یہ کوئی طے شدہ ضابطہ تو نہیں ہے مگر موجودہ دنیا میں اکثر ایک مسلمان کی علمی گمراہی کا سفر ان مراحل سے ہو کر گزرتا ہے.
٭منطق، فلسفے اور سائنس سے شدید ترین مرعوبیت
اس پہلے مرحلے پر وہ مذہب بیزار مغربی اقوام کی مادی ترقی سے آخری درجے میں مرعوب ہونے لگتا ہے. وہ اس ترقی کے پیچھے مختلف فلسفوں، منطق اور سائنس کو کھڑا پاتا ہے. مغربی اقوام سے اس کے لگاؤ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کا برا بھی اسے اچھا لگنے لگتا ہے. امور غیب جیسے ملائکہ، حیات بعد الموت وغیرہ کو بھی یہ سائنس کی لیبارٹری میں لے آنے کے متمنی ہوجاتے ہیں. انہیں ہر شے کے لئے اب فقط دلیل نہیں بلکہ ‘امپیرئیکل ایویڈینس’ درکار ہوتا ہے. گویا یہ سمجھ کر نہیں بلکہ دیکھ کر ایمان لانا چاہتے ہیں. انہیں ‘ریشنلسٹ’ کہا جاتا ہے.
٭مذہبی طبقے سے نفرت
اس کی نظر موجودہ عالم اسلام کی علمی پستی اور معاشی بدحالی کی جانب جاتی ہے تو اسے اس کے بڑے ذمہ دار مذہبی ٹھیکے دار محسوس ہوتے ہیں. لہٰذا اسے مولوی حضرات سے بناء تفریق نفرت ہونے لگتی ہے. وہ انہیں ہر اس معاشرتی، سماجی یا معاشی مسائل کا بھی مجرم گرداننے لگتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو. انہیں ہر اس شخص سے الجھن ہونے لگتی ہے جس کی شرعی داڑھی ہو یا جو مسواک کرتا ہو یا ٹوپی پہنتا ہو. انہیں ‘ناراض باغی طبقہ’ یا پھر ‘نیولیفٹسٹ’ بھی کہہ سکتے ہیں.
٭احادیث کا انکار
اس میں شک نہیں ہیں کہ اسلامی تاریخ اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ایک انسان کو چکرا دیتی ہیں. مگر مسلمانوں نے ہمیشہ احادیث کے ذخیرے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور ان کا انکار یا اقرار بعد از تحقیق اپنایا ہے. یہ شخص تحقیقی معیارات کو اپنانے کی بجائے مختلف احادیث (اخبار احاد) کا انکار اپنی ناقص سمجھ یا عقل کی بنیاد پر کرنے لگتا ہے. گویا ایسا نہیں ہے کہ وہ قطعی ثبوت کی بنیاد پر کسی ظنی حدیث کو ماننے سے انکار کررہا ہو بلکہ اس کے قبول و رد کا واحد معیار اسکی محدود عقل یا سمجھ ہوتی ہے. انہیں غلط طور پر لبرل کہا جاتا ہے. ہمارے نزدیک اگر انہیں نام دینا ہی ہے تو ‘نیولبرل’ کہہ لیجیئے.
٭قران حکیم کی من مانی تفسیر
اس مقام پر ایک شخص قران حکیم میں درج آیات کی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے. ایسی تفسیر جو اس کے حساب سے موجودہ سائنس، فلسفے اور منطق سے مطابقت رکھتی ہو. گویا وہ قرآن حکیم کے اپنے پیغام کو سمجھنے کی بجائے، اس میں سے اپنے من پسند فلسفے برآمد کرنے میں جت جاتا ہے. اس مقام پر وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اور علمی ورثے کو ایک سازش سمجھتا ہے. لہٰذا نہ تواتر کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اجماع کا خیال کرتا ہے بلکہ لغت سے کھیل کر قرانی الفاظ کو وہ وہ معنی فراہم کرتا ہے کہ انسان دنگ رہ جائے. دوسرے الفاظ میں وہ پہلے اپنی ناقص عقل سے قران کی ایک غلط تفسیر کرتا ہے اور پھر اسی غلط تفسیر کو قران کا اصل مقصود سمجھنے کی غلط فہمی پال لیتا ہے. اس سمجھ کی راہ میں کوئی قوی سے قوی حدیث بھی آجائے تو اسے یکسر مسترد کردیتا ہے اور اگر کوئی آیت رکاوٹ بنے تو اسے اصطلاحی مفہوم دے دیتا ہے. انہیں ‘منکرین حدیث’ کہا جاتا ہے. گو یہ اکثر خود کو ‘قرانسٹ’ کہلانا پسند کرتے ہیں.
٭مذہب کا انکار
یہ طبقہ مذہب سے اس درجے بدظن ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے تمام مذاہب جعلی محسوس ہوتے ہیں. یہ خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہے، اسے خالق مانتا ہے، حیات بعد الموت تک کو تسلیم کرتا ہے مگر کسی بھی قسم کی شریعت کا منکر ہوجاتا ہے. اس کے نزدیک مذاہب لوگوں کےاپنے بنائے ہوئے ہیں جنہوں نے انسانیت کو فساد اور خون خرابے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے. یہ خدا تک پہنچنے کے اپنے طریق بناتے ہیں جس کے لئے مختلف مراقبے اور طریقے اختیار کرتے ہیں. یہ مغرب اور ہند میں یکساں مقبولیت حاصل کررہے ہیں. لفظ خدا کا استعمال یہ کم ہی کرتے ہیں. اسکی جگہ یہ ایسی اصطلاحات خدا کیلئے استعمال کرتے ہیں جو جدید ذہن کیلئے زیادہ قابل قبول ہیں جیسے ‘سپریم کانشیسس نیس’ یا ‘کاسمک انٹلینجینس’ وغیرہ. اوشو سے لے کر سدھ گرو تک یہی سلسلہ چل رہا ہے. انہیں ‘اسپریچولسٹ’ کہا جاتا ہے.
٭خالق کا اقرار مگر رب کا انکار
یہ افراد اس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کو لازمی بنانے والی ایک ذات موجود ہے. وہی ذات ہر شے کی خالق ہے مگر اس کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد وہ ہم سے لاتعلق ہوگئی ہے. جس طرح ایک گھڑی ساز کوئی زبردست گھڑی تخلیق کرتا ہے، اس میں بہترین مشینری لگاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے. جب تک مشینری چلتی رہتی ہے، گھڑی بھی چلتی رہتی ہے. جس دب اس کی مشینری میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے اسی دن گھڑی بھی ختم ہوجاتی ہے. ٹھیک اسی طرح شائد خالق نے اس کائنات کو تخلیق کر کے اس میں بہترین نظم تو رکھ دیا مگر اسکے بعد وہ اس سے لاتعلق ہوگیا. اب جب تک یہ ستاروں سیاروں کا نظم خودبخود چل رہا ہے تب تک کائنات قائم ہے. ایک دن یہ نظم خود ہی تباہ ہو جائے گا اور ہم سب مٹ جائیں گے. نہ کوئی دوسری زندگی ہوگی اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہی. یہ آسان الفاظ میں روز جزاء کے منکر ہیں اور انہیں اس طرح کے مفروضات بہت بھاتے ہیں کہ کسی خلائی مخلوق نے ہزاروں سال پہلے زمین پر آکر کلوننگ کے ذریعے ہماری نسل کو بنادیا. ان افراد کو انگریزی زبان میں ‘ڈیسٹ’ کہا جاتا ہے.
٭ہم نہیں جانتے
یہ افراد کہتے ہیں کہ خدا کے وجود اور خدا کے انکار دونوں کیلئے آج تک جو استدلال اور شہادتیں ہم تک پہنچی ہیں. وہ اس امر کیلئے ناکافی ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو حتمی طور پر تسلیم کرسکیں یا پھر حتمی طور پر اس کا انکار کرسکیں. لہٰذا یہ اس بحث میں ہی نہیں پڑنا چاہتے کہ کائنات کو بنانے والا کوئی خدا ہے یا اسکی کوئی اور سائنسی توجیح ممکن ہے؟ ایسے احباب کو ہم ‘ایگنوسٹک’ کے نام سے موسوم کرتے ہیں. ایک سچا ایگنوسٹک پیغام اور دلیل کو لپک کر قبول کرتا ہے. افسوس کے ایسے ایگنوسٹک تعداد میں کم ہیں. اکثر ہمیشہ ایگنوسٹک ہی بنے رہنا چاہتے ہیں، چاہے ان پر بات کتنی ہی واضح کیوں نہ ہوجائے.
٭خدا کا انکار
یہ وہ افراد ہیں جو کسی بھی خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں. یہ دراصل اپنی حقیقت میں ایگنوسٹک ہی ہوتے ہیں مگر مذہب دشمنی یا مذہب کے نام پر کی گئی خونریزی و زیادتی سے اتنے زیادہ نالاں ہوتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا کوئی بھی امکان ماننے سے انکار کردیتے ہیں. ان کا ایک طبقہ خاموش رہتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ خدا کے انکار تک محدود نہیں ہے بلکہ تصور خدا سے دشمنی پر اتر آیا ہے. انہیں ‘ایتھیسٹ’ یعنی ملحد کہا جاتا ہے.
٭خلاصہ
جیسا کے ابتداء میں ہم نے عرض کیا کہ بیان کردہ مراحل کوئی حتمی ضابطہ یا اصول یا فارمولا نہیں ہیں. آپ ان مراحل کو ان بڑے فلسفوں کا ایک مختصر جائزہ کہہ سکتے ہیں جن سے آج کا ایک مسلم ذہن گزرتا ہے یا گزر سکتا ہے. گمراہی کا یہ سفر موجودہ دنیا میں اس قدر مزین کرکے پیش کیا جارہا ہے کہ مسافر اسے گمراہی نہیں بلکہ شعوری ارتقاء سمجھ بیٹھتا ہے. اچھی بات یہ ہے کہ یہ سفر صرف اپر سے نیچے نہیں آتا بلکہ نیچے سے اپر بھی جاتا ہے. یعنی بیان کردہ مراحل کی ترتیب کو اگر الٹ دیں تو ایسے بیشمار انسان موجود ہیں جو الحاد کی دلدل سے نکل کر خدا کی بھرپور معرفت کا سفر کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کیلئے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود امریکہ ہو، کوئی بھی یورپی ملک ہو یا پھر کوئی افریقی ریاست. ہر جگہ اسلام سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب ہے.
تحریر عظیم الرحمان عثمانی
خداومذہب | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
May 11, 2019 at 9:58 am[…] علمی گمراہی کا سفر […]