غامدی صاحب کے نزدیک آج کے دور میں جہاد کی واحد علت ظلم ہے یعنی قتال صرف ظلم کے خلاف اور اپنے دفاع میں ہی جائز ہے۔ لیکن انکی بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ وہ آگے مظلومیت میں کیے گئے اس پر جہاد پر بھی ایسی شرائط لگاتے ہیں کہ یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ ۔ مثلا اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط ، جہاد کا اعلان صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے، طاقت کا توازن ہونا ضروری ہے، ۔ یہ سادہ سی نظر آنے والی شرائط کیسے جہاد کو منسوخ کرتی ہیں اور کتنی غیر معقول ہے اسکاہم اس تحریر میں جائزہ لیں گے ۔
۔اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط٭
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کا ارشاد ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بھی جہاد کا اعلان صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے اس کے سوا کسی اور کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مگر ہمیں ان کے اس ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے۔ لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے تو غاصب اور حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے، یا اسی کافر قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہوگا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوگا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہوگیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اس کی ایک عملی مثال سامنے رکھ لیجیے کہ فلسطینی عوام نے تنظیم آزادی فلسطین کے عنوان سے غیر سرکاری سطح پر اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ سالہا سال کی مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں مذاکرات کی نوبت آئی اور ان مذاکرات کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی یا لولی لنگڑی حکومت جناب یاسر عرفات کی سربراہی میں قائم ہوئی جو اس وقت بین الاقوامی فورم پر فلسطینیوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اگر مسلح جدوجہد نہ ہوتی تو مذاکرات اور حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مسلح جدوجہد کسی حکومت کے اعلان پر نہیں بلکہ غیر سرکاری فورم کی طرف سے شروع ہوئی اور اسی عنوان سے مذاکرات کی میز بچھنے تک جاری رہی۔ یہاں عملی طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہوئی ہے نہ کہ حکومت نے قائم ہونے کے بعد مسلح جدوجہد یا جہاد کا اعلان کیا۔ لیکن اگر غامدی صاحب کے فلسفہ کو قبول کر لیا جائے تو یہ ساری جدوجہد غلط قرار پاتی ہے۔ اور ان کے خیال میں فلسطینیوں کو یہ چاہیے تھا یا شرعاً ان کے لیے جائز راستہ یہ تھا کہ وہ پہلے ایک حکومت قائم کرتے اور پھر وہ حکومت جہاد کا اعلان کرتی، تب ان کی مسلح جدوجہد غامدی صاحب کے نزدیک شرعی جہاد قرار پا سکتی تھی۔
خود ہمارے ہاں برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لی اور عملاً انگریزوں کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس وقت کے علماء کے سرخیل حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ اور پھر بالا کوٹ کے معرکے تک اور اس کے بعد 1857ء میں مسلح جہاد آزادی کے مختلف مراحل تاریخ کا حصہ بنے۔ جہاد کا یہ اعلان بھی غیر سرکاری فورم کی طرف سے تھا اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ یا انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے دیگر علماء کو کوئی سرکاری اتھارٹی حاصل نہیں تھی۔ اس لیے غامدی صاحب کے فلسفہ کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی قرار پاتا ہے۔ محترم غامدی صاحب یا ان کا کوئی شاگرد رشید اس دور میں موجود ہوتا تو وہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ کو یہی مشورہ دیتا کہ حضور! آپ کو جہاد کے اعلان کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی معاملات میں فریق بننے کا آپ کے لیے کوئی جواز ہے۔ آپ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ حکومت کی راہ نمائی کریں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں آلۂ کار کی حیثیت اختیار کر جانے والے مغل بادشاہ کو مشورہ دیتے رہیں اور اس سے کہیں کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، کیونکہ اس کے سوا جہاد کا اعلان کرنے کا شرعی اختیار اور کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاد افغانستان کی صورتحال بھی کم و بیش اسی طرح کی ہے کہ جب کابل میں روسی فوجیں اتریں، مسلح غاصبانہ قبضہ کے بعد افغانستان کے معاملات پر روس کا کنٹرول قائم ہوگیا اور ببرک کارمل کی صورت میں ایک کٹھ پتلی حکمران کو کابل میں بٹھا دیا گیا تو افغانستان کے مختلف حصوں میں علماء کرام نے اس تسلط کو مسترد کرتے ہوئے حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ بعد میں ان کے باہمی روابط قائم ہوئے تو رفتہ رفتہ وہ چند گروپوں کی صورت میں یکجا ہوگئے۔ پھر انہیں روسی فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں ثابت قدم دیکھ کر باہر کی قوتیں متوجہ ہوئیں اور روس کی شکست کی خواہاں قوتوں نے ان مجاہدین کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا اور سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ غامدی صاحب کے اس ارشاد کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی اور ناجائز ٹھہرتا ہے اور ان کے خیال میں افغان علماء کو از خود جہاد کا اعلان کرنے کی بجائے ببرک کارمل کی رہنمائی کرنے تک محدود رہنا چاہیے تھا، اور اس سے درخواست کرنی چاہیے تھی کہ چونکہ شرعاً جہاد کے اعلان کا اختیار صرف اس کے پاس ہے اس لیے وہ روسی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، تاکہ اس کی قیادت میں علماء کرام جہاد میں حصہ لے سکیں۔
فرانسیسی استعمار کے تسلط کے خلاف الجزائر کے علماء کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہاں کے قوم پرست لیڈروں بن باللہ، بومدین اور بو نسیاف کے ساتھ ساتھ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر الابراہیمیؒ جیسے اکابر علماء نے بھی مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ انہوں نے فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کو جہاد قرار دیا، اس کے لیے علماء کی باقاعدہ جماعت بنائی، اور جمعیۃ علماء الجزائر کے پلیٹ فارم سے سالہا سال تک غاصب حکومت کے خلاف مسلح جنگ لڑ کر الجزائر کی آزادی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بلکہ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ کو یہ مشورہ ہی ان کے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے دیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مولانا مدنیؒ ہندوستان سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور مسجد نبوی میں حدیث نبویؐ پڑھایا کرتے تھے۔ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ نے ان سے حدیث پڑھی اور وہیں مدینہ منورہ میں کسی جگہ بیٹھ کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت طلب کی تو شیخ مدنیؒ نے ان سے کہا کہ ان کا ملک غلام ہے اس لیے وہ واپس جائیں اور علماء کرام کو منظم کر کے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جہاد کریں۔ اگر اس وقت شیخ بن بادیسؒ کے ذہن میں کوئی ’’دانشور‘‘ یہ بات ڈال دیتا کہ آپ لوگوں کو از خود مسلح جدوجہد شروع کرنے کا شرعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے اور جہاد کے لیے کسی مسلم حکومت کی طرف سے اعلان ضروری ہے تو وہ بھی مدینہ منورہ میں کوئی علمی مرکز قائم کر کے بیٹھ جاتے اور الجزائر کی جنگ آزادی کا جو حشر ہوتا وہ ان کی بلا سے ہوتا رہتا۔
غامدی صاحب محترم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ساتویں صدی ہجری کے آخر میں عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی خوفناک یلغار کے موقع پر جب دمشق کے حکمران سراسیمگی اور تذبذب کے عالم میں تھے اور عوام تاتاریوں کے خوف سے شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تو اس موقع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے از خود جہاد کی فرضیت کا اعلان کر کے عوام کو اس کے لیے منظم کرنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کو حوصلہ ہوا اور عوام نے شہر چھوڑنا ترک کیا۔ ورنہ اگر ابن تیمیہؒ بھی غامدی صاحب کے فلسفہ پر عمل کرتے تو بغداد کی طرح دمشق کی بھی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔
مسئلہ پر قانونی بحث کیلیے دیکھیے :اذنِ امام کی شرط اور جہادی تنظیموں کی شرعی حیثیت
مسلم مقبوضہ علاقوں میں جہاد کو حرام ٹھہرانا:
یہ فتویٰ جو ‘حکمران کی غیر موجودگی’ کو آڑ بناتے ہوئے صلیبی حملہ آوروں پر ہاتھ اٹھا لینے کو ہی __ بڑی خوبصورتی کے ساتھ __ ایک مسلمان کے حق میں “جرم” اور “پاپ” بنا کر پیش کرتا ہے.. یعنی دیارِ اسلام پر چڑھ آنے والے کافروں کے خلاف آپ کا ہتھیار اٹھا لینا یا حتیٰ کہ اُن کوئی گزند پہنچانا اِس فتویٰ کی رو سے ایک گناہ (اللہ و رسول کی نافرمانی!) قرار پاتا ہے… آپ جانتے ہیں، یہ “فتویٰ” اپنے مضمون کے لحاظ سے کچھ ایسا نیا نہیں؛ برصغیر کے اندر اِس کی تاریخ سو ڈیڑھ سو سال پیچھے جاتی ہے….
ہندوستان میں، پہلے پہل یہ “فتویٰ” اُس وقت عام کرایا گیا جب انگریزی استعمار کے خلاف مسلم مزاحمت کو فروکش کرانا بے حد ضروری ہو گیا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اِس فتویٰ کے ‘رائٹس’ تاریخی طور پر مرزا قادیانی جیسے لوگوں کے نام محفوظ رہے ہیں؛ اور ہر دور کے کسی خاص منظورِ نظر کو ہی اِس طرح کے ‘فتاویٰ’ دے کر استعمار کے خلاف ہونے والی مزاحمت کو کچلنے کے عمل میں مددگار ہونے کی توفیق ہوتی رہی ہے۔ ہمارے عام مولویانِ کرام کسی وقت خاموشی کا جرم کر بیٹھے ہوں تو اور بات ہے ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہاں کے عام مولویوں اور داعیوں نے استعمار کے خلاف ہونے والی اس مزاحمت کو کسی بھی پہلو سے، یا کسی بھی حوالے سے، اور کسی بھی دلیل سے، غلط یا مذموم ٹھہرایا ہو۔ نہ “ولی الامر” کے نہ پائے جانے کی بنا پر اور نہ کسی اور ‘دلیل’ کو بنیاد بنا کر…، ہمارے دینی و علمی طبقے کے ہاں اِس فتوائے قادیان یا اس سے ملتے جلتے جہاد مخالف فتاویٰ نے کبھی پزیرائی نہیں پائی۔ البتہ استعمار کے کام آنے والے اِن فتاویٰ و مفتیان کی مذمت اللہ کے فضل سے ہمارے دینی و علمی طبقے کی جانب سے خوب خوب ہوئی ہے۔ اور تو اور، آزادی کے بعد یہاں کے قومی نصابوں نے دورِ استعمار کے اندر ہونے والی ہماری اُس مزاحمت کو اچھا خاصا اون کیا ہے۔ ایسی کسی بنیاد پر کہ یہ “ولی الامر” کے بغیر ہوتی رہی تھی، آج تک کسی اسلام پسند تو کیا شاید کسی قوم پرست نے بھی اُس مزاحمت کے اندر کیڑے نہیں نکالے!
۔٭’طاقت کے توازن‘ والی دلیل – جہاد گریز طبقوں کی علمیت!
جہادِ غزہ کو ’’باطل‘‘ قرار دینے کےلیے بےشمار دلیلیں دی جا رہی تھیں، جن میں ایک ٹیپ کا مصرع ’’طاقت کے توازن‘‘ کی فرضیت تھا۔
یہ حضرات معاصر جہاد (خواہ وہ فلسطین و غزہ کا جہاد ہو، یا افغانستان کا یا کشمیر کا یا عراق کا) کے خلاف جو ایک ہردم تیار دلیل اپنے پاس رکھتے ہیں وہ یہ کہ: جہاد کی شروط میں سے ایک ’’شرط‘‘ (ان لوگوں کے خیال میں) یہ ہے کہ مجاہدین اور دشمن کے مابین طاقت کا توازن کم از کم بھی ایک::دو کا ہو۔ جس کےلیے یہ سورۃ الانفال کی آیت پیش کرتے ہیں:
الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُعَنكُمْوَعَلِمَأَنَّفِيكُمْضَعْفًا ۚ فَإِنيَكُنمِّنكُممِّائَةٌصَابِرَةٌيَغْلِبُوامِائَتَيْنِ ۚ وَإِنيَكُنمِّنكُمْأَلْفٌيَغْلِبُواأَلْفَيْنِبِإِذْنِاللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُمَعَالصَّابِرِينَ ﴿٦٦﴾
باوجود اس کے کہ کم طاقت کی صورت میں یہ آیت جہاد کو پھر بھی ’’منع‘‘ قرار نہیں دیتی، اور نہ اس میں ’’منع‘‘ کی کوئی دلیل ہے (آیت میں محض ایک چیز کی اجازت ہے نہ کہ منع)… تاہم علمائے امت نے بیان کر رکھا ہے کہ یہ حکم ’’جہادِ دفع‘‘ سے متعلق ہی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ’’جہادِ طلب‘‘ سے ہے۔
جہادِ دفع: جو مسلمانوں پر دشمن کے چڑھ آنے کی صورت میں لازم آتا ہے۔ اِس کو ’’جہادِ اضطرار‘‘ بھی کہتے ہیں (یعنی وہ جہاد جس کو ٹالنے کا مسلمانوں کے پاس آپشن ہی نہیں ہوتا)۔ جبکہ جہادِ طلب: وہ جہاد جو مسلمانوں کے کافر پر چڑھائی کرنے کی صورت میں ہوتا ہے، اس کو ’’جہادِ اختیار‘‘ بھی کہتے ہیں (یعنی وہ جہاد جس کو ٹالنے کا مسلمانوں کے پاس آپشن موجود ہوتا ہے)۔
سورۃ الانفال کے بیان کردہ ’’طاقت کے توازن‘‘ کے صحیح اطلاق سے متعلق امام ابن قیمؒ کی ایک تقریر دیکھیں۔ ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
فقتال الدّفع أوسعُ من قتال الطّلب وأعمُّ وجوباً وَلِهَذَا يتَعَيَّن على كل أحد يقم ويجاهد فِيهِ العَبْد بِإِذن سَيّده وَبِدُون إِذْنه وَالْولد بِدُونِ إِذن أَبَوَيْهِ والغريم بِغَيْر إِذن غَرِيمه وَهَذَا كجهاد الْمُسلمين يَوْم أحد وَالْخَنْدَق
قتالِ دفع کا دائرہ قتالِ طلب کی نسبت وسیع تر ہے اور اس کا وجوب بھی قتالِ طلب کی نسبت زیادہ وسیع دائرے کو محیط ہے۔ اس لیے یہ (قتالِ دفع) ہر کسی پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس میں جہاد کرے: غلام پر فرض ہوگا مالک کی اجازت ہو تب، نہ ہو تب، اولاد پر فرض ہوگا والدین کی اجازت ہو تب نہ ہو تب۔ قرضدار پر فرض ہوگا قرض خواہ کی اجازت ہو تب نہ ہو تب۔ اس کا معاملہ وہی ہے جو اُحُد اور خندق کے روز مسلمانوں کے جہاد کے ساتھ تھا (جب کافر مسلمانوں پر چڑھ آئے تھے اور ان کی تعداد اور اسلحہ مسلمانوں کے مقابلے پر کئی گنا تھا) (الفروسية: ج 1 ص 188، بتحقيق مشهور حسن، طبع دارالاندلس، حائل)
جہاد کی یہ جو قسم ہے اس میں یہ شرط نہیں ہوتی کہ دشمن کی تعداد مسلمانوں کے مقابلے پر دوگنی یا اس سے کم ہو۔ کیونکہ اُحُد اور خندق کے موقع پر کافر مسلمانوں کے مقابلہ پر کئی گنا تھے۔ مگر جہاد مسلمانوں پر پھر بھی واجب تھا۔ کیونکہ اس خاص صورت میں جہاد (مسلمانوں پر) از راہِ اضطرار و دفع ہوتا ہے نہ کہ جہادِ اختیار۔ یہ وجہ ہے کہ جہاد کی اِس قسم میں صلاۃ الخوف کا جواز بھی صورتحال کے مطابق ہوتا ہے۔ جبکہ جہادِ طلب میں، جب دشمن کے بچ نکلنے کا خدشہ ہو البتہ دشمن کے چڑھ آنے کا خطرہ نہ ہو، صلاۃ الخوف کے (حسب صورتحال) جائز ہونے سے متعلق علماء کے مابین دو رائے پائی جاتی ہیں۔ (از کتاب ’’الفروسیۃ‘‘ مؤلفہ ابن القیم)
۔٭مکی دور میں شخصی دفاع کا حق اور بدلے کی اجازت
کئی دوستوں نے دو باتوں کا بار بار ذکر کیا ہےایک یہ کہ مکہ میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں تھی اور دوسری یہ کہ جہاد ریاست کا کام ہے۔ ان دونوں باتوں کو جتنا سادہ بنا کر اور “مسلمات” کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے ایسا ہے نہیں۔ پہلے تو اس پر غور کریں کہ کیا جنگ کی اجازت نہ ملنے اور دفاع کا حق ملنے میں کوئی تعارض ہے؟ اگر ہاں تو پھر اسے کیا کہیں گے کہ مکی دور کے درمیان میں دفاع کا حق اور برابر کے بدلے کا حق تو مسلمانوں کو دے دیا گیا تھا؟ سورۃ النحل کی آیت ہے: و ان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ۔ یہ مکی سورت اور مکی آیت ہے اور مولانا اصلاحی کی تحقیق کے مطابق اس سورت کا نزول سورۃ الانعام سے بھی پہلے ہوا تھا ، گویا مکی دور کے درمیان میں مسلمانوں کو دفاع اور بدلے کا حق دے دیا گیا تھا۔ پھر سورۃ الشوری جو مکی دور ہی کی سورت ہے لیکن نسبتاًً بعد کے دور کی، اس میں مسلمانوں کی خصوصیت یہ ذکر کی گئی کہ ان پر ظلم ہوتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں: و الذین اذا اصابھم البغی ھم ینتصرون۔ اور آیات کا سیاق و سباق دیکھیں تو نظم کی گواہی یہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو دفاع کے لیے اجتماعی طریقہ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے کیوں کہ اس سے پہلے مسلمانوں کی یہ خصوصیت بھی ذکر کی گئی : “و امرھم شوری بینھم”۔ واضح رہے کہ یہ حکم مدنی دور کے لیے نہیں بلکہ مکی دور کے لیے تھا اور اس سورت کے بعد بھی مسلمان کافی عرصہ مکہ میں ہی مقیم رہے اور سیرت کی کتابیں شاہد ہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے کئی طریقے وضع بھی کرلیے تھے۔ اب ذرا غور کریں اس بات پر کہ مکہ میں مسلمانوں کو اس وقت دفاع اور بدلے کی اجازت دی گئی جب ابھی ان کی تعداد سیرت نگاروں کی تحقیق کے مطابق بہ مشکل ساڑھے سات سو تھی!
پھر مزید غور کریں کہ جو لوگ ریاست کے بغیر جہاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ مکہ میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں تھی، انھی دوستوں کا موقف یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا جہاد ایک خاص نوعیت کا تھا اور اس کے ذریعے دراصل آپ کے منکرین کو اتمام حجت کے بعد خداوندی عذاب دیا جارہا تھا اور ان دوستوں کا موقف یہ بھی ہے کہ اتمام حجت کے بعد ہی رسول کو ہجرت کا حکم دیا جاتا ہے! تو بھئی اگر یہ اتمامِ حجت اور رسول کے منکرین پر عذاب کا معاملہ تھا تو ابھی جب اتمام حجت ہوا ہی نہیں تھا اور ہجرت ہوئی ہی نہیں تھی تو عذاب کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس سے ان مظلوموں کی جدوجہد کیسے غلط ثابت ہوتی ہے جو ظالم کے خلاف منظم دفاع کرنا چاہتے ہیں؟ جب رسول کا جہاد sui generis ہے تو اسے sui generis ہی رہنے دیں۔
باقی رہا ریاست کا معاملہ ، تو وہ زیادہ تفصیلی بحث چاہتا ہے کیوں کہ اسلامی قانون “ریاست” نام کے “فرضی شخص” (fictitious person) کو جانتا ہی نہیں ہے۔ قرآنی آیات ، رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور فقہاے کرام کی تمام بحث “امام” یعنی حکمران کے ارد گرد گھومتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ اسے حکومت قرار دے سکتے ہیں۔ ریاست ایک بالکل ہی مختلف تصور ہے جو اسلامی قانون کے لیے اجنبی ہے۔ اس اجنبی تصور کو لے کر اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی طرف دیکھنے سے ہی وہ بہت سی الجھنیں پیدا ہوئی ہیں جن میں اس وقت ہماے بیش تر دانش ور مبتلا ہیں۔ اس تصور پر میں الگ سے بحث کروں گا، اگر اللہ نے توفیق دی۔ فی الوقت صرف اتنی گزارش ہے کہ سوال کو reframe کریں۔ بجاے اس کے کہ یہ پوچھیں کہ ریاست کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے یا نہیں، یہ سوال کریں کہ حکومت کے بغیر جہاد ہوسکتا ہے یا نہیں؟
استفادہ تحریر ابن علی ، ایقاظ ، ڈاکٹر مشتاق ، مولانا زاہد الراشدی