اعتراض
جب کہا جاتا ہے کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے تو وہ کیسا قدیر اور تقدیر کو بدلنے والا ہے جو قانون فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو۔ فطرت کے قوانین کو بدل نا سکے۔۔
جواب
دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ یہ بات درست ہے۔ لیکن اس سے پہلے تقدیر کے میکینزم کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تقدیر کام کس طرح کر رہی ہے۔ ایک مرتبہ یہ میکینزم سمجھ میں آجائے تو تقدیر کا بدلنا اور دعا کا کردار اپنے آپ سمجھ میں آجاتا ہے۔ تقدیر کے میکنزم کو سمجھنے کے لیے یہ تحریر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
پھر یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ نہ بیک وقت تمام دعائیں رد ہوتی ہیں نہ ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ تمام دعاؤں کی ایک مجموعی ایقویلیبریم ہوتی ہے جو کائنات، معاشرے، افراد ، سسٹم میں ایک مسلسل نظم و ضبط برقرار رکھتی ہے۔۔!!
مثلا کچھ لوگ دعا کریں کہ گرمی بہت ہے سورج کو دور ہونا چاہیے یہ انکے حق میں تو بہتر ہوگا لیکن اسکے ساتھ سرد علاقوں میں سردی اور بڑھ جائے گی ۔۔۔اس طرح کچھ لوگ دعائیں کررہے کہ وہ امیر ہوجائیں لیکن انکے پاس مال و دولت کی فروانی سےخود انکا اور باقی معاشرے کو مصیبت میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے ۔۔۔کچھ بیٹے مانگ رہے لیکن وہ ان کے اپنے حق میں بہتر نہیں ۔۔۔۔ کچھ کو حکمت کے خلاف مال و دولت بیٹے مل بھی جاتے ہیں لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں، یہ کچھ لوگوں کی آزمائش اور کچھ کی عبرت کے لیے ہو تا ہے ۔مختصر یہ کہ دعا کی قبولیت یا موخر ہونے میں اجتماعی سسٹم کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کسی کی جذباتی خواہشوں پر فیصلے نہیں کیے جاتے ۔ ۔
جہاں تک مجبوری کی بات ہے جو بنیادی قوانین اللہ پاک نے نظام کائنات میں جاری کیے ہیں وہ انسان اور دوسری مخلوقات کی ضرورت کے مطابق ہیں۔ اسکا انہیں اسی بہتر انداز میں اور مرضی سے چلانا اسکے مجبور ہونے کی دلیل نہیں۔۔۔!!
پھر اللہ کا قانون انصاف کوئی دستاویزی یا مکتوب شکل کا لکھا ہوا منشور یا دستاویز نہیں کہ وہ اسکا پابند ہو۔۔ وہ اپنے منشاء کے ساتھ ردوبدل کرتا ہے۔۔
کئی جگہ دیکھا ملحدین نے کسی جگہ ظلم کی تصویر کے ساتھ یہ وسوسہ پیدا کرنے کے لیے یہ جملے لکھے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ ہے تو ان ظالموں کو پکڑتا کیوں نہیں؟ یہ ظلم ہوتا دیکهتا کیوں رہتا ہے ؟ مظلوموں کی دعائیں قبول کیوں نہیں کرتا۔۔؟؟
یہاں بھی معاملہ ایسا ہی ہے اللہ جسکی رسی دراز کرتا ہے اس کے ساتھ مناسب وقت پر انصاف کرتا ہے اور سزا دیتا ہے — اسی طرح جسے جلد گرفت کرلیتا ہے وہ بھی اسکی عادلانہ حکمتون کے لپیٹے میں آتا ہے۔۔
سوال یہ ہے کہ ہم خدا کو پلک جھپکتے انصاف کرنے والی آٹومیٹک مشین کیوں سمجھ رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
کیا اسکی اپنی تدبیر و حکمت اور اپنی مرضی کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
اگر یہی خدا ظالم کی رسی دراز نا کرے تو کل اعتراض کرنے والے کہنے لگ جائیں کہ خدا کس قدر جلاد ہے ایک لمحہ بھی ظالم کو سنبھلنے کی مہلت نا دی اس پر اتمام حجت نا کی اور سانس لینے، سمجھنے کا ٹائم فراہم نا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اصل میں ملحدین اللہ کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں لیکن ان شہزادوں کو کون سمجھائے کہ یہ ناممکن ہے،، دنیا میں جتنے لوگ ہیں، کم وبیش اتنے ہی مزاج، سوچ اور پسند ناپسند ہیں۔۔۔
اب کیا اللہ 7 ارب نظام بنائے، 7 ارب سسٹم بنائے، 7 ارب قرآن بھیجے، ہر زبان میں، ہر ملک کے لیئے الگ، جناب احس سبیل کے لیئے الگ قرآن، الگ نظام، الگ قانوں، جناب روشن زمان کے لیئے الگ قرآن، الگ نظام، الگ قانوں، جناب انجان مسافر کے لیئے الگ قرآن، الگ نظام، الگ قانوں، شہزاد قریشی کے لیئے الگ قرآن، الگ نظام، الگ قانوں، یہ ناممکن ہے، illogical ہے، دنیا میں بھی ایسا نہیں ہوتا، ایک کلاس جس میں 30 بچے پڑھ رہے ہوتے ہیں سب کے لیئے ایک ہی سلیبس ہوتا ہے، چاہے وہ اس بچے کو پسند ہو یا نہ ہو۔۔۔۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سارئ مثالیں ہیں۔۔۔، اللہ بھی کسی ڈکٹیشن ، مرضی پر نہیں چلتا ہے، جو اور جیسے بہتر سمجھتا ہے ، کرتا ہے۔۔۔۔