لبرل (انفرادیت پسندانہ) فلاسفی کو اعلی ترین سطح پر علم معاشیات کے مختلف نظریات میں تھیورائز کیا گیا ہے جن میں سے اب تک سب سے کامیاب ترین نظریہ یوٹیلیٹیرین ازم (Utilitarianism) ہے (اس کے سواء دیگر نظریات بھی ہیں مگر فی الوقت تفصیل مقصود نہیں)۔ لبرل فلاسفی سے ماخوذ پالیسی سازی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ “ہر فرد فطرتا یہ جانتا ہے کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے (every individual is the best judge of his own welfare) نیز وہ اسی کے حصول کی جدوجہد کرتا ہے، لہذا فرد کو “نیک بنانا”، یہ ریاستی عمل (پالیسی و قانون سازی) کے دائرہ کار سے باہر ہے (ہمارے یہاں کے کچھ “جدید” مذھبی حلقے بھی اس قسم کا استدلال کرتے ہیں)۔ معاشیات دان every individual is the best judge of his own welfare کے اصول کو Pareto principle کہتے ہیں جو Paternalism کی ضرورت و امکان کی نفی کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب فرد خود جانتا ہے کہ کیا بہتر ہے اور کیا نہیں، تو پھر اسے یہ بتانے و سکھانے کا کیا مطلب؟
یہ دعوی متعدد نوعیت کی اغلاط پر مبنی ہے، سر دست ایک کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ علم معاشیات کی ایک ذیلی شاخ Behavioral Economics کے ماھرین متعدد تجربات کی روشنی میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ:
- فرد لبرل فلاسفی کے مفروضے کے مطابق خود غرض نہیں ہوتا
- وہ ھمیشہ یہ بھی نہیں پہچانتا کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے بلکہ لوگوں کی بڑی اکثریت متعدد انفرادی و معاشرتی عناصر سے متاثر ہونے کی بنا پر بالعموم غلط فیصلے کرتی ہے
- اتنا ہی نہیں بلکہ فرد جسے بہتر سمجھتا ہے بسا اوقات اسے جاننے کے باوجود بھی اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا
اس کا حل کیا ہے؟ 2017 میں Behavioral Economics میں نمایاں تحقیقی کام کرنے کی بنا پر نوبل پرائز جیتنے والے Richard Thelar کے مطابق اس کا حل ہے Libertarian Paternalism، یعنی یہ کہ متعدد قسم کے دعوتی و اصلاحی طرق سے فرد کی “درست تربیت” نیز ایسی پالیسی سازی کرنا جس کے نتیجے میں فرد کے لئے “درست فیصلہ” (تھیلر چونکہ سرمایہ دارانہ عدل کی جستجو کرتا ہے لہذا اس کے یہاں “درست” سے مراد وہ فیصلہ ہے جو فرد کے “سیلف انٹرسٹ کے مطابق” ہو) کرنا ممکن ہو۔ اپنی کتاب Nudge: Improving Decision about Health, Wealth and Happiness میں وہ بتاتا ہے کہ ایسا کرنا کیونکر لازم و ناگزیر ہے نیز جو لوگ Paternalism کو رد کرتے ہیں وہ ایک غیر منطقی و غیر حقیقی دعوی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لبرل سٹیٹ ھمیشہ سے Paternalistic کردار ادا کرتی رہی ہے (جسکی واضح ترین مثال سٹیٹ سپانسرڈ اور لازمی ایجوکیشن ہے)، اگرچہ اس سٹیٹ کو تھیورائز کرنے والے یہ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ لبرل سٹیٹ ایسا نہیں کرتی اور نہ ہی اسے یہ کرنا چاہئے۔ یہ واضح کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہمارے یہاں اگر مذھب کی بنیاد پر کسی پالیسی سازی کی بات کی جائے تو لبرل طبقہ جھٹ سے یہ اعتراض جڑ دیتا ہے: “یہ فرد کی انفرادیت کی نفی ہے”۔ اور شومئی قسمت کہ اس طبقے کے مذھبی ھمنوا انکی ہاں میں ہاں ملا کر کہتے دکھائی دیتے ہیں: “فرد کو نیک بنانا، اس مقصد کے لئے ریاستی عمل استعمال کرنے کی قرآن میں کوئی دلیل موجود نہیں”۔
ڈاکٹر زاہد مغل