سوال :کیا اللہ سے کچھ مانگا جائے تو دیتا ہے؟ کتنا عرصہ مانگا جائے؟ کیسے مانگا جائے ؟ میں سال سے نیک کام بھی کررہا ہوں اور دعائیں بھی مانگ رہا ہوں پھر دعا کیوں قبول نہیں ہوتی؟
جواب : رحمتِ خداوندی کا دروازہ ہر وقت اور ہر کسی کے لیے کھلا رہتا ہے، کوئی بھی شخص جب چاہے بغیر کسی روک ٹوک کے اِلتجا کرسکتا ہے، اس لئے دُعا تو ہرکسی کی موٴثر ہوتی ہے، امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دعائیں، اور تعوّذات[ایسی دعائیں جن میں اللہ کی پناہ حاصل کی جائے] کی حیثیت اسلحہ کی طرح ہے، اور اسلحے کی کارکردگی اسلحہ چلانے والے پر منحصر ہوتی ہے، صرف اسلحے کی تیزی کارگر ثابت نہیں ہوتی، چنانچہ اسلحہ مکمل اور ہر قسم کے عیب سے پاک ہو، اور اسلحہ چلانے والے بازو میں قوت ہو، اور درمیان میں کوئی رکاوٹ بھی نہ ہو تو دشمن پر ضرب کاری لگتی ہے، اور ان تینوں اشیاء میں سے کوئی ایک ناپید ہو تو نشانہ متأثر ہوتا ہے”
“الداء والدواء ” از ابن قیم، صفحہ: 35
مذکورہ بالا بیان سے واضح ہوا کہ کچھ حالات، آداب ، اور احکام ہیں جنکا دعائیہ الفاظ اور دعا مانگنے والے میں ہونا ضروری ہے، اور کچھ رکاوٹیں، اور موانع ہیں جنکی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی، چنانچہ ان اشیاء کا دعا مانگنے والے، اور دعائیہ الفاظ سے دور ہونا ضروری، لہذا جوں ہی یہ تمام اشیاء موجود ہونگی، دعا قبول ہوجائے گی۔چنانچہ
قبولیتِ دعا کیلئے چند معاون اسباب :
1- دعا میں توجہ ، یقین، اخلاص، ریا کاری سے گریز ۔”اللہ تعالیٰ غافل دِل کی دُعا قبول نہیں فرماتے۔“ اور قرآن مجید میں ہے: ”کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دُعا، جبکہ اس کو پکارے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دُعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے کی بے قراری کی کیفیت ہے۔
2- توبہ ، اور اللہ کی طرف رجوع: چونکہ گناہ دعاؤں کی عدمِ قبولیت کیلئے بنیادی سبب ہے، اس لئے دعا مانگنے والے کیلئے ضروری ہے کہ مانگنے سے پہلے گناہوں سے توبہ و استغفار کرے،
3- عاجزی، انکساری، خشوع،و خضوع، [قبولیت کی ]امید اور [دعا مسترد ہونے کا]خوف، حقیقت میں دعا کی روح، دعا کا مقصود ، اور دعا کا مغز ہے۔
4- دعا الحاح کیساتھ بار بار کی جائی، دعا کرنے میں تنگی، اور سستی کا شکار نہ ہو۔
5- خوشحالی کے وقت دعا کرنا، اور آسودگی میں کثرت سے دعائیں مانگنا، اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خوشحالی میں اللہ کو تم یاد رکھو، زبوں حالی میں وہ تمہیں یاد رکھے گا)احمد نے اسے روایت کیا ہے۔
6- دعا کی ابتداء اور انتہا میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی، اور صفاتِ باری تعالی کا واسطہ دیا جائے۔
7- جوامع الکلم، واضح، اور اچھی دعائیں اختیار کی جائیں، چنانچہ سب سے بہترین دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ دعائیں ہیں، ویسے انسان کی ضرورت کے مطابق دیگر دعائیہ الفاظ سے بھی دعا مانگی جاسکتی ہے۔
دعا کی قبولیت کے راستے میں بننے والی رکاوٹوں میں شامل امور:
1- دعا کرنے کا انداز نامناسب ہو
2- دعا کرنے والے کا دل اللہ تعالی کی طرف متوجہ نہ ہو، یا پھر اللہ کیساتھ بے ادبی کا انداز اپنائے، مثال کے طور پر: دعا اونچی اونچی آواز سے کرے، یا اللہ سے ایسے مانگے کہ جیسے اُسے اللہ تعالی سے دعا کی قبولیت کیلئے کوئی چاہت ہی نہیں ہے، یا پھر تکلّف کیساتھ الفاظ استعمال کرے، اور معنی مفہوم سے توجہ بالکل ہٹ جائے، یا بناوٹی آہ و بکا اور چیخ و پکار میں مبالغہ کیلئے تکلّف سے کام لے۔
3- دعا کی قبولیت کیلئے کوئی رکاوٹ موجود ہو: مثلا اللہ کے حرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا جائے، جیسے کہ: کھانے ، پینے، پہننے، جائے اقامت اور سواری میں حرام مال استعمال ہو، ذریعہ آمدنی حرام کاموں پر مشتمل ہو، دلوں پر گناہوں کا زنگ چڑھا ہوا ہو، دین میں بدعات کا غلبہ ہو، اور قلب پر غفلت کا قبضہ ہو۔
4- حرام کمائی کھانا،قبولیتِ دعا کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا: جس کے لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ ، اور گرد و غبار سے اَٹے ہوئے بال ہیں، اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر کہتا ہے: یا رب! یا رب! اسکا کھانا بھی حرام کا، پینا بھی حرام کا، اسے غذا بھی حرام کی دی گئی، ان تمام اسباب کی وجہ سے اسکی دعا کیسے قبول ہو!!) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے کچھ امور بھی بیان فرمائے، جن سے دعا کی قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، مثلا: کہ وہ مسافر ہے، اللہ کا ہی محتاج ہے، لیکن اسکے باوجود دعا اس لئے قبول نہیں ہوتی کہ اس نے حرام کھایا، اللہ تعالی ہمیں ان سے محفوظ رکھے، اور عافیت نصیب فرمائے۔
5- دعا کی قبولیت کیلئے جلد بازی کرنا، اور مایوس ہوکر دعا ترک کر دینا۔
6- مشیئتِ الہی پر قبولیت دعا کو معلق کرنا: مثال کے طور پر یہ کہنا کہ : “یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کردے”،
قبولیتِ دعا کیلئے یہ لازمی نہیں کہ ان تمام آداب کو بیک وقت ملحوظِ خاطر رکھے، اور تمام یہ تمام رکاوٹیں بھی نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت حال نادر ہی پائی جاتی ہے، لیکن پھر بھی انسان کو اپنی استطاعت کے مطابق ان آداب کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
قبولیت دعا کی صورتیں :
آدمی کی ہر دُعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دُعا کو آخرت کا ذخیرہ بنادیتے ہیں،
ایک اور حدیث میں ہے کہ:اﷲ تعالی رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹادے۔(ترمذی، ابنِ ماجہ)
اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دُعا تو ضرور قبول ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الٰہی میں اس کے لئے موزوں نہیں، یا اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:مومن بندہ اﷲ تعالی سے جتنی دعائیں کرتا ہے، اﷲ تعالی ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دنیا ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دعاوں کے بدلے میں جو کچھ مومن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ (مستدرک)