اسلام دین فطرت ہےتولوگ ملحد کیوں ہورہے ہیں؟

سوال: ہم نے یہ کتابوں میں پڑھا کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کے برعکس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسان کی جو فطرت ہے وہ اسلام سے ہٹ اور لوگ اسلام سے ہٹ گئے ہیں۔
جواب: دیکھئے! جس چیز کا نام انسان کی فطرت ہے وہ زمانے کے بدلنے سے بدلا نہیں کرتی وہ ہمیشہ ایک ہی ہے۔ آپ کے ذہن میں جو اُلجھن ہے وہ دراصل فطرت کا صحیح مفہوم واضح نہ ہونے کی بناء پر ہے اس لئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ ’’فطرت‘‘ کسے کہتے ہیں؟ یہ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں: پیدائش، پیدا کرنا، اور انسان کی کسی چیز کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو جو جو چیزیں اس کی سرشت میں اس طرح داخل فرمادیں کہ وہ کسی بھی حالت میں اس سے الگ نہ ہوسکیں وہ اس کے فطری اُمور ہیں اور اسلام کے فطری دین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جتنے عقائد ہیں، جتنی تعلیمات ہیں جتنے احکام ہیں وہ سارے کے سارے انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور کوئی حکم بھی ایسا نہیں جو انسان کے فطری تقاضوں کی بالکلیہ نفی کرتا ہو۔ بلکہ اس کے تمام احکام میں انسانی فطرت کی پوری رعایت موجود ہے۔ مثلاً یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے وہ فطرتاً دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اور خاندانی نظام سے مربوط رہ کر زندگی گزارنا اس کا فطری تقاضا ہے، چنانچہ اسلام نے جتنے احکام دیئے وہ اس کے ان فطری اُمور کو مدنظر رکھ کر دیئے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو اس کے فطری تقاضوں کو بالکلیہ دبا کر رکھ دے۔
اس کے برعکس عیسائیت کو دیکھئے کہ اس میں ’’رہبانیت‘‘ کو قرب خداوندی کا ذریعہ بتایا گیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بیوی بچوں، گھر بار اور معاشی کاروبار کو چھوڑ کر جنگل میں نہ جا بیٹھوگے اس وقت تک خدا کی خوشنودی نہیں مل سکتی اس حکم پر انسان اس وقت تک عمل نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فطری تقاضوں کو بالکل کچل کر نہ رکھ دے۔ اسلام نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔
سوال: مولانا! لیکن موجودہ دور کے انسان کی فطرت تو بظاہر اسلام کے بہت سے احکام سے ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
جواب: میں اسی بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں اور ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی کہ فطرت تو زمانے کے بدلنے سے بدل ہی نہیں سکتی آپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلے زمانے میں تو انسانی فطرت تھی، مگر آج نہیں رہی۔ کیونکہ انسانی طبیعت کا جو تقاضا زمانے کے بدلنے سے بدل جائے وہ اس کا فطری تقاضا ہوہی نہیں سکتا۔ بلکہ دراصل دو قسم کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں جن سے انسان فطرت کو بدلا ہوا محسوس کرتا ہے، بعض اوقات تو وہ فطرت کے غلط معنی سمجھ کر اپنی بعض عادتوں کو فطرت قرار دے لیتا ہے، حالانکہ عادت اور فطرت میں بڑا فرق ہے، دوسرے بعض اوقات انسان کا فطری تقاضا تو ایک ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنے ماحول سے یا فطرت کے خلاف متواتر عمل سے بری طرح متاثر ہوجاتا ہے تو اس کا وہ فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے اور اس کو یہ غلط فہمی لگ جاتی ہے کہ وہ فطرت کا تقاضا نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین (یعنی ماحول) اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی انسان پیدا ہوتے ہیں کسی جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور وہ جانوروں ہی کی سی عادتیں سیکھ لے اور انہی کے طور طریق اپنالے تو وہ انسانوں سے متنفر اور جانورں سے مانوس ہوجائے گا، اور تاریخ میں ایسے انسانوں کی مثالیں موجود ہیں کہ وہ جنگل کی زندگی کے اتنے عادی ہوگئے کہ انسانوں اور ان کی بستیوں سے بھاگتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی فطرت بدل گئی اور بستی کے بجائے جنگل اور انسانوں کے بجائے جانوروں سے محبت ان کی فطرت بن گئی، بلکہ درحقیقت انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی فطرت اب بھی وہی ہے البتہ ماحول کے متواتر اثرات نے فطرت کو مغلوب کرکے رکھ دیا۔
ایک اور مثال لیجئے! انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ رات کو سوئے اور صبح سویرے بیدار ہو، چنانچہ عام طور سے نومولود بچوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کسی تربیت کے بغیر صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماحول سے عادت اس کے خلاف پڑی ہوئی ہو تو رفتہ رفتہ ان کی عادت بدل جاتی ہے اور فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے، وہ بھی دیر سے اُٹھنے لگتے ہیں۔
سوال: مولانا! یہاں ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ایک شخص کی باڈی کنڈیشن اس قسم کی ہو کہ وہ رات کو دو بجے سوئے اور دن کے آٹھ بجے اُٹھے، اب اس عمل کے دوران اس کی نماز لامحالہ قضا ہوگی، وہ کیا کرے؟
جواب: یہ سوال قدرے غیر متعلق ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی شخص کی باڈی کنڈیشن مستقل طور اس قسم کی ہوسکتی ہے ہاں اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ معذور ہو اور اپنی تمام ممکنہ کوششوں کے باوجود وہ صبح کو سویرے نہیں اُٹھ سکتا تو جب تک یہ معذوری باقی ہے اسلام کا حکم یہ ہوگا کہ جب بھی بیدار ہوجائو اسی وقت نماز پڑھ لو، لیکن تمام حالات میں سویرے اُٹھنے کی عادت ڈالو۔
سوال: مگر مولانا سوال یہ تھا کہ ایک شخص کی فطرت ہی یہ ہوگئی کہ وہ دیر سے اُٹھے پھر اسے جلدی بیدار ہونے کا حکم دینا خلافِ فطرت کیوں نہیں ہوا؟
جواب: یہاں آپ پھر ’’فطرت‘‘ اور ’’عادت‘‘ کو خلط ملط کر رہے ہیں میں اس کو دوسری طرح واضح کردوں۔ فطرت انسان کے ان تقاضوں کو کہتے ہیں جو بحیثیت نسل انسانی (Human Race) اس کی سرشت میں داخل ہوئی، یہ تقاضے تمام انسان میں یکساں ہوتے ہیں بدلتے نہیں۔ دوسری ایک چیز ہے جسے عادت کہتے ہیں اور جسے آپ انگریزی میں (Habit) کہتے ہیں وہ مختلف انسانوں کی مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں تبدیلی بھی ممکن ہے اور اسلام نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ وہ ہر انسان کی ہر عادت کے مطابق ہوگا لہٰذا جو شخص دیر سے اُٹھنے کا عادی ہے اگر وہ کسی ناگزیر مجبوری کی وجہ سے ایسا کررہا ہے تو اس کی عادت فطرت انسانی کے خلاف ہے جسے بدلنا چاہیے۔
سوال: مولانا! یہ بات تو سمجھ میں آگئی لیکن اب ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام فطری دین ہے تو اس کے بعض احکام پر عمل کرنے میں دشواری کیوں معلوم ہوتی ہے؟
جواب: دیکھئے! کسی فطری کام کے لئے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس میں ذرہ برابر کوئی دشواری نہ ہو۔ مثال کے طور پر کمانا جو ہے وہ بھی انسان کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ وہ اپنی مادی ضروریات کو حاصل کرے مگر اس مادی ضرورت کو حاصل کرنے کے لئے کچھ محنت کرنا پڑے گی، کچھ مشقت اُٹھانا پڑے گی۔ تو اس تکلیف اور مشقت کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ عمل فطرت کے خلاف ہے تو جو چیز فطرت کے مطابق ہوتی ہے خود اس کے حصول کے لئے بعض اوقات کچھ محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے تو اس کی پریکٹس کرنے میں متعلقہ دشواری بھی ہوتی ہے یہ دشواری فطرت کے خلاف نہیں، ہاں ایسی دشواری جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہو اور جس کو انسان اختیار نہ کرسکے اس کی طاقت سے باہر ہو تو اگر ایسی دشواری ہو تو کہا جائے گا کہ یہ اس کی فطرت کے خلاف دشواری ہے تو ایسی دشواری اسلام کے اندر دیکھنے میں نہیں آتی۔ اسلام نے جو احکام دیئے ہیں ان میں بعض اوقات تھوڑی بہت تکلیف بھی ہوگی، تھوڑی بہت محنت اور مشقت بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ لیکن وہ محنت بذاتِ خود فطرت کا ایک جزء ہے اور اگر اس محنت کو انسان کی فطرت سے نکال دیا جائے تو انسان کچھ رہے گا ہی نہیں۔ البتہ محنت برداشت سے باہر نہیں ہوتی اور معمولی توجہ اور عادت ڈالنے سے آسان ہوجاتی ہے اس کے علاوہ غلطی کرنا بھی انسان کی فطرت میں ہے چنانچہ اسلام نے اس کی رعایت کی ہے کہ جب غلطی ہوجائے توبہ کرلو کوئی گرفت نہ ہوگی۔
سوال: ایک چیز ہے مولانا صاحب! اگر آپ نے جو تعلیم حاصل کی ریسرچ کیا اور خود بھی عمل کیا، اسلام کو فطری مذہب کے لحاظ سے پرکھا۔ اگر آپ کے فطرے تقاضوں کو سامنے رکھا جائے اور باقی تمام مذاہب کو سامنے رکھا جائے تو کیا آپ کے لحاظ سے جو چیزیں فطرت کے عین مطابق ہیں وہ چیزیں دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اگر پائی جاتی ہیں تو وہ بھی فطری مذہب ہوئے۔
جواب: یہ بڑا اچھا سوال آپ نے کیا۔ اصل میں فطری مذہب ہونے کا مطلب میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ اس کا کوئی حکم ایسا نہ ہو اس کا کوئی عقیدہ ایسا نہ ہو جو انسان کی فطری تقاضوں کے خلاف ہو اور انسان کے فطری تقاضوں کو ختم کرتا ہو۔ اب اگر فرض کیجئے کہ کوئی مذہب اپنایا جاتا ہے کہ جس کے بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے خلاف ہیں تو پھر اس مذہب کو فطری نہیں کہا جائے گا مثال کے طور پر عیسائیت کے لے لیجئے کہ اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کا ہر حکم انسان کی فطرت کے خلاف ہے لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو فطرت کے خلاف ہیں مثلاً یہی کہ جتنا دنیا سے کٹ کر رہو گے جنگل میں جاکر بیٹھ جائو، کھانا کمانا چھوڑ دو، رہبانیت اختیار کرو تو اس کے بغیر خدا کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا۔ تو یہ انسان کی فطرت کے خلاف ہے۔ (قطع کلامی معاف) عیسائی مذہب تو ویسے بھی ابھی نامکمل ہے۔ کیوں کہ انھوں نے دوسری دفعہ تشریف لانا ہے اس لیے ابھی تک مکمل نہیں ہوا؟
جواب: اس کے علاوہ یہ کہ انسان کا یہ فطری حق ہے کہ جس بات پر وہ عقیدہ رکھے وہ عقل کے خلاف نہیںہونا چاہیے لیکن عیسائیت آپ دیکھیں کہ ان کا سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے تین ایک کا اس پر اگر کہا جائے کہ عقل سے سمجھا جائے کہ تین اور ایک کیسے ایک ہوسکتے ہیں تین تو تین اور ایک تو ایک ہے تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے کہ یہ ایک سربستہ راز ہے خدائی راز ہے اس کے اندر ہمیں سوچنے کی گنجایش نہیں عقل کا دروازہ وہاں پر بند ہے میں یہ نہیں کہتا کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں عقل سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ میں اس کے بہت خلاف ہوں کہ ہر انسان کو ہر معاملہ میں عقل سے رہنمائی مل سکتی ہے لیکن یہ کہ اس کے جو بنیادی عقائد ہیں جس کے اوپراس کی زندگی کی عمارت کھڑی ہوگی ان بنیادی عقائد کے بارے میں اس کا فطری حق ہیکہ وہ اپنی عقل سے اس کو صحیح سمجھے اور اس کو عقل کے مطابق ثابت کرسکے۔
سوال: ایک چیز ہے مولانا صاحب آپ نے یہ جو کہا کہ عقل کی رہنمائی کوئی ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں ملے تو اگر عقل کی رہنمائی نہیں مل سکتی تو معلوم ہوا کہ وہ غیر فطری چیز ہے۔ کیوں کہ عقل اور فطرت میرے خیال سے دونوں لازم و ملزم چیز ہیں۔
جواب: نہیں یہ بہت اچھا سوال ہے میں اس کو ذرا تفصیل سے بیان کروں گا اور اس کو ذرا سمجھنے کی ضرورت ہے اور بہت ٹھنڈے دل سے کہ عقل اور فطرت دونوں ایک نہیں ہیں دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں عقل کی پیروی نہ کرے ہر معاملے میں عقل کے پیچھے نہ پڑے یہ بات آپ کو شاید ہی معلوم ہو۔ مگر میں اس کی تشریح کرتا ہوں۔ دیکھئے ان کے پاس علم کے جتنے بھی ذرایع ہیں وہ مختلف قسم کے ہیں۔ مثلاً ایک علم کا ذریعہ جو اس خمسہ میں پانچ حواس آنکھ سیکان ہے ناک ہے ہاتھ ہے وغیرہ اس کے ذریعہ ہم معلوم کرلیتے ہیں آنکھ سے دیکھ کر کان سے سن کر ناک سے سونگھ کر ہاتھ سے چھو کر معلوم کرلی۔ حواس خمسہ کا ایک مخصوص دایرہ ہے اور اس میں ہر ایک کی تقسیم کار ہے۔ اور ہر ایک کے کام بھی دوسرے سے مختلف ہیں۔ آنکھ دیکھ سکتی ہے سن نہیں سکتی۔ کان سن سکتا ہے دیکھ نہیں سکتا ۔ ہاتھ چھو سکتا ہے مگر اس سے چل نہیں سکتے۔ تو ان حواس کے مخصوص دائرے ہیں کہ جس کے اندر وہ کام کرتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر وہ کام نہیں کرتے۔ پھر ان حواس خمسہ مجموعہ کا بھی ایک دائرہ ہے کہ اس سے آگے چل کر وہ خواس خمسہ کام نہیں دیں گے مثلاً یہ کہ اب میں آنکھ سے دیوار تک دیکھ سکتا ہوں دیوار کے پار میں ان حواس خمسہ کام نہیںلے سکتا۔ لیکن ان حواس خمسہ کے دائرے سے آگے کیے ہمیں ایک ذریعہ علم دیا گیا۔ اور وہ ہے عقل کہ جب ہمیں یہ دروازہ نظر آرہا ہے تو لازم ہماری عقل یہ رہنمائی کرے گی کہ اس دیوار کے ادھر کوئی جگہ موجود ہے کوئی زمین ہے کوئی کمرہ ہے کوئی صحن ہے اگرچہ ہم حواس سے وہ چیز معلوم نہیں کرسکتے۔ تو جہاں حواس خمسہ کا دائرہ ختم ہوتا ہے وہاں سے عقل کا دائر شروع ہوتا ہے۔
سوال: نہیں مولانا صاحب! ایک بات سنیں آپ نے ابھی کہا کہ ہمیں کسی چیز کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔
جواب: نہیں میں نے یہ بھی نہیں کہا۔ میں اپنی پوری بات واضح کردوں پھر آپ کہیں یعنی میں نے یہ عرض نہیں کیا کہ انسان کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے یہ کہا کہ حواس خمسہ کی ان سب میں سے کوئی بات نہیں ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علم جو انسان کو حاصل ہوتا ہے علم نہ صرف حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے نہ صرف عقل سے حاصل ہوسکتا ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرلے جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ سارا عقل کی بنیاد پر ہوگا۔ تو وہ بھی غلط ہے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ صرف حواس خمسہ کی بناء پر حاصل ہوگا۔ تو یہ بھی غلط ہے بلکہ علم کے مختلف ذرایع انسان کے پاس ہیں۔ ایک ذریعہ حواس خمسہ ہیں کچھ باتیں ہمیں حواس خمسہ سے حاصل ہو تیہیں لیکن یہ حواس خمسہ سے جو باتیں حاصل ہوتی ہیں ان کا ایک محدود دائرہ ہے اس کے اندر وہ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم بخشتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر جاکر حواس خمسہ ہمیں کام نہیں دیتے وہاں ہمیں ضرورت پڑتی ہے عقل کی۔ جہاں حواس خمسہ ختم ہوجاتے ہیں وہاں ہمیں عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ہم عقل سے بہت سی چیزیں معلوم کرتے ہیں۔ جو حواس خمسہ سے نہیںمعلوم کرسکتے تو عقل اس جگہ پر کام دیتی ہے جہاں حواس خمسہ کام کرتاچھوڑ دیتے ہیں، لیکن اب عقل کے ذریعہ آپ حواس خمسہ کی چیزیں معلوم کرنا چاہیں تو یہ نہیں ہوسکتا۔
سوال: یہ بات واضح نہ ہوسکی؟
جواب: مثلاً میں بتاؤں! یہ شربت ہے یہ سرخ رنگ کا ہے یہ علم ہمیں حاصل ہوا تو کس چیز سے حاصل ہوا آنکھ کے ذریعہ شربت کی سرخی کا علم ہوا۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ آنکھ تو کرلو بند اور اب عقل سے بتاؤ کہ اس کا رنگ سرخ ہے یا سبز ہے، آنکھ تو بند کرلیں اور صرف عقل سے اس کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو کبھی معلوم نہیں ہوسکتا۔
تو اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا علم عقل سے نہیں ہوسکتا بلکہ سب سے قریب ترین ذریعہ حواس ہے اس کے بعد دوسرا ذریعہ انسان کے پاس عقل ہے۔ جہاں عقل اور حواس خمسہ میں تضاد ہوجائے کہ حواس خمسہ ایک بات کہہ رہے ہیں اور عقل دوسری بات تو اس وقت آپ کیا کریں گے؟
سوال: یہ غیر فطری عمل ہے۔
جواب: تو ظاہر ہے کہ عقل نے جو نتیجہ نکالا وہ صحیح نہیں کیوں کہ حواس خمسہ جو علم دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ یقینی ہے تو جہاں پر عقلوں میں لوگوں کے درمیان تفاوت ہوجاتا ہے کہ ایک شخص نے ایک نتیجہ نکالا اور دوسرے نے دوسرا نتیجہ تو اب جس نتیجہ کی حواس خمسہ تائید کرتے ہوں گے اس کو قبول کرلیا جائے گا۔ اور جس کی مخالفت کرتے ہوں گے اس کو ردّ کردیا جائے گا، لیکن حواس خمسہ کی رہنمائی جس طرح محدود ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی بھی محدود ہے کہ وہ بھی ایک جگہ پر جاکر رک جاتی ہے۔ اور اس کا دائرہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہاں دائرہ شروع ہوتا ہے وحی کا یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی ہدایت کا۔ جو کہ انبیاء کرام کے ذریعہ دی جاتی ہے تو یہ دائرہ جو شروع ہوتا ہے وہاں سے جہاں سے عقل کی پرواز ختم ہوجاتی ہے اور عقل کی پرواز ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نری اور صرف عقل کی بنیاد پر اس چیز کا ادراک نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیں وحی کے ذریعہ بتائی جاتی ہے۔
سوال: اگر وہ حکم عقل کی سوچ کی بناء پر واضح ہو مگر وحی کا حکم اس سے بالکل متضاد ہو۔ اس وقت کیا کریں گے؟
جواب: وہ وحی نہیں ہوگی بلکہ کچھ اور ہوگا جس طرح میں نے بتایا کہ حواس خمسہ کے خلاف عقل کہہ رہی ہو تو آپ عقل کو چھوڑ دیں گے۔ کہیں گے کہ یہ عقل کا تقاضہ نہیں ہے۔ غلط نتیجہ نکالا۔ اسی طرح کوئی وحی کے نام سے ایسی بات پیش کرتا ہے جو عقل کے خلاف ہے تو عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے کہا جائے گا کہ وہ وحی ہے ہی نہیں وہ تو کچھ اور ہوگا جیسے کہ ابھی میں نے پہلے عرض کیا کہ تین ایک اور ایک تین گویا معمہ ہے کہ کہا جائے کہ تین کو ایک مان لیا اور ایک کو تین مانے کھلی ہوئی عقل کے خلاف ہے کوئی بھی عقل قبول نہیں کرسکتی۔ اس لیے کوئی یہ کہے کہ یہ وحی ہے تو وہ غلط کہتا ہے۔
لیکن ایک بات یاد رکھیے اور وہ یہ کہ وحی عقل کے خلاف تو نہیں ہوسکتی مگر یہی چیزوں پر مشتمل ہوسکتی ہے جو عقل کی پرواز سے باہر ہو وہ دو چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ ایک تو ہوتا ہے عقل کے خلاف ہونا اور ایک ہوتا ہے ماورائے عقل۔ دراصل دونوں میں خلط ملط کرنے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے، عقل کے خلاف اس چیز کو کہیں گے کہ اس کے اتنے سے کوئی عقلی محال لازم آجائے اور عقل اس کے باطل ہونے پر دلیل دیتی ہو۔ اس کو خلاف عقل کہتے ہیں انگریزی میں Impossible کہتے ہیں اور ایک ہوتا ہے، ماورائے عقل یعنی عقل کے پاس اس کے باطل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس کو اس کی نظیر نہیں ملتی، اس لیے اس کووہ اجنبی چیز محسوس ہوتی ہے اور حیرت انگیر بات لگتی ہے جسے آپ Improbable کہہ سکتے ہیں، چوں کہ عقل کو اس بات پر تجربہ نہیں ہوتا۔ اس واسطہ اس کو عجیب سے معلوم ہوتی ہے، اس لیے نہ اس کے پاس اس کے اثبات کا ذریعہ تو دونوں میں بہت فرق ہے Impossible الگ اور Improbable الگ۔ اب یہ ہوتا ہے کہ وحی کی طرف سے کوئی ایسی بات تو نہیں کہہ جاسکتی جو کہ Impossible ہو یعنی عقل کی دلیل کے خلاف لیکن ایسا ہوسکتا ہے کہ وحی مبین کوئی ایسی بات ہو جو کہImprobable یعنی عقل کی پرواز سے اوپر ہو اور وہ بالکل عین فطری بات ہے جس طرح پر کہ میں نے کہا کہ حواس خمسہ کے دائرہ کے بعد عقل کا دائرہ شروع ہوتا ہے کہ جس چیز کا حواس خمسہ ادراک نہیں کرسکتے، عقل اس کا ادراک کرسکتی ہے تو اسی طرح جس چیز کا عقل ادراک نہیں کرسکتی، اور اس کا دائرہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، وہاں عقل سے نہیں پہنچا جاسکتا ہے اور وحی اس کا علم عطا کرتی ہے، اگرچہ وہ بعض اوقات اچنبھی معلوم ہوتی ہے، بعض اوقات حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات اجنبی سی لگتی ہے۔
مثال کے طور پر وحی نے ہمیں بتایا کہ اوپر آسمان ہے اب ہمارے حواس خمسہ تو آسمان کو نہیں دیکھتے اور عقل اس تک نہیں پہنچتی، ہمیں جو نظر آرہا ہے یہ تو آسمان نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ جدنگاہ ہے جو ہمیں نیلا نیلا نظر آتا ہے تو اس واسطے موجودہ بہت سے سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ آسمان ہے ہی نہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ آسمان کا وجود نہیں ہے تو یہ بات نہیں ہے کہ آسمان کے نہ ہونے کے وجود پر کوئی دلیل قائم ہوگئی ہے کہ یعنی دلیل ان کو مل گئی ہے جس کی بناء پر وہ ثابت نہیں ہوا یا یہ کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل قائم کردی ہو، ایسا نہیں ہوا تو اس واسطے اگر وحی یہ کہتی ہے کہ آسمان ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہمیں نظر نہیں آرہا، نہ آنکھوں سے نظر آتا ہے، نہ ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ کوئی ضروری چیز ہے کہ آسمان ہو، لیکن ساتھ ہی عقل کے اعتبار سے وہ کوئی دلیل بھی ایسی قائم نہیں کرسکتے جس کی بناء پر یہ کہا جائے کہ آسمان موجود نہیں ہوسکتا، ممکن نہیںاور آسمان کا وجود Impossible ہے آسمان کا وجود نہیں ہے۔ ہاں یہ کہ ہماری اپروچ (پہنچ) وہاں نہیں ہوسکتی، ہوسکتا ہے کہ بعد میں اپروچ ہوجائے یہاں پر اس قسم کی کوئی بات ہے تو وہ حواس خمسہ یا عقل کے ماورا کوئی بات ہے، لیکن عقل اس کے عدم وجود پر کوئی دلیل نہ پیش کرسکی۔

مفتی تقی عثمانی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password