کیاپیغمبروں کی دعوت میں کوئی فلسفیانہ گہرائی نہیں ہوتی؟

بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آج کے دور میں کچھ لوگ مذہب کو اتنے منطقی اور فلسفیانہ انداز میں پیش کرتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کھینچ تان کر مذہب کو منطقی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ مذہب کو پیش کرنے والے پیغمبر اور ان کے اولین مخاطبین نے ان فلسفیانہ مباحث کو کبھی موضوع نہیں بنایا ہوتا۔
پیغمبروں کی دعوت اور جو دین وہ پیش کرتے ہیں اس کے بارے میں کچھ بنیادی باتوں کا واضح ہونا نہایت ضروری ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے یعنی اس کو سمجھنے کے لیے انسان کا مشکل پسند ہونا ضروری نہیں۔ پیغمبروں کی دعوت کے اولین مخاطبین ان کی اپنی قوم کے لوگ ہوتے ہیں چونکہ ہر معاشرے میں سطحی ذہن کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور منطقی انداز میں سوچنے والے افراد بھی ہوتے ہیں اس لیے دین کو اس سطح سے پیش کیا جاتا ہے جو بیک وقت ایک عام انسان کی سطح بھی ہوتی ہے اور ذرا تدبر کیا جائے تو اس کی فلسفیانہ بنیادیں بھی اسی دعوت میں مل جاتی ہیں۔
پیغمبرانہ دعوت اپنے اسلوب اور استدلال میں سادہ اور فطری جگہ پر کھڑی ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے پیش کیے ہوئے دین میں وہ علمی، منطقی اور فلسفیانہ گہرائی نہیں ہوتی جو آج کے مشکل پسند جدید ذہن کو مطمئن کرتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ پیغمبر ایک فلسفی کی جگہ کھڑا ہو کر دعوت نہیں دیتا بلکہ قرآن کے مطابق وہ انذار کرتے ہیں۔ اپنی قوم کے ماحول میں اور ان کے انفس میں موجود خدا کی نشانیاں دکھاتے ہیں۔ وہ انسان کے ضمیر پر دستک دیتے ہیں اور اسے متوجہ کرتے ہیں۔ یہی طریقہ کار خدا کے کسی فرستادہ کے شایان شان بھی ہو سکتا ہے۔
پیغمبر کی دعوت میں فلسفیانہ اور علمی بنیادیں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی دعوت کا طریقہ ہماری مرضی سے متعین کرے۔ فلسفے کے تمام بڑے سوالات کو قرآن موضوع بناتا ہے اور اپنی رائے دیتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار نہایت سادہ اور “ٹو دی پوائنٹ” ہوتا ہے۔ یہ قرآن کا اسلوب نہیں کہ وہ حقائق کو مشکل اور دقیق فلسفیانہ مباحث کے طریقے پر بیان کرے۔ مثال کے طور پر فلسفے کا ایک معرکتہ آلارا مسئلہ ہے کہ آیا اخلاقیات انسان کا اکتساب ہیں یا یہ انسان کے اندر وہبی (پیدائشی) طور پر موجود ہوتی ہیں۔
اس پر قرآن اپنی رائے صرف تین الفاظ میں پیش کرتا ہے “فالھماھا فجورھا وتقواھا” (ترجمہ: ہم نے انسان کے اندر فجور اور تقویٰ کا شعور الہام کیا)۔ قرآن کی یہ رائے فلسفیانہ طور پر مکمل ہے اور پورے نقطہ نظر کا اظہار ہے لیکن اس کا بیان بالکل سادہ اور ایک عام انسان کو متوجہ کرنے والا ہے۔ یہی طریقہ کار دوسرے فلسفیانہ سوالات کے بارے میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اگر قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں انسان نہ جانتا ہو تو وہ یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس میں فلسفیانہ مباحث کو موضوع نہیں بنایا گیا اور پھر اس کے لیے علمی دنیا میں قرآن کوئی قابل اعتناء چیز نہیں رہے گی۔ اس موضوع پر امام امین احسن اصلاحی نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جسے فلسفے کے طالبعلموں کو ضرور دیکھنا چاہیے اس کتاب کا نام “قرآن حکیم فلسفیانہ مباحث کے تناظر میں” ہے۔
اب ایک نظر اس علمی مشکل پسندی کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ جب تک بات کو دس پندرہ “چونکہ، چنانچہ” لگا کر پیش نہ کیا جائے آج کل کے علمی ذہن کو اپیل ہی نہیں کرتی۔ ہماری موجودہ علمی اور خاص طور پر فلسفیانہ روایت اپنی اصل میں یونانی فلسفیانہ روایت کا ہی تسلسل ہے۔ یونانی علم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بلاشبہ ان کے ہاں بہت بڑے دماغ پیدا ہوئے اور انہوں نے کائنات پر مختلف طریقوں سے تدبر بھی کیا لیکن ایک چیز جو اس پوری علمی روایت کے اوپر ابر بے کراں کی طرح حاوی ہے وہ ان کا بات بیان کرنے میں مشکل پسندی کا رویہ ہے۔ ارسطو کے بعد جب یونانی علمی روایت کا زوال شروع ہوا اور مغرب میں ایک نئی روایت ڈیکارت سے شروع ہوئی تو اس جدید مغربی روایت کو بہرحال یونانی علمی روایت سے مکالمہ بھی کرنا تھا اور اس سے استفادہ بھی کرنا تھا تو نتیجتاً اسی لب و لہجے اور حقائق کے بیان میں مشکل پسندی کے رویے کو اپنا لیا گیا۔ مسلم علمی روایت بھی چونکہ نوفلاطونی فلسفے سے متاثر ہوئی تو یہ مشکل پسندی ان کے ہاں بھی در آئی۔ فلسفے نے جب مذہب پر سوالات اٹھائے تو مذہب کا دفاع کرنے والوں کی بھی یہ مجبوری بنی کہ فلسفیوں کو انہی کی زبانی جواب دیا جائے لہٰذا اسی طرز پر کچھ مذہبی لٹریچر بھی وجود میں آنا شروع ہو گیا ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اس بات پر باقاعدہ متوجہ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ اعلیٰ ترین حقائق نہایت سادہ ہوتے ہیں۔ فلسفے کے سوالات کے جوابات بھی سادہ حقیقتیں ہوتی ہیں اور ان کو سادہ طریقے پر ہی پیش کرنا چاہیے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حقائق کو جتنا سادہ انداز میں پیش کیا جائے اتنی ہی ان میں جاذبیت محسوس ہوتی ہے۔ انسان فطری طور پر مشکل پسند نہیں ہے اور معلوم ہوتا کہ علم کو بیان کرنے کے طریقے میں بھی انسان فطرت سے ہٹ چکا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن کے اسلوب کو بنیاد بنا کر انسان کو دوبارہ اس کی فطری جگہ پر لایا جائے جہاں حقائق نہایت سادہ انداز میں دیکھے اور سمجھے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ اس کا سب سے بہترین نمونہ خود قرآن ہے۔
تحریر قمر یاسین

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password