مذہبی علماء سائنس کےمخالف ہیں؟کوئی دلیل

اردو لٹریچر اور لیکچرز میں زمانے سے یہ بات پڑھتے اور سنتے آے ہیں کہ مذہبی علماء ساینس کے مخالف ہیں ، مغرب میں اس تصور کی بنیاد اہل کلیسا کے کچھ تاریخی رویے رہے ہیں اور انہی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوے برٹرینڈ رسل نے ” ساینس اور مذہب کی کشمکش ” کے عنوان سے ایک کتاب لکھی – لیکن اردو لٹریچر میں اگر یہ باتیں صرف مغربی افکار کاچربہ نہیں ہیں تو لازمی طور پر یہاں اس الزام کی کچھ ٹھوس بنیادیں بھی نظر آنی چاہیے۔
مسلم علماء میں مذہبی امور سے متعلق ساینسی ایجادات کے استعمال کی جواز وحرمت کی بحث ہوتی رہی ہے – قرآن شریف کی طباعت کیلئے پرنٹینگ پریس کی استعمال والی پیش پا افتادہ طومار اور آذان کیلئے لاوڈ سپیکر کی جواز کامعاملہ دراصل انہی امور میں سے ہے – یعنی کہ ان فتووں کامحور ساینس نہیں مذہبی معاملات ہیں۔عمومی استعمال کے عدم جواز کا قائل کوئی بھی نہیں تھا صرف نماز میں اسپیکر کی آواز پر اقتدا کے جواز و عدم جواز کا اختلاف تھا۔ برصغیر کی پہلے سیاسی جماعت، کانگریس نہیں تھی بلکہ جمیعت علماء ہند تھی- پس پہلے سیاسی جلسے تو جمعیت علماء نے کئے اور یوں پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال بھی علماۓ ہند نے کیا، تو اسے حرام کیسے کہہ سکتے تھے؟فتوی میں دراصل پوچھا یہ گیا تھا کہ کیا نماز کے لئے لاؤڈ سپیکر کا استعمال جائز ہے؟ اسکے جواب میں ،نماز میں لاؤڈ سپیکر کو حرام قرار دیاگیا کیونکہ اس میں ایک فقہی باریکی تھی اوروہ یہ کہ انسانی کی بجائے، مشینی آواز پہ رکوع و سجود جائز ہے یا نہیں؟-(اس وقت تک یہی کنفیوزن تھی کہ سپیکر میں اصل آواز کی پِچ بلند ہوجاتی ہے یا برآمد آوازالگ مشینی آوازہوتی ہے؟)
علمائے کرام کسی بھی ایجاد یا ٹیکنالوجی کو اپنانے میں جہاں تردد سے کام لیتے ہیں یہ تردد کسی بھی قانونی نظام میں ضروری ہوتی ہے۔ جیسے بٹ کوئن کو حکومتِ پاکستان نے بھی اسی وجہ سے ابھی تک غیر قانونی قرار دیے رکھا ہے۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسی تردد کے سبب مسلمان ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے اور اس تردد کے باوجود بھی بالآخر ٹیکنالوجی کو مانا ہی گیا. اسکا جواب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیچھے رہنے کی وجہ یہ تردد نہیں، یہی دیکھ لیجیے کہ آج کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے مسلمانوں میں اسلامی قانون کی پابندیوں کا لحاظ رکھنے والے کتنے ہیں؟ لیکن اس کے باوجود وہ ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں۔!
خود ساینس کی تعلیم یا ساینسی اختراعات کی ممانعت کہاں اور کس نے کی ہے ؟اس سوال کے جواب کی بہت جستجو رہی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے – کسی طنز وتعریض کے بغیر عرض ہے کہ مسلم تاریخ میں کسی بھی فرقے اور مکتبہ فکر کی کسی قابل ذکر مذہبی عالم کی کوئی ایسی فتوی یا کتاب وغیرہ اگر کسی دوست کے علم میں ہو تو براے مہربانی ہماری رہنمائی فرمائیں جس میں ساینس کی تعلیم یا ایجادات پر ” پابندی ” لگائی گئی ہو –
علماء کے عقل و سائنس سے دوری کے حوالے سے ایک پھبتی یہ بھی کسی جاتی ہے کہ جس وقت بغداد پر تاتاریوں کا حملہ ہورہا تھا علماے کرام کوے کے حلال یا حرام ہونے یا کسی کلامی مسئلے میں الجھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے بغداد پر تاتاریوں کا قبضہ ہوا۔اگر تو واقعی ایسا تھا تو ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت فوج کیا کررہی تھی؟ کیا اس نے بھی کوے کے حلال یا حرام ہونے کی بحث میں حصہ ڈالا تھا اور مورچے چھوڑ دیے تھے؟اس اعتراض میں یہ ایک مغالطہ یہ بھی ہے گویا ساری کے ساری جامعات کے مدرسین بس یہی کررہے تھے نیز معاشرہ و ریاست بس انہی کا نام تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آج بھی دنیا بھر کی جامعات میں مثلا قانون کے شعبہ جات میں قانون کی ضمنی بحثیں پڑھائی جاتی ہیں اور ان پر مقالات چھپتے ہیں اور بحثیں ہوتی ہیں۔ تو کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ مثلا جب امریکہ پر نائن الیون ہوا تو اسکے اساتذہ ایسی لغو بحثیں کررہے تھے۔ ظاہر ہے یہ بات بذات خود ایک لغو بات ہے۔
کچھ ‘دانشوروں ‘ کا یہ ماننا ہے کہ وطن عزیز کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہبی طبقہ ہے جس نے آج تک نہ کوئی ایجاد کی ہے اور نہ ہی ایسے لوگ تیار کیے جو جدید دور میں ایجادات پر کچھ نہ کچھ کام کر سکیں۔ یہ لوگ ہر وقت عوام کو نماز، روزے، زکوۃ، حج، قربانی اور دیگر مسائل میں الجھائے رکھتے ہیں۔ انتہائی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اگر کوئی چیز ایجاد کرنا ہی ترقی کی بنیاد ہے تو یہ اصول آپ پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔اس طرح آپ کا طبقہ بھی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ تمام تر وسائل ہونے کے باوجود آپ کی تان صرف کالم لکھنے پر ہی ٹوٹتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کسی ٹیلی وژن چینل پر ، بزعم خود، ماہرانہ رائے ہی دے پائے۔ ورنہ ایجاد کی دنیا میں تو آپ بھی سائنس دانوں کے اتنے ہی محتاج ہیں جتنا کہ مذہبی طبقہ ۔۔۔
جی ہاں! کالم لکھنا الگ شعبہ ہے اور سائنس بالکل الگ میدان، آخر کالم لکھنے والا سائنسی ایجادات کس طرح کر سکتا ہے؟یہی تو عرض کرتے ہیں کہ دینی علوم کا حصول ایک الگ شعبہ ہے اور سائنس بالکل الگ۔ جس طرح آپ صرف لکھ سکتے ہیں، اسی طرح دین کا طالب علم صرف دینی موضوعات پر دسترس رکھ سکتا ہے۔ کسی ڈینٹسٹ سے آنکھوں کا علاج کروائیں گے تو نتیجہ سوائے اندھن پن کے کچھ نہیں نکلے گا۔ جس طرح کالم لکھنا آپ کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح نماز، روزہ، حج، قربانی و دیگر دیگر مسائل کا جاننا ہر مسلمان کی ضرورت ہے۔ اس کے حصول کے لیے مسلمانوں کو علمائے دین کی ضرورت ہے اور اسی لیے وہ اپنی ضروریات بالائے طاق رکھ کر تمام اہل ایمان کی ضرورت پوری کرنے میں مصروف ہیں۔
رائے: عزیزی اچکزئی، زاہد مغل ، مشتاق احمد، سلیم جاوید، محمد عمیر

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password