دعا اور سائنسی تدابیر- مختصر مگر جامع

۔

۔

 

کیا سائنس کی ترقی سے خدا کا تصور بے معنی ہوجاتا ہے؟

“خدا کے تصور کی اب کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ایک فرسودہ تصور ہے جو قدیم انسان نے اس لئے اپنا لیا کیوں کہ وہ کائنات کی تخلیق، نظام اور مکنیکی روانی کو سمجھنے سے عاجز تھا۔ اب چونکہ سائنس ہمیں ان سوالات کے جوابات دے چکی ہے لہذا خدا کی ضرورت نہیں۔”

اگر یہ کہا جائے کہ یہ آرگیومنٹ دور حاظر کے الحاد کی فکری بنیاد ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوانین قدرت (laws of nature) کا انسان پر آشکار ہوجانا واقعی خدا کے وجود کا رد کر دیتا ہے؟ہرگز نہیں! بلکہ قدرت کے قوانین کی پیچیدگیاں تو خالق کے وجود کے تصور کو مستحکم کرتی ہیں۔بس فرق یہ ہے کہ قدیم اور سائنس سے ناواقف انسان کا سوال یہ تھا کہ “کائنات کو کس نے بنایا؟” اور دور حاظر کے انسان کا سوال یہ ہے کہ “اتنے پیچیدہ قوانین پر قائم کائنات کو کس نے بنایا؟” یعنی بنیادی وجودی سوال جوں کا توں باقی ہے۔

اس کی مثال ایسے ہے کہ میں کہیں ایک اعلی اور پیچیدہ مشین دیکھوں تو یہ سوال پیدا ہوگا کہ اسے بنانے والا کون ہے۔ اب کوئی مج ہے اس مشین کے پیچ و خم سمجھا دے، اس مشین سے وابستہ پوری سائنس پڑھا دے، تو بھی بنیادی سوال باقی رہے گا کہ “اس مشین کو ان تمام پیچیدگیوں کے ساتھ بنانے والا کون ہے؟”

وہ اس لئے کیونکہ مشین سے وابستہ سائنس سمجھ لینے سے مشین کے موجد کا رد ثابت ہوتا ہی نہیں!!!

سائنس صرف اور صرف اس امر پر منکشف ہو سکتی ہے کہ “کائنات کیسے چل رہی ہے”، اس سے آگے سائنس کا احاطہ ختم!

ابو ابراھیم
٭٭٭٭٭٭

کچھ لوگ دعا اور سائنسی تدابیر کے مابین موازنہ کرکے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو دعا یعنی خدا و مذھب کی ہار ہوگئی اور اسباب یعنی سائنس کی جیت ہوگئی اور اس شکست میں ہر آن اضافہ ہوگا۔
دعا کا مقصد کیا ہے اور کیا نہیں نیز مذھبی وجودیات و علمیات میں اس کا کیا مقام ہے سردست اس پر کچھ عرض نہیں کرنا، مجھے تو اس ملحدانہ ذھنیت کی بیچارگی پر ترس آتا ہے جو خدا کی دی ہوئی صلاحتیوں کی مدد سے وضع شدہ سائنسی طرز استدلال سے معلوم شدہ خدا کے پیدا کئے ہوئے چند وسائل و اسباب کو یوں خدا کے مقابلہ پر لا کھڑا کرتی ہے گویا یہ اسباب خدا کے نہیں بلکہ ان کے اپنے پیدا کردہ اور بنائے ہوئے ہیں اور خدا ان کے بنائے ہوئے ان اسباب کے سامنے بے یارومددگار ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان جیسے کند ذھنوں ہی پر قرآن نے یہ تبصرہ کیا ہے کہ کیا تمہاری مخلوقات میں مکھی جیسی کوئی شے بھی شامل ہے کہ خدا کے بارے میں اتنی بے اعتنائی برت رہے ہو؟ آج کل کے یہ ملحدین جب اس قسم کی بچکانہ باتیں کرکے مذھب کے خلاف مقدمہ کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو حضرت ابراھیم علیہ السلام سے مباحثہ کرنے والے بادشاہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جسے یہی بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ میرا رب وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے۔ یہ لوگ آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں۔ اپنے تئیں یہ خود کو فلسفی، عقلمند اور نجانے کیا کچھ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بادشاہ بھی خود کو اسی قسم کا ذھین سمجھتا تھا۔ بس کچھ ہی وقت تو رہ گیا ہے، قیامت والے روز ایسے سب بیوقوف اسی صف میں کھڑے ہوں گے جس میں وہ بیوقوف بادشاہ ہوگا۔
ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭

“آج دنیا کے تمام مذاہب کی عبادت گاہیں خالی پڑی ہیں، پوپ ویڈیو لنک سے دعا کرا رہے ہیں، جمعے کے اجتماعات پر پابندی کی صدائیں ہیں، اس وقت سائنسی لیبارٹریوں میں چوبیس گھنٹے شفٹوں میں محقق کورونا کے روک تھام کی تگ و دو میں ہیں۔ جو قوم سائنس کے دامن میں سر ٹکا دے گی، سرفراز ہو جائے گی”۔
ج:نرا عبادت گاہیں ’خالی‘ ہونے پر کیا جانا؛ “عبادت” اُس کی زیادہ ہونے لگی ہے اِس سمے، تسلی رکھو! پکارنے والے اُس کو کہیں بڑھ کر پکار رہے ہیں!
ابلیس کا خوش ہونا تب تھا جب “عبادت گاہیں خالی ہونا” بمعنی “عبادت موقوف ہونا” ہوتا!!! وہ تو نہیں ہوئی، الحمد للہ!!! بلکہ زیادہ ہو گئی!!!
سائنس اسباب اور مذہب مسبب الاسباب سے رجوع ہے۔
دونوں کا اپنا اپنا دائرہ اور اپنا اپنا محل۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مطلوب۔ ان میں ٹکراؤ فرض کر لانا چہ بوالعجبی!
یہ باہم متعاون رہنے کےلیے ہیں انسان کو سعادت دینے کے معاملہ میں، نہ کہ باہم ٹکرانے کےلیے… اسلامی ڈسکورس کے اندر۔
ویسے اپنی اس سائنس کے ہوتے ہوئے بھی فی الوقت تو ہم بےبسی سے بندے مرتے ہی دیکھ رہے ہیں؛ وہ بھی جہاں سائنس نے سب سے بڑھ کر ترقی کر رکھی ہے! پس خدا کو عاجزی پسند ہے؛ اُس کے آگے دھیمے رہیے تو بہتر ہے۔ میں آپ کی عافیت کےلیے بھی اُس سے دعا گو ہوں؛ خدا آپ کو اپنی امان میں رکھے۔
حامد کمال الدین

٭٭٭٭٭٭٭

کرونا کیا آیا گویا ملحدوں کے ابو آگئے۔ کہتے پھر رہے ہیں کہ “کرونا وائرس نے دنیا کو illusion سے نکال کر ایک حقیقت کا چہرہ دکھایا ہے کہ جس میں مذہب و عقائد کی کوئی گنجائش نہیں، کعبہ و کلیسا خالی کر دئے گئے اور اب سب کی نظر لبارٹری پر لگی ہوئی ہے۔”

جیسے اس سے پہلے تو ساری مذہبی دنیا میں لبارٹری و ہسپتال نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں، مذہبی لوگ نزلہ زکام سے لے کر کینسر کے علاج تک کے لئے فورا مکہ یا ویٹکن کا ٹکٹ کٹاتے تھے۔ کمال ہے بھئی!
بات یہ ہے کہ ایسے بھونڈے اعتراض کو تب زمین ملتی جب مذہب نے سائنس پر پابندی لگائی ہوتی اور علاج کو اسباب سے جوڑنے کی بجائے صرف توکل سے جوڑا ہوتا۔ مذہب نے تو ایسا کہیں نہیں کہا۔ دنیا کو سائنسی فریم ورک اور induction سے متعارف کروانے والوں میں کم و بیش تمام بڑے نام مذہبی لوگوں کے ہی ہیں جو کہ نہ صرف مذہبی وابستگی رکھتے تھے بلکہ ان کی سائنسی مزاج کا بیج بھی مذہب ہی کے طفیل پھوٹا تھا، جو زندگی و کائنات کو معنی خیز مانتے تھے اور مقدسات کے تقدس کو سائنس کے ساتھ خلط نہیں کرتے تھے۔
ابو ابراھیم

******

 

ہمارے طبقہ دانشوراں کو جو معذوریاں لاحق ہیں ان میں سب سے بڑی’ پیچیدگی کو Process کرنے کی ذہنی صلاحیت کا مکمل فقدان ہے جس کا نتیجہ سادہ فکری پر مبنی مضحکہ خیز تجزیات کی صورت نکلتا ہے۔ ان کی تربیت میں سب سے بڑی کمی Disciplined Thinking کی تربیت کی ہے جس سے ان کے تجزیات منطقی مغالطوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ رہی سہی کسر خود نفرینی کے روحانی مرض اور مستعمر نفسیات سے پیدا ہونے والی بے حمیتی، بے ضمیری اور شخصیت کے ہلکے پن سے پوری ہوجاتی۔ مذہب پر کلام کے دوران ان کی یہ تمام نفسیاتی، ذہنی اور روحانی بیماریاں، معذوریاں اور کجیاں اپنی انتہائی حد تک پہنچ جاتی ہیں۔ مذہب پر ان کی گولہ باری عام طور پر کسی Peripheral گروہ کی کسی بات کی بنیاد پر کی گئی ناجائز تعمیم کے سہارے کھڑے کیے گئے پھونس کے آدمی پر ہوتی ہے جس میں پیچیدگی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ ترین مثال کرونا کے تناظر میں مذہب پر کی جانے والی تنقیدیں ہیں۔
(عاطف حسین)

٭٭٭٭٭٭٭

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password