتوں‘۳۱؎ سے خالص الہام نصیب ہونے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ باور کرنے میں حق بجانب ہیں کہ الغزالی کو ان کے علمیاتی بحران تک لے جانے میں تصوف نے مرکزی کردار ادا کیا۔ الغزالی کی تشکیک جو عقل پر بھروسہ کرنے نہ کرنے سے متعلق ہے اس کا آغاز ’’نیچے‘‘ سے یا خود عقل جزئی کے اپنے اور تفکر سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا خیال انہیں ’’اوپر‘‘ سے وارد ہوتا ہے کیونکہ وہ صوفیا کے منہاج علم سے آگاہ تھے جو فوق الفکری ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا اور اپنے طور پر عقل جزئی کا ناقد تھا۔ اسی طرح یہ شک دور بھی عقل جزئی کے عمل سے نہیں ہوا بلکہ انعام الٰہی کی روشنی کے نتیجے کے طور پر چھٹ گیا جو تمام قوای علمیہ کو ان کے حقیقی مقام پر لے جاتی ہے اور اپنی اپنی سطح پر ان کا جواز اور اعتماد بحال کر دیتی ہے۔

الغزالی کبھی ’’مذہبی متشکک بھی نہیں رہے۔ المنقذمیں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یقین کی اس جستجو کے دوران اسلام کے تین اساسی عقائد پر ان کا ایمان غیر متزلزل تھا۔
میں نے جو علوم حاصل کیے تھے اور علوم نقلی و عقلی کی دونوں اقسام کی تفتیش کے لیے میں نے جو طریقے برتے تھے ان سے مجھے اللہ تعالیٰ، نبیؐ کے ذریعے تنزیل وحی اور یوم آخرت پر حتمی اور یقینی ایمان حاصل ہو چکا تھا۔ ہمارے عقائد کے یہ تین اساسیات میرے نفس کی گہرائی میں جاگزیں ہو چکے تھے اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کوئی خاص دلائل و براہین مل گئے تھے بلکہ اس کا سبب وہ تجربات ، واقعات اور اسباب تھے جن کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔۳۲؎
مندرجہ بالا اقتباس المنقذ سے فراہم ہونے والی ایک اور شہادت ہے اس بات کی کہ الغزالی کی نام نہاد تشکیک کا موازنہ جدید مغربی فلسفے میں پائے جانے والی کسی تشکیک سے نہیں کیا جا سکتا۔ الغزالی کا ذہن مبتلائے تشکیک ہو کر بھی وحی اور ایمان سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ایک ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان پر اپنی بنیاد رکھتا ہے۔ جدید متشکک کا ذہن عمل تشکیک میں وحی اور عقل دونوں سے کٹ جاتا ہے اور اپنی بے سمت حرکات کی پیروی کرتے کرتے ایمان سے بھی منہ موڑ لیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان جو الغزالی کے پاس ہمیشہ تھا اور اس ایقان کے درمیان کیا فرق ہے جس کے وہ متلاشی تھے؟ ہم اس سوال سے مختصراً تعرض کریں گے کیونکہ اسی کے جواب میں الغزالی کی تشکیک کی معنویت پنہاں ہے اور اس لیے بھی کہ جے۔ اوبرنان ۳۳؎ جیسے ماہرین نے الغزالی پر الزام لگایا ہے کہ معروضی حقیقت پر ان کو جو بھیانک شکوک تھے، اس سے گھبرا کر انھوں نے مذہبی موضوعیت میں ایک پناہ گاہ تلاش کر لی۔
مذکورہ بالا سوال کا جواب اسلامی عرفان کے تصور یقین میں ملے گا۔ یقین کے کچھ درجات ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ان کو علم الیقین (یقین کا علم) عین الیقین(یقین کی دید) اور حق الیقین (یقین کی حقیقت) کہتے ہیں، ان کو بالترتیب آگ کے بارے میں سننے، آگ کو دیکھنے اور آگ میں جل جانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔۳۴؎ اس کا اطلاق غزالی کی تلاش ایقان پر کیجیے تو وہ ’’حتمی اور یقینی‘‘ ایمان جو ان کے بقول انھوں نے مختلف علوم میں تفحص سے حاصل کیا علم الیقین کا مصداق ہے کیونکہ حق کو قبول کرنا باعتبار نوعیت استنباطی ہے کہ اس کی بنیاد ان چیزوں پر ہے جو وحی اور نبی علیہ السلام کی سند پر میسر آئی ہیں۔ بالفاظ دیگر ایمان کی سطح پر وہ حقیقت جسے آپ مان رہے ہیں وہ بلا واسطہ یا براہ راست آپ کے علم میں نہیں آئی۔ تاہم ایمان لانے کے فعل سے جس حد تک کسی کا قلب اور عقل جزئی (ذہن) حق میں مشارکت کرتے ہیں اسی قدر ایمان بھی گویاایک مخصوص سطح تک علم اور یقین کا مترادف بن جاتا ہے چنانچہ الغزالی کو الحق کے سچے علم کی جو تلاش تھی اس میں ابتدا ہی سے یقین کا ایک عنصر موجود رہا ہے۔ احیاء العلوم الدین کی کتاب العلم میں الغزالی نے یقین کے لفظ کے استعمال پر بحث کی ہے اور اسلام کے بڑے مکاتب فکر میں اپنے زمانے تک اس کا استعمال دکھایا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس اصطلاح کا استعمال دو واضح معانی پر ہوتا ہے۔ ایک گروہ فلاسفہ اور متکلمین پر مشتمل ہے جو اس اصطلاح کو شک کی نفی یا شک کی غیر موجودگی پر دلالت کے لیے برتتے ہیں بایں معنی کہ مذکورہ علم یا حقیقت ایسے شواہد سے ثابت ہو چکی ہے جن میں شک کی گنجائش یا شک کا امکان باقی نہیں رہا۔۳۵؎ یقین کی اصطلاح کا دوسرا اطلاق وہ ہے جو فقہا، صوفیا اور بیشتر اہل علم کرتے ہیں۔ ان کے ہاں یقین کے معنی ایمان باللہ کی شدت یا جذبہ ایمانی کی شدت کے ہیں جس میں نفس کا اس شے کو قبول کرنا شامل ہے جو قلب پر چھا جاتی ہے اور اسے گرفت میں لے لیتی ہے اور نفس شے مذکور کو برضا تسلیم بھی کر لیتا ہے۔ الغزالی کے خیال میں دونوں قسم کے یقین کو قوی کرنا ضروری ہے تاہم دوسرا یقین زیادہ قابل قد رہے کیونکہ اسی سے پہلے یقین کی زندگی اور حیثیت عبارت ہے۔ نیز اسی یقین سے دینی اور روحانی اطاعت اور عادات محمودہ پر وان چڑھتی ہیں۔ بالفاظ دیگر فلسفیانہ یقین کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا اگر اس کے ساتھ حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق اپنی ہستی کی قلب ماہیت کا عمل بھی شامل نہ ہو۔ صوفیا اور فقہا دونوں کی شناخت اگرچہ دوسرے یقین سے ہوتی ہے تاہم وہ مرکزی طور پر یقین کے مختلف مراتب سے علاقہ رکھتے ہیں۔ صوفیا بنیادی طور پر الحق کے براہ راست اور بلاواسطہ تجربے میں خود کو مشغول رکھتے ہیں اور صرف شریعت کے ظاہری معانی (فقہ) کی سطح کی تسلیم و بجاآوری پر قناعت نہیں کرتے بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نفس کی تمام قوتوں کو روح خالص کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے۔ بنابریں یقین کے جن درجات کا تذکرہ ہم نے پہلے کیا ہے ان کا تعلق فقہ سے نہیں بلکہ معرفت (عرفان اسلامی)سے ہے بلکہ الغزالی کی مقبول اصطلاحات میں کہیے تو ان کا تعلق علم المعاملہ سے نہیں علم المکاشفہ سے ہے۔ یہ اصطلاحات انھوں نے احیاء العلوم میں بیان کی ہیں۔
اب ہم غزالی کے ’’حتمی اور یقینی ایمان‘‘ کی بحث کی طرف لوٹتے ہیں۔ ان کی منزل مقصود یا آدرش کے حوالے سے ان میں حصول علم کے انداز اور اسے پوری ہستی کے ساتھ تسلیم کرنے، ہر دو اعتبار سے کوتاہیاں موجود تھیں۔ اول الذکر کی کوتاہی ان کے پہلے شخصی بحران کی جڑ تھی اور اس کا تعلق جیسا کہ ملاحظہ کیا گیا، علمیات سے تھا۔ موخر الذکر میں کوتاہی ان کے دوسرے شخصی بحران کا مرکزی نکتہ ہے جو روحانی تھا، البتہ یہ دونوں بحران ایک دوسرے سے غیر متعلق نہیں تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ الغزالی کے اس اول الذکر ایمان کو علم الیقین کی سطح کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے جو الحق میں مشارکت کا ایک خاص انداز ہے۔ معروضی طور پر اگر علم الیقین کے بلند ترین درجۂ یقین ہونے کے بارے میں شبہات پیدا ہو سکتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے بلند تر ایک درجۂ یقین کا امکان موجود ہے۔ شیخ عیسیٰ نور الدین(فرتھجوف شواں) نے اس سلسلے میں بڑی گہری بات کہی ہے کہ اگر انسان شک کرنے کے قابل ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایقان کا وجود ہے۔۳۶؎ الغزالی صوفیا کے منہاج سے آشنا تھے۔اس سے انہیں ایقان حقیقت کی ایک برتر سطح سے بالقوہ آگاہی ہوئی۔جب ان پرعلمی بحران گذررہا تھا تو وہ اس ایقان کے بارے میں صرف علم الیقین رکھتے تھے۔ اس بحران کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عقلی وجدان کا جونور عطا ہو اس کے طور پریہ یقین عین الیقین کے درجے تک بلندہو جاتا ہے۔یہ نودریافت شدہ یقین الغزالی کی روحانی اور عقلی جستجو کا اختتام نہیں ہے۔وہ صوفیا کے باطنی واردات کے دعویٰ سے بخوبی آگاہ تھے جو وہ ابھی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ یہ چیزان کے لیے داخلی خلش کا ایک متواتر سبب تھی۔ ہمیں یاد ہے کہ انھوں نے کس طرح صوفیا کے بعض اشغالِ روحانی میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے۔ ان کی غلطی کا مرکز کہاں واقع تھا۔ یہ انھیں بعد میں احساس ہوا۔ وہ دنیاوی خواہشات اور امنگوں مثلاً شہرت اور حب جاہ ۳۷؎ میں بری طرح مبتلا تھے۔ جب کہ روحانی ریاضتوں کی افادیت ظاہر ہی اسی وقت ہوتی ہے جب خلوص نیت وغیرہ کے احوال پہلے سے موجود ہوں۔
المنقذ میں الغزالی لکھتے ہیں کہ ان کے پہلے بحران کے اختتام کے فوراً بعد انھوں نے مختلف متلاشیانِ حق کی آرا اور طریقوں کا پہلے کے مقابلے میں زیادہ بالاستیعاب مطالعہ شروع کر دیا۔ حق کے جویا ان لوگوں کو وہ چار طبقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اوّلاً متکلمین جن کا دعویٰ ہے کہ وہ خود مختار فیصلوں اور استدلال کے حامل ہیں۔ دوم باطنیین جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ’’التعلیم‘‘ کے یکتا حامل ہیں اور انھیں امامِ معصوم سے علم حاصل کرنے کا خاص اعزاز ملا ہے۔ سوم فلاسفہ جویہ کہتے ہیں کہ وہ اہل منطق ہیں اور حق کو بدیہی طور پر ثابت کر سکتے ہیں اور آخر میں صوفیا جو ’’حضور حق‘‘ کے راز دار اور اہل مشاہدہ و انوار ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔۳۸؎ اس میں شبہ نہیں کہ الغزالی نے حق کے تلاش کرنے والے ان تمام لوگوں کا تقابلی مطالعہ اس لیے کیا کہ ان کے سامنے یقین کے بلند ترین درجہ تک پہنچنے کے جتنے بھی امکانات اور مواقع کھلے ہوئے تھے ان سب کو اس راہ پر گامزن ہونے کے لیے آزما لیا جائے تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی اصل ہمدردی اور میلان طبع تصوف ہی کی جانب تھا۔ اس بالا ستیعاب مطالعے کے اختتام پر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’صوفیا ارباب الاحوال ہیں نہ کہ اصحاب الاقوال۔‘‘۳۹؎ ان کو یہ بھی احساس ہوا کہ علمِ نظری اور علمِ حضوری یا متحقق شدہ علم میں کتنا بڑا فرا ہوتا ہے۔ مثلاً صحت کی تعریف، اسباب اور احوال اور شکم سیری کی تعریف معلوم ہونا اور صحت مند ہونے یا شکم سیر ہونے میں بڑا فرق ہے، نشے کی تعریف جاننے اور خودنشہ میں ہونے میں بڑا فرق ہے اسی طرح زہد و ورع کی نوعیت اور شرائط معلوم ہونااور بات ہے اور خود فی الواقع ریاضت کرنا چیزے دگر۔علم کے متحقق ہونے سے جو ایقان حاصل ہوتا ہے وہی حق الیقین ہے۔ یہ علم ارتیاب و خطا سے اگر مبرا ہے تو اس لیے کہ اس کی بنیاد ظن و تخمین اور ذہنی تصورات پر نہیں۔ یہ قلب میں جاگزیں ہو کر انسان کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔۴۰؎
علم تب متحقق ہوتا ہے جب علم پانے والے کے وجود کی قلب ماہیت ہو جاتی ہے۔ الغزالی کا بیان ہے کہ صوفیا کے منہاج علم کا امتیازی وصف یہ ہے کہ نفس کی کجی کی مختلف شکلوں مثلاً تکبر، دنیا سے غیر معمولی جذباتی لگائو اور بے شمار دوسری عاداتِ مذمومہ اور اخلاق ِسیۂ کو اس لیے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ اس علم کے تحقق کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ان کے دور ہونے سے ہی دل اللہ کے لیے خالی ہوتا ہے اور اسے اللہ کے ذکر مسلسل سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔۴۱؎ اس سے الغزالی اپنے وجود کی حالت پر غور کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اپنے نفس کی قابل رحم حالت کا احساس ہوتے ہی انھیں یقین ہو گیا کہ وہ ’’دریا کے ایک ڈھے جانے والے کنارے پر کھڑے ہیں اور آگ میں گرنے کو ہیں۴۲؎ الا یہ کہ وہ اپنے اطوار بدل ڈالیں۔ ان کے سامنے اب ان کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ تھا۔ چھ ماہ تک وہ دنیاوی خواہشات کی کشش اور آخرت کے تقاضوں کے درمیان کھینچ تان کا مسلسل سامنا کرتے رہے۔ یہ الغزالی کا دوسرا شخصی بحران تھا جو روحانی نوعیت کا ہے اور پہلے بحران سے کہیں زیادہ سنگین۔ کیونکہ اس میں ایک شیوئہ حیات کو ترک کرکے دوسرے اندازِ زیست کو اختیار کرنے کا فیصلہ شامل ہے جب کہ دوسرا شیوئہ حیات اپنے جوہر میں پہلے سے متضاد ہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جب وہ اس انتخاب کی صلاحیت مکمل طور پر کھوچکے تو کس طرح آخرکار اللہ تعالیٰ نے انھیں اس بحران سے نجات دی اور ان کے قلب کو اس دنیا کی ترغیبات سے بآسانی منہ موڑ نے کی ہمت عطا کی۔ صوفیا کے روحانی راستے پر الغزالی کو وہ نور یقین میسر آیا جس کی جستجو وہ اس وقت سے ان تھک انداز میں کر رہے تھے جب سے ان کو اس یقین کی ذہنی آگاہی حاصل ہوئی تھی۔
بنابریں الغزالی کے ارتیاب و تشکیک کا مطالعہ اور تفہیم اسلامی علمیات اور عرفان اسلامی کے تصور مراتب یقین کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔ جب نور یقین کی تلاش میں الغزالی اپنے وجود کے داخل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو یہ مذہبی موضوعیت نہیں ہوتی یا معروضی حقیقت سے بد دلی کا شاخسانہ نہیں ہوتا جیسا کہ بعض اہل قلم مثلاً اوبرمان اور فرلانی کا خیال ہے۔ اس کے برعکس الغزالی بلند ترین معروضی حقیقت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جس عقلی اور روحانی روایت میں وہ زندگی بسر کر رہے تھے اور جس میں ان کے افکار جنم لے رہے تھے وہ انھیں اس امر سے بخوبی آگاہ کر دیتی ہے کہ اس حقیقت سے انسان کو جو چیز محجوب کرتی ہے وہ اس کے اپنے قلب کی تیرگی ہے۔ مزید براں اسلام کی زندہ روحانی روایت ایک مکمل عملی سلسلہ بھی فراہم کرتی ہے جو اللہ کی رحمت سے اس حجاب کو دور کرنے کا کام انجام دیتا ہے، ہر اس جویائے حق کے لیے جو مخلص ہو۔ اور غزالی اس کی نمایاں مثال ہیں۔ واللہ اعلم۔

حوالے و حواشی
۱- اس کتاب کا عنوان دو طرح سے لکھا گیا ہے۔ایک تو المنقذ من الضلال والمفصح عن الاحوال (غلطی سے بچانے والی اور نفس کی حالتوں کو ظاہر کرنے والی) اور دوسرا المنقذ من الضلال و الموصل (یا الموصّل) الی ذی العزۃ والجلال (جو بچاتی ہے غلطی سے اور ملاتی ہے صاحب عزت و جلال سے) اس تالیف کے ترجمے مع تعلیقات کے لیے دیکھیے۔ آر۔ جوزف میکارتھی۔ آزادی اور تکمیل : غزالی کی المنقذ من الضلال اور دیگر متعلقہ کتب کا ترجمہ و شرح (انگریزی) اس ترجمے کے لیے المنقذ کا اولین دستیاب مخطوطہ سامنے رکھا گیا ہے اور غزالی کی دیگر بہت سی تالیفات کے ترجمے پیش نظر رہے ہیں جن کا تذکرہ خاص طور پر المنقذ میں آیا ہے۔ مختلف زبانوں میں المنقذ کے تراجم کے لیے دیکھیے میکارتھی کی اس کتاب کا صفحہ ۲۵۔
۲- دیکھیے محمد عمر الدین، غزالی کا فلسفہ اخلاق (انگریزی)، لاہور، ۱۹۷۷ئ، ص ۲۸۶۔
حاشیہ دوم باب ۴؛ علاوہ ازیں، وینسک، افکار غزالی (فرانسیسی) ص ۱۱۱۔
۳- ر۔ ک محمد سعید شیخ، ’’الغزالی : ماورا الطبیعیات‘‘ در ایم۔ ایم۔ شریف تاریخ فلسفہ مسلمین (انگریزی) ویزہاون (۱۹۶۳ئ)، جلد ۱، ص۸-۵۰۷) سامی۔ ایم نجم، ’’غزالی اور ڈیکارٹ کے فلسفوں میںا رتیابیت کا مقام اور عمل‘‘ ؛ مزید براں، منٹگمری واٹ، غزالی کا عقیدہ وعمل (انگریزی) شکاگو(۱۹۸۲ئ)، ص ۱۲۔
۴- میکارتھی ر۔ ک۔ محولہ بالا۔ ص ۶۶۔
۵- الغزالی، المنقذ من الضلال، ص ۱۱۔ مضمون میں جس متن کا حوالہ ہے وہ کتاب کے فرانسیسی ترجمے کے ساتھ بیروت سے ۱۹۶۹ء میں چھپا ہے۔ دیکھیے، فرید جابر، نجات عن الخطا (فرانسیسی)۔
۶- میکارتھی ر، ک محولہ، ص ۶۳۔
۷- جامی، لوائح،تصوف پر ایک تالیف (انگریزی) ترجمہ،ازای۔ایچ۔ونفیلڈاور ایم۔ایم۔ قزوینی،شاہی ایشیائی انجمن، لندن، (۱۹۱۴ئ)، ص ۲۔
۸- تعدد ادیان کی جدید تفسیرپر گہری تنقید کے لیے رجوع کیجیے، ایف شواں، عرفان: حکمت ربانی، (انگریزی) کتب جاوداں مڈل سیکس، (۱۹۷۸ئ) باب اوّل۔
۹- الغزالی، المنقذ، ص ۱۱۔
۱۰- قرآن (۵۸:۱۱) دیکھیے میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۶۔
۱۱- الغزالی، المنقذ، ص ۴۰۔
۱۲- المعطاس۔ س۔ م۔ ن، اسلام اور سیکولر ازم (انگریزی) کو الالامپور(۱۹۷۸ئ)، ص ۱۰۱۔
۱۳- تصوف کی اس ابتدائی شخصیت کی زندگی اور تعلیمات کے لیے دیکھیے، سمتھ۔ مارگریٹ، بغداد کا ایک صوفی :حارث ابن اسد المحاسبی کی حیات و تعلیمات کا مطالعہ، لندن (۱۹۳۵ئ)۔
۱۴- دیکھیے آربری۔ اے۔ جے، تصوف :اسلام کے اہل باطن کا بیان، ان ون پیپر بیک، لندن(۱۹۷۹ئ) ص ۴۷۔
۱۵- آربری، ایضاً ص۴۷-۴۸، حروف متمیزہ میری طرف سے ہیں۔ امتیاز دا وہ عبارت کا موازنہ میکارتھی سے کیجیے، محولہ بالا، ص ۶۲-۶۳۔
۱۶- میکارتھی، ایضاً، ص ۶۴۔
۱۷- ایضاً، ص ۶۵۔
۱۸- ایضاً، ص ۶۵۔
۱۹- ایضاً، ص ۶۶۔
۲۰- قرآن (۵۰:۲۲)۔
۲۱- میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۴۔
۲۲- میکارتھی، ایضا، ص۹۵، واٹ، محولہ بالا، ص ۶۲۔ وجدان یا کشف کے لیے اسلامی فکریات میں جو مختلف اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں ان کے لیے اور اسلامی تناظر میں عقل اور وجدان کے تعلق کے مسئلے پر رجوع کیجیے، سیّد حسین نصر، ’’عقل اور وجدان : اسلامی تناظر میں ان کا تعلق باہم‘‘ در اسلام اور معاصر سماج، مرتبہ سالم عزام،اسلامک کونسل آف یورپ، (۱۹۸۲ئ)ص ۳۶-۴۶۔
۲۳- الغزالی، المنقذ، ص ۱۳۔
۲۴- اس رائے پر بحث کے لیے دیکھیے سامی۔ ایم۔ نجم، محولہ بالا۔
۲۵- دیکارٹس، اُصول، حصہ۱،۱، در، دیکارٹس کی فلسفیانہ تالیفات (انگریزی) دو جلد، ترجمہ ازای۔ ایس۔ ہالڈین اور جی آر۔ ٹی۔ راس۔ نیویارک(۱۹۵۵ئ)۔
۲۶- میکارتھی، محولا بالا، ص ۳۹۔
۲۷- پوگی۔ونیسینزو۔ ایم، مسلمانوں کی کلاسیکی روحانی تالیف (اطالوی)، گریگور یانہ یونی ورسٹی لائبریری روم(۱۹۶۷ئ)، ص ۱۷۱۔
۲۸- فرلانی گیوسپ،(ڈاکٹر جے۔ اوبرمان، ’’غزالی کی فلسفیانہ اورمذہبی موضوعیت‘‘(خلاصہ) در رسالہ تثلیثی برائے مطالعہ فلسفہ ادیان، (اطالوی) جلد سوم، شمارہ ۳، ص ۳۴۰-۳۵۲، پیروگیا (۱۹۲۲ئ) میکارتھی نے اپنی محولہ بالا تالیف میں فرلانی کے مذکورہ بالا تبصرہ کے بعض حصوں کا ترجمہ دیا ہے۔ دیکھیے ص۳۸۸-۳۹۰۔
۲۹- ایف شواں، منطق و تعالیٰ (انگریزی) ہارپر اینڈ رائو، نیویارک(۱۹۷۵ئ) ص ۴۳-۴۴۔
۳۰- تاج الدین السبکی، طبقات الشافعیہ الکبریٰ (عربی)، جلد ۴، قاہرہ (۱۳۲۴ھ؍۱۹۰۶ئ) ص ۱۰۲ بحوالہ ایم سعید شیخ، محولہ بالا، ص ۳-۵۸۲۔
۳۱- ابن خلکان،وفیات الاعیان، انگریزی ترجمہ از ڈی سلین، پیرس، (۱۸۷۱-۱۸۴۲)جلد دوم ص ۱۲۲ بحوالہ ایم سعید شیخ، محولہ بالا، ص ۵۸۳۔
۳۲- میکارتھی، المنقذ، ص ۹۱-۹۰۔
۳۳- جے۔ اوبرمان، غزالی کی فلسفیانہ اور مذہبی موضوعیت۔۔۔ ویانا اور لاپزگ (۱۹۲۱ئ)، ص۲۰۔
۳۴- ر۔ ک سیّد حسین نصر، علم اور القدس (انگریزی)، کراس روڈ، نیویارک(۱۹۸۱ئ) ص ۳۲۵، مزید براں، ابوبکر سراج الدین۔
۳۵- کتاب الیقین(انگریزی) نیویارک، (۱۹۷۴ئ)۔
۳۶- الغزالی، کتاب العلم، (انگریزی ترجمہ از نبیہ امین فارس، لاہور، (۱۹۷۴ئ) ص ۱۹۳-۱۹۴۔
۳۷- ایف شواں،محولہ بالا، ص ۱۳۔
۳۸- میکارتھی، ایضاً، ص ۶۷۔
۳۹- الغزالی، المنقذ، ص ۳۵۔
۴۰- نصر، محولہ بالا، ص ۳۲۵۔
۴۱- میکارتھی، محولہ بالا، ص ۹۰۔
۴۲- میکارتھی، ایضاً، ص ۹۱۔

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password