گزشتہ گفتگو میں ’اسلام‘ کے نام پر ہونے والی بعض ’جدید تحقیقات‘ کی جانب بھی کچھ اشارہ ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کے ایک عالم شیخ سلیمان بن صالح الخراشی اسلامی دنیا میں پائے جانے والے حالیہ ’جدت پسند‘ رجحانات کی بابت لکھتے ہیں:
اندیشہ ہے کہ اِس خوفناک راستے پر چل کھڑے ہونے والے سبھی طبقے رفتہ رفتہ اپنے اسلامی ثوابت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کوئی کفار کو خوش کرنے کےلیے، کوئی ’قدامت پسندوں‘ کی ضد میں آکر، کوئی ناموری کمانے کےلیے، کوئی شہرت اور کیمروں کی تاب نہ لاتے ہوئے، اور کوئی کسی اور سبب سے۔ یہ لوگ اسلامی مقدسات کی اس دیوار کو، جو اِن کے راستے میں حائل اور اِن کی اھواء کےلیے ایک رکاوٹ ہے، ایک ایک اینٹ کرکے گراتے چلے جائیں گے۔
اِس راستے کا پہلا قدم بالعموم ’’غیر اسلامی مذاہب کے ساتھ رواداری‘‘ کے نام پر اٹھایا جاتا ہے۔ ’’رواداری‘‘ بس ایک ڈھیلے ڈھالے انداز میں؛ اسی کی دعوت اور اسی کی تاکید! پھر اگلے قدم پر کافروں اور مسلمانوں کو ’بھائی بھائی‘ ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس سے اگلے قدم پر ولاء اور براء ایسے اسلامی اصولوں میں تشکیک پیدا کر ادی جاتی ہے۔ اس سےاگلے قدم پر یہود، نصاریٰ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ’’کافر‘‘ ہونے میں تشکیک پیدا کرائی جاتی ہے۔ آخر میں سیدھا سیدھا ’’انسانیت‘‘ کے مذہب کا پرچار شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی کسی کے ہاں اس کفر کا آخری اسٹیشن آ جاتا ہے، یعنی ’’وحدتِ ادیان‘‘… اور اس سے بھی بڑھ کر ’’وحدت الوجود‘‘۔ العیاذ باللہ
ایک اور عالم شیخ عبد العزیز الجلیل لکھتے ہیں:
بعض اسلامی طبقوں کے ہاتھوں اس وقت ’’ہیومن ازم‘‘ کی جو ترویج عمل میں آرہی ہے، اور جوکہ انسانوں کے مابین ’’عقیدہ‘‘ کے پیدا کردہ فاصلوں کو منہدم کردینے سے عبارت ہے… یہ گمراہ کن دعوت عالم اسلام میں مندرجہ ذیل اہداف کو یقینی بنانے کا ذریعہ بن رہی ہے:
- عقیدۂ توحید کا تیاپانچہ۔ کیونکہ توحید جس بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے وہ ہے اہل توحید کے ساتھ مل کر ایک جتھہ اور قوت بننا (الولاء) اور اہل شرک سے براءت اور بیزاری اختیار کرنا (البراء)۔ اس کا خودبخود یہ نتیجہ ہوگا کہ خدا کے ساتھ ’’کفر‘‘ ہوجانا کوئی بڑی بات نہ رہے۔ خدا کے ساتھ کفر اور شرک کرنے والا شخص طبیعت کو بہت زیادہ کھٹکنے والا نہ رہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ایک مسلم موحد اور ایک کافر ملحد آدمی کی نظر میں ایک برابر ہوجائیں۔
- اِس ’’ہیومن ازم‘‘ کی بنیاد پر تمام مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں اور ابلاغی پالیسیوں پر ایک نظرثانی۔ ان نصابوں اور میڈیا پالیسیوں سے ہر اُس چیز کو نکال باہر کیا جائے گا جو کافر کے ساتھ مسلمان کی کسی تاریخی عداوت کو زندہ کرے، یا خدا کے کلمہ کو بلند کرنے کےلیے کافر کے خلاف کسی مجاہدہ یا کسی کشمکش کا داعیہ بنے۔ بلکہ بہت سے مسلمان ملکوں میں ایسا بالفعل ہوچکا ہے، اور اس عمل کے بہت سے مراحل سر کرلیے گئے ہیں۔
- مسلمان ممالک میں مندروں اور گرجوں کی تعمیر کی ایک زوردار تحریک، خصوصاً جزیرۂ عرب کے اندر جہاں کسی دوسرے دین کا وجود ہی ممنوع ہے۔
- یہیں سے یہود (اور ہنود) کے ساتھ ’تعلقات کو معمول پر لانے‘ کا راستہ صاف کرلیا جائے گا۔ سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام بھی ’جائز‘ کرلیا جائیگا۔
- یہاں سے؛ جہالت سے اٹے ہوئے مسلم ممالک اور معاشروں میں مشنری ورک (عیسائیت سازی) کےلیے دروازے چوپٹ کھول دیے جائیں گے۔
- یہاں پہنچیں گے تو ’’دین بدلنے‘‘ کی آزادی کے مطالبے شروع ہوجائیں گے۔ ’آزادیِ فکر‘ ، ’آزادیِ رائے‘ خودبخود ’’آزادیِ تبدیلیِ دین‘‘ میں ڈھل جائے گی اور ’انسان‘ کے اِس ’’حق‘‘ کےلیے اٹھنے والی آوازیں آسمان کو پہنچنے لگیں گی۔ صرف یہودی، نصرانی یا ہندو ہونے ہی کی نہیں ملحد اور دہریہ ہونے کی آزادی طلب کی جائے گی۔ طرح طرح سے دین کا ٹھٹھہ اور مذاق اڑانے کی گنجائش نکالی جائےگی۔ مسلم نوجوان کے سامنے ایک طرف فحاشی ، برہنہ پن اور شہوات کی آندھیاں نفسیات دانی کی مہارتوں کو کام میں لاتے ہوے اعلیٰ ترین ’سائنٹفک بنیادوں‘ پر چلائی جائیں گی اور پھر اس باؤلاپن کو انتہا پر پہنچا کر لبرل اور سیکولر شبہات اٹھاتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو سیدھا سیدھا الحاد کی دعوت دی جائے گی۔ چنانچہ ایک طرف یہ نسل الحاد میں لت پت ہوگی تو دوسری طرف ننگےپن کی غلاظتوں میں۔
- ’آزادی‘ اور ’انسان پرستی‘ کی انہی آندھیوں کو اٹھانے کے دوران اُن ٹھیٹ فکر جماعتوں کو گردن زدنی بھی بنادیا جائے گا جو ’’اصولِ سلف‘‘ کی بات کریں، جو ’’توحید‘‘ کی بنیاد پر ’’ولاء اور براء‘‘ کی بات کریں۔ ’’میڈیا مہارتوں‘‘ کو کام میں لاتے ہوئے ان راسخ العقیدہ لوگوں کے ایسے ایسے القاب نشر کیے جائیں گے، ان کے ایسے ایسے خاکے بنائے جائیں گےکہ یہ ساری ’’انسانیت‘‘ کے دشمن نظر آئیں۔ دوسری طرف ’’انسانیت کے ان دشمنوں‘‘ کو مارنے کےلیے جو بارود بردار منصوبے عمل میں ہوں گے ان کےلیے ہر طرف سے تالیاں بجوائی جارہی ہوں گی۔ غرض اس ’’اتباعِ سلف‘‘ کے راستے کے خلاف اندھا اعلانِ جنگ ہوگا (خواہ وہ کتنے ہی پرامن کیوں نہ ہوں)، کسی کو اس سے ڈرا کر ہٹایا جائے تو کسی کو ورغلا کر، کسی کو جیلوں میں ٹھونس کر اور کسی کو واقعتاً راستے سے ہٹا کر۔
- سب سے بڑھ کر حیرت کی بات اِس پوری تصویر میں یہاں کے بعض اسلامی طبقوں کا اس ’’ہیومن اسٹ‘‘ ایجنڈا کی جانب میلان اختیار کرلینا ہے۔ ہمارے بہت بڑے بڑے اسلامی نام اس وقت اس ایجنڈا کےلیے مبارکبادوں اور آشیربادوں میں لگے ہوئے ہیں، کیا ہماری سادگی اور لاعلمی اس نوبت کو آچکی ہے یا ہماری مصلحت پسندی ہمیں اس مقام تک لا چکی ہے؟ اسلامی قیادتیں اِن آنے والی حقیقتوں سے لاعلم ہیں تو معاملہ تشویش ناک ہے۔ اور اگر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا ہورہا ہے پھر تو معاملہ آشوب ناک ہے۔
مسلمان کی لغت سے ’’کافر‘‘ کا لفظ نکلوا کر ’’غیرمسلم‘‘ کا لفظ ڈلوانے کی تحریک آج ’اسلامی‘ دلائل سے لیس ہو کر نہ صرف ہمارے عوامی ماحول بلکہ ہمارے اسلامی حلقوں میں بھی سرگرم ہوچکی ہے۔ اچھے اچھے دیندار اِس طوفان کی نذر ہورہے ہیں۔ ان جدید ’فتاویٰ‘ کی رُو سے آج نہ ’’کافر‘‘ کا لفظ یہود ونصاریٰ اور ہندؤں پر چسپاں ہوسکتا ہے اور نہ ’’کافر‘‘ اور ’’مشرک‘‘ والے احکام ہی کسی صورت یہود و نصاریٰ اور ہندؤں پر لاگو ہوسکتے ہیں۔ یہود ونصاریٰ اور ہندؤں کو کافر کہنے یا ان پر ’کافروں‘ والے احکام لاگو کرنے پر تو ان جدت پسندوں کے مابین تقریباً اتفاق ہے۔ بس چند گتھیاں سلجھانا ابھی باقی ہے: ’’کافر‘‘ کا لفظ تو اب اسلامی لغت سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے خارج کہئے؛ البتہ ’غیر مسلم‘ کے احکام کیا مسلمان والے ہوں گے یا کافر والے؟ معاملہ صرف یہاں پھنسا ہوا ہے! ’غیرمسلم‘ چونکہ ایک کیٹگری ہی دین کے اندر نئی ہے، لہٰذا اس پر ’اجتہاد‘ جاری ہےکہ کن معاملات میں ان کو ’ماضی کے‘ کافر کے ساتھ ملحق کیا جائے اور کن معاملات میں ’حال کے‘ مسلمان کے ساتھ! نیز اس ’ملحق‘ کرنے کی حدود اور قیود کیا ہوں؟ ہے یہ سراسر ’اجتہادی مسئلہ‘؛ لہٰذا اس میں ’آراء‘ متعدد ہوسکتی ہیں؛ بلکہ ہوسکتا ہے ایک ہی شخص اور ایک ہی دبستان کی ’آراء‘ بدلتی چلی جائیں؛ ’ہیومن ازم‘ کے ہر نئے اسٹیشن پر اذہان میں کچھ نئے در وا ہوں اور نئے سے نئے احکام سامنے آتے چلے جائیں!
مثال کے طور پر ’’المورد‘‘ جس کی ’تحقیق‘ بڑے عرصے سے اس نقطے پر پہنچی ہوئی ہے کہ آج کے ہندوؤں کو مشرک کہنا خلافِ شریعت ہے… یہ لوگ اب اس ’اجتہاد‘ کے کنارے آ کھڑے ہیں کہ ’غیر مسلم‘ ہندوؤں کو شریعت کے کن ابواب میں کافروں والے احکام دیے جائیں اور کن ابواب میں مسلمانوں والےاحکام۔ (البتہ ہے یہ ایک اجتہاد؛ جس میں آپ اِس طرف کو بھی جاسکتے ہیں اور اُس طرف کو بھی!)۔ چنانچہ المورد سے الحاق شدہ ایک اجتہاد یہ آچکا ہے کہ ہندوؤں کو چونکہ ہم مشرک ہی نہیں کہہ سکتے لہٰذا مسلمان عورت کا ایک ہندو مرد سے نکاح بالکل جائز ہے! ان کے ویب سائٹ کی تصویر جس میں یہ ’اجتہاد‘ ہوا ہے اس اور اس ویب لنک پر دی ہوئی ہے:
اپنے تاریخی ثوابت پر کھڑے ہونا اِس ملتِ بیضاء کیلئے آج ایک حقیقی چیلنج بن چکا ہے۔
حضرات! یہ بات علمائے عقیدہ کے ہاں بےحد واضح ہے کہ محمدﷺ پر ایمان نہ لانا ہی محمدﷺ کے ساتھ کفر کرلینا ہے؛محمدﷺ کے ساتھ کفر کا مرتکب ہونے کےلیے کسی کا ’خصوصی انکار‘ کرنا یا ’خصوصی طور جھٹلانا‘ سرے سے ضروری نہیں۔حق یہ ہے کہ ان ہیومن اسٹ آندھیوں کے ہاتھوں ہمارے گھر کی ہر ہر چیز درہم برہم ہونے جارہی ہے۔
تحریر حامدکمال الدین