ایک فیس بکی مفکر قاری ڈار صاحب کچھ عرصے سے تواتر کے ساتھ احادیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں. اگر تو یہ کوئ صالح تنقید ہوتی، علمی بنیادوں پر ہوتی،اصولِ حدیث کی روشنی میں ہوتی،رد کا منہج سلف کا منہج ہوتاکہ حدیث نہیں بھی لی تو حدیث کی توقیر میں کمی نہ آئے تو بسروچشم قبول لیکن یہ تو صر ف لفاظی ہے ، اور جذباتیت ہے۔بحرحال ہم حدیث کے موضوع پر اپنے اس تحریری سلسلےمیں انکے تمام اعتراضات زیر بحث لاچکے ہیں ابھی انکے اس دعوی کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ ‘احادیث کی وجہ سے الحاد پھیل رہا ہے’۔
عجیب بات یہ ہے کہ موصوف کی یہ ساری کوشش/تبلیغ فیس بک تک محدود ہے، صاحب کا اپنی مسجد کا جمعہ کاخطاب اب بھی اسی روایتی دین کی تشریح ہوتی ہے، اپنی ان لاکھوں کیسٹوں میں محفوظ ہزاروں خطبات میں پرانا روایتی دین ہی بیان کیا جس میں ‘قصوں کہانیوں ضعیف روایات اور الحاد افزاء خیالات’ کی بھرمار ہے۔ جو حق منکشف ہوا اور اپنی عظیم الشان مقبولیت کو دائو پر لگا کر حق بولنے لگےمگرصرف فیس بک پر۔۔ یہ مہدی ومسیح کی آمد اور دجال کا خروج کعب الاحبار کے کاربن پیپر کا کمال ہے، صحاح ستہ ملحد ساز فیکٹریاں ہیں، قرآن کی قراءت متواترہ کے ا فسانے، حفص اور عاصم شیعہ ، بخاری ومسلم شیعہ کی مرہون منت۔۔ یہ سارے حق صرف فیس بک پر ہی بیان ہوتے ہیں۔
موصوف کے عالم عرب میں الحاد کی بارش دیکھ کر حواس گم ہیں، جلتے توے پر کھڑے ہیں،جل رہے ہیں،پگھل رہے ہیں گل رہے ہیں مگر بایں ہمہ اندازہ لگائیے ہوش کتنے سلامت ہیں کہ ان میں سے کوئی بات نہ برسر منبر زبان پر آتی ہے اور نہ کیسٹ میں ریکارڈ ہوتی ہے ۔۔۔ دیوانگی میں فرزانگی کا ایسا نظارہ چشم فلک دیکھ ہی نہ پاتی اگر جناب پیدا نہ ہوئے ہوتے۔
پاگل کررکھا ہے عرب کے الحادی سیلاب نے اور جو کچھ اخذ ہورہا ہے اسکا منبع بھی عرب میڈیا ،عرب ماحول اور عرب کا جدید ذہن ہے مگر برآمد کچھ بھی عربی میں نہیں ہورہا۔یعنی سیلاب “نیل” میں آرہا ہے پشتے “راوی” کے مضبوط کیئے جارہے ہیں۔فیا سبحان اللہ۔
یہاں تک تھی لفاظی اسلئے جواب بھی لفاظی۔آگے سوالات ہیں تو سوالات ہی رکھے جاتے ہیں۔
1۔ مجھے عرصہ ہوگیا انہیں پڑھتے ہوئے۔پوری ایمانداری سے عرض ہے کہ کسی بھی علمی موضوع پر کوئی ایک سوال آج تک انکا ایسا نہیں دیکھا جو ان سے پہلے کر نہیں لیا گیا اور امت اس پر سوال جواب سے فارغ نہیں ہوچکی۔اگر کوئی بھی شخص کوئی ایک سوال کوئی ایک سطری تحقیق ایسی پیش نہیں کرسکتا جو پائیمال نہیں جو جواب طلب ہے جسکا حل باقی ہے۔صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ ہر کچھ عرصے بعد ایسا ہی ایک “مقبول ومعروف” آدمی کتابوں کے ذخیرے میں قید اس گند کو پھرولتا ہے۔تھوڑی دیر ماحول متعفن ہوتا ہے پھر ختم۔زیادہ پرانی بات نہیں تھوڑا ہی زمانہ گذرا ہے غلام احمد پرویز،اسلم جیراجپوری،عبداللہ چکڑالوی،تمنا عمادی وغیرہ یہی راگ الاپتے ہوئے ۔جو تنبورہ سنبھالے آپ خود کو تان سین سمجھ رہےہیں اسکا کوئی راگ آپ نے ایجاد کیا ہوتا تو آپ کو کچھ سمجھ لیتے آپ تو صرف نقال ہیں اور وہ بھی بے ڈھنگے۔کراچی کی ایک بڑی مسجد میں ایک ملا بھی یہی سب کچھ سناتا ہے۔آپ سے بہت بہتر انداز ہے بس فیسبکی نہیں اور سر پر کسی المورد کا سایہ نہیں۔تمناعمادی کے گھسے پٹے نظریات کا تعفن اڑاکر لفاظی کے زور پر خود کو مصلح امت ثابت کرنے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے مگر منوایا نہیں جا سکتا۔جس دن کوئی نئی بات لائیں بڑے شوق سے علمیت کا دعوی کریں ، فخر سے “میں میں” کریں اور جواب طلب کرلیں۔
2۔فرماتے ہیں الحاد پھیل رہا ہے اور امت اس میں گر کر برباد ہورہی ہے اسلئے ان تمام احادیث کو اسلام سے دیس نکالا ضروری ہے جو ملحدین کی اسلام کے خلاف دلیل بنیں۔
یہ ہے وہ اصل مقدمہ جس پر انکار وتحقیق کی یہ عمارت استوار کی جارہی ہے۔
کیا ملحدین کا مسئلہ اماں عائشہ صدیقہ کی 6سال میں شادی اور مہدی ومسیح کی آمد وخروج دجال ہے؟کیا الحاد کی بناء صرف بخاری ومسلم ہیں؟یہ سوچ بالکل ایسے ہے جیسے زید حامد کے خیال میں شدت پسندی کی وجہ مولاناطارق جمیل صاحب کی خاموشی ہے۔
الحاد خدا کا انکار ہے۔مذہب کی لامعنویت ہے۔ملحد تخلیق انسان کا منکر ہے۔جنت وجہنم کا منکر ہے۔انبیاء کا منکر ہے۔وہ سائنس اور فلسفے میں اور ان دونوں سے بڑھ کر نفسانیت میں غرق ہوکر ملحد بنا اور ادھر کنویں کی مخلوق کی سوچ ہے کہ چند احادیث کا انکار کرکے الحاد کے سیلاب کا راستہ روک لیا جائے گا۔اس عقل ودانش کو پتا نہیں کیا پیش کرنا چاہئے۔آئیے!ملحدین کے سامنے آپشن رکھتے ہیں کہ سب مسلمان مان لیتے ہیں اماں عائشہ صدیقہ کا نکاح 18 سال میں ہوا۔کتنے ملحد تیار ہیں الحاد ترک کرنے پر؟۔
ملحد کو مسئلہ قرآن سے ہے جناب!۔
وہ کہتا ہے میں اس خدا کو نہیں مانتا جو نظر نہیں آتا۔جو مٹی سے انسان بنانے کا اعلان کرتا ہے۔جو بعث بعدالموت کا اثبات کرتا ہے۔جو اپنے بندوں کو جہنم میں جلانے کا کہتا ہے۔جو قتل وقتال کا حکم دیتا ہے۔جو بدر میں قیدی زندہ چھوڑنے پر ناراض ہوا۔جو “شرد بہم من خلفہم” جیسے احکام دیتا ہے۔ملحد کو نبی کی 9سال میں شادی پر نہیں 11 شادیوں پر پہلے اعتراض ہے۔اگر انکار کی روش سے ہی الحاد کا راستہ روکنا ہے تو کس کس بات کا انکار کروگے؟ کیا کیا خارج کروگے؟۔
بخاری مسلم نہیں یہاں قرآن ٹارگٹ ہے۔ کیا عقل ہے ان اسلام کے دوست نما دشمنوں کی۔ملحد نے کہا خدا تمہیں قتال کا کہتا ہے اسلئے ہم اسے نہیں مانتے۔وکلاء نے کہا کہ ہمیں نہیں دیتا صرف انبیاء کو دیا۔انبیاء کو بھی کیوں دیا؟۔نبی رحمت ہیں تو قتال کیوں؟۔جواب آیا صرف دفاع کا حکم دیا۔اچھا تو بدر والے قافلے سے کس کا دفاع کرنے نکلے تھے؟۔قرآن تو خود کہہ رہا ہے کہ تم نہتے قافلےکو پکڑنے کی نیت سے نکلے تھے۔اب؟کیا سورت الانفال بخاری کی روایت ہے؟۔اور اس روش سے کتنی باتوں کا جواب دیا جاسکتا ہے؟۔
آپ اپنی زعم میں لوگوں کو الحاد سے بچانے کے لیے احادیث کا انکار کررہے ہیں جبکہ ملحدین کوویسا ہی اعتراض قرآن پر بھی ہے، آپ حدیث کا انکار کررہے ہیں کہ سورج اللہ کے عرش کے نیچے جا کر کیسے سجدہ کر سکتا ہے ملحد کو قرآن مجید سے یہ شکایت ہے کہ قرآن کا سورج ایک گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے؟ آپ کو یہ اعتراض ہے کہ حضرت موسی اپنی قوم کے سامنے بے لباس ہو گئے تھے تو ملحد کو قرآن سے یہ شکایت ہے کہ آدم اور حوا اپنے دشمن کے سامنے بے لباس ہو گئے؟ اگر آپ کو حدیث پریہ اعتراض ہے کہ اللہ کے رسول چھوٹی عمر کی لڑکی سے کیسے نکاح کر سکتے ہیں؟ تو ملحد کوقرآن کی آیت سے یہ شکایت ہے کہ خدا چھوٹے بچے کے قتل کا حکم خضر کو کیسے دے سکتا ہے؟ اگر آپ کو یہ اعتراض ہے کہ مرتد کی سزا قتل کیسے ہو سکتی ہے؟ تو ملحد کو قرآن مجید سے یہ شکایت ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے پر توبہ کی یہ صورت کہ آپس میں ہی ایک دوسرے کی گردنیں اڑائیں، کیسے خدا کی طرف سے ہو سکتی ہے؟ وعلی ہذا القیاس، حدیث پر کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید پر بھی وارد نہ ہوتا ہو۔ تو اعتراض کی لونڈی اور عقل کی فاحشہ کے پیچھے چلو گے تو حدیث کیا، قرآن کا بھی انکار کرو گے۔۔!
اس الحاد کے منہ میں کانٹے دار لگام ڈالی ہے تو انہوں نے ڈالی ہے جو نہ مہدی مسیح کے منکر تھے نہ دجال کے خروج کے انکار کی انکو حاجت تھی اور نہ انہیں نکاح کی عمر سے کوئی مسئلہ تھا، نا سورج کے زیر عرش سجدہ کرنے سے نا گدلے پانی میں غروب ہونے سے ۔ ملحدین اور مستشرقین نے قرآن مجید پر جو کیچڑ اچھالا ہے، اس کا بھی علمی وتحقیقی جواب سینکڑوں کتب ومقالات کی صورت میں اگر کسی نے دیا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو حدیثوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ جس کو علمی جواب سے ایمان لانا ہو اسکے لیے شافی جواب موجود ہیں اور جسے محض بکواس اور عناد کی بناء پر ملحد ہی رہنا ہو تو کسی مسلمان پر یہ لازم نہیں کہ وہ اپنا دین کاٹ کر اپنے آباء کو گالی دے کر مسلمات دینیہ میں تحریف کرکے اور اجماعی مسائل کا انکار کرکے انہیں قریب لائے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ الحاد کی فیکٹریاں چلی ہی انکار حدیث سے ہیں اور حدیث سے بدظن کرنا ہی ملحد بنانے کی راہ ہموار کرنا ہے ،یہ بات ہمارے سامنے ہے کہ جتنے ملحدین اس انکار حدیث کی تحریک کے بعد پیدا ہوئے اتنے پہلے کبھی نا دیکھے گئے ، فیس بک پر ان ملحدین کی ہسٹری دیکھ لیں جو پہلے مسلمان تھے ، ان میں سے اسی فیصد ملحد انکار حدیث کے راستے سے ہوئے ہیں۔ پہلے دن سے مسلمانوں کا ایمان محفوظ ہی حدیث نے کیا۔ اسلام کے نظامِ حیات کو جس چیز نے تفصیلی اور عملی صورت میں قائم کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہی ہے۔ اسی سنت نے قرآن کی ہدایات کا مقصد و منشا متعین کر کے مسلمانوں کے تہذیبی تصورات کی تشکیل کی ہے اور اسی نے ہر شعبۂ زندگی میں اسلام کے عملی ادارے مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر دیے ہیں۔ لہٰذا اسلام کی کوئی مرمت اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اس سنت سے پیچھا چھڑا لیا جائے۔ اس کے بعد صرف قرآن کے الفاظ رہ جاتے ہیں۔ جن کے پیچھے نہ کوئی عملی نمونہ ہو گا، نہ کوئی مستند تعبیر و تشریح ہو گی اور نہ کسی قسم کی روایات اور نظیریں ہوں گی۔ ان کو من پسند تاویلات کا تختۂ مشق بنانا آسان ہو گا اور اس طرح اسلام بالکل ایک موم کا گولہ بن کر رہ جائے گا جسے دنیا کے ہر چلتے ہوئے فلسفے کے مطابق ہر روز ایک نئی صورت دی جا سکے گی۔ جدید منکرین حدیث نے اسی طریقے سے قرآن کو اپنی تاویلات کا کھلونا بنا کر عام مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل برہنہ کر دی ہے کہ سنت رسول اللہؐ سے جب کتابُ اللہ کا تعلق توڑ دیا جائے تو دین کا حلیہ کس بری طرح بگڑتا ہے، دین کی کوئی پریکٹکل شکل باقی ہی نہیں رہتی ، انکار حدیث کی راہ پر چلنے والے کچھ ہی عرصے میں ملحدین کی صفوں میں نظر آتے ہیں ۔
افسوس تو ذیادہ اس بات کا ہے کہ یہ ڈھائی سو برس بعد احادیث کے قلمبند ہونے کی باتیں ، حدیث کے ذخیرے کو ساقط الاعتبار ثابت کرنے کی سکیمیں، یہ رجالِ حدیث کی ثقاہت پر اعتراضات اور یہ عقلی حیثیت سے احادیث پر شکوک وشبہات کا اظہار، یہ سب کچھ مستشرقین یورپ کی اُتارن ہیں جن کو یہ نام نہاد عشاق قرآن پہن پہن کر اِتراتے ہیں۔ یہ وہی اعتراضات و شبہات ہیں جو مستشرقین نے اسلام کے بارے میں پیش کئے اور اب یہ لوگ انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے جذبے سے دوہرا رہے ہیں۔
استفادہ تحریر: طلحہ السیف