قرآن اکیڈمی میں تنظیم کے کچھ دوستوں کی وساطت سے ایک منکر حدیث سے ملاقات ہوئی۔ بیٹھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کر دی کہ آپ کی تعلیم، ڈگری، مسلک، تعلیم کے مقاصد کیا ہیں وغیرہ۔
میں نے کہا: کام کی بات کریں کہ مسئلہ کیا ہے جس کے لیے آپ ملاقات کے خواہاں تھے؟
انہوں نے کہا: میں حدیث کو نہیں مانتا، آپ حدیث کو ثابت کریں۔
میں نے کہا: آپ قرآن کو مانتے ہیں؟
انہوں نے کہا: مانتا ہوں۔
میں نے کہا: میں قرآن کو نہیں مانتا، آپ قرآن کو ثابت کریں۔
انہوں نے کہا: یہ کیا بات ہوئی؟
میں نے کہا: یہی تو بات ہے۔
انہوں نے کہا: آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا: جس طریقے سے آپ قرآن مجید کو ثابت کریں گے، اسی طریقے سے میں حدیث کو ثابت کروں گا۔
انہوں نے کہا: آپ کے نزدیک قرآن مجید کیسے ثابت ہوتا ہے؟
میں نے کہا: جس طرح حدیث ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا: پھر بھی کیسے؟
میں نے کیا: میں نے اپنے استاذ سے سنا، انہوں نے اپنے استاذ سے، انہوں نے اپنے استاذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ مدرسہ کے ہر طالب علم کے پاس اپنے استاذ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کی مکمل سند موجود ہے۔ جس طرح ہم نے قرآن قاری المقری سے لیا، اسی طرح حدیث شیخ الحدیث سے لی۔ شیخ الحدیث نے جس طرح حدیث کی سند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی، اسی طرح قاری المقری نے قرآن کی سند اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی۔
انہوں نے کہا: قرآن تو اس لیے ثابت ہے کہ اللہ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔
میں نے کہا: کہاں لیا ہے؟
انہوں نے آیت پڑھی۔
میں نے کہا: قرآن کے ثبوت ہی کی بات چل رہی ہے اور آپ دلیل بھی قرآن مجید ہی سے دے رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ میں حدیث کو ثابت کرنے کے لیے حدیث ہی کو دلیل بناوں۔
انہوں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا: کوئی مثبت کام کرے۔ حدیث پر اعتراضات کی بجائے قرآن مجید کا دفاع کریں۔
انہوں نے کہا: قرآن مجید پر کیا اعتراض ہے؟
میں نے کہا: اہل مغرب نے بہت کیے ہیں۔ ان اعتراض کرنے والوں کو مستشرقین کہتے ہیں۔ میرے پاس تقریبا اڑھائی صد تحریریں ہیں کہ جن میں معروف مغرب کی یونیورسٹیوں کے پروفسیرز نے قرآن مجید کو معاذ اللہ بائبل کی طرح تحریف شدہ کتاب ثابت کرنے کے لیے تحقیقات پیش کی ہیں۔یہ عجیب بات نہیں کہ آپ خود کو اہل قرآن کہتے ہیں پهر بهی قرآن کا دفاع کرنے کے بجائے ان قرآن کے دشمنوں کے ہی دلائل کے سہار ےحدیث پر حملہ آور ہوگئے۔ ۔؟!
حافظ محمد زبیر
میں نے کہا: کام کی بات کریں کہ مسئلہ کیا ہے جس کے لیے آپ ملاقات کے خواہاں تھے؟
انہوں نے کہا: میں حدیث کو نہیں مانتا، آپ حدیث کو ثابت کریں۔
میں نے کہا: آپ قرآن کو مانتے ہیں؟
انہوں نے کہا: مانتا ہوں۔
میں نے کہا: میں قرآن کو نہیں مانتا، آپ قرآن کو ثابت کریں۔
انہوں نے کہا: یہ کیا بات ہوئی؟
میں نے کہا: یہی تو بات ہے۔
انہوں نے کہا: آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا: جس طریقے سے آپ قرآن مجید کو ثابت کریں گے، اسی طریقے سے میں حدیث کو ثابت کروں گا۔
انہوں نے کہا: آپ کے نزدیک قرآن مجید کیسے ثابت ہوتا ہے؟
میں نے کہا: جس طرح حدیث ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا: پھر بھی کیسے؟
میں نے کیا: میں نے اپنے استاذ سے سنا، انہوں نے اپنے استاذ سے، انہوں نے اپنے استاذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کہا: قرآن تو اس لیے ثابت ہے کہ اللہ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔
میں نے کہا: کہاں لیا ہے؟
انہوں نے آیت پڑھی۔
میں نے کہا: قرآن کے ثبوت ہی کی بات چل رہی ہے اور آپ دلیل بھی قرآن مجید ہی سے دے رہے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ میں حدیث کو ثابت کرنے کے لیے حدیث ہی کو دلیل بناوں۔
انہوں نے کہا: آپ کیا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا: کوئی مثبت کام کرے۔ حدیث پر اعتراضات کی بجائے قرآن مجید کا دفاع کریں۔
انہوں نے کہا: قرآن مجید پر کیا اعتراض ہے؟
میں نے کہا: اہل مغرب نے بہت کیے ہیں۔ ان اعتراض کرنے والوں کو مستشرقین کہتے ہیں۔ میرے پاس تقریبا اڑھائی صد تحریریں ہیں کہ جن میں معروف مغرب کی یونیورسٹیوں کے پروفسیرز نے قرآن مجید کو معاذ اللہ بائبل کی طرح تحریف شدہ کتاب ثابت کرنے کے لیے تحقیقات پیش کی ہیں۔یہ عجیب بات نہیں کہ آپ خود کو اہل قرآن کہتے ہیں پهر بهی قرآن کا دفاع کرنے کے بجائے ان قرآن کے دشمنوں کے ہی دلائل کے سہار ےحدیث پر حملہ آور ہوگئے۔ ۔؟!
حافظ محمد زبیر
khubi
May 20, 2015 at 3:36 pmif this is the level of dialogue with the oppenents i am afraid that not many people will be convinced. There can be for better argument in the defense of Hadees. Quran tells us to have dialouge with wisdom. Also in a dialogue the purpose shoud be to educate the person and not to humiliate.
ایڈمن
May 26, 2015 at 5:07 pmاس مکالمے میں مخالف کی بالکل انسلٹ نہیں کی گئی بلکہ چند پوائنٹس پر بات کی گئی ہے جنکی بنیاد پر حدیث پر اعتراض اور قرآن کا دفاع کیا جاتا ہے اور آخر میں قرآن کے دفاع کی جہاں ضرورت اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔