اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی گمراہی و اِنحراف کے کئی اَسباب سامنےآتے ہیں کیونکہ نوجوانی کی عمر ہی ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان پر جسمانی، فکری اور عقلی حیثیت سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ اِنسانی جسم نشوونما اور اِرتقا کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات عقل و فکر کے دریچے کھولتے جاتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ شعور وادراک کی نت نئی منازل بھی طے ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی بنا پر انسان سوچ و فکر کی نئی راہیں متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف جذبات کی شدت فیصلوں میں عجلت پر مجبور کرتی ہے۔ ان احوال میں نوجوانوں کو ایسے مربیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکمت و بصیرت کے ساتھ ان کی تربیت کریں۔ بڑے احتیاط اور صبر و تحمل کے ساتھ صراطِ مستقیم کی طرف لے چلیں۔ اب ہم ان پانچ اہم اسباب کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل کے نوجوانوں کے بگاڑ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں تاکہ بعد میں حسبِ حال اصلاح ممکن ہوسکے۔
1۔ فراغت
نوجوانوں کی تباہی و ہلاکت کا اہم ترین سبب فراغت ہے۔جسم انسانی کو اللہ تعالیٰ نے اصلاً متحرک و فعال بنایا ہے۔لہٰذا اس کی ساخت اور کیفیت تقاضا کرتی ہیں کہ یہ ہر دم حرکت میں رہے۔ حرکت کا تعطل اس کے لیے فکری، عقلی بلکہ ظاہری اعتبار سے بھی زہر قاتل ہے۔ فکری پراگندگی و انتشار،ذہنی رذالت و سطحیت، مجاہدانہ اولوالعزمی کی بجائے کم حوصلگی، خواہشاتِ نفسانی اور وساوس شیطانی فراغت کے ہی کرشمے ہیں، کیونکہ جسم کو تو اپنے تقاضے کے مطابق حرکت میں رہنا ہی ہے۔ اب وہ حرکت بالخصوص اس وقت جب اسے شدتِ جذبات کی پشتیبانی بھی حاصل ہو تو بجائے مثبت اور تعمیری کاموں پر لگنے کے وہ منفی اور تخریبی امور سرانجام دیتی ہے ۔ جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مسلّمہ اقدار کی بے حرمتی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو ذہنی یا عملی طور پر ان کی صلاحیت کے مطابق مصروف رکھا جائے۔ تعلیمی ، فنی، تجارتی، انتظامی یا دیگر سرگرمیوں میں سے کسی کی طرف لگا دیا جائے۔
2۔ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان دوری
نوجوانوں کی بے راہ روی میں اس فاصلے اور بُعد کا بھی بڑا حصہ کار فرما ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے لوگ چھوٹی عمر والوں کے درمیان حائل رکھتے ہیں۔ چاہے وہ نوجوان ان کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسروں سے۔ وہ بلاتفریق ان سے بُعد اور دوری ہی اختیار کرتے ہیں۔ آپ بوڑھوں کو دیکھیں کہ وہ نوجوانوں کی اصلاح سے مایوس و نااُمّید نظر آئیں گے۔بڑوں کے ایسے رویے سے پھر نوجوان بھی ان سےدوری کو ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ پھر وہ خواہ کوئی بھی حالات چاہے بہتری یا بدتری کے ، ان معاملات میں بڑوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے اور اپنے تئیں ان کا سامنا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر اکثر تو حالات کی رومیں بہہ جاتے ہیں اور جن چند ایک کو پاے ثبات نصیب ہوتا ہے، وہ بھی گرتے گرتے سنبھلتے ہیں اور بوڑھوں نے تو اُن سب کی خرابی کے بارے میں ایک نفسیاتی ساکلیہ بنا لیا ہوتا ہےجس سے معاشرتی دوریاں جنم لیتی ہیں، منفی رویے تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں، نوجوان بوڑھوں کو اور بوڑھے نوجوانوں کو بنظر حقارت دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے انہی رویوں کی وجہ سے کئی طرح کے خطرات معاشرےکے دروازے پر دستک دینا شروع کردیتے ہیں۔
اِس مشکل کا حل یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے رویوں میں حسبِ ضرورت تبدیلیاں پیداہوں۔ بجائے فراق و بعد کے قربت و اتحاد ہو ۔پورا معاشرہ جسدِ واحد کی طرح اپنے اندر یگانگت کوجنم دے اور یہ شعور معاشرے کے ہر فرد میں رچ بس جائے کہ تمام افراد معاشرہ ایک ہی جسدِ واحد کے مختلف اعضا ہیں۔ ایک کی خرابی و فساد تمام کی بربادی کا سبب بنے گی۔ بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دلوں میں نوجوانوں کی اصلاح کا درد پیدا کریں، ان کے بارے میں حسرت و یاس ترک کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قدرتِ تامّہ رکھتا ہے۔کتنےہی وہ لوگ ہیں جو ضلالت و گمراہی کے قعر مذلت میں گرے ہوئے تھے،اللہ تعالیٰ نے انہیں منارۂ نور اور شمع ہدایت بنا دیا۔
دوسری طرف نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کے بارےمیں اپنے رویّوں میں تبدیلی لائیں ،ان کی آراءکا احترام کریں۔ ان کی طرف سے پیش کردہ مسائل و معاملات کی توجیہات کو قبول کریں کیونکہ وہ بڑے تجربات کا ما حصل ہوتی ہیں۔ وہ زندگی کے ان تلخ حقائق سے گزرے ہوتے ہیں جن سے ابھی تک نوجوان دوچار نہیں ہوتے۔ اس طرح جب بوڑھوں کی فکر اور حکمت و دانائی نوجوانوں کی رہبر و رہنما بنے گی تو معاشرہ ترقی او رعروج میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔
3۔ گمراہ لوگوں کی صحبت
نوجوانوں کی گمراہی کا تیسرا سبب ان کی ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت اور میل جول رکھنا ہے جو گمراہ ہیں۔ صحبت ان عوامل میں سے سب سے زیادہ مؤثر ترین عامل ہے جس سےنوجوان متاثر ہوتے ہیں۔ یہ چیز ان کی عقل و فکر اور رویوں کو بدل کررکھ دیتی ہے۔ آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا: المرء على دین خلیلہ فلينظر أحدکم من یخالل ”یعنی آدمی اپنے ہم نشین ساطرزِ زندگی اپناتا ہے چنانچہ کسی کی ہم نشینی سے پہلے اس کے بارے میں غور کرلو کہ وہ کیسا ہے؟“ اور آپﷺ نے ایک جگہ فرمایا:
مثل الجلیس السوء کنافخ الکیر إما أن یحرق ثیابک واما أن تجد منه رائحة کریھة ”برے ہمنشیں کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہے یا تو وہ تیرے کپڑے جلا دے گی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھ لے گا“۔
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح تراطالح کند
اس مسئلے کا حل یہ ہےکہ نوجوانوں کو چاہیےکہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو نیکی اور بھلائی کا سرچشمہ ہوں اور عقل و دانش کاپیکر ہوں تاکہ ان سے کسبِ خیر ،اصلاح احوال اورعقل کوجلا بخشی جائے۔ اس لیے کسی کی صحبت سے پہلے ان معاملات اور رویوں کوخود بھی پرکھنا اور دوسرے لوگوں سےبھی سن لینا چاہئے۔اگر وہ صاحبِ اخلاق، صاحبِ دین اور اعلیٰ کردار کا مالک ہو اور لوگ بھی اسے اچھا کہیں یعنی دید وشنید دونوں ہی بہتر ہوں تو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، تعلقات استوار کرو۔ اس کے برعکس اگر وہ بداخلاق اور بدکردار ہے تو اس سے دوری اختیارکرجاؤ۔ چاہے وہ اپنی صورت میں چاند سے زیادہ خوبصورت ہو، اپنی باتوں میں شہد سے زیادہ شیرینی رکھتا ہو، اپنی شخصیّت اور ظاہری وضع قطع کے لحاظ سے کمال کو پہنچا ہواہو پھر بھی اس سے اجتناب کرو۔ کیونکہ یہ تمام ظاہری خوبیاں شیطان، بندگانِ الٰہ کو گمراہ کرنے کے لیےاستعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ظاہری چمک دمک نظروں کو خیرہ کردیتی ہے۔ سو اس وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بدقسمت شیطان کے لیے آلہ گمراہی اور فسق و فجور ہوتا ہے ؎
اب کسی پوشاک میں کردار کی خوشبو نہیں رہی
چھپ گئی ہے انسان کی پہچان ملبوسات میں!
4۔ منفی کتابوں کا مطالعہ اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال
نوجوانوں کی گمراہی کا چوتھاسبب ایسے رسائل و مجلّات ، اخبارات اور کتابیں وغیرہ پڑھنا ہے، جو ایک نوجوان کے دل میں اس کے عقائد و نظریات کےبارے میں تردّد و شک کی راہ ہموارکرتے ہیں۔ اسےاخلاقِ رذیلہ پر آمادہ کرتےاورکفر و فسق میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب کسی فرد کی تربیت پر ثقافت اسلامیہ کے اثرات اچھی طرح مرتب نہ ہوں، اور وہ اپنے دین کے فہم کے حوالے سے ایسی بصیرت سے محروم ہو جو حق و باطل کے درمیان اچھی طرح خطِ امتیاز کھینچ سکے اور اپنے لیے نافع و ضرر رساں کا گہرے شعور کےساتھ ادراک کرسکے۔اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ نوجوان کو ایڑیوں سے پھیر دیتی ہے اوروہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ان گمراہوں کو نہ چاہتے ہوئے قبول کر بیٹھتا ہے۔
اس مشکل کا حل یہ ہے کہ نوجوان ایسی تخریبی کتابوں کے مطالعہ سے گریز کرے اور ان کتابوں کے مطالعے میں غرق ہو جو اس کےدل کو محبتِ الٰہی اور محبتِ رسولﷺ کا سرچشمہ بنا دے اور اس کے ایمان و عمل صالح کی جڑیں مضبوط کردے،پھر صرف ایسی ہی کتابیں پڑھنے پراکتفا کرے۔ دوسری قسم کی منفی رجحانات پیدا کرنے والی کتابوں سے گریز کرےتو پھر آہستہ آہستہ وہ محسوس کرے گاکہ پہلے منفی اثرات مرتب کرنے والی کتب پڑھنے کی وجہ سے اس کےدل و دماغ میں تشکیک و تردّد کے جو کانٹے چبھ گئے تھے، وہ نکل رہے ہیں۔ اسے اندازہ ہوتا جائے گا کہ وہ شک و اضطراب کی دنیا سے باہر آرہا ہے۔ اس کا سرکش نفس اللہ، رسولﷺ کی اطاعت پر آمادہ ہورہا ہے، اس کا دل لہو و لعب کی دنیا سے اُچاٹ ہورہاہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم ترین کتاب’کتاب اللہ’ ہے اور جو ان کی تفسیر وبیان پر مشتمل ہیں، چاہے وہ تفسیر بالمنقول ہو یاتفسیر بالرائے المحمود ہو۔ اسی طرح سنت رسولﷺ کا مطالعہ بھی انتہائی ضروری، نفع بخش اور مفید ہے، پھر وہ کتابیں جو ایسے استدلال و استنباط اور فقہی مسائل پرمشتمل ہوں جوعلماے ربانیین نے ان دونوں مصادرِ اساسیہ سے نکالے ہیں۔
عر بی تحرير: شيخ محمد بن صالح العثيمين، ترجمہ: عبدالحنان الکیلانی