.
گزشتہ تحریر میں جو قرآنی آیات درج کی گئی ہیں اور ان کے ذیل میں جو منطقی اور حقیقی نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت اور اس کے اختیارات کے ثبوت کے لئے کافی ہیں اور انہی سے اس کا اسلامی قانون کے لئے بنیادی ماخذ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کو ایک عمومی اصول و قانون کے ظور پر ذکر کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سنت کی حاکمیت کے دائرہ ہائے اختیار بھی ذکر کئے ہیں اور اس کی وسعت کی بہت سی جہتیں بھی روشن کی ہیں تاکہ اس کی وسیع حدود میں یہ اطاعت و فرمانبرداری جہاں جہاں مطلوب ہے اس کا تعیین کیا جا سکے اور ایسے حلقے اور دائرہ ہائے اختیار بتا دیئے جائیں جن میں سنت اور اس کے اختیارات کا اطلاق ہوتا ہے۔
چنانچہ ہمارے خیال میں اس باب میں ان مختلف حلقوں اور متعدد مظاہر میں سے ہر ایک پر فرداً فرداً بحث مفید ہو گی اور ہم ان میں سے ہر ایک کے بارے میں قرآن کریم کے نقطہ نظر کی تشریح کریں گے۔
پیغمبر کے اختیارات بحثییت قانون ساز:
قرآن کریم کی متعدد آیات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تشریعی یا قانون سازی کے اختیارات تفویض کرتی ہیں۔ ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔
وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ ۚ قَالَ عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۚ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٥٦﴾ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٥٧﴾ (الأعراف)
“اور میری رحمت تمام اشیاء کو محیط ہو رہی ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام تو ضرور ہی لکھوں گا جو خدا تعالٰی سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو کہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جو لوگ ایسے رسول نبی اُمی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وہ نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال بتلاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں سو جو لوگ ان (نبی موصوف) پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔” (۷-157)۔
ترجمے کے نمایاں الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ رسالت ماب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اچھی چیزوں کو جائز اور خراب چیزوں کو ناجائز قرار دیں یہ فرض امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ( نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے منع کرنا) سے الگ اور مختلف ہے کیونکہ ثانی الذکر کا تعلق ان چیزوں کی تبلیغ یا ممانعت سے ہے جنہیں پہلے ہی معروف یا منکر قرار دیا جا چکا ہے جبکہ اول الذکر کا تعلق جائز اور نا جائز کے قوانین بنانے سے ہے یا دوسرے الفاظ میں ایسے قوانین کے نفاذ سے ہے جن میں مختلف چیزوں کی اجازت یا ممانعت کا حکم دیا گیا ہو۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہاں نئے مذہبی قواعد و قوانین بنانے کا انتساب قرآن کریم کی طرف نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہے لہذا اس کے جواب میں یہ دلیل نہیں دی جاسکتی کہ قانونی یا غیر قانوی بنانے سے مراد ان قواعد کا اعلان ہے جو کہ قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں کیونکہ قانون سازی قانون اعلان سے بالکل مختلف چیز ہے۔
اس کے علاوہ نافذ شدہ قواعد کے اعلان کا حوالہ پہلے ہی علیحدہ طور پر اس طرح ذکر کر دیا گیا ہے۔’’ نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔‘‘چنانچہ جملے کا اگلا حصہ یقینا صرف نئے قوانین بنانے ہی سے متعلق ہے۔
آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ’’ ایمان رکھنے‘‘ کو بھی زور دے کر ذکر کر دیا گیا ہے۔ موجودہ سیاق و سباق میں اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے جن فرائض و اختیارات کا اس آیت میں ذکر ہے ان تمام پر ایمان لانا مطلوب ہے اور انہی اختیارات و فرائض میں کسی چیز کو قانونیاور غیر قانونی قرار دینا بھی شامل ہے۔
مزید برآں آیت میں اس نور کا اتباع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ یہاں پھر ” قرآن کریم کے اتباع” کے الفاظ استعمال کرنے کے بجائے ” نور کے اتباع” کی ہدایت ہے تاکہ یہ ان تمام احکام پر محیط ہو جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل کئے گئے ہیں، خواہ قرآن مجید کے ذریعے ہو یا وحی متلو کے ذریعے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اقوال و افعال سے منعکس ہوتی رہی ہے۔
غرض یہ کہ کسی بھی زاوئیے سے دیکھ لیجیے یہ آیت اس حقیقت کا اعلان کرتی نظر آئے گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین کے علاوہ دیگر قوانین بنانے کا بھی ( جو ظاہر ہے کہ وحی غیر متلو پر مبنی ہوتے تھے) اختیار تفویض کیا گیا تھا۔
۲ ۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے :
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ﴿التوبۃ:٢٩﴾
” لڑو ان اہل کتاب سے جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو خدا تعالٰی نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حرام بتلایا ہے۔” (۹-۲۹)
ترجمے کے نمایاں الفاظ اس بات کو زور دے کر بیان کرتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول نے ناجائز اور غیر قانونی ٹھہرایا ہے، اسے ناجائز اور
غیر قانونی تسلیم کیا جائے نیز یہ کہ کسی چیز کو غیر قانونی اور ناجائز ٹھہرانے کا اختیار اللہ تعالٰی جل شانہ تک محدود نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی، اللہ تعالٰی کی رضامندی اور حکم سے، اس اختیار کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور رسول کے اختیار میں عظیم الشان فرق ہے۔ اول الذکر حقیقی خود مختار مستغنی اور آزادانہ وجود کا حامل اختیار ہے۔ جبکہ آخر الذکر اختیار اللہ تعالٰی کی وحی پر منحصر اور اسی سے اخذ شدہ ہے۔ لیکن اس عظیم الشان فرق کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارک کو یہ اختیار حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والوں کے لئے یہ لازمی ہے کہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت اصلی کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تفویض کردہ اس اختیار کے سامنے بھی سر تسلیم خم کر دیں۔
۳ ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴿الاحزاب:٣٦﴾
” اورکسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کوگنجائش نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں کہ ان مؤمنین کوان کے اس کام میں کوئی اختیاررہے۔۔ (۳۳-۳۶)
آیت میں اللہ رسول کے حکم کو ساتھ ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت اور رسول کے اختیار میں عظیم الشان فرق ہے۔ اول الذکر حقیقی خود مختار مستغنی اور آزادانہ وجود کا حامل اختیار ہے۔ جبکہ آخر الذکر اختیار اللہ تعالٰی کی وحی پر منحصر اور اسی سے اخذ شدہ ہے۔ لیکن اس عظیم الشان فرق کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارک کو یہ اختیار حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان رکھنے والوں کے لئے یہ لازمی ہے کہ اللہ تعالٰی کی حاکمیت اصلی کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تفویض کردہ اس اختیار کے سامنے بھی سر تسلیم خم کر دیں۔
۴۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ ( الحشر: ۷)
’’ اور رسول تم کو جو کچھ دے دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس چیز سے تم کو روک دیں تم رک جایا کرو۔ (۷ ۔ ۵۹)
اگرچہ اس آیت کا سیاق و سباق جنگ کے بعد مال غنیمت کی تقسیم سے متعلق ہے لیکن قرآن کریم کی تفسیر کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر کسی خاص واقعے سے متعلق کوئی آیت نازل ہوئی ہے اور اس کے الفاظ اسی واقعے سے متعلق نہیں بلکہ عام ہیں تو ان کا عمومی مفہوم ہی مراد لیا جائے گا اور اس آیت کا اطلاق صرف اسی واقعے تک محدود نہیں رہے گا۔ہمیشہ سے اس اجماعی اور مسلمہ اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ آیت رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ایک عمومی قاعدہ بیان کرتی ہے کہ آپ ﷺ کسی معاملہ میں جو کچھ بھی فیصلہ دیں وہ آپ ﷺ کے متبعین کے لئے واجب التعمیل ہے اور جس بات سے آپ ﷺ منع فرمائیں وہ ان کے لئے غلط اور قابل اجتناب ہے چناچہ اس طرح قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺ کو فیصلے کرنے ، قانون بنانے اور پابندیاں عائد کرنے کے قانونی اختیارات تفویض کر دئیے ہیں۔
یہاں ایک مشہور صحابی رسول حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک حکیمانہ جواب کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جو آپ نے ایک خاتون کے سوال کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ عرب کے قبیلہ اسد کی ایک خاتون حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے آئیں اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ فلان فلاں باتوں کی ممانعت کرتے ہیں ۔ حالانکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو تمام تر پڑھ رکھا ہے ۔ لیکن ان باتوں کی ممانعت کسی بھی جگہ مذکور نہیں ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر تم نے اللہ کی کتاب کو پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ ممانعت ضرور مل جاتی ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ ( الحشر : ۷) (سنن ابن ماجہ ج۱ ص۳۶۷ حدیث ۱۹۹۸)
اس جواب کے ذریعے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ یہ آیت اس قدر جامع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام احکامات اور ممانعت کے فیصلوں کو محیط ہے اور چونکہ مسئولہ ممانعت کا حکم خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے جاری کردہ ہے اس لئے وہ بالواسطہ طور پر اس آیت کے عموم میں شامل ہے۔
۵۔ اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( النساء : ۶۵)
’’ پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کرادیں۔‘‘ (۶۵ – ۴)
بظاہر اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اختیار ایک منصف اور جج کا اختیار بیان کیا گیا ہے جو کہ اپنے سامنے پیش کئے گئے معاملات کا محاکمہ کرسکتا ہو۔ لیکن آیت میں استعمال ہونے والے الفاظ و تراکیب پر ذرا غور کریں تو یہ بات واضح طور پر روشن ہوجائے گی کہ آپؐ کے اختیارات صرف ایک قاضی یا منصف سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک جج اور منصف کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر فیصلے کرے اور متعلقہ فریقین سے لازمی طور پر اس فیصلے کی پابندی کروائے لیکن اس کے فیصلوں کو دل و جان سے تسلیم کرلینا کسی فریق کے مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی با اختیار جج کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا تو اسے اس کا غلط اور نامناسب رویہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ اس کا جرم بھی شمار کیا جاسکتا ہے جس کی سزا تک دی جاسکتی ہے لیکن محض اس جرم میں کہ اس نے منصف کے فیصلے کو قبول نہیں کیا وہ کسی طور پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا۔ اس کی پاداش میں اسے کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اس کے برعکس آیت شدت سے اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں کہلایا جاسکتا۔ اس کا زوردار انداز بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حاکمیت محض ایک عام منصف اور جج کی حاکمیت کی طرح نہیں ہے آپؐ کے فیصلے کا انکار اسلام سے منکر ہو جانے کے مترادف ہے جس سے نتیجتا یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صادر کردہ فیصلے کسی مقدمے کے سلسلے میں عام عدالتی فیصلوں سے بہت مختلف ہیں۔ یہ آپؐ کے نافذ کردہ وہ قوانین ہیں جو وحی متلو یا غیرمتلو کی بنیاد پر تشکیل دئیے گئے ہیں۔ لہذا ان قوانین کا انکار درحقیقت قوانین الٰہی کا انکار ہے جن کا منکر امت مسلمہ سے خارج ہے۔
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مندرجہ بالا آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ صرف منصف کے اختیارات تفویض کرتی ہے بلکہ آپ کو ایسا قانون ساز ہونے کا منصب بھی عطا کرتی ہے جس کے فیصلے مسلمانوں کے لئے آسمانی فیصلوں کی طرح واجب التسلیم ہیں :
۶۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے !
وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَـٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ ﴿٤٨﴾ وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ ﴿٤٩﴾ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿٥٠﴾ إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّـهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿النور:٥١﴾
اور ( منافق) لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور حکم مانا پھر اس کے بعد ان میں کا ایک گروہ سرتابی کرتا ہے اور یہ لوگ اصلاً ایمان نہیں رکھتے اور یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس غرض سے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ان میں ایک کا گروہ پہلوتہی کرتا ہے اور اگر ان کا حق ہو تو سر تسلیم خم کیے ہوئے آپ کے پاس چلے آتے ہیں۔ آیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں پڑے ہیں، یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم نہ کرنے لگیں۔ نہیں بلکہ یہ لوگ برسر ظلم ہیں۔ مسلمانوں کا قول تو جب کہ ان کو اللہ کی اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ ان کے درمیان میں فیصلہ کر دیں، یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور ایسے لوگ فلاح پائیں گے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کہا مانے اور اللہ سے ڈرے اور اس کی مخالفت سے بچے۔ بس ایسے لوگ بامراد ہوں گے۔” (۵۱، ۲۴-۴۷)
یہ آیات بھی اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ مسلمان ہونے کے لئے لازمی شرط یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلوں کے سامنے سر جھکا دیا جائے۔ ان لوگوں سے، جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف بلائے جانے کے باوجود اپنے تنازعات تصفیے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس نہیں لاتے، قرآن کریم کی رو سے مسلمانوں جیسا برتاؤ نہیں رکھا جا سکتا۔ اس آیت کا مطلب بھی پچھلی آیت سے مختلف نہیں ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالٰی جل شانہ اور اس کے رسول پر ایمان کا بنیادی جزو یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حجیت اور اس کا اختیار صدق دل سے قبول کیا جائے۔ تنازعوں کی صورت میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس کے فیصلوں کی مکمل اطاعت اور اس کے فیصلوں کی لازماً تمام تر پیروی کی جائے۔
پیغمبر کے اختیارات بحیثیت مفسر قرآن :
دوسری قسم کا اختیار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تفویض فرمایا گیا وہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کا اختیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں معتبر ترین ہے۔ قرآن کریم کا ارشاد ہے !
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ﴿النحل:٤٤﴾
” اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بھی یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جو مضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے ظاہر کر دیں اور تاکہ وہ فکر کیا کریں۔” (۴۴ – ۱۶) ۱
یہاں غیر مبہم اور واضح الفاظ میں بتلایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تفسیر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بنیادی منصب ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ مکہ کے عرب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے براہ راست مخاطب تھے، قرآنی الفاظ کے لئے کسی ترجمے کے محتاج نہ تھے۔ قرآن مجید ان کی مادری زبان میں نازل ہوا تھا اور تمام تر ناخواندگی، بے علمی اور جہالت کے باوجود اپنی زبان اور ادب پر ان کا بھرپور عبور اور دسترس ناقابل انکار ہے۔ ان کی تاثر انگیز شاعری، بلیغ تقاریر اور فصیح جملے آج بھی عربی زبان و ادب کی بے پناہ ثروت کا بنیادی سرچشمہ ہیں۔ وہ بحیثیت زبان و ادب قرآنی عبارات کے معنی و مفہوم کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اس سلسلے میں کسی فرد کی تعلیم کے حاجت مند نہ تھے۔ یہ بات کہ قرآن کریم کے ابتدائی مخاطب اس کے عبارتی مفاہیم و معانی سے بخوبی واقف تھے، ہر شک و شبہے سے بالا ہے۔
اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ وہ تفسیر و تشریح جس کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سونپی گئی تھی قرآن کریم کے لفظی مفاہیم و معانی سے سوا کوئی چیز بھی۔ یہ وہ تشریح تھی جو تمام مستنبط نتائج اور مطلوبہ ضروری تفصیلات پر مشتمل تھی اور جسے اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام فرمایا تھا۔ یہ ضروری تفصیلات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک وحی غیر متلو کے ذریعے پہنچائی گئیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے قرآن کریم نے صاف صاف کہا ہے۔ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿القیامۃ:١٩﴾”پھر اس کا بیان کر دینا ہمارا ذمہ ہے۔” (۱۶ – ۷۵)
یہ آیت اس موضوع پر خود اپنی تفسیر ہے۔ اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی کتاب کی تشریح خود بیان کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے کتاب اللہ کی جو بھی تفسیر کی گئی ہے وہ خود اللہ تعالٰی کی بیان کردہ تشریح پر مبنی ہے۔ لہٰذا کسی آیت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر تمام ممکنہ تفاسیر پر بالاتر ہے۔پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس قرآن کریم کی تفسیر و تعبیر کے لئے معتبر ترین ٹھہری اور اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بیان حرف آخر قرار پایا۔
پیغمبری تفسیر قرآن کی چند مثالیں:
اس کی مزید تعیین اور صراحت کے لئے میں یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر قرآن کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ان مثالوں سے یہ بھی واضح ہو سکے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہم خود کو کس بیش بہا نعمت سے محروم کر لیں گے۔
۱ ۔ نماز عبادت کا ایک معروف طریقہ ہے جو مسلمہ طور پر توحید کے اقرار کے بعد اسلام کا پہلا ستون ہے۔ قرآن کریم میں ۷۳ سے زاید مقامات پر نماز قائم
کرنے کی تاکید آئی ہے۔ لیکن تاکیدی آیات کی اس کثیر تعداد کے باوجود پورے قرآن مجید میں کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جس میں تشریح کی گئی ہو کہ نماز ادا کیسے کی جائے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا کیا طریقہ ہے؟
نماز کے چند ارکان مثلاً رکوع، سجود اور قیام یقیناً قرآن کریم میں ذکر کئے گئے ہیں۔ لیکن ایک مجموعی حیثیت میں نماز کی ادائیگی کا طریقہ قرآن کریم میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت ہے جس کے ذریعے ہمیں اس کی ادائیگی کے مکمل طریقے کا علم ہوا ہے۔ اگر سنت کو نظر انداز کر دیا جائے تو ہم نماز کی ادائیگی کے صحیح طریقے کی تمام تفصیلات سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کوئی شخص بھی صرف قرآن کریم کی رو سے نماز کی ادائیگی کا کوئی متبادل طریقہ نہیں بتلا سکتا۔
یہ بات نہایت اہم ہے کہ قرآن کریم جو نماز کے بارے میں تہتر (۷۳) سے زاید مرتبہ تاکیدی حکم دیتا ہے اس نے ایک بار بھی ادائیگی نماز کے تفصیلی طریقے کا ذکر اختیار نہیں کیا۔ یہ صورت محض اتفاق سے اور کسی حکمت کے بغیر پیش نہیں آئی بلکہ دانستہ طور پر یہ نکتہ اسی لئے رکھا گیا ہے کہ سنت کی اہمیت کا ایک پہلو روشن کر دیا جائے۔
نماز جیسے اسلام کی انتہائی اہم ستون کے بارے میں تفصیل بیان نہ کر کے قرآن کریم نے گویا اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد صرف بنیادی اصولوں کی نشاندہی ہے اور ان کی تفصیلات کا بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریحات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
۲ ۔ قرآن کریم میں نماز ہی سے متعلق یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ نماز کی ادائیگی صرف چند مخصوص اوقات ہی میں ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ :
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿النساء:١٠٣﴾
(یہ آیت نمبر ۱۰۳ ہے جبکہ کتاب میں ۱۰۴ لکھی ہوئی ہے)
“یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض اور وقت کے ساتھ محدود ہے۔” (۱۰۴ – ۴)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ چند ایک مقررہ اوقات ہی میں نماز ادا کی جا سکتی ہے لیکن وہ مقررہ مخصوص اوقات کون سے ہیں؟ اس کی تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ یہ بات کہ روزمرہ فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے، قرآن کریم میں کہیں بھی ذکر نہیں کی گئی۔ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے ذریعے ہی ہمیں معلوم ہو سکا ہے کہ فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے اور وہ فلاں فلاں وقت میں ادا کی جا سکتی ہیں۔
۳ ۔ ہر نماز میں پڑھی جانے والی رکعات کی تعداد کی بھی یہی صورت ہے۔ قرآن کریم میں کسی بھی جگہ یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ فجر کی رکعات کی تعداد اور ظہر، عصر اور عشاء میں چار چار ہے۔ اس بارے میں صرف سنت ہی میں تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔
اگر سنت پر یقین کرنے سے انکار کر دیا جائے تو اسلام کے اہم ترین ستون کے بارے میں بھی ہم ان تمام ضروری تفصیلات سے لاعلم رہ جاتے ہیں۔ اور نماز ایک ایکسا مبہم فریضہ بن کر رہ جاتی ہے جس پر عمل کرنا ممکن نہیں رہتا۔
۴ ۔ اسی طرح زکوٰۃ کا معاملہ لے لیجیے جو کہ اسلام کا دوسرا ستون ہے اور جس کے بارے میں اکثر اوقات قرآن کریم میں نماز کے ساتھ ساتھ تاکیدی ذکر آیا ہے۔۔ زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم قرآن کریم میں تیس (۳۰) سے زائد مقامات پر وارد ہوا ہے۔ لیکن زکوٰۃ کی ادائیگی کس شخص پر فرض ہے؟ اس کی ادائیگی کس شرح سے کی جانی چاہیے؟ کن اثاثوں پر زکوٰۃ واجب الادا ہے؟ کون سے اثاثے زکوٰۃ کی کٹوتی میں شامل نہیں ہوتے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کو نظر انداز کرنے کی صورت میں یہ تمام سوالات تشنہ جواب رہ جاتے ہیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی ذات اقدس ہے جس نے یہ تمام تفصیلات فراہم کی ہیں۔
۵ ۔ رمضان المبارک کے روزے بھی اسلام کا تیسرا رکن شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی قرآن کریم نے محض بنیادی اصولوں کے بیان پر اکتفا کیا ہے اور بے شمار ضروری تفصیلات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان تشریحات پر چھوڑ دی گئی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور احادیث کے ذریعے بتلائی گئی ہیں۔ روزے کی حالت میں کھانے پینے اور مباشرت کے علاوہ کون کون سے افعال ممنوع ہیں یا کن کی اجازت ہے؟ کوئی شخص کن حالات میں کن شرائط کے مطابق روزہ توڑ سکتا ہے؟ روزے کے دوران کس قسم کا علاج معالجہ کرنے کی اجازت ہے؟ یہ اور اس سے ملتی جلتی تمام تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نے بیان فرمائی ہیں۔
۶ ۔ قرآن کریم نے وضو کا طریقہ بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے۔
وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ ﴿المائدۃ:٦﴾ ترجمہ:” اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارا بدن پاک کرو۔” (۶ – ۵)
قرآن کریم نے ایک جگہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ حالت جنابت میں کوئی شخص نماز ادا نہیں کر سکتا (۴:۴۳) لیکن جنابت کی تعریف قرآن کریم میں کہیں
بھی ذکر نہیں کی گئی۔ اور نہ یہ بتلایا گیا ہے کہ ایسا شخص اپنے آپ کو کس طریقے سے “اچھی طرح پاک” کر سکتا ہے۔ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارک ہی نے ان تمام سوالوں کے جوابات ارشاد فرمائے ہیں۔ اور ضروری تفصیلات بیان کی ہیں۔
۷ ۔ اسلام کے چوتھے ستون “حج” کے بارے میں قرآن کریم نے حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے۔
وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ ﴿آل عمران:٩٧﴾
“اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ ان مکان کا حج کرنا ہے (یعنی) اس شخص کے ذمہ جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کہ سبیل کی۔” (۹۷ – ۳)
یہاں اس حکم میں یہ بات نہیں بتلائی گئی کہ کس شخص پر حج کتنی بار فرض ہے۔ اس کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نے بیان فرمائی کہ عمر بھر میں ایک بار حج کی ادائیگی سے فریضہ حج ادا ہو جاتا ہے۔
۸ ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے!
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿التوبۃ:٣٤﴾
“اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کر رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو اب ان کو ایک بڑی دردناک سزا کی خبر سنا دیجیے۔” (۹ – ۳۴)
یہاں ذخیرہ اندوزی اور مال و دولت سینت سینت کر رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اور اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ لیکن ان دونوں افعال میں سے کسی کی بھی حدود کا تعین نہیں کیا گیا۔ آدمی کسی حد تک مال و دولت کی بچت کر سکتا ہے؟ اور کتنا مال و دولت خرچ کرنا فرض ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریحات پر چھوڑا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی نے اس کی تفصیلی حدود بیان فرمائی ہیں۔
۹ ۔ قرآن کریم نے عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے جن سے رشتے کی رو سے نکاح ممنوع ہے، ایک ہی وقت میں دو بہنوں کو نکاح میں رکھنے کی ممانعت بیان کی ہے۔ ارشاد باری ہے۔
وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ ﴿النساء:٢٣﴾
” اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھو۔” (۳۲ – ۴)
اس آیت کریمہ کی تشریح فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے واضح فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کا اطلاق محض دو بہنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ آیت کریمہ میں ایک اصول بیان کر دیا گیا ہے جس کے تحت پھوبھی، بھتیجی، خالہ بھانجی کو بھی بیک وقت نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اور آیت کریمہ کی ممانعت ان دونوں صورتوں میں بھی لاگو ہوتی ہے۔
۱۰ ۔ کتاب اللہ میں فرمایا گیا ہے!
الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ ﴿المائدۃ:٥﴾
آج تمہارے لیے حلال چیزیں حلال رکھی گئی ہیں۔” (۵-۵)
یہاں ” حلال چیزوں” کی تفصیل بیان نہیں کی گئی۔ اسلامی قانون کی رو سے “طیبات” کی تفصیلی فہرست صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے بیان فرمائی ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اکل و مشروبات کی وہ تمام اقسام ذکر فرمائی ہیں جو کسی مسلمان کے لیے حرام ہیں اور طیبات ( حلال اشیاء) میں شامل نہیں ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے ان تشریحات کی بدولت ایسی تمام اشیاء کی نوعیت واضح نہ فرمائی جاتی تو ہر شخص اپنی خواہشات اور فہم کی بنیاد پر ” طیبات” کی تشریح کیا کرتا اور وحی کے نزول کا اصل مقصد جو کہ اچھی اور بری چیزوں کے مابین حد امتیاز قائم کرنا تھا، ختم ہو کر رہ جاتا۔ اگر ہر کسی کو اس بات کی آزادی دے دی جائے کہ وہ خود طے کرے کہ کیا چیز اچھی ہے اور کیا بری تو ایسی صورت میں نہ تو کسی وحی کی ضرورت تھی اور نہ کسی رسول کی۔ اچھے برے میں امتیاز کرنے کی اس ضرورت کو قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے پورا فرمایا ہے۔
تلکہ عشرۃ کاملہ
اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو نظیر کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں لیکن اوپر پیش کردہ چند ایک مثالیں غالباً اس بات کے ادراک کے لیے کافی ہوں گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیش کردہ تشریحات کی نوعیت کیا ہے اور مسلمانوں کے لیے قرآن حکیم ہی کے پیش کردہ اسلامی زندگی کے سانچے میں یہ کس درجہ اہمیت کی حامل ہیں۔