تحریر : زوہیب زیبی
اگرچہ فیس بک کی تخلیق تو چند آشنا اور عملی زندگی میں جان پہچان والے لوگوں کے انٹرنیٹ پر باہمی تعلق کی بنا پر ہوئی تھی، اس کے ذریعے لوگ اپنی ذاتی تصاویر و معلومات اور زندگی میں ہونے والے واقعات اپنے دوستوں اور عزیزوں سے شیئر کرتے تھے۔ لیکن بہت جلد ہی انسانوں میں موجود منفی رجحانات اور اپنے نظریات کو دوسروں پر ٹھونسنے یا زبردستی انھیں ہمنوا بنانے کی خواہش سے اول تو یہ Fake Book یعنی جھوٹ کا گڑھ بن گئی۔ دوم یہ کہ اس پر مختلف مذاہب، ممالک، سیاسی تنظیموں، لسانی گروہوں اور رنگ بہ رنگ نظریات کے لوگوں میں نظریاتی جنگ چھڑ گئی یا پھر شاید منصوبہ بندی سے چھیڑ دی گئی۔
اس نظریاتی جنگ کے تناظر میں فیس بک کو عالمی طاقتوں نے اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ تقریباً عرصہ 5 سال پہلے سوشل میڈیا پر اردو زبان میں کچھ ایسے فورمز یعنی گروپس، پیجز اور اکاؤنٹس سامنے لائے گئے جن پر اسلام کے خلاف مواد پیش کیا جاتا تھا۔ یہ فورمز نظریہ الحاد، دہریت، سیکولرازم، لادینیت و ملّا منافرت نیز پاکستان مخالفت کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ ان فورمز پر خدا کا انکار کیا جاتا، مذاہب کی توہین کی جاتی، قرآن مجید میں غلطیاں و خرابیاں نکالی جاتیں، نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس پر بہتان باندھے جاتے، عجیب و غریب الزامات لگائے جاتے، اسلامی تاریخ کو حد درجہ مسخ کرکے مسلمانوں کو انتہادرجے کی بُری قوم بنا کر پیش کیا جاتا، نیز اسلام اور مسلمانوں کے دہشت گردانہ تصور کا پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ اس سب کے ساتھ ان فورمز پر ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا، اسے جنونیوں کی آماجگاہ بنا کر پیش کیا جاتا، اقلیتوں کی مقتل گاہ کہا جاتا۔ پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایاتا اور رائی کا پہاڑ بنا کر ہر چھوٹی موٹی خامی یا مسئلے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔ یہ فورمز پاکستانی فوج کے بدترین دشمن کے طور پر سامنے آئے۔ ہر وقت فوج کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف رہتے، اسے پاکستان کا خون چوسنے والی بلا، دہشت گردوں کی سرپرست اور ایک نکمّا چوکیدار قرار دیا جاتا۔ ان سب سرگرمیوں سے کا مقصد اور منزل عام پاکستانی کے دل سے اسلام کی محبت کھرچ کر پھینکنا اور پاکستان کو بطور اسلامی ریاست نہ رہنے دینا ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک پاکستان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ دو قومی نظریہ پر تخلیق ہونے والی اور اسلام کے نام پر بنائی جانے والی ریاست ہے۔ چنانچہ یہ ہمیشہ ملک خداداد میں برائی اور خامی ہی تلاش کرتے، اگر کوئی مثبت، بہتر یا قابل تعریف بات ہو تو اس پر ان کے فورمز اکثر خاموش ہی پائے جاتے۔ اب بھی یہی صورتحال ہے.
اگر ان لوگوں کے اسلام پر اعتراضات علمی و تحقیقی نیز تلاش حق و نیک نیتی کی بنیاد پر ہوتے تو درست ہوتا، اصولاً پھر ان کے جوابات دینا مسلمانوں کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی، لیکن افسوس کہ ان لوگوں کے طریق کار سے صاف طور پر بدنیتی و تخریب کاری جھلکتی تھی اور ہے۔ مثلاً اگر ان لوگوں نے اپنی فیس بک آئی ڈیز یا اکاؤنٹس سنجیدہ کام و انداز کی بنائی ہوتیں تو پھر عموماً نام بھی خالصتاً اسلامی طرز و انداز والے رکھے جاتے جیسا کہ ’’میاں مصطفی، غلام رسول، نعمان سعید، سید عباس حیدر، اشبا نور، سیدہ عائشہ اور محمد اسلام‘‘ وغیرہ۔ ایسی آئی ڈیز سے یہ لوگ بآسانی مسلمانوں میں گھس کر ان سے بات چیت کرکے اسلامی موضوعات پر گفتگو کرکے ان کے ذہنوں میں وسوسہ ڈالتے۔ اگر فتنہ پروری و اسلام سے نفرت کی بناء پر آئی ڈیز بنائی جاتیں تو پھر نام بھی انتہائی گھٹیا و بےہودہ اور متعصبانہ رکھے جاتے جیسا کہ ’’ ملّا منافق، کافر خان، کافر شکاری، مولوی استرا یا پھر محمد رام سنگھ‘‘ وغیرہ۔ بہرحال نام اچھا ہو یا برا، سنجیدہ ہو یا غیر سنجیدہ، مقصدان لوگوں کا وہی ہوتا جو پیچھے بیان کیاگیا۔ یونہی یہ لوگ فرداً فرداً بھی کئی قسم کی متعدد آئی ڈیز بناتے جو کہ مختلف مزاج و انداز کی ہوتی تھیں اور ہیں۔ اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک عام مسلمان کو یہ دھوکہ دیا جائے کہ مسلمانوں میں بہت تیزی سے لوگ اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔
ان فتنہ پرور لوگوں کے بدنیت ہونے کی تیسری علامت ان کا خود کو سابق مسلمان کہہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا دینا ہے۔ یہ مسلمانوں والے نام کی آئی ڈی بناتے، جب اعتراض ہوتا کہ’’ آپ لوگ غیر مسلم ہو کر مسلمان کیوں بن رہے ہیں؟‘‘ تو ان کا جواب ہوتا کہ ’’ہم پیدائشی مسلمان ہیں، البتہ بعد میں تحقیق کرکے اسلام کو غلط پایا اور پھر اسلام و خدا کو چھوڑ دیا‘‘۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے لوگ نہیں ہوں گے جو حقیقتاً پیدائشی مسلمان تو دور کی بات ہے، کبھی مسلمان بھی رہے ہوں۔ وگرنہ ہم نے تو یہی دیکھا کہ جب کبھی ایسے پیدائشی مسلمانوں سے بطور امتحان چھوٹے موٹے اسلامی سوال کیے جاتے تو یہ لوگ جواب دینے میں ہمیشہ نہ صرف ناکام رہے بلکہ بہانے بھی بنائے کہ ہم کوئی بہت اچھے مسلمان نہیں تھے وغیرہ۔ مثلاً ایک فیس بکی ملحد سے پوچھا کہ ’’تہجد کی کتنی رکعات ہوتی ہیں؟‘‘ تو جواب ملا ’’ہمارے تو کبھی فرائض بھی پورے نہیں ہوئے، تہجد کا کیا معلوم!‘‘ ایک سے انتہائی بچگانہ سوال پوچھا کہ ’’ قرآن کی کتنی منزلیں ہیں؟‘‘ تو جواب دیا ’’میں بہت زیادہ باعلم مسلمان نہیں تھا، میں کیا جانوں‘‘۔ ذرا غور تو کیجیے کہ جو شخص ’’اپنی تحقیق‘‘ کے مطابق قرآن میں عربی کی غلطیاں اور سائنسی خامیاں بیان کر رہا ہے، وہ یہ نہیں جانتا کہ قرآن میں منزلیں کتنی ہوتی ہیں۔ ایک صاحب نے تو حد ہی کردی، نام تھا ان کا ’یزید حسین‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ حافظ قرآن تھے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اگر تراویح کی ایک رکعت نکل جائے تو اسے کیسے پورا کرتے ہیں؟ تو موصوف کا انتہائی مضحکہ خیز جواب تھا ’’چونکہ اسلام چھوڑے کئی سال ہوگئے ہیں، اس لیے اب میں بھول چکا ہوں‘‘۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ایک شخص انڈیا کا پیدائشی مسلمان ہو کر انڈیا میں ہی درس نظامی یعنی 8 سالہ عالم دین کورس کرنے کا مدعی ہو لیکن اسے اردو زبان نہ آئے؟ جبکہ اس کی آئی ڈی کا نام تھا ’’منصور حلّاج‘‘۔ جب مکمل تحقیق کے بعد اسلام چھوڑا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ انتہائی سادہ و بچگانہ اسلامی باتیں بھی نہ جانتے ہوں؟
ان کی بدنیتی کی چوتھی علامت ہے ان کا اسلام کے خلاف فضول قسم کا آخری حدوں کو چھوتا پروپیگنڈا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ فلاں حدیث موضوع یا ضعیف ہے، فلاں الزام کا علمائے اسلام پہلے سے ہی جواب دے چکے ہیں، فلاں مسئلہ پر مسلمان علماء نے شروحات حدیث میں طویل بحث کرکے جواب دیا ہے لیکن اس کے باوجود بار بار نئے انداز سے نئی نسل کو دھوکا دیتے اور بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں نے تاریخ ابن کثیر کے ایک صفحے کا عکس جس پر نبی اکرم ﷺ کے طلاق دینے والی آٹھ احادیث موجود تھیں، دکھا کر یہ شوشہ چھوڑا کہ معاذاللہ آپ ﷺ نفس پرست تھے جو شادیاں کر کے خواتین کو طلاق دیتے رہتے تھے۔ حالانکہ وہاں پر طلاق دینے کے ایک ہی واقعہ کو 6 مختلف روایات میں بیان کیا گیا تھا جسے ان لوگوں نے 6 طلاقیں بنا دیا۔
اس سب کے ساتھ مختلف چیزوں میں ایڈیٹنگ کرکے مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور صحیح کو غلط بنا کر پیش کرنا اس کے علاوہ ہے۔ دھوکہ دہی میں تو یہ لوگ اس حد تک جاسکتے ہیں کہ کسی بھی مخالف مسلمان کے فیس بک اکاؤنٹ سے اس کی پہچان والی خاص تصاویر چرا کر اور اس کے نام پر ہی اکاؤنٹ بنا کر مخالف آئی ڈی کی ہو بہو نقل تیار کرلیتے ہیں۔ اور پھر ایسے جعلی پروفائل سے یہ اس مسلمان کا نام استعمال کرکے اس کے خلاف کسی بھی قسم کا پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں جس میں اس کے اسلام چھوڑ دینے تک کی جھوٹی خبر بھی شامل ہوتی ہے۔ اس طرح سے ایک تو اس مسلمان کو بدنام کردیا جاتا ہے اور دوسرا مسلمانوں کو ذہنی طور پر دھچکا پہنچا کر انہیں پریشان و مایوس کیا جاتا ہے۔
ان کم ظرف لوگوں کی بدنیتی کی پانچویں اور سب سے بڑی مثال ہے ان کا مسلمانوں کا دل دکھانے اور انھیں ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے قرآن، خدا، رسول ﷺ اور دیگر مقدس اسلامی شخصیات کی گستاخیاں کرنا، خاکے بنا کر مذاق اڑانا، پھبتیاں کسنا، یہاں تک کہ محمد عربی ﷺ کو ننگی گالیاں تک دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ بظاہر تو یہ سب ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے نام پر ہی ہوتا ہے لیکن بدنیتی کا عالم یہ ہے کہ ان کے فورمز پر کوئی بھی ایسا مسلمان نہیں ٹک سکتا جو کہ اسلامی علم رکھتا ہو اور ان سے مدلل بحث کرسکتا ہو، نیز جیسا سوال ویسا ہی جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسے مسلمان سے جان چھڑانے کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ اچھی بھلی سنجیدہ و علمی بحث میں کچھ جعلی آئی ڈیز کے ذریعے طنز، تضحیک اور گستاخی شامل کردی جاتی ہے۔ جونہی اس سب کی وجہ سے کوئی مسلمان طیش میں آتا ہے تو اسے فوراً ’بلاک‘ یعنی اس فورم سے نکال دیا جاتا ہے۔ اپنی مرتبہ یہ لوگ اتنے مہذب بنتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ’’صاحب‘‘ نہ کہنے کی بھی غلطی کر بیٹھے تو اسے وارننگ دے دی جاتی ہے اور اگلا قدم بلاک کرنا ہی ہوتا ہے۔
یہ لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والی دنیا دار مسلمان عوام کے سامنے قرآن، حدیث اور شریعتِ اسلام وغیرہ کے حوالے سے ایسی ایسی پیچیدہ، عقلی، علمی، فلسفیانہ و منطقی ابحاث چھیڑتے ہیں جن پر بات کرنا سادہ لوح عوام تو رہی ایک طرف، ایسے علماء جنہوں نے صرف درس نظامی ہی کیا ہو اور ذاتی تحقیق و مطالعہ نہ ہو، کے بس میں نہیں ہوتا۔اب ظاہر ہے عام قسم کے لوگوں میں خاص قسم کے موضوع اور اسلامی بحثیں چھیڑنا بددیانتی نہیں تو اور کیا ہے؟ قصہ مختصر، میں یہ سب تقریباً عرصہ 6 سے 7 ماہ تک دیکھتا رہا، دل ہی دل میں خون کے آنسو روتا رہا، کڑھتا رہا اور سوچتا رہا کہ انہیں کیسے روکا جائے؟ ایک عام مسلمان کو اس کی سچائی کا یقین کیسے دلایا جائے؟ آخر آمنے سامنے بیٹھ کر کرنے والی بحث فیس بک پر کیسے ہوسکتی ہے؟ میں ان کے فورمز پر جاکر ان سے بحث کرتا تاکہ ایک عام مسلمان کو تسلی ہوسکے کہ ان سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ لیکن پھر بہت جلد مجھ پر ان لوگوں کا گھناؤنا کردار اور مکروہ چہرہ کھلتا چلا گیا۔ میں ان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونا شروع ہوگیا۔ مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ان کا مقصد کچھ سیکھنا یا تلاش حق ہے ہی نہیں۔ یہ لوگ تو صرف اور صرف مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنے اور ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ آخرکار میں نے اپنے طور پر ان کے اعتراضات کا جواب دینے اور اسلا م کا دفاع کرنے کی ٹھانی۔ مقصد تھا ایک عام مسلمان کو دین اسلام کی بنیاد، اصول و ضوابط اور مزاج کی ایسی سمجھ فراہم کرنا کہ جس کے بعد ایک عام مسلمان نوجوان کو اسلام کی سچائی پر مکمل یقین آجائے۔ نیز بنیاد سمجھ جانے کے بعد وہ غیرمسلموں کے اعتراضات کا جواب دینے کے خود قابل ہوجائے۔
چنانچہ تقریباً 3 سال پہلے میں نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے یہ کام شروع کیا۔ اس وقت اس حوالے سے مسلمانوں میں کسی قسم کی کوئی آگہی نہیں تھی۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد مجھے کچھ ایسے احباب کا علم ہوا جو اس حوالے سے کام کرنے میں دلچسپی رکھتے تھےلہٰذا انہیں ساتھ ملایا، اور فیس بک پر ردّالحاد، سیکولرازم و دفاع اسلام کا پہلا پیج ’’رحمان والے‘‘ سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی ان نام نہاد فری تھنکرز، ملحدین کی جھوٹی فہم و دانش کے جواب میں ایک گروپ بنام ’’آپریشن ارتقائے فہم و دانش‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ فیس بک پر اس حوالے سے مسلمانوں کی نمائندگی کے اولین پلیٹ فارمز تھے۔ ان فورمز کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ یہا ں دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی سب مل جل کر رہتے اور بغیر کسی مسلکی بحث میں پڑے صرف اسلام پر ہی بات ہوتی تھی۔ یہاں کسی بھی قسم کی مسلکی ابحاث پر سخت پابندی تھی۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ ان فتنہ پرور لوگوں نے ہمارے فورمز پر آکر کس کس انداز میں اختلافی مسائل چھیڑ کر پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی۔ اسلام کا درد رکھنے والے مسلمان اکٹھے ہوئے اور فیس بکی جعلی ملحدین کے بارے شعور بیدار ہونا شروع ہوا، دیے سے دیا جلا اور مختلف طرز و انداز کے مسلمان گروپ سامنے آنے لگے۔ الحمدللہ ایک وقت وہ آیا کہ ان گستاخان اسلام کو ہماری طرف سے بھرپور جواب ملنے لگا، وہ ایک اعتراض کرتے، ہم پورا آرٹیکل تیار کرکے وضاحت کر دیتے۔ فیس بک پر ان مخالفین اسلام کے مختلف طرز کے دو درجن سے زائد مشہور پیجز تھے۔ مزاحیہ، شاعری، کرکٹ، طالبان مخالف اور سیکولرازم و لبرل ازم کی نمائندگی کرنے والے رنگ برنگے پیجز، انمیں ایک بات بالکل بنیادی و مشترک تھی اور ہے ’ملّا سے نفرت‘۔ یہ لوگ علمائے کرام کی کردار کشی میں انتہا درجے کے متشدد ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ محسوس و غیرمحسوس انداز میں علماء کی نفرت دل میں بٹھا کر مسلمانوں کو پہلے شریعت اور پھر اسلا م سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمارے فورمز سے مسلمانوں کے گمراہ ہونے کے چانسز کم ہونے لگے۔ کیونکہ اب انھیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اگر اسلام کے خلاف کوئی دلیل دی جاتی یا اعتراض کیا جاتا ہے تو ہمیں فلاں فورم یا فلاں اشخاص سے اس کا جواب مل سکتا ہے، چنانچہ مسلمان نوجوان تیزی سے رابطہ کرنے لگے۔ اب ان لوگوں نے عاجز آکر ایک نیا کھیل شروع کیا۔ اس کھیل نے درحقیقت مجھ سمیت میری پوری ٹیم کو ہلا کر رکھ دیا لیکن یہ درحقیقت ان کی بیوقوفی تھی کیونکہ اس سے ہمیں یہ فائدہ پہنچا کہ مخالفین اسلام کا اس قدر اہم اور خطرناک راز ہم پر ظاہر ہوگیا۔ جہاں ان کی ایک سازش سامنے آئی، وہیں برصغیر اور بالخصوص پاکستانی قوم کی خامیاں اور ان کے نقصانات کھل کر سامنے آگئے۔ وہ سازش یہ تھی کہ ان لوگوں نے فیس بک پر مسلمانوں، اسلامی تنظیموں، جماعتوں یا مسلکوں کے نام پر بہت سے اکاؤنٹس بنائے ہوئے ہیں۔ بظاہر آپ کو ایسا ہی لگے گا کہ اس فیس بک پروفائل کا حامل شخص نہایت دیندار اور کٹر اہلحدیث، دیوبندی یا بریلوی ہے، اور اپنے مسلک سے نہایت محبت رکھتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پیچھے یہی ملحد موجود ہوتے ہیں جو کہ دوسرے مسالک کے خلاف نہایت کثرت سے مواد پھیلاتے ہیں۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ ایک اکاؤنٹ سپاہ صحابہ کے نام پر بنایا جائے گا اور اس پر سپاہ صحابہ کے سرکردہ رہنما مولانا احمد لدھیانوی و فاروقی وغیرہ کی تصاویر اپلوڈ کرکے خود کو سپاہ صحابہ سے محبت کرنے والا ظاہر کیا جائے گا۔ اس اکاؤنٹ سے دن رات ’’ کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعرے لگا کر جذباتی مسلمانوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔ اسی طرح اہلحدیث و بریلوی مسلک کے خلاف بھی نفرت پھیلائی جائےگی۔ اسی طرح ان لوگوں کا ایک اکاؤنٹ ’دعوت اسلامی‘ کے نام پر بھی دیکھا گیا جس پر دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری کی تصاویر جن پر ’’میٹھا مرشد‘‘ بھی لکھا ہوا تھا‘ اپلوڈ کی گئی تھیں۔ الغرض کہ اس اکاؤنٹ کے چلانے والے کو کسی انتہائی مخلص ’اسلامی بھائی‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ سے خالصتاً اسلامی پوسٹس شیئر کی جاتیں اور یوں تقریباً 3500 مسلمانوں کو اکٹھا کرلیا گیا۔ ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقتیں بھی آئیں کہ یہ لوگ مسلمانوں میں نہایت اندر تک گھسے ہوئے ہیں۔ نیز انہیں مسلکی اختلافات کا ایک عام مسلمان سے زیادہ علم ہے، چنانچہ ان کے لیے دو یا زیادہ مسلمانوں کو لڑوانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ابھی تک اس قسم کے تمام فورمز کا مقصد مسلمانوں میں زیادہ سے زیادہ فرقہ ورانہ آگ بھڑکائے رکھنا تھا لیکن کچھ ماہ قبل ان فورمز کا انتہائی گھناؤنا اور خطرناک استعمال سامنے آیا۔ اور وہ یہ تھا کہ ان لوگوں نے اسلام کا دفاع کرنے والے اپنے ایسے مخالفین جو ان کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہو رہے ہوں کی تصاویر چرا کر، ان پر’ نبوت کے دعوے‘ یا پھر گستاخیاں لکھ کر پھیلا دیتے۔ یہ تصاویر وہ عموماً مسلمانوں کے فیس بک پروفائل اور بعض صورتوں میں مخالف کے کمپیوٹر پرانٹرنیٹ وائرس کے ذریعے قبضہ (Hack) کرکے چوری کرتے۔ طریقہ واردات یہ اختیار کیا گیا کہ کسی سید زادی کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنایا گیا جسے کافی مذہبی دکھایا گیا تھا۔ اس اکاؤنٹ پر 6 ماہ کے عرصہ میں سینکڑوں کی تعداد میں ’نفس پرست‘ اور بھولے مسلمان اکٹھے کرلیے گئے۔ پھر اچانک ایک دن اس اکاؤنٹ سے ہمارے ایک نہایت مخلص ساتھی ’حافظ بابر صاحب‘ جن کی ان تخریب کاروں کے خلاف نہایت گرانقدر خدمات تھیں، کی تصاویر کے ساتھ انہیں انتہا درجے کا گستاخ رسول ﷺ لکھ دیا گیا اور ساتھ ہی یہ ترغیب بھی دی گئی کہ جسے ملے اور جہاں ملے، اس گستاخ کو جہنم واصل کرکے جنت کا حقدار بن جائے۔ اس تصویر (پوسٹ ) کو چن چن کر ایسے مسلمانوں سے منسلک (Tag) کردیا گیا جو بہت زیادہ فرینڈز رکھتے ہوں یا بہت جذباتی و مذہبی ہوں ٗتاکہ جتنا ہوسکے یہ افواہ پھیل جائے۔
آپ ہم مسلمانوں کا المیہ دیکھیے، یہ سوچ کر کہ اس پوسٹ کو ایک لڑکی نے اپ لوڈ کیا ہے، اس لڑکی کو خوش کرنے کے لیے اس جھوٹی پوسٹ کو بےدریغ پھیلانا شروع کردیا۔ حتیٰ کہ کسی مسلمان کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والی اس بے بنیادپوسٹ کے شیئرز 225 سے تجاوز کرگئے جو کہ فیس بک کی دنیا میں کافی مشکل کام ہے۔ کسی مسلمان نے اس بیچارے کی گستاخی کا کوئی ثبوت مانگا اور نہ ہی اسے پھیلانے سے پہلے ایک مرتبہ تصدیق کرنے کا سوچا۔ یونہی وہ اکاؤنٹ جوتنظیم’سپاہ صحابہ‘ کے نام پر بنایا اور کل تک فرقہ وارانہ بحثوں سے بھراہوا نیز ’’کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا، پر ایک دن اچانک ایک پوسٹ اپ لوڈ کردی گئی جس میں کوئی داڑھی والا شخص شاید کسی تفریحی مقام پر اپنے ہاتھ سے اپنی تصویر (Selfie) کھینچ رہا تھا۔ اس تصویر پر لکھ دیا گیا کہ ’’میں اللہ کا نیا نبی ہوں اور مجھ سے پہلے کی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں، چنانچہ اب مسلمانوں کو میرا کلمہ پڑھ لینا چاہیے‘‘ (خدا کی پناہ) ۔ اور اوپر کلمہ درج کردیا گیا تھا ’’ لاالٰہ الا اللہ السلام فیصل رسول اللہ‘‘۔اس کے ساتھ ہی نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی بھی کی گئی تھی۔ یہ تصویر والا شخص ہمارے لیے اجنبی نہیں تھا۔ یہ دفاع اسلام کے ہمارے بہت اچھے اور مخلص ساتھی جناب ’عبدالسلام فیصل صاحب‘ تھے۔ جنہوں نے اس محاذ پر دن رات ایک کردیا تھا۔ اس شخص کی مذہبی شناخت کا عالم یہ تھا کہ انہیں مشہور اہلحدیث لیڈر علامہ ابتسام الٰہی ظہیر تک جانتے تھے اور یہ حافظ عمرصدیق صاحب کے شاگرد اور دوست تھے۔ مسلمانوں کے ان ’خونی پیاسوں‘ نے اس سے اگلا قدم یہ اٹھایا کہ حافظ عمرصدیق صاحب کی کسی کانفرنس سے لی گئی تصویر کے ساتھ یہ بیان جاری کردیا گیا کہ ’’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ عبدالسلام فیصل کا دعوٰی بالکل صحیح ہے اور وہ واقعی نبی ہیں‘‘( خدا کی پناہ)۔ یہاں بھی ہم مسلمانوں کی جہالت اپنے عروج پر تھی۔ بغیر کسی تصدیق کے اس بیگناہ شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔ لوگ دروازہ بجا بجا کر عبدالسلام فیصل پر الزام عائد کرنے اور غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگے۔ آخر کار اس بےچارے کو گھر سے روپوش ہونا پڑا۔ یہاں تک کہ طالبان نے تو’’بھرپور جذبہ اسلامی‘‘ کا ثبوت دیتے ہوئے حافظ عمر صدیق صاحب کے مدرسہ ’جامعہ محمدیہ‘ کو بم سے اڑانے تک کی دھمکی دے دی۔ مزید تماشا یہ ہوا کہ الزامات کی اس بہتی گنگا میں فرقہ پرست عناصر بھی ہاتھ دھونے سے پیچھے نہ رہے۔ چنانچہ دیوبندی و بریلوی مکاتب فکر کے لوگوں نے اس افواہ کو یہ کہہ کر قبول کرلیا کہ ’’انہوں نے پہلے بھی مرزا قادیانی کا ساتھ دیا تھا لہٰذا ان غیر مقلدوں کے نزدیک ہوسکتا ہے اب عبدالسلام فیصل کی نبوت بھی جائز ہوگئی ہو‘‘۔ کٹر قسم کے بریلوی و دیوبندی عوام کے لیے غیرمقلدوں کے خلاف اپنے ’’خیالات زریں‘‘ کے اظہار کا بھرپور موقع تیار تھا ، لہٰذا اس بہتان عظیم کو مسلمانوں کے دونوں گروہوں نے بھی پھیلانا شروع کردیا۔
اس مافیا کا اگلا شکار ان سطور کا راقم بذات خود تھا۔ 12 دسمبر 2014ء کو ’سپاہ صحابہ‘ کے نام پر بنائے گئے کافروں کے اس جعلی اکاؤنٹ سے میری تصویر پر ’’حضرت زوہیب زیبی علیہ السلام‘‘ لکھ دیا گیا۔ اس اکاؤنٹ کے ’ کور فوٹو‘ پر میرے نام کا جھوٹا کلمہ ’’ لا الٰہ الا اللہ زوہیب رسول اللہ‘‘لکھ کر اپ لوڈ کر دیا گیا (العیاذ باللہ تعالیٰ)۔ اس کے ساتھ ہی پہلے کی طرح عبدالسلام فیصل صاحب والے انداز میں میری تصویر کے ساتھ وہی سب کچھ لکھ دیا گیا کہ ’’یہ اللہ کا نیا نبی ہے، پچھلی تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں اور مسلمان اب زوہیب کا کلمہ پڑھیں‘‘( نقل کفر کفر نہ باشد)۔ پھر پہلے ہی کی طرح ’’دارالافتاء فیضان شریعت‘‘ کے لیٹر پیڈ پر دیے گئے ایک فتوے میں ایڈیٹنگ ( جعلسازی ) کرکے اوپر دارالافتاء کے نام و پتہ نیز نیچے دستخط و مہر والا حصہ تو اصل رہنے دیا گیا جبکہ بیچ والے حصے میں ’سنّی اتحاد کونسل‘ کی طرف سے جعلی تصدیق نامہ لکھ دیا گیا کہ ’’ہم سنّی اتحاد کونسل کے علماء ایک اجلاس میں زوہیب سے ملے ہیں اور وہ واقعی نبی ہے‘‘ ( خدا کی پناہ )۔پچھلی تین مرتبہ میں یہ دشمنان ملت اسلامیہ مسلمانوں کے ہاتھوں گستاخی رسول ﷺ کے نام پر کسی مسلمان کو قتل کروا کر خوشیاں منانے یا ہمیں خوفزدہ کرنے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔ چنانچہ اس مرتبہ انہوں نے اپنے پراپیگنڈے کو شدید تر بنانے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا ایک تو میری تصویر کے ساتھ گستاخیاں بھی انتہائی شدید نوعیت کی کی گئیں جن میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات کو صریحاً ننگی گالیاں دی گئی تھیں، اور دوسرا مسلمانوں کو اشتعال کی انتہاؤں پر پہنچانے کے لیے مجھ سے منسوب کرکے ایک آڈیو خطاب بنام ’’حضرت زوہیب زیبی علیہ السلام کا اپنی امت کے ساتھ پہلا آڈیو خطاب‘‘ بھی جاری کردیا گیا۔ اس جعلی خطاب میں مجھ پر ایمان لانے والے مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا اور ساتھ ہی قادیانی حضرات کی مشہور دلیل دی گئی تھی کہ ’’خاتم‘‘ کا مطلب مہر لگانے والا ہے لہٰذا ’’خاتم النبیین‘‘ کا صحیح مطلب ہوا’’ نبوت جاری ہے‘‘۔ ظلم یہ ڈھایا گیا کہ اس آڈیو کلپ کے ساتھ میری، عبدالسلام فیصل اور حافظ بابر صاحبان کے علاوہ بعض دیگر ان مسلمانوں کی تصاویر بھی دے دی گئیں جو کہ دفاع اسلام کے ساتھی یا پھر ہمارے فورمز پر آنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے سادہ مسلمان تھے۔ حتٰی کہ دو ایسے افراد کی تصاویر بھی جاری کردی گئیں جن کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پھر اس سے بڑا ظلم یہ تھا کہ ان بےگناہ مسلمانوں کی تصاویر پر ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھ کر انہیں میرا ’صحابی‘ بتایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکے. پھر میری تصاویر کے ساتھ دعویٰ نبوت کی تصدیق کے لیے ’دارالافتاء فیضان شریعت‘ کے بریلوی مفتی عابد مبارک مدنی صاحب کے لیٹر پیڈ پر جعلسازی اس وقت کی جبکہ مسلک دیوبند اور بریلویوں میں جنید جمشید کے گستاخی والے معاملہ پر تنازع بنا ہوا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ جان بوجھ کر جعلسازی بھی اسی فتوے پر کی گئی جو کہ جنید جمشید کے بارے ہی دیا گیا تھا۔ افسوس کہ ان دشمنان اسلام کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا اور مفتی صاحب یہی سمجھے کہ ان کے ساتھ یہ جعلسازی دیوبندی حضرات نے جنید جمشید کے خلاف بولنے کی وجہ سے کی ہے۔ نہ صرف مذکور مفتی صاحب بلکہ عام سنّی عوام کو بھی یہی تاثر ملا اور یوں ان فری تھنکرز نے لوگوں میں فرقہ وارانہ تصادم کروانے کا اچھا خاصا ماحول پیدا کردیا۔ یہاں تک کہ مفتی صاحب نے اس سلسلہ میں متوقع مخالفین پر پرچہ تک کٹوادیا نیز اس کے ساتھ ساتھ مخالف فرقے کے خلاف کافی اشتعال انگیز گفتگو بھی کرنے لگے۔ لیکن حقیقی ظلم عظیم جو ڈھا رہے تھے وہ خود مسلمان تھے۔
ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم گھر بیٹھے جنت کمانے کے شوقین ہیں۔ ہم بغیر کسی محنت و مشقت کے خدا کو راضی کرنا اور بغیر عمل کے اپنی قبروں کو جنت کے باغ بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح جذباتی مسلمانوں نے سنی سنائی باتوں پر یقین کیا۔ وہ لوگ جو مسلکی بحثوں میں مخالف سے دلیل و حوالہ مانگتے نیز ’سند حدیث‘ کی پر پیچ بحثیں کرتے نہیں تھکتے، آج کسی انسان پر دعوٰی نبوت کا الزام لگا کر لعنتیں برسا رہے تھے، قتل کرنے کی تجویز کے ساتھ ساتھ مرتد ہونے کے فتوے بھی جاری کیے جارہے تھے، میرے حوالے سے جاری کی گئی پوسٹس پر 1200، 2200 اور 3000 تک کمنٹس دیے گئے تھے جن میں مسلمانوں نے گالیاں دے کر اپنی طرف سے خدا کو راضی کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک فضول و نکمّی قوم بن چکے ہیں جن کے پاس شاید کرنے کو کچھ خاص نہیں اس لیے ہر غیر اہم و فضول بات پر وقت ضائع کرنا اور اسے پھیلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ہم نہایت فیّاض واقع ہوئے ہیں۔ ہمیں صرف تفریح چاہیے خواہ معاملہ کتنا ہی نازک و خطرناک کیوں نہ ہو۔ خواہ کسی کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے یا کسی کی عزت نیلام ہوجائے یا پھر اسے کتنا ہی بڑا نقصان پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ ہم لوگ آخر بحیثیت قوم کب سدھریں گے؟ ہم جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے لیے کیوں نہیں؟ ہم آخر کب اپنے جذبات کے ہاتھوں یرغمال بننا چھوڑ کر پہلے خدا کی عطا کردہ عقل سے سوچنے اور پھر کوئی فیصلہ کرنے کی عاد ت ڈالیں گے؟ وہ سب لوگ جو اس قسم کی جعلی تصاویردیکھ کر گالیاں دے رہے اور فتوے لگا رہے تھے، کیا وہ تصاویر میں دکھائے گئے لوگوں سے خود ملے تھے؟ کیا انہوں نے خود گستاخی کرتے دیکھا تھا؟ کیا ان متاثرہ لوگوں نے نبوت کے دعوے ایسے جذباتی مسلمانوں کے سامنے کیے تھے؟ یا پھر کم از کم کسی کو ویڈیو میں ہی ایسا کرتے دیکھا ہو؟ حالانکہ جعلسازی تو ویڈیو کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر انٹرنیٹ پر بیٹھی پڑھی لکھی عوام اور مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے بھٹے کے جاہل مزدوروں میں کیا فرق رہ گیا؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر بھٹہ مزدوروں کی جگہ یہ نام نہاد پڑھے لکھے (Well Educated) لوگ ہوتے تو یہ بھی ویسا ہی کرتے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ دعوٰی جتنا بڑا ہوتا ہے، ثبوت بھی اتنا ہی مضبوط چاہیے ہوتا ہے؟ اگر جذبات کو ایک طرف رکھ کر اس معاملے پر غور کیا جاتا تو کوئی بھی معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بآسانی جان سکتا تھا کہ یہ صرف دشمنی میں بےگناہ لوگوں کی تصاویر کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ میری پہلی تصویر تو واضح طور پر نیلے بیک گراؤنڈ کے ساتھ پاسپورٹ سائز میں تھی جیسا کہ عموماً سکول، کالج یا کسی بھی سرکاری کام کے لیے استعمال ہوتی ہے جبکہ دوسری تصویر بھی گھر میں لی گئی تھی جیسا کہ عموماً لوگ تصویر بنوا لیا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جن مسلمانوں نے فیس بک جیسے غیر مستند ترین ذریعہ کی بنیاد پر دعوٰی نبوت جیسے گھٹیا ترین الزامات لگائے، کیا وہ کل کو اسی بنیاد پہ اپنے بارے میں بھی اسی قسم کی باتیں فتوے اور گالیاں قبول کرسکتے ہیں؟ ممکن ہے یہاں آپ کے ذہن میں یہ نکتہ آئے کہ ہم پر تو ایسے الزامات مخالفت کی بنا پر لگے، بھلا آپ پر کیوں لگائے جائیں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت اب یہ لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں ہر وقت انتشار برپا رہے اور کسی نہ کسی طرح توہینِ رسالت ﷺ کے الزام میں دو چار مسلمان ضرور ماردیے جائیں۔ اس طرح وہ لوگ اس قانون یا پھر جذبہ حرمت رسول ﷺ کا نقصان دکھا کر غلط تاثر قائم کرکے اس کے خلاف زہر اگلنے کا بھرپور موقع چاہتے ہیں۔ چنانچہ اب سے تقریباً 8 ماہ پہلے بھی ان لوگوں نے بہت سے مسلمانوں کی تصاویر پر دعوٰی نبوت لکھ کر پھیلا دیا تھا۔ آپ خود سوچیے کہ کیا کوئی شخص بنیان پہن کرکھنچوائی گئی تصویر سے دعوٰی نبوت کرے گا؟ اسی طرح جماعت اسلامی کے رکن ’ فیض محمد سومرو‘ نامی شخص کی تصویر سے بھی یہی دعوٰی پھیلا دیا گیا تھا۔ پھر یہ لوگ اس ناٹک میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنی دیگر جعلی آئی ڈیز کے ذریعے کمنٹس میں یہ تک لکھ دیتے ہیں کہ ’’میں حضرت فیض محمد سومرو علیہ السلام کے دعویٰ نبوت پر ایمان لاتا ہوں‘‘۔ نیز کچھ دیگر پروفائلز سے ٗ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ایسے تبصرے بھی کر دیتے ہیں ’’اگر میرے بس میں ہو تو اس خبیث کو قتل کردوں‘‘ یا ’’اس کی زندگی میری شرمندگی‘‘ وغیرہ۔
یہ ملحدین اس قدر شرپسند واقع ہوئے ہیں کہ جامعہ بنوریہ کراچی جیسے مشہور و معروف مدرسہ کے ایک فتوے میں پہلے بیان کردہ طریقہ واردات کے مطابق جعلسازی کرکے’شراب کے حلال‘ ہونے کا فتویٰ تک جاری کردیا جس سے مسلمانوں میں کافی بے چینی پھیلی۔ اس جعلی فتوے کا خلاصہ تھا کہ ’’قرآن کہتا ہے کلوا واشربوا یعنی کھاؤ اور شراب پیو، لہٰذا قرآن کے مطابق شراب پی سکتے ہیں، ہاں البتہ اتنی پینا حرام ہے کہ جس سے نشہ ہوجائے‘‘۔ اسی طرح ان لوگوں نے ’’روزنامہ امت کراچی 14 نومبر 2014‘‘سے منسوب کرکے سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی کے دعویٰ نبوت کی خبر بھی پھیلادی تھی۔ خبر کا خلاصہ تھا کہ ’’مولانا نے کہا کہ سلسلہ نبوت حضرت عمر سے ہوتا ہوا مجھ پر ختم ہوا ہے۔ امکان ہے کہ سپاہ صحابہ کا ایک بڑا گروہ ان پر ایمان لا سکتا ہے نیز علماء ان پر ناراض ہیں اور کہتے ہیں کہ احمد لدھیانوی کھلے کفر کا مرتکب ہوا ہے‘‘۔
’ 27 نومبر 2014 روزنامہ امت کراچی‘ سے منسوب کرکے یہ جھوٹی خبر فیس بک پھیلادی گئی کہ ’’پاکستان میں لوگ بہت تیزی سے اسلام کو چھوڑ رہے ہیں حتٰی کہ 20% آبادی ملحد، دہریہ یا لادین بن چکی ہے۔ افسوس کہ پاکستانیوں نے اپنی ازلی ناسمجھی کے تحت اس جھوٹ کو خوب پھیلایا۔ الغرض کہ کہاں تک سنیں گے اور کہاں تک سناؤں؟ والا معاملہ ہے. خلاصہ یہی ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر عالم اسلام و پاکستان کے خلاف ایک بھرپور قسم کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ ’’یہودی سازش‘‘ یا ’’بیرونی ہاتھ ‘‘ کا جو دعویٰ ہماری جانب سے کیا جاتا ہے، وہ قطعاً جھوٹ نہیں ہے۔ ہاں فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ لوگ ہمیں ہماری خامیوں کی وجہ سے ہی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ ہماری کمزوریوں کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں اور پھرموقع کی تاک میں رہ کر ان کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ جونہی اسلام و پاکستان کے حوالے سے کوئی اہم واقعہ رونما ہو، ان کی پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ چنانچہ حالیہ جنید جمشید کے واقعہ پر بھی انہی لوگوں نے مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر آگ کو بھڑکائے رکھنے کی خوب کوشش کی تھی۔ ان کی مکمل خواہش تھی کہ کسی طرح فرقہ وارانہ تصادم ہوجائے یا پھر کوئی مسلمان مشتعل ہو کر جنید جمشید کو سزا دے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے کچھ ماہ قبل شائستہ لودھی کے مارننگ شو میں ہونے والی گستاخی اہلبیت پر حافظ سعید صاحب کے دیے گئے بیان کو ایڈٹ کرکے جنید جمشید کے واقعہ پر چسپاں کردیا، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حافظ سعید صاحب نے جنید جمشید کو ہرگز معاف نہ کرنے اور معافی قبول کرنے کا کہنے والے مفتیوں کو مناظرے کا چیلنج کیا ہے۔ حالانکہ حافظ سعید صاحب وہ سب کچھ شائستہ لودھی کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ ان دشمنوں کے آلہ کاروں نے اس حوالے سے جو پوسٹ جاری کی تھی، اس میں صاف درج تھا ’’جماعۃ الدعوۃ اور تبلیغی جماعت آمنے سامنے‘‘۔
معزز قارئین کرام! یہ سب تفصیلات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اول تو علمائے کرام اب بیدار مغزی کا ثبوت دیں اور موجودہ دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ٹھانیں۔ جس فتنہ الحاد کے بارے آپ سوچتے ہیں کہ اسے امام غزالی نے دفن کردیا ہے، اسے عالمی طاقتیں اپنے مخصوص مقاصد کے تحت پھر سے زندہ کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ نیز موجودہ فتنۂ الحاد پہلے کی نسبت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ پہلے سائنس کا ہتھیار نہیں تھا، اب ہے، پہلے باطل افکار کو عام کرنا مشکل تھا لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کی ترویج اب انتہائی آسان ہے، پہلے ہم انگریزوں کے مفتوح تھے، اب انگریزوں کی ذہنی غلامی ہماری رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ لہٰذاپہلی فرصت میں سیکولرازم و فری تھنکنگ کے مزاج کو سمجھ کر مادہ پرستی و دہریت کا موضوع اپنے خطبات و تقاریر میں شامل کیجیے۔
دوم آپ کے لیے اشد ضروری ہوگیا ہے کہ توہین رسالت ﷺ کی سزا پر سب مل بیٹھ کر باقاعدہ کوئی جامع لائحہ عمل حکومت پاکستان کو پیش کریں۔ ایسا ضابطہ جو کہ ہر طرح کی فقہی باریکیوں سے مزین، قانونی سقوم سے پاک اور غیرمبہم نیز تمام تر حدود و قیود سے آراستہ ہو۔ کیونکہ اس قانون کی بنیاد پر کسی شخص کی موت و زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو کفّار یونہی پاکستان میں رائج اس قانون کی خامیوں کو اچھال کر واویلا کرتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ کسی دن یہ پروپیگنڈہ کامیاب ہو جائے اور آپ آپ پاکستانی قوم کی حمایت بھی کھو بیٹھیں۔
سوم یہ کہ ایسے نازک معاملات میں ردّعمل کے بارے عوام کی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ توہین رسالت ﷺ کے الزام پر انسانوں کو زندہ جلائے جانے یا غیر مستند ذریعہ سے سنی ہوئی بات پر یقین کر کے اپنے مسلمان بھائی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کا رجحان بدستور برقرار رہے گا۔ اوریقیناً یہ بات تو آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب جب ایسے واقعات ہوں گے، تب تب اسلام اور مولوی کا مذاق بنتا رہے گا۔
محمد طارق محمود
August 12, 2016 at 2:41 pmجزاک اللہ خیرا۔بہت شکریہ بھائی ۔اللہ تعالی آپکو مزید توفیق دے۔